محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کسی ملک کے لوگوں کا عید اورروزوں میں اختلاف کرنا جائزنہيں :
ہمارے ملک میں کچھ بھائي دین کا التزام کرنے والے توہیں لیکن وہ کچھ امور میں ہماری مخالفات کرتے ہیں ، مثلا رمضان کے روزوں میں کیونکہ وہ بعینہ چاند دیکھنے کے بغیر روزہ نہيں رکھتے ، اوربعض اوقات تو ماہ رمضان میں ہم ان سے ایک یا دو یوم پہلے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں ۔
اوروہ اپنے حساب سے ہماری عید کے ایک یا دو روزبعد عید مناتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ہم جب تک بعینہ چاند نہ دیکھ لیں اس وقت تک نہ تو روزہ رکھیں گے اور نہ ہی عید منائيں گے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( چانددیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کرہی عید مناؤ ) ۔
لیکن وہ لوگ آلات کے ساتھ رؤیت ھلال کا اعتراف نہيں کرتے ، جیسا کہ آپ کو علم ہے وہ ہماری عید کے ایک یا دو دن بعد اپنی رؤیت کے حساب سے ہی عید پڑھتے ہیں ، اور اسی طرح عیدالاضحی میں بھی ہماری مخالفت کرتےہیں یوم عرفات اورقربانی ذبح کرنے میں بھی مخالفت کرتے ہوئے ہماری عیدسے ایک یا دودن بعد عید پڑھتےہیں ۔
توکیا اس کا یہ سب کچھ کرنا صحیح ہے ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے ؟
الحمد للہ :
ان کے لیے واجب ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ہی روزے رکھيں اورنماز عیدین بھی اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہی ادا کریں ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( چاند دیکھ روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر ہی عید الفطر مناؤ اوراگر چاند چھپ جائے ( یعنی آسمان ابرآلود ہو ) تو شعبان کے تیس یوم پورے کرو ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔
روزے رکھے اورعید الفطر منانے کے حکم سے مراد یہ ہے کہ جب رؤیت ھلال آنکھ سے ثابت ہوجائے یا پھر ان وسائل سے جن میں آنکھ استعمال ہوتی ہے مثلا دوربین وغیرہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( روزہ اسی دن ہے جس دن تم روزہ رکھو ، اورفطر اسی دن ہے جس دن تم عیدالفطرکرو، اورعیدالاضحی جب تم قربانی کرو ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2324 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 697 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 561 ) میں اسے صحیح کہا ہے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔ .
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 94 ) ۔
http://islamqa.info/ur/12660