• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کلمہ طیبہ کی اھمیت وفضیلت اور اس کی شرائط

شمولیت
فروری 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
45
٭٭٭کلمہ طیبہ کی اھمیت وفضیلت اور اس کی شرائط٭٭٭٭

کلمہ شھادت اسلام کی بنیاد ھے اور یہ اسلام کی کنجی ھے کلمہ شھادت اسلام کا پھلا رکن ھے(اور یہ ارکان ایمان کا بھی پھلا رکن ھے ) کلمہ طیبہ میں دو باتوں کا اقرار ھے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نھیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول ھیں --- لا الہ الا اللہ --------------------------- محمد رسول اللہ

اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نھیں ------------------------------------------ محمد اللہ کے رسول ھیں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

اس کلمہ کا پھلا حصہ (لا الہ الا اللہ ) اس میں اللہ تعالی کے حقیقی معبود ھونے کا اقرار ھے –یہ کلمہ دو باتوں پر مشتمل ھے؛ نفی و اثبات (نفی کا مطلب ھے انکار یعنی نہ ماننا/اور اثبات کا مطلب ھے اقرار کرنا یعنی ماننا یعنی اس کے دو رکن ھیں پھلے رکن میں نفی (انکار)ھے اول :: (لا الہ ) تمام باطل معبودوں کا انکار کرنا دوسرے رکن میں اثبات (ماننا)ھے یا اقرار ھے – دوم ( الا اللہ ) اس رکن میں خالص اللہ تعالی کے لیے حقیقی الہ ( معبود ) ھونے کا اقرار ھے یعنی اللہ تعالی کے لئے الوھیت کا اقرار ھے

اس کلمہ کی بھت زیادہ فضیلت ھے صحیحین کی روایت ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛

(( ما من عبد قال؛ لا الہ الا اللہ ثم مات علی ذلک الا دخل اللہ الجنۃ))

ترجمہ؛؛ جس بندے نے کلمہ پڑھا اور اسی پر اس کی موت ہوئی تو وہ جنت میں داخل ھو گا ؛

کلمہ طیبہ کی شرائط ؛ کلمہ پڑھنے کے بعد اس کلمہ کے کچھ تقاضے اور شرطیں ھیں جو کہ آٹھ شرطیں ھیں

1)علم جو جھالت کے منافی ھو ::یعنی کلمہ پڑھنے والے کو اس بات کا پوری طرح علم ھو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی برحق معبود نھیں ھے یعنی معبود (عبادت کے لائق صرف اللہ تعالی ھے )

2)یقین جو شک کے منافی ھو :یعنی اسے کامل یقین ھو کہ اللہ ھی معبود برحق ھے

3)اخلاص : یعنی وہ اپنی ساری عبادتیں خالص اللہ تعالی کے لئے کرے- اس کا ادنی حصہ بھی غیر اللہ کے لئے نہ ھو ورنہ وہ مشرک ھو گا ۔

4)صدق: یعنی وہ صدق دل سے کلمہ پڑھے ، اس کے دل وزبان میں ھم آھنگی ھو ، ایسا نہ ھو کہ زبان پہ لا الہ الا اللہ کا ورد ھو اور دل ودماغ میں اس کا کوئی اثر نہ ھو ،اگر ایسی بات ھے تو اس کی شھادت غیر مفید ھو گی اور وہ دیگر منافقوں کی طرح کافر ھوگا-

5) محبت :: یعنی اس کا دل محبت الہی سے معمور ھو ،اگر زبان سے کلمہ پڑھ لیا اور دل محبت الہی سے خالی ھے تو ایسا شخص کافر ھی شمار کیا جاۓ گا

6) انقیاد :: فر ماں برداری کرنا/ گردن جھکانا ::یعنی وہ خالص اللہ تعالی کی بندگی کرے ،شریعت الہی کا پابند ھو ،نیز اس کا ایمان و اعتقاد ھو کہ یہی برحق ھے ،پس جو غرور و گھمنڈ کی وجہ سے اس سے اعراض کرے گا وہ ابلیس اور اس کے پیروکاروں کی طرح کافر ھے

7)قبولیت :: یعنی وہ کلمہ کے مدلول کو قبول کرے کہ اپنی ساری عبادتیں خالصتا لوجہ اللہ کرے اور معبودان باطلہ کی عبادت سے کنارہ کش ھو ،نیز وہ اس کا التزام کرے اور اس سے مطمئن ھو-

8) طاغوت کا انکار :::: یعنی جو اللہ تعالی کے علاوہ پوجے جاتے ھیں ان کی نفی کرنا --
وما علینا الا البلاغ -
 
شمولیت
اگست 01، 2019
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
کلمہ کی شروط:::::
نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دو باتوں کی وصیت فرمائی ،ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں تجھے "لا الہ الا اللہ" کا حکم دیتا ہوں۔پھر اس کی فضیلت بیان فرمائی کہ:"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اگر ایک پلڑے میں اور "لا الہ الا اللہ" دوسرے پلڑے میں رکھا جائے ،تو یہ دوسرا پلڑا اس کلمے کی وجہ سے بھاری ہو جائے گااور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک بند حلقہ ہوں تو "لا الہ الا اللہ" ان کو توڑ دے گا۔
(مسند احمد 2/170و سلسلہ احادیث الصحیحۃ للبانی :1/259،ح134)
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں لاالہ الااللہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!!
کلمہ کی شرائط:::
شرط کا معنی یہ ہے کہ جب وہ نہ پائی جائے تو مشروط بھی موجود نہ ہو مگر یہ ضروری نہیں کہ جب بھی شرط پائی جائے تو مشروط بھی پایا جائے ۔شرط مشروط سے مقدم ہوتی ہے یعنی مشروط سے پہلے شرط کا ہونا لازم ہے شرط کی اس اہمیت کی بنا پر ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ توحید کی شرائط معلوم کرے اور ان کو اپنے اندر پیدا کرے اس لئے کہ ان شروط کے نہ ہونے سے توحید بھی معدوم ہوجاتی ہے اور توحید ایمان کی بنیاد ہے گویا ایمان ہی ناپید ہوجاتا ہے جس طرح کہ نماز کی شرائط میں سے اگر کوئی شرط یعنی قبلہ رخ ہونا ، سترڈھانپنا وغیرہ فوت ہوجائے تو نماز ہی باطل ہوجاتی ہے اس لئے کہ نما زکی صحیح ادائیگی اور قبولیت کے لئے یہ شرائط ہیں ان کی عدم موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اسی طرح توحید کی شرائط اگر نہ ہوں تو توحید بھی نہیں ہوگی توحید کی شرائط سات ہیں:
1)علم
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہتے وقت انسان نے اس کا معنیٰ اور مطلب جان لیا ہو اور یہ خوب ذہن نشین کرلیا ہو کہ اس کلمہ سے کن کن باتوں کی نفی ہوتی ہے اور کن کن باتوں کا اِثبات۔
توضیح:
آدمی کا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہنا معتبر کب ہوگا؟ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی نے خوب اچھی طرح یہ جان لیا ہو کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ اس سے کہتا کیا ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ اس سے کن کن باتوں کا بطلان کراتا ہے اور کس کس بات کا اِثبات۔
1) نفی اور انکار: واضح طور پر اس بات کا کہ غیر اللہ کی کبھی کوئی ذرہ بھر عبادت اور پوجا و پرستش ہو۔ انکار صاف صاف اس بات کا کہ غیر اللہ کو کبھی بھی پکارا جائے یا انسان کی زندگی میں اپنی چلانے کا غیر اللہ کو ذرہ بھر کوئی اختیار ہو۔ یہ نفی اور یہ انکار لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا جزوِ اول ہے۔ آدمی کو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ سے اگر یہ بات ہی معلوم نہ ہو پائی ہو تو سمجھئے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی سب سے پہلی شرط ہی اس کے حق میں پوری ہونے سے رہ گئی۔ یہ تو ہوئی نفی جو کہ لَآ اِلٰہَ کے لفظ سے واضح ہے۔
اس کے بعد ”اِلاَّ اللہ“ آتا ہے۔ یہ ایک اقرار ہے اور کلمہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس نفی کے ساتھ ساتھ جو کہ ”لااِلٰہ“ کی صورت میں ہوئی، آدمی یہ بھی جانے کہ اس کلمہ کو زبان سے بول کر ”اِلاَّ اللہ“ کی صورت میں وہ اقرار یا اِثبات کس چیز کا کرتا ہے۔
2) اقرار اور اِثبات واضح انداز میں اس بات کا کہ بندگی، گرویدگی، نیاز، پرستش، اطاعت، فرمانبرداری، وفاداری اور دُعا والتجا کو اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کر دیا جائے اور پورے اخلاص کے ساتھ بندگی کے ان سب امور کو آدمی صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک کیلئے ہی سزاوار جانے۔ یہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا جزو دوئم ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا یہ جزو دوئم جانے بغیر بھی کلمہ کی پہلی شرط (یعنی کلمہ کی حقیقت کا علم رکھنا) پوری نہیں ہوتی۔
2)یقین
یعنی توحید اور لا الہ الا اﷲ کے معنی ومطلب کو سمجھنے کے بعد اس پر یقین رکھنا اسمیں کسی قسم کا شک نہ کرنا ا س بات پر دل سے یقین کرنا کہ اﷲ ہی تمام قسم کی عبادات کا اکیلا مستحق ہے اس میں ذرا سا بھی شک یا ترد د نہ کرے اﷲ تعالی نے مؤمنین کی یہی تعریف کی ہے اور انہیں اپنے دعوی ایمان میں سچا قرار دیا ہے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَ مْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔(الحجرات:15)
مومن وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسولﷺپر ایمان لائے اور پھر شک نہیں کیا اور اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا یہی لوگ سچے ہیں ۔
اس طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا جس نے یہ گواہی دی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد میں اﷲ کا رسول ہوں اور پھر اس گواہی میں شک نہیں کیا تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم )۔
3)قبول
یعنی توحید اور لا الہ الا اﷲ کے معنی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کرے اور عبادات میں سے کسی بھی قسم کی عبادت کو رد نہ کرے یعنی انکار نہ کرے ۔ اﷲ تعالی نے کفار کی یہی خرابی بیان کی ہے ۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ یَسْتَکْبِرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ (صافات:35)۔
جب ان سے کہاجاتا تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے تو یہ لوگ تکبر کرتے تھے (کہتے تھے )کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے قول پر اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں؟۔
4)تابعداری
یعنی توحید کو سمجھنے اس پر یقین کرنے اسے قبول کرنے کے بعد اس کے تقاضا کے مطابق عمل کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ ہر طاغوت کا انکار اور بیزاری صرف ایک اﷲ پر ایمان اس کیلئے خود کو مختص کر دینا۔
فَلَا َورَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(ساء:65)
تیرے رب کی قسم(اے محمد)یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافی امور میں آپ ﷺکو حکم نہ مان لیں اور پھر آپ ﷺکے کیئے ہوئے فیصلے سے اپنے دل میں کوئی خلش محسوس نہ کریں اس فیصلہ کو مکمل طور پر تسلیم کر لیں ۔
شرط ثالث اور رابع میں فرق یہ ہے کہ قبول کرنا اقوال میں ہوتا ہے اور تابعداری افعال میں ہوتی ہے ۔
علامہ عبدالرحمن بن حسن کہتے ہیں اسلام صرف دعوے کانام نہیں ہے بلکہ اسلام کا مطلب ہے اﷲ کی توحید کو اپنانا اور اس کی اطاعت کرنا اس کے سامنے جھکنا اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنا اور اﷲ کی صفات کو تمام مخلوق سے نفی کرنا جیسا کہ اﷲ کا ارشاد ہے :
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی
جس نے طاغوت کاانکارکیا اور اﷲ پر ایمان لے آیا تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا ۔ (بقرہ:256)
دوسری جگہ ارشاد ہے ۔۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ (یوسف 40،الدارالسینۃ کتاب التوحید2/264)
حکم صرف اﷲ کا ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اس کی عبادت کرو یہی سیدھا اور قائم رہنے والا دین ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
5)صدق
یعنی توحید اور کلمہ کے مطلب کو سمجھنے یقین کرنے قبول کرنے تابعداری کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان امور میں انسان سچائی سے کام لے نبی کریمﷺکاارشاد ہے :
ما من احد یشھد ان لا الہ الا اﷲ و ان محمدا عبدہ ورسولہ صدقا من قلبہ الا حرمہ اﷲ علی النار ۔
جس شخص نے اﷲ کی وحدانیت محمد کی رسالت و عبدیت کااقرار دل کی سچائی سے کرلیا تو اﷲ نے اسکو جہنم پر حرام کر دیا ہے (بخاری و مسلم)
ایک اور مقام پر فرمایا ہے :
من قال لا الہ الا اﷲ صادقا من قلبہ دخل الجنة (مسدد احمد )
جس نے سچے دل سے لا الہ الا اﷲ کہدیا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔
مگر جو شخص زبان سے اقرار کرتا ہے مگر دل سے کلمہ کے مطالب سے انکاری ہے تو زبانی اقرار کوئی نتیجہ مرتب نہیں کرتا جیسا کہ اﷲ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں ۔
نشھد انک لرسول اﷲ
ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں ۔
اﷲ نے فرمایا :
وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاﷲُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (منافقون:1)
اﷲ بھی گواہی دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اﷲ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں ۔
اسی طرح ایک اورآیت میں بھی اﷲ نے ایسے لوگوں کی تکذیب کی ہے ۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ (بقرہ:8)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔
6)اخلاص
مذکورہ تمام باتوں کو تسلیم کرنے میں اخلاص سے کام لے اخلاص کامطلب یہ ہے کہ عبادت خالصتاً اﷲ کے لئے ہو عبادات میں سے کسی بھی قسم کو اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لئے نہ بجالائے جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ (البینہ:5)
انہیں صرف یہی حکم دیاگیا ہے کہ اﷲ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے یکطرف ہوکر۔
اس طرح اخلاص کا معنی یہ بھی ہے کہ لا الہ الا اﷲ کااقرار کسی اور کی خاطر کسی اور کی خوشنودی کے لئے نہ ہو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے :
فان اﷲ حرم علی النار من قال لا الہ الا اﷲ یبتغی بذلک وجہ اﷲ ۔ (بخاری و مسلم)
اﷲ نے جہنم پر حرام کر دیا ہے اس شخص کو جو لا الہ الا اﷲ صرف اﷲ کی رضا مندی کے لئے کہتا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا :
اسعد الناس بشفاعتی یوم القیامة من قال لا الہ الا اﷲ خالصا مخلصا من قلبہ۔
قیامت کے دن میری شفاعت اس خوش نصیب کو حاصل ہوگی جس نے دل کے انتہائی اخلاص کے سا تھ لا الہ الااﷲ کہا۔ (بخاری)۔
7)محبت
مذکورہ تمام شرائط کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ اس کلمہ کے ساتھ دلی محبت رکھے اور اس محبت کا اظہار زبان سے بھی کرے ۔اﷲ کاارشاد ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اﷲِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ وَلَوْیَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اِنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا وَّ اِنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (البقرۃ165)
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے علاوہ معبود بناتے ہیں ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اﷲ سے کرنی چاہیئے اور جو ایمان والے ہیں وہ اﷲ سے شدید محبت رکھتے ہیں اگر ظالم لوگ دیکھ لیں۔ جب عذاب تو کہے گے کہ تمام قوت اﷲ کے پاس ہے اور اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے ۔
علامہ سلیمان بن سحمان رحمہ اﷲ کہتے ہیں دیگر مسائل سے قبل میں لا الہ الا اﷲ کا وہ معنی جو علماء نے بیان کیا ہے اور شیخ عبدالرحمن نے اس کلمہ کی جو شروط ذکر کی ہیں وہ بتلانا چاہتا ہوں یعنی کلمہ کا علم، عمل، اعتقاد کہ ان کے بغیر کوئی بھی شخص صحیح معنوں میں مسلمان نہیں کہلوا سکتا اسی طرح محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ کے بیان کردہ دس نواقض اسلام بھی بتلانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں یعنی کلمہ کا مکمل معنی اور اسلام کے نواقض ہی اصل بنیادی باتیں ہیں جن پر دیگر مسائل و احکام کا مدار ہے۔ (الدرر السنیۃ کتاب التوحید 2/349)
علامہ شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ کہتے ہیں مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ اکثر لوگ لا الہ الا اﷲ زبان سے تو کہتے ہیں مگر اس کے معنی و مفہوم سے ناواقف ہیں لہٰذاآپ سات باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھیں جو اس کلمہ سے متعلق ہیں اور ان کے بغیر کوئی مسلمان کفر و نفاق سے محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک کہ یہ سب باتیں اس میں نہ آجائیں اور پھر ان کے مطابق عمل نہ کر لے۔سات باتوں سے مراد ہے صدق دل سے کلمہ کا اقرار اس کلمہ کا علم اس پر عمل ۔اعتقاد ۔اطاعت ۔ قبول کرنا اور کلمہ سے محبت لہٰذااس کلمہ کے بارے میں ایسا علم ضروری ہے جو جہالت کو ختم کر دے ایسا اخلاص چاہیئے جو شرک کا خاتمہ کرے ایسا صدق ضروری ہے جو کذب کی نفی کرے اتنا یقین ہو کہ جو ہرقسم کے شکوک و شبہات کو دل سے نکال دے اس کلمہ کی محبت دل میں اتنی ہو کہ جو نفرت کو فنا کر دے اتنی سچائی سے اس کلمہ کو قبول کرے کہ رد کرنے کا شائبہ تک نہ رہے۔
منافقین کی طرح نہ رہے کہ زبان سے کہتے ہیں مگر دل میں یقین نہیں ہے مشرکین مکہ کی طرح بھی نہ بنے کہ کلمہ کا معنی و مفہوم تو سمجھتے تھے مگر اس کلمہ کو قبول نہیں کرتے تھے اس طرح اس کلمہ کے مطالب کی ایسی ا طاعت کرے جو اس کے تقاضوں اور حقوق کو پورا کرے جو کہ صحیح اسلام کے لئے لازم و ضروری ہے اب جو شخص ہماری بیان کردہ باتوں پر یقین کرے ان پر عمل کرلے تو وہ لا الہ الا اﷲ کے معانی و مطالب کو سمجھنے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرے گا اور پھر وہ دین پر عمل علی وجہ البصیرت کرے گا دین پر ثابت قدم رہے گا اور کبھی سیدھی راہ سے بھٹکے گا نہیں ۔انشاء اﷲ۔ (الدررا السینۃ کتاب التوحید 2/255)
برادران اسلام سب سے خطرناک ساتویں شرط محبت ہے اس شرط کے بارے میں سب سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ غور کریں اللہ کے کلام میں کس طرح محبت کی بنیاد پر نافرمانی سے بچنے کے لئے لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ متنبہ کررہے ہیں
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَاؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲَ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَاﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (التوبہ:24)۔
(اے محمد ﷺان سے) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، رشتہ دار، تمہارا کمایا ہوا مال، تجارت جس کے مندے کا تمہیں اندیشہ ہو، وہ گھر جسے تم پسند کرتے ہو (یہ سب) تمہیں اﷲ ، اس کے رسول ﷺ اور اﷲ کی راہ میں جہاد سے بڑھ کر پسند ہوں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا حکم بھیج دے۔ اﷲ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
 
Top