حافظ اختر علی بھائی
ایک نظر ذرا اس لنک پر بھی
آیت ولایت | منہج اہل السنة
ہم نے آپ کے فراہم کردہ لنک کو بغور پڑھا ہے ۔ مجھے حیرت ھے کہ آپ نے ان علماء کو ردّ کردیا جن سے آپ خود حجت پکڑتے ہیں :علماء اسلام کا اس پراجماع ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی مدد ومعاونت کی اورکسی بھی طریقہ سے ان کی مدد کی وہ بھی ان کی طرح ہے کافر ہے ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا } المائدۃ ( 51 ) ۔
دیکھیں : فتاوی ابن باز رحمہ اللہ ( 1 / 274 )
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
مسٹر اہل سلف آپ کے فراہم کردہ لنک میں سوائے تدلیس کے کچھ نہیں ہے ۔ انفرادی عمل کو پوری امت پر منطبق کردیا آپ نے ۔ کیا تقیہ پوری امت کرے گی ۔ اس طرح تو آپ کو ہندوستان سے بھی خوف کھانا چاہیے ۔ کیونکہ وہ پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے ۔ آپ اپنے مرتد حکمرانوں کو بچاتے بچاتے خود بھی گرتے چلے جارہے ہیں ۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔
ذیل میں ہم فراہم کردہ لنک سے ایک پیراگراف نقل کررہے ہیں ۔ تاکہ قارئین خود اہل سلف کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لے لیں :
دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر’ عیش پرستی’ کاہلی و سستی ‘ موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاةً) (آل عمران : ٢٨)
”پس اہل ایمان’ اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا”۔
حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاری کا جو خوف ، دبدبہ اور رعب بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہر حال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک صریح مانع ہے۔اس آیت مبارکہ میں’تقاة’سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں۔امام شنقیطیالمالکی فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔وہ ‘یأیھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری أولیاء ‘ کے تحت لکھتے ہیں:
” وبین فی مو ضع آخر : أن محل ذلک،فیماا ذا لم تکن الموالاة بسبب خوف وتقیة ون کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی : لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْتَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة.” (أضواء البیان : المائدة : ٥١)
” ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاری سے یہ تعلق ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو’ اور اگر یہود و نصاری سے تعلق ولایت اس سبب( یعنی خوف یا ان کی اذیت سے بچاؤ) کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا قول ہے:”پس اہل ایمان’ اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا”۔
امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
” (اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.” (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
‘الا أن تتقوا منھم تقاة’ کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔”
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
” منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.”(تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)’
‘اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ‘ کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔”
مسڑ اہل سلف آپ نے حاطب اللیل کی طرح ان عبارات کو جمع کردیا اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ جس چیز کا آپ ردّ کررہے ہیں وہ دلائل کی رو سے مناسب ہیں یا نہیں؟؟؟
بہرحال فیصلہ تو قارئین نے کرنا ہے ۔ ہم ان پر یہ فیصلہ چھوڑتے ہیں ۔ بات عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ اور صالح المنجد کی صحیح ہے یا مسٹر اہل سلف کی؟؟