• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کردار کے غازی

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کتاب :کردار کے غازی
مصنف:ابو علی عبد الوکیل
مکتبہ اسلامیہ
فھرست
٭ابتدائے نگارش
٭ایک کھیل، ایک حقیقت
٭پاکیزہ سفر
٭زبان کے دھنی
٭درویش گورنر
٭کلمہ حق
٭امیر کی توبہ
٭نیک دل خلیفہ
٭خلیفہ کا بیٹا
٭آخرت کی سواری
٭علم و عمل کا پیکر
٭اندھیری شب کاچراغ
٭بے خوف قاضی
٭انصاف کا پیکر
٭بادشاہ کے دربار میں
٭بے غرض و بے نیاز
٭بصرہ کا قاضی
٭سلطان بامراد
٭سلطان کا کارنامہ
٭جلال و جمال
٭انوکھی تدبیر
٭تاریخ کی گواہی
٭ادائے دلنوازی
٭بیٹے کی قربانی
٭غضب ناک شیر
٭ضمیر کی خلش
٭خلیفہ سے ملاقات
٭تاریخ ساز فیصلہ
٭کتابیات
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
ابتدائے نگارش

"جو قوم اپنے اسلاف کے صحیح طریقے سے بے خبر ہے اور اس کو علم نہیں کہ اس کے راہبروں اور بزرگوں نے دین و ملت کی کیا خدمت کی ہے ،ان کے اعمال کیسے تھے ،وہ کیا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے،تو وہ قوم تاریکی میں بھٹک رہی ہے اور یہ تاریکی اسے گمراہی میں بھی مبتلا کر سکتی ہے ۔اس لئے کہ بزرگانِ سلف کے صحیح حالات سے ناواقفیت اس کو غیر مصدقہ اور فرضی حالات گھڑنے اور جھوٹے افسانے تراشنے پر مجبور کر دیتی ہے۔لہٰذا قوم کا یہ فرض ہے کہ وہ اکابرینِ ملت کے ان تذکار کو تلاش کر کے لکھے پڑھے جو حقائق پر مبنی ہوں اور جھوٹ کی آمیزش سے پاک ہوں" ۔
اس کتاب کو مرتب کرتے وقت امام عبد اللہ الذھبی رحمہ اللہ کے یہی الفاظ میرے ذہن میں تھے اور میں نے حتی الامکان کو شش کی ہے کہ کتاب میں کوئی ایسا واقعہ نہ آنے پائے جو غیر مستند ہو۔اس کے ساتھ ساتھ میری کوشش رہی کہ اس کتاب میں شامل شخصیات کی علمی و تاریخی سوانح عمری لکھنے کی بجائے مستند واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کر دیا جائےتا کہ قاری پڑھتے ہوئے بوریت و اکتاہٹ بھی محسوس نہ کرے اور ان روشن کرداروں سے
واقفیت بھی حاصل کر لے جو ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
ابو علی عبدالوکیل
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
ایک کھیل ،ایک حقیقت


"آج میں ابو بکر سے وہ کھیل کھیلوں گا جو کسی نے کسی سے نہ کھیلا ہو گا"امیہ بن خلف نے ایک وحشیانہ قہقہے کی گرج کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا۔
وہی امیہ جس کے غلام سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ تھے،جس نے شروع میں بلال رضی اللہ عنہ کی دعوتِ ایمانی کو ریت کا محل اور بچوں کا کھیل سمجھ رکھا تھا۔۔جس نے ایک "غلام" کے نغمہ توحید کو کچل ڈالنے کے لئے بدترین مشقِ ستم کی اور۔۔۔پھر بھی وہ روحِ ایمانی ،جب وہی نغمہ۔۔۔لہو ترنگ نغمہ جبرو عقوبت کی خوفناک فضاؤں میں مسلسل الاپتی چلی گئی تو بے رحم و جابر آقا کی ساری آقائیت حیرت اور جھنجھلاہٹ کے غلیظ پسینے میں غوطے کھانے لگی۔
"تو کیا ارادے ہیں آخر؟"لوگوں نے خاص دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
"تم جانتے ہو"۔۔۔امیہ بن خلف کی دونوں آنکھوں میں وحشت و عیاری کی دو آتشہ چمک کوندنے لگی۔"تم جانتے ہو کہ بلال میرا غلام ہے اور غلام کی حقیقت ہوتی ہی کیا ہے؟۔۔۔پھر جب سے اس نے "احد'احد" کی رٹ لگا رکھی ہے میرے لئے وہ سیاہ گوشت کا ایک نفرت انگیز ڈھیر بن کر رہ گیا ہے"۔
"ہوں۔۔میں نے کہا تھا کہ میری پہلی ہی جھڑکی میں اس کے اس نئے دین کا بھوت اتر جائے گامگر نہیں اترا۔۔پھر میں نے کون سا ظلم ہے جو اس کے اوپر نہیں کیا۔۔۔؟آتشیں ریت کے تنور میں ڈال ڈال کر میں نے اس کے مذہب کو بھسم کر دینا چاہا۔۔پھر اس کے سینے پر بھاری چٹان بھی رکھ کر دیکھی۔۔پھر سنگریزوں کے اوپر اس کے جسم کو گھسیٹ گھسیٹ کر کوڑے بھی برسائے مگر کیا وہ اپنے مذہب سے ہٹ سکا؟
اُف! محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو! اسے اتارنا میرے بس کی بات نہیں۔
ہاں! امیہ بن خلف غرایا"ہاں! یہ کھیل بھی تم دیکھ لو گے۔۔کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ابو بکر کو اس حبشی غلام کے سیاہ فام گوشت پر محبت آ رہی ہے۔"
امیہ بن خلف کا ایک وحشت ناک قہقہہ بلند ہوا۔
"وہ کہتا ہے "۔وہ پھر بولا 'وہ کہتاہے کہ یہ حبشی غلام میرا بھائی ہے وہ اس کو ہر قیمت پر میرےظلم و ستم کے چنگل سے نکالنے کے لئے بے چین ہو رہا ہے۔"
"تو اس میں کھیل کھیلنے کی کیا بات ہوئی؟" لوگوں نے پھر چھیڑا۔
"کھیل؟" امیہ بن خلف جھلا کر بولا "سیاہ گوشت کے ایک گھناؤنے ڈھانچے کا یہ مول تول کیا کوئی کھیل نہیں ؟ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ابوبکر اس بے کار چیز کی کتنی بڑی قیمت چکانے کی ہمت رکھتا ہے۔۔میں اس کو غلام کی قیمت کے بڑھتے چڑھتے مطالبات سے پسینے پسینے کر ڈالوں گا۔۔۔بھاگ پڑنے پر مجبور کر دوں گا۔۔۔یا پھر سیاہ خون کے بدلے مجھے وہ چمکتی دمکتی چیز ہاتھ آئے گی۔۔۔سونا!۔۔۔سونا!۔۔۔کیسا عجب کھیل ہے ۔۔جس میں ہر رخ سے ابوبکر کی ہار یقینی ہے اور میری جیت۔۔۔۔!"
"اچھا!"لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔"اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔بلال کی سخت جانی کے بعد اب ابو بکر کی ہمدردیوں پر مشقِ ستم ہو گی۔۔۔۔"
ہاہاہا!۔۔۔ہاہاہا!امیہ بن خلف کا قہقہہ کسی بدروح کی بے ہنگم چیخ پکار کے اندازمیں گو نجتا رہا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
گرم گرم بالوں کی چنگاریوں پر بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے جسم کو بھونا جا رہا تھا۔۔پتھروں کے اوپر گھسیٹاجارہا تھا۔۔۔کوڑے پے در پے پڑ رہے تھے۔
"احد۔۔۔احد۔۔۔"بلال رضی اللہ عنہ کی کراہ تھی۔۔ابو بکررضی اللہ عنہ نے آواز سنی۔۔۔بے قرار ابوبکر رضی اللہ عنہ تیزی سے جھپٹے جیسے بلال رضی اللہ عنہ کی مظلومیت کی ٹیسیں۔۔۔تمام درد، ابوبکررضی اللہ عنہ کے قلب میں سمٹ آیا ہو ۔وہ سچ مچ تڑپ اٹھے تھے۔
"کیا اس غریب کے سلسلے میں تجھے اللہ کا بھی ڈر نہیں" ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی حالتِ زار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیہ سے پوچھا۔
"اس کے تمام دکھ درد کی ذمہ داری خود تم لوگوں پر ہے"۔امیہ نے چڑھ دوڑنے کے انداز میں کہا۔
"تم نے ہی اسےبگاڑا اور پھر اس حالت زار تک پہنچنے پر مجبور کیا۔اب اس کو بچا کردکھاؤ۔۔۔بتاؤ اسے خریدتے ہو؟۔۔۔بولو!"
"ہاں" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،بلال رضی اللہ عنہ کی نجات کے لئے بے کل ہوتے ہوئے بولے۔"ہاں میں تیار ہوں۔۔۔ہر قیمت پر۔"
"کیا قیمت دو گے؟"امیہ نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
"قسطاس" ابو بکر رضی اللہ عنہ نے چھوٹتے ہی کہا۔"میرا مضبوط،جست و قوی غلام قسطاس! جس کے کفر سے میں اس طرح بیزار ہوں جس طرح تم بلال رضی اللہ عنہ کے ایمان سے ۔۔۔مجھے بلال رضی اللہ عنہ سے محبت ہے۔۔۔تمھیں قسطاس سے محبت ہونی چاہیئے۔"
ایک غلام، سے ،محبت کرنے کی بات سنتے ہی امیہ بن خلف نے بہت برا منہ بنایا۔۔کچھ سوچا اور پھر بولا:
"منظور ہے!"۔
لیکن اچانک پھر فورا ہی امیہ بن خلف نے جگر خراش قہقہہ مارا۔
"نہیں! اللہ کی قسم! "وہ ہنستے ہوئے بولا اور اس کی آنکھوں میں شیطانیت کی بجلیاں کوند رہی تھیں۔"قسطاس ہی نہیں اس کی بیوی بھی دینا ہو گی! اس کی بیوی بھی دینا ہو گی۔۔۔"
"مجھے منظور ہے ۔"ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحہ پس و پیش کے بغیر فرمایا۔
لیکن اچانک پھر وہی قہقہ گونجا۔
"نہیں اللہ کی قسم !"اس نے قہقہ مارتے ہوئے ساری گفتگو پر پانی پھیر تے ہوئے کہا" قسطاس اور اس کی بیوی کے ساتھ بیٹی بھی لوں گا۔"
"اوہ۔۔۔۔بیٹی۔۔۔"
"ہاں۔۔۔ اس کی بیٹی۔۔۔۔"
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک ثانیے سوچا۔۔۔پھر دو ٹوک لہجے میں بولے۔۔۔"چلو دی"۔
لیکن ایک بار پھر امیہ بن خلف نے ہولناک قہقہہ بُن لیا۔
"نہیں۔۔۔اللہ کی قسم! قسطاس بھی اور اسکی بیوی بھی ،اس کی بیٹی بھی اور دو سو دینار مزید۔۔۔بولو۔۔۔بولو۔۔۔۔کیا بلال کو خریدو گے؟"
"شرم!"بار بار زبان بدلنے والی کی شرارت سے بیزار ہو کر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بولے"کیا جھوٹ بولتے ہو تجھے شرم شرم وحیا نہیں آتی؟"
"لات و عزٰی کی قسم !" امیہ بن خلف نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"بس یہ آخری قیمت ہے۔۔۔۔پھر بات طے شدہ سمجھو۔۔۔۔"
"چل او کافر مجھے یہ بھی منظور ہے ۔۔۔"مسلمان بھائی بلال رضی اللہ عنہ کی سرشاری سے سرشار ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سینہ تان کر کہا۔
سودا ختم ہو چکا تھا۔۔۔ایک عظیم آزمائش میں دونوں مؤمن گھرے ہوئے تھے۔بلال رضی اللہ عنہ کی جان اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال پر طوفانی آزمائش پوری قوت سے گزری اور دونوں فاتحانہ نکلے!فقط اس لئے کہ "اللہ" دونوں کو جان و مال سے زیادہ پیارا تھا۔
یکایک ایک نیا قہقہہ بلند ہوا ۔۔لیکن یہ قہقہہ امیہ بن خلف کا نہیں اس کی بیوی کا تھا ۔جس کے خیال میں بلال رضی اللہ عنہ کی اتنی بڑی قیمت دے کر ابوبکر رضی اللہ معاذ اللہ بے وقوف بن گئے تھے۔
"تم تو بلال کو ایک اوقیہ سونے میں بھی بخوشی بیچ ڈالتے" اس نے کہا "بلال ہمارے لئے ہماری سب سے بے قیمت چیز کے سوا آخر کیا ہے؟"
"کون کسے بتائے کہ بے وقوف کون بنا۔۔۔" ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روح سے درد سا اٹھا "بلال میرے لئے اس سے قیمتی ہے کہ سوا اوقیہ بھی قیمت ٹھہرتی تو ابوبکر پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔"
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ درد بھری بات ان لوگوں نے سنی اور۔۔۔۔پھر بھی انہیں "بے وقوف" ہی سمجھا ۔اس لئے کہ کفر ،دنیا کی پرستش کا دوسرا نام ہے۔اور دنیا کی بے حد قیمتی چیز سونا ،چاندی سے بڑھ کر کون سی ہے۔۔ ؟
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
پاکیزہ روحیں

تین پاکیزہ روحیں!
لق و دق صحرا کے سینے پر عشق و عبودیت کا سفر کر رہی تھیں۔
ان میں ایک مرد تھا ،ایک عورت تھی اور ۔۔۔۔ایک معصوم بچہ!
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ،ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سلمہ رضی اللہ عنہ
وہ مکہ چھوڑ رہے تھے ،مدینہ کی طرف کوچ ہو رہا تھا ۔حالانکہ مکہ ان کا آبائی وطن تھا اور مدینہ یکسر پردیس۔گھر کے درو دیوار تک سے انسان کو گہری محبت ہوتی ہے ۔وطن کی گلیاں بھی آدمی کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہوا کرتی ہیں۔کاروبار اور معاشی وسائل میں بھی جی اٹکا رہتا ہے ۔دنیا اور اس کے علائق اور اس کے ظاہری سہاروں کو آدمی کیاکچھ سپردگی ،التفات عطا نہیں کرتا ۔
مگر یہ تینوں ان تمام چیزوں کو اپنے پیچھے چھوڑے چلے جا رہے تھے اور سامنے اب جو کچھ تھا وہ ویران صحرا تھا اور صحرا کے اس پار مدینہ کی نئی بستی ،جہاں پہنچ کر انہیں ازِ سر نو اپنی دنیا بسانی تھی۔نئے سرے سے زندگی شروع کرنی تھی۔ورنہ پھر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانا تھا۔
کوئی انہیں اس سفر پر مجبور نہیں کر رہاتھا۔۔کوئی لالچ بھی نہیں تھا اور ۔۔۔اور وہ دیوانے بھی نہیں تھے،تو پھر ۔۔۔آخر یہ کیا ہو رہاتھا اور کیوں۔۔۔۔۔؟ آخر کون تھے ؟"
تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ اللہ کے وفادار بندے تھے اور ان کا یہ سفر عشق و عبودیت کا جاں نثارانہ سفر تھا۔وہ ہجرت کر رہے تھے۔ہجرت جو ایک بہت بڑا جہاد ہے۔انسان کا خود اپنے عزیز ترین جذبات کے خلاف جہاد ۔خود اپنے ہاتھ سے اپنی شہ رگ پر تیشہ چلانا ۔۔اللہ کو اپنانے کی آرزو میں ان عزیزو لذیذ چیزوں سے خود کو کاٹنا جو اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہو رہی ہیں۔یہی وہ سفر تھا جس کے پہلے ہی قدم پر انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دنیائے رنگ و بو ایک "سرائے فانی" ہے نہ کچھ کم اور نہ زیادہ۔جہاں انسان یہ دھوکا کھا رہاہے کہ وہ مقیم و مکین ہے ۔حالانکہ وہ محض ایک مسافر ہے۔۔ایک راہی ہے۔۔۔بلکہ محض ایک راہ گیر ہے جو اللہ کے پاس سے آیااور اللہ کی طرف ہر لمحہ پلٹ رہا ہے ۔یہ تھی وہ بات جو ان کو شہرِ مکہ کے امی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی اوروہ دیکھ رہے تھے کہ اس نے کبھی اپنی عمر میں جھوٹ بولا ہی نہیں ۔۔۔جو انسان کے ساتھ سچا ہو وہ اللہ کے معاملے میں جھوٹاکیسے ہو سکتاہے ؟ اسی لئے ان لوگوں کو اس بات کا اتنا ہی یقین آ چکا تھا جتنا کسی بھی سچی سے سچی بات پر کسی کو آسکتاہے۔
وہ اسی یقین سے سرشارگھر سے نکلے تھے ۔یہی یقین تھا جس نے ان کو اپنی ان مکی گھروں میں بے چین کر دیاتھا جن کے چاروں طرف کفر و شرک کی قہر مانی طاقتیں گھیر اڈالے ان سے کہہ رہی تھیں۔
"تم محض اس یقین سے دست برداری دے دو تو ہم لوگ تمھیں کچھ نہ کہیں گے۔۔۔یہاں رہنا ہے تو تمھیں اس دنیا کو اپنا پہلا اور آخری گھر تسلیم کرناہو گا جو انسانی قبروں سے پٹی ہوئی دنیا ہے ۔پتھر کے ان سینکڑوں "خداؤں " کے آگے جھکنا ہو گا جنہیں ہمارے تمھارے ہاتھوں نے تراشا ہے ۔ایسا کرو گے تو ہم تمھارے ہیں ۔۔تمھارے گھر ہیں جن میں اپنے بیوی بچوں کے درمیان تم ہنسی خوشی رہتے ہو ۔تمھاری تجارتیں ہیں ۔ایسا نہیں کرتے تو تمہاری کوئی چیز بھی تمھاری نہ رہے گی ۔
یہ "دو یقین " تھے کہ جو پورے زور و شور سے ٹکر ارہے تے ۔جن میں ایک "خود فریبی "تھا اور دوسرا "خدا شناسی" اور "خود فریبی " نے دیکھا کہ ""خدا شناسی" نے بے جھجک اپنی ساری دنیا اس ایمان ا وریقین کے داؤ پر لگا دی ہے اور و ہ تینوں دنیا سے دامن جھاڑ کر اپنے اللہ کی طرف چل کھڑے ہوئے ہیں۔کتنے سچے اور کتنے گہرے تھے وہ اپنے "یقین" میں ۔
کفر و شرک آگ بگولہ ہو گئے۔۔جھلا اٹھے ! بو کھلا گئے ۔کیسے ممکن تھاکہ اتنی بڑی قربانی لے کر وہ ان کو اپنے جان و ایمان سلامت لے کر یونہی چلا جانے دیں؟ کتنی شدید ہے وہ دشمنی جو طاغوت کو اللہ سے ہے ۔۔۔کفر کو ایمان سے ہے۔۔۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا دونوں کے اپنے اپنے قبائل نے دونوں طرف سے ان کا پیچھا کیا اور ایک وحشیانہ حملہ کر کے بنی مغیرہ کے لوگ اپنے قبیلے کی خاتون ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی گھسیٹ کر لے جانے لگے ۔دوسری طرف سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنی اسد کے لوگوں نے ہلہ بولا اور معصوم بچے سلمہ رضی اللہ عنہ کو ماں کی گود سے نوچتے ہوئے کہا:۔
"ام سلمہ کے قبیلے والے اپنے قبیلے کی عورت کو لے جاتے ہیں تو یہ بچہ ہمارے قبیلہ کا بچہ ہے۔یہ ہمارے ساتھ جائے گا" اور بے کسی و بے چارگی نے ماں باپ پر کرب طاری کر دیا ۔دونوں قبیلوں کے لوگوں میں وحشیانہ چھینا جھپٹی ہونے کگی۔دل فگار و اشکبار ماں باپ کی کسی نے نہ سنی اور اس کشمکش میں معصوم بچے کا ہاتھ اتر گیا۔۔۔بچے کی دردناک چیخ بلند ہوئی اور ماں باپ تڑپ جانے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔۔۔۔ روتے اور تڑپتے ہوئے بچے کو بنی عبدِ اسد والے لے کر چل ہی دئیے۔
تڑپتاہوا بچہ ماں باپ کی طرف دیکھ دیکھ کر تڑپ رہاتھااور ایک سمت لے جایاجا رہاتھا،
روتی سسکتی ہوئی عورت جو ایک ماں بھی تھی اور بیوی بھی ،وہ دوسری طرف گھسیٹی جا رہی تھی لیکن وہ مرد جو ایک باپ بھی تھااور ایک شوہر بھی ۔۔۔۔۔مگر جسے صرف اتنا ہی یاد رہ گیاتھا کہ " میں غلام ہوں " وہ اب بھی مدینے کی طرف چل رہا تھا ،۔۔۔اللہ کا بندہ اللہ کی طرف دوڑ اجا رہا تھا ۔۔۔اسے اب بھی یقین تھاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے وہی حق ہے ۔اسے اب بھی یقین تھاکہ یہ ابتلائے شدید بھی محض ایک ایمانی آزمائش ہے جس کا انجام ظالموں کی شکست اور مظلوموں کی کامیابی ہو گا۔۔۔۔باطل کی ہلاکت اور حق کی جیت اٹل ہے۔اللہ کی یہاں دیر ہےاندھیر نہیں ۔۔۔کتنا مضبوط ہے اللہ کا سہارا ۔۔جہاں تمام سہارے ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں وہاں بھی یہ تنہا سہار اڈوبنے نہیں دیتا ۔مایوس ہونے نہیں دیتا ۔۔۔شکست کھانے نہیں دیتا ۔۔مہیب سے مہیب حقائق اس سے ٹکراتے ہیں مگر خود ہی سر پٹخ پٹخ کر پاش ہو جاتے ہیں اور یہ سہارا جوں کا توں قائم رہتاہے ۔۔۔بلکہ سچ پوچھئے تو ہر بار کچھ اور مظبوط ہوتاچلاجاتاہے ۔کیسے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سہارے سے محروم ہیں ۔۔۔اور اس سے محروم ہی رہنا چاہتے ہیں اور اس سے محروم مر جانا بھی گوارا ہے ۔
مگر ان کے لئے یہی سہار اکافی تھا اور کافی ثابت ہوا ۔۔واقعی وہ تینوں عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے جن کے سفینوں کو تھوڑ ی دیر کے لئے ابتلا و آزمائش کے طوفانی تھپیڑوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا تھا ۔اگرچہ یہ کامیابی ایک سال بعد ظاہر ہوئی لیکن ہوئی اور اسے ظاہر ہونا تھا بشرطیکہ انسان انتظار کر سکے۔ایمان کفر کی طرح ناصبور اور جلد باز نہیں۔۔۔۔وہ صبر بھی کر سکتا ہے اور انتظار بھی۔۔۔۔جاں گداز آزمائش کے عالم میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے مگر نہ مرد نے ہار مانی اور نہ عورت نے۔ایک سال تک ابو سلمہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں اپنی شریکِ حیات اور اپنے جگر پارے سے جدا رہے۔ایک سال تک ام سلمہ رضی اللہ عنہا ریگستانوں کے ذروں کو اپنے آنسوؤں سے تر کرتی رہیں۔۔۔۔۔کفرو شرک کے سینوں کی ہر "راحت"ان کی روح میں خار بن کر کھٹکتی ۔وہ بے کل ہو ہو کر گھر سے نکلتیں اور صحر ا میں جا جا کر اپنے نادیدہ خدا کے حضور میں رویا کرتی تھیں۔بس یہی ایک شے تھی جس میں ان کو سکون ملتاتھا ۔ماں باپ اور بچہ تینوں اپنی اپنی جگہ بے قرار بھی تھے اور اشک بار بھی۔۔۔مگر کتنے اطمینان کی یہ بات تھی ان کے لئے کہ یہ ظالم دنیا ہم سے ہمارا سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بھی یہ محسوس کرنے پر مجبور ہے کہ وہ ہمیں لوٹ نہیں سکی۔اس لئے کہ ہمارے ایمان پر ہاتھ ڈالنا اس کے بس کی بات نہیں۔ساری دنیا بھی خفا ہو جائے تو ہو جائے ۔۔۔وہ مطمئن تھے کہ ہم سے اللہ راضی ہوجائے اور پھر ایک سال کی طویل آزمائش ایک دن ختم ہو ہی گئی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ان تینوں کے لئے جیسے تما م خوف،تمام غم ختم ہو گئے۔یہاں کوئی مصیبت کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو مگر ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی یہ دنیا ہے جو فانی ہے ۔۔۔اس کے دکھ درد بھی فانی ہیں ۔وہ دن آیاجس دن کفر و شرک نے تھک ہار کر اس "مومنہ" کو اپنے چنگل سے خود ہی چھوڑ دیا۔اسے وہاں جانے دیا جہاں وہ جاناچاہتی تھی۔یہ خبر سنتے ہی بنی عبد اسد والوں نے بھی اس کے بچے کوگود میں لا کر ڈال دیا۔فیصلہ کن طاقت ہی واحد طاقت ہے اور یہی طاقت صرف اللہ کے پاس ہے۔اللہ جس کی دو انگلیوں کے درمیان انسانوں کے دل ہیں اور ان دلوں کو وہ جب اور جدھر چاہتا ہے پھیر رہا ہے ۔۔۔پھیرتا رہے گا۔۔۔وہ تینوں جو اس بری طرح جدا ہوئے تھے اللہ نے انہیں پھر یکجا کر دیا۔درندوں کے چنگل سے نکالا اور پتھر جیسے دلوں کو ان کے لئے موم کر دیا۔۔وہ تینوں ایک بار پھر یک جا ہوئے۔آج بھی تینوں اشک بار تھے مگر یہ آنسو خوشی اور شکر کے تھے۔۔شکر ،نعمت اور جذبہ مسرت کے آنسوؤں میں بھیگے ہوئے دیدہ و دل پکار اٹھے۔۔۔"یا الٰہی ! تیرا شکریہ تو نے ہی یہ آزمائش اتاری اور تو نے ہی ہمیں اس کو جھیلنے کی طاقت دی تو نے ہی ہمیں اس میں کامیاب کیا۔مصیبت ختم ہو گئی مگر ہمیں یقین ہے مالک ! ا سکا انعام کبھی ختم نہ ہوگا۔"
کیسے اچھے تھے وہ لوگ جو اتنی سخت،اتنی خوفناک آزمائش میں بھی کھرے اور پورے اترے تھے اور ہماری صرف اتنی سی آزمائش ہے کہ کوئی آزمائش نہیں۔۔۔وہ صبر و ثبات کی زہرہ گداز گھاٹی کو بھی ہنسی خوشی سر کر سکتے تھے لیکن ہم سے شکر عافیت کا بھی حق کسی درجہ میں ادا نہیں ہوتا۔۔وہ یقینا مومن تھے مگر کیا ہم بھی مومن ہیں؟مسلمان ہیں ؟یہ سوال آپ خود سے کیجئے ۔۔۔اپنے ہی دل و ذہن کو ٹٹولئے اور دیکھئے کہ ظلمت کی تہہ میں روشنی کا کوئی نقطہ کوئی لکیر باقی ہے یا نہیں؟
 
Top