ایک کھیل ،ایک حقیقت
"آج میں ابو بکر سے وہ کھیل کھیلوں گا جو کسی نے کسی سے نہ کھیلا ہو گا"امیہ بن خلف نے ایک وحشیانہ قہقہے کی گرج کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا۔
وہی امیہ جس کے غلام سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ تھے،جس نے شروع میں بلال رضی اللہ عنہ کی دعوتِ ایمانی کو ریت کا محل اور بچوں کا کھیل سمجھ رکھا تھا۔۔جس نے ایک "غلام" کے نغمہ توحید کو کچل ڈالنے کے لئے بدترین مشقِ ستم کی اور۔۔۔پھر بھی وہ روحِ ایمانی ،جب وہی نغمہ۔۔۔لہو ترنگ نغمہ جبرو عقوبت کی خوفناک فضاؤں میں مسلسل الاپتی چلی گئی تو بے رحم و جابر آقا کی ساری آقائیت حیرت اور جھنجھلاہٹ کے غلیظ پسینے میں غوطے کھانے لگی۔
"تو کیا ارادے ہیں آخر؟"لوگوں نے خاص دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
"تم جانتے ہو"۔۔۔امیہ بن خلف کی دونوں آنکھوں میں وحشت و عیاری کی دو آتشہ چمک کوندنے لگی۔"تم جانتے ہو کہ بلال میرا غلام ہے اور غلام کی حقیقت ہوتی ہی کیا ہے؟۔۔۔پھر جب سے اس نے "احد'احد" کی رٹ لگا رکھی ہے میرے لئے وہ سیاہ گوشت کا ایک نفرت انگیز ڈھیر بن کر رہ گیا ہے"۔
"ہوں۔۔میں نے کہا تھا کہ میری پہلی ہی جھڑکی میں اس کے اس نئے دین کا بھوت اتر جائے گامگر نہیں اترا۔۔پھر میں نے کون سا ظلم ہے جو اس کے اوپر نہیں کیا۔۔۔؟آتشیں ریت کے تنور میں ڈال ڈال کر میں نے اس کے مذہب کو بھسم کر دینا چاہا۔۔پھر اس کے سینے پر بھاری چٹان بھی رکھ کر دیکھی۔۔پھر سنگریزوں کے اوپر اس کے جسم کو گھسیٹ گھسیٹ کر کوڑے بھی برسائے مگر کیا وہ اپنے مذہب سے ہٹ سکا؟
اُف! محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو! اسے اتارنا میرے بس کی بات نہیں۔
ہاں! امیہ بن خلف غرایا"ہاں! یہ کھیل بھی تم دیکھ لو گے۔۔کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ابو بکر کو اس حبشی غلام کے سیاہ فام گوشت پر محبت آ رہی ہے۔"
امیہ بن خلف کا ایک وحشت ناک قہقہہ بلند ہوا۔
"وہ کہتا ہے "۔وہ پھر بولا 'وہ کہتاہے کہ یہ حبشی غلام میرا بھائی ہے وہ اس کو ہر قیمت پر میرےظلم و ستم کے چنگل سے نکالنے کے لئے بے چین ہو رہا ہے۔"
"تو اس میں کھیل کھیلنے کی کیا بات ہوئی؟" لوگوں نے پھر چھیڑا۔
"کھیل؟" امیہ بن خلف جھلا کر بولا "سیاہ گوشت کے ایک گھناؤنے ڈھانچے کا یہ مول تول کیا کوئی کھیل نہیں ؟ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ابوبکر اس بے کار چیز کی کتنی بڑی قیمت چکانے کی ہمت رکھتا ہے۔۔میں اس کو غلام کی قیمت کے بڑھتے چڑھتے مطالبات سے پسینے پسینے کر ڈالوں گا۔۔۔بھاگ پڑنے پر مجبور کر دوں گا۔۔۔یا پھر سیاہ خون کے بدلے مجھے وہ چمکتی دمکتی چیز ہاتھ آئے گی۔۔۔سونا!۔۔۔سونا!۔۔۔کیسا عجب کھیل ہے ۔۔جس میں ہر رخ سے ابوبکر کی ہار یقینی ہے اور میری جیت۔۔۔۔!"
"اچھا!"لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔"اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔بلال کی سخت جانی کے بعد اب ابو بکر کی ہمدردیوں پر مشقِ ستم ہو گی۔۔۔۔"
ہاہاہا!۔۔۔ہاہاہا!امیہ بن خلف کا قہقہہ کسی بدروح کی بے ہنگم چیخ پکار کے اندازمیں گو نجتا رہا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
گرم گرم بالوں کی چنگاریوں پر بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے جسم کو بھونا جا رہا تھا۔۔پتھروں کے اوپر گھسیٹاجارہا تھا۔۔۔کوڑے پے در پے پڑ رہے تھے۔
"احد۔۔۔احد۔۔۔"بلال رضی اللہ عنہ کی کراہ تھی۔۔ابو بکررضی اللہ عنہ نے آواز سنی۔۔۔بے قرار ابوبکر رضی اللہ عنہ تیزی سے جھپٹے جیسے بلال رضی اللہ عنہ کی مظلومیت کی ٹیسیں۔۔۔تمام درد، ابوبکررضی اللہ عنہ کے قلب میں سمٹ آیا ہو ۔وہ سچ مچ تڑپ اٹھے تھے۔
"کیا اس غریب کے سلسلے میں تجھے اللہ کا بھی ڈر نہیں" ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی حالتِ زار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیہ سے پوچھا۔
"اس کے تمام دکھ درد کی ذمہ داری خود تم لوگوں پر ہے"۔امیہ نے چڑھ دوڑنے کے انداز میں کہا۔
"تم نے ہی اسےبگاڑا اور پھر اس حالت زار تک پہنچنے پر مجبور کیا۔اب اس کو بچا کردکھاؤ۔۔۔بتاؤ اسے خریدتے ہو؟۔۔۔بولو!"
"ہاں" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،بلال رضی اللہ عنہ کی نجات کے لئے بے کل ہوتے ہوئے بولے۔"ہاں میں تیار ہوں۔۔۔ہر قیمت پر۔"
"کیا قیمت دو گے؟"امیہ نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
"قسطاس" ابو بکر رضی اللہ عنہ نے چھوٹتے ہی کہا۔"میرا مضبوط،جست و قوی غلام قسطاس! جس کے کفر سے میں اس طرح بیزار ہوں جس طرح تم بلال رضی اللہ عنہ کے ایمان سے ۔۔۔مجھے بلال رضی اللہ عنہ سے محبت ہے۔۔۔تمھیں قسطاس سے محبت ہونی چاہیئے۔"
ایک غلام، سے ،محبت کرنے کی بات سنتے ہی امیہ بن خلف نے بہت برا منہ بنایا۔۔کچھ سوچا اور پھر بولا:
"منظور ہے!"۔
لیکن اچانک پھر فورا ہی امیہ بن خلف نے جگر خراش قہقہہ مارا۔
"نہیں! اللہ کی قسم! "وہ ہنستے ہوئے بولا اور اس کی آنکھوں میں شیطانیت کی بجلیاں کوند رہی تھیں۔"قسطاس ہی نہیں اس کی بیوی بھی دینا ہو گی! اس کی بیوی بھی دینا ہو گی۔۔۔"
"مجھے منظور ہے ۔"ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحہ پس و پیش کے بغیر فرمایا۔
لیکن اچانک پھر وہی قہقہ گونجا۔
"نہیں اللہ کی قسم !"اس نے قہقہ مارتے ہوئے ساری گفتگو پر پانی پھیر تے ہوئے کہا" قسطاس اور اس کی بیوی کے ساتھ بیٹی بھی لوں گا۔"
"اوہ۔۔۔۔بیٹی۔۔۔"
"ہاں۔۔۔ اس کی بیٹی۔۔۔۔"
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک ثانیے سوچا۔۔۔پھر دو ٹوک لہجے میں بولے۔۔۔"چلو دی"۔
لیکن ایک بار پھر امیہ بن خلف نے ہولناک قہقہہ بُن لیا۔
"نہیں۔۔۔اللہ کی قسم! قسطاس بھی اور اسکی بیوی بھی ،اس کی بیٹی بھی اور دو سو دینار مزید۔۔۔بولو۔۔۔بولو۔۔۔۔کیا بلال کو خریدو گے؟"
"شرم!"بار بار زبان بدلنے والی کی شرارت سے بیزار ہو کر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بولے"کیا جھوٹ بولتے ہو تجھے شرم شرم وحیا نہیں آتی؟"
"لات و عزٰی کی قسم !" امیہ بن خلف نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"بس یہ آخری قیمت ہے۔۔۔۔پھر بات طے شدہ سمجھو۔۔۔۔"
"چل او کافر مجھے یہ بھی منظور ہے ۔۔۔"مسلمان بھائی بلال رضی اللہ عنہ کی سرشاری سے سرشار ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سینہ تان کر کہا۔
سودا ختم ہو چکا تھا۔۔۔ایک عظیم آزمائش میں دونوں مؤمن گھرے ہوئے تھے۔بلال رضی اللہ عنہ کی جان اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال پر طوفانی آزمائش پوری قوت سے گزری اور دونوں فاتحانہ نکلے!فقط اس لئے کہ "اللہ" دونوں کو جان و مال سے زیادہ پیارا تھا۔
یکایک ایک نیا قہقہہ بلند ہوا ۔۔لیکن یہ قہقہہ امیہ بن خلف کا نہیں اس کی بیوی کا تھا ۔جس کے خیال میں بلال رضی اللہ عنہ کی اتنی بڑی قیمت دے کر ابوبکر رضی اللہ معاذ اللہ بے وقوف بن گئے تھے۔
"تم تو بلال کو ایک اوقیہ سونے میں بھی بخوشی بیچ ڈالتے" اس نے کہا "بلال ہمارے لئے ہماری سب سے بے قیمت چیز کے سوا آخر کیا ہے؟"
"کون کسے بتائے کہ بے وقوف کون بنا۔۔۔" ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روح سے درد سا اٹھا "بلال میرے لئے اس سے قیمتی ہے کہ سوا اوقیہ بھی قیمت ٹھہرتی تو ابوبکر پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔"
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ درد بھری بات ان لوگوں نے سنی اور۔۔۔۔پھر بھی انہیں "بے وقوف" ہی سمجھا ۔اس لئے کہ کفر ،دنیا کی پرستش کا دوسرا نام ہے۔اور دنیا کی بے حد قیمتی چیز سونا ،چاندی سے بڑھ کر کون سی ہے۔۔ ؟