فتح فلسطین پر عمر رضی اللہ عنہ کا تاریخی جملہ
سن 15 ہجری میں نبی کریم ﷺ کی پیشنگوئی پوری ہوگئی۔ مسلمان فلسطین میں داخل ہوگئے اور وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ہم بیت المقدس کی چابیاں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو نہ دینگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صفات بھی ہماری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔
پھر ایک تاریخی سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ سے شام چلے گئے۔ بڑی عزت سے بیت المقدس کی چابیاں وصول کیں۔ اور ایسی تاریخ رقم کی کہ جسے نور کی روشنائی سے لکھنا چاہیے
آپ المکبر پہاڑی پر چڑھے، سارے بیت المقدس کو دیکھا، اللہ اکبر کی آواز بلند کی اور ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں۔ پھر آپ نے اپنا وہ مشہور جملہ بولا
نحن قومٌ أعزَّنَا الله بالإسلام، فمهمَا ابتغَيتُم العِزَّةَ بغيرِه أذلَّكُم الله
ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی ہے،
اسے چھوڑ کر ہم جس چیز میں بھی عزت تلاش کریں گے اللہ ہمیں رسوا ہی کرے گا
اسلام کی عزت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور یہ عظیم جملہ بولتے ہوئے اسے فتح کیا
آپ نے مسجد اقصیٰ میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی، پھر اس پتھر کے متعلق پوچھا جس سے براق کو باندھا گیا تھا۔ وہ پتھر گندگی اور کوڑے کے ڈھیر کے نیچے آ چکا تھا۔ آپ نے اپنی چادر سے گندگی ہٹانا شروع کی اور پھر لوگوں نے بھی مدد کرنا شروع کر دی یہاں تک کہ ساری جگہ بالکل پاک ہو گئی۔
پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اہل علاقہ کے لیے سلامتی اور حفاظت کا معاہدہ لکھا، تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق محفوظ کیے۔ کسی کو اپنی عبادت کرنے سے نہیں روکا، کسی راہب کی عبادت گاہ نہ توڑی یہاں تک کہ دین کے نام پر اگر کوئی دیوار بھی بنی تھی تو اسے بھی نہ چھیڑا۔ نہ کسی رہائشی کو اپنے گھر سے نکالا، نہ کسی کا گھر گرایا، نہ کسی کی عبادت گاہ توڑی اور نہ کسی کی رہائش گاہ کو خراب کیا۔