کفر دون کفر والی روایت ضعیف ہے
مشہور محدث سلیمان العلوان کہتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب روایت جس میں ہے کہ "کفر دون کفر"یعنی کفر کے درجات ہیں (کچھ کفر کم ہیں کچھ کفر زیادہ) یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں ہے اسے مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں روایت کیا ہے اور مستدرک میں حاکم نے بھی ھشام بن حجیر عن طاؤس عن ابن عباس سے روایت کیا ہے ۔ ہشام کو امام احمد ، یحیی بن معین،عقیلی اور محدثین رحمہم اللہ کی ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے ۔ علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے سامنے روایت بیان کی حدثنا جریج عن ھشام عن ابن حجیر تویحیی بن سعید رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کی روایت کو چھوڑنا میں زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔میں نے کہا میں اس کی حدیث بیان کروں؟ اس نے کہا ہاں۔ابن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم ہشام بن حجیر کی روایت نہیں لیتے تھے جو کسی اور کے پاس نہ ہوتی تھی (جس میں وہ متفرد ہوتا تھا) جبکہ مذکورہ الصدر حدیث میں وہ متفرد ہے مزید یہ کہ ثقہ نے اس کی مخالفت کی ہے جیسا کہ عبداللہ بن طاؤس رحمہمااللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاؤُلٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ) (المائدۃ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا"ھی کفر"یہی کفر ہے ۔دوسری جگہ الفاظ ہیں "ھی بہ کفر"یہی تو اللہ کے حکم کا کفر وانکار ہے ایک اور جگہ ان کے الفاظ ہیں "کفی بہ کفر"یہی عمل اس کے کفر کے لئے کافی ہے (عبدالرزاق نے اسے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے)اور ابن جریر نے بھی اور وکیع (نےاخبار القضاۃ میں اسے ذکرکیا ہے)سند صحیح سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی قول ثابت ہے کہ انہوں نے اسے کفر مطلق کہا ہے (دون کفر نہیں)
ھشام بن حجیر کی روایت دو وجہ سے منکر ہے :
اس میں وہ متفرد ہے
اپنے سے اوثق کی مخالفت کررہا ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ "ھی کفر" "ھی بہ کفر"اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک آیت مطلق ہے اور اس سے کفر ہی مراد ہے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جب کفر پر الف لام آگیا (الکافرون) تو یہ کفر اکبر بن گیا جب تک کوئی قرینہ اس کو تبدیل کرنے والا نہ ہو۔
شیخ سلیمان العلون مزید فرماتے ہیں: ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں فرمایاہے۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی محکم شریعت چھوڑدی اور دوسری منسوخ شریعت کو اختیار کیا اس کی طرف چلا گیا تو اس نے کفر کرلیا (جب منسوخ شدہ آسمانی شریعت کو اختیار کرنے والا ایسا ہے )تو پھر الیاسا کی طرف جانے والے کو کیا کہیں گے جو اسے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم رکھے جس نے بھی ایسا کیا وہ باجماع مسلمین کافر ہے ۔ یہ صحیح اور حق بات ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اس شخص کے کفر پر اجماع نقل ہونا چاہیے جو اللہ کی شریعت سے روکتا ہے دین کے احکام کو تبدیل کرتا ہے اور اپنی قوم پر ایسے قوانین نافذ کرتا ہے کہ لوگ اس کی طرف اپنے مالی دیوانی اور فوجداری مقدمات لے کر جاتے ہیں اس طرح عملی طور پر وہ ان قوانین کی حمایت کرتے ہیں اور شریعت کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں ان قوانین کو سیکھنے اور ان کے دفاع میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اجماع کے بارے میں بعض ہم عصروں نے کہا ہے کہ یہ صرف تاتاریوں کے لئے ہے یا ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے جنہوں نے نواقض اسلام کو خلط کیا جس کی وجہ سے شریعت کا انکار لازم آتا ہے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ دوسرے قوانین کا جواز ثابت ہوتا ہے (جس نے بھی ابن کثیر رحمہ اللہ کے اجماع کے بارے میں یہ کہا ہے) یہ اس کا ذاتی خیال ہے جوکسی قسم کی علمی حقائق اوردلائل پر مبنی نہیں ہے ۔ اس قول میں واضح طور پر توحید اور اصلاح کی دعوت دینے والوں پر حملہ نظر آرہا ہے اورالفاظ ومطالب میں بھی صرف تخمینے سے کام لیا گیا ہے ائمہ کے اقوال سے ناواقفیت بھی اس میں واضح ہے اس لیے کہ اس اجماع کو نقل کرنے والے صرف ابن کثیر رحمہ اللہ نہیں ہیں بلکہ متقدمین ومتاخرین میں بہت سے ائمہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس شخص کو کیونکر کافرنہ کہا جائے جو شریعت کومعطل کردے اورخود کو منصب تحلیل وتحریم پر فائز کردے خود ہی کسی چیز کے اچھی یا بری ہونے کے فیصلے کرے ایسی عدالتیں بنائے جہاں مقدمات وتنازعات لے جائے جاتے ہوں اور (وہ عدالتیں اتنی بااختیار ہوں) کہ ان سے کسی قسم کا سوال یا ان کے فیصلوں پر اعتراض وتعاقب تک ممنوع ہو(ورنہ توہین عدالت کا کیس بن جاتا ہو)
جس مصنف نے تاتاریوں کی کفر کی وجہ سے شریعت سے انکار اور شریعت کے حرام کردہ کو حلال قرار دینا لکھا ہے وہ شاید مرجئہ میں سے جو صرف حرام وحلال میں تبدیلی کو کفر خیال کرتےہیں یا شریعت کے واضح انکار کو کفر کہتے ہیں حالانکہ یہ نظریہ عقل ونقل دونوں کے لحاظ سے باطل ہے ۔ حرام کو حلال قرار دینا کفر ہے اگرچہ اس کے ساتھ غیر اللہ کے حکم پر تحکیم نہ بھی ہو جبکہ آیت میں واضح طور پر اللہ کے نازل کردہ شریعت پر فیصلہ نہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ متاخرین میں سے بہت سے لوگ مرجئہ کے نظریات سے متاثر ہیں جو کہتے ہیں کہ جس نے بھی کفریہ قول یا عمل کیا وہ کافر ہے مگر وہ عملی کافرنہیں بلکہ اس کا عمل کفر کو متضمن ہے کفر پر مشتمل ہے اور اس عمل سے اس کے دلی تصدیق کی نفی ہورہی ہے اور ا س کے دعوی ایمان کی تکذیب ہے جبکہ کچھ مرجئہ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی عمل سے انسان کافرنہیں ہوتا جب تک کہ وہ (شریعت کا) انکار نہ کردے یا شریعت کے حرام کردہ کو حلال نہ سمجھے ۔ مرجئہ کا یہ نظریہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا کفر ہے اسمیں کسی نے بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ گالی دینے والا اس کو حلال بھی سمجھتا ہوتب وہ کافر ہے نہ اعتقاد کی شرط کسی نے لگائی ہے اس کے کفر کے لئے یہی کافی ہے کہ اس نے واضح طور پر اللہ یا ا سکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اسی طرح دین کا مذاق مزاحًا اڑایا ہو یا لاپرواہی سے ایسا کیا گیا ہو ۔اسی طرح کسی مردے کا تقرب حاصل کرنے کے لئے (اس کی قبر ومزار پر)سجدہ کرنے والا اس کا طواف کرنے والا بالاتفاق کافرہے ۔قرآن مجید کو گندی جگہ پھینکنے والے کے کفر پر اتفاق ہوچکا ہے یہ ان لوگوں کی رائے ہے جو قول عمل اور اعتقاد کو ایمان کہتے ہیں اور اطاعت سے ایمان میں اضافے ، معصیت سے کمی کے قائل ہیں اہلسنت کا اجماع ہے کہ دین کا واضح طور پر مذاق اڑانا کفر ہے جیسا کہ بتوں کے آگے یا چاند اور سورج کو سجدہ کرنا غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا حالانکہ یہ سب افعال ہیں۔ کتاب وسنت میں بے شمار دلائل اس بات پرموجود ہیں کہ جو شخص بھی کفریہ قول یا عمل کرتا ہے وہ کافر ہے ضروری نہیں کہ وہ اس قول یا عمل کو حلال بھی سمجھتا ہو یہ فضول شرط ہے جو نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے لگائی نہ تابعین نے نہ ائمہ محدثین نے ۔