۔ ۔ ۔ نوٹ: ۔ ۔ ۔ اِن پیج سے یونی کوڈ میں کنورژن کے دوران احادیث کے تمام نمبرز الٹ گئے ہیں۔ لہٰذا ۱۲۳ کو ۳۲۱ پڑھا جائے۔ جیسے پہلی حدیث کا نمبر ۹۲۱ لکھا نظر آرہا ہے جو اصل میں ۱۲۹ ہے۔ ان شاء اللہ نمبرز کی ترتیب کو درست کرنے کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔
اللہ تبارک تعالیٰ
جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ یقیناََ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری:۹۲۱)۔ اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اس کا عرش پانی پر تھا لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا (بخاری: ۱۹۱۳)۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور مجھے جھٹلایا۔اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کابیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ موت کے بعد اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا (بخاری: ۳۹۱۳)۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کے بعد عرش پر موجود اپنی کتاب لوح محفوظ میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے (بخاری: ۴۹۱۳)۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی (بخاری: ۴۳۲۳)۔اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی مدح خود کی ہے (بخاری:۴۳۶۴؛ ۷۳۶۴)۔اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے (بخاری: ۰۲۲۵؛۳۰۴۷)۔اللہ سے زیادہ کوئی بھی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے(بخاری: ۰۲۲۵؛ ۲۲۲۵؛ ۳۰۴۷)۔ اللہ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب بندہ مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے (بخاری: ۳۲۲۵)۔اللہ نے اپنی ذات کے متعلق اپنی کتاب میں لکھا اور یہ اب بھی عرش پر لکھا ہوا ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے (بخاری: ۴۰۴۷)۔میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں یاد کر تا ہوں۔ جب وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں (بخاری: ۵۰۴۷)۔
اللہ ۔ اعلانِ عام
ہمارا پروردگار ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آکر یہ اعلان کرتا ہے: کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں۔ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں (بخاری:۵۴۱۱)۔
اللہ، بندہ ۔ حق
اللہ کا اپنے بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب بندے یہ کرلیں تو بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے (بخاری: ۰۰۵ ۶)۔
اللہ ۔ ملاقات
مقررہ دن تم میں سے ہرکوئی اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہوگا(بخاری: ۵۹۵۳)۔اللہ قیامت کے دن جب اپنی پنڈلی کھولے گا تو اس وقت ہر مومن اور مومنہ سجدہ میں گر پڑیں گے۔ جبکہ دنیا میں دکھاوے کے لیے سجدہ کرنے والوں کی پیٹھ تختہ ہوجائے گی اور وہ سجدہ نہ کرسکیں گے (بخاری: ۹۱۹۴)۔جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے(بخاری: ۷۰۵ ۶؛ ۸۰۵۶)۔جنت میں قوم اور اللہ کے دیدار کے درمیان صرف چادر کبریائی رکاوٹ ہوگی جو اللہ رب العزت کے منہ پر پڑی ہوگی رکاوٹ ہوگی (بخاری: ۴۴۴۷)۔تین طرح کے لوگوں سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا۔ ایک وہ تاجر جو اپنے مال کے بارے میں جھوٹی قسم کھائے کہ اسے اتنے میں خریدا ہے۔ دوسرا وہ جو جو کسی مسلمان کا مال ناحق غصب کرنے کے لیے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے اور تیسرا وہ جو ضرورت سے زائد پانی مانگنے والے کو نہ دے (بخاری: ۶۴۴۷)۔
اللہ ۔ رحمت، سایہ
کسی شخص کو صرف اس کا عمل نجات نہیں دلاسکے گا الا یہ کہ اللہ اسے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔(بخاری: ۳۶۴۶؛ ۷۶۴۶)۔اللہ نے تمام مخلوق کے لیے رحمت کا صرف ایک فیصد حصہ بھیجا ہے۔ پس اگر کافر کو وہ تمام رحم معلوم ہوجائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے ناامید نہ ہو۔ اور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہوجائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بے خوف نہ ہو (بخاری: ۹۶۴۶)۔ سات قسم کے لوگوں کو اللہ اُس دن اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا(۱)عادل حکمران (۲)جوانی میں رب کی عبادت کرنے والا (۳)جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے (۴) اللہ کے لئے باہم محبت رکھنے والا(۵)حسین عورت کے دعوت گناہ کو خوف خدا سے ٹھکرانے والا(۶)پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے والا(۷)تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے آنسو بہانے والا (بخاری:۰۶۶؛ ۳۲۴۱؛ ۶۰۸۶)۔اللہ کو یادمیں تنہائی میں، جس کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے تواسے اللہ اپنے سایہ میں پناہ دے گا (بخاری: ۹۷۴۶)۔
اللہ ۔ صبر
اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انہیں تندرستی اور رزق بھی دیتا ہے (بخاری: ۹۹۰۶)۔تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور پھر بھی اللہ انہیں معاف کرتا اور روزی دیتا ہے (بخاری: ۸۷۳۷)۔
اللہ ۔ قسم
خبر دار!اللہ تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ پس اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے (بخاری: ۹۷۶۲؛ ۶۳۸۳؛ ۸۰۱۶؛ ۶۴۶۶ تا ۸ ۴۶۶؛ ۱۰۴۷)۔ حضرت انس بن نضرؓ کی بہن نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑدئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص میں ان کے دانت توڑنے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلہ پر انس بن نضرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم میری بہن کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔ پھر مدعی نے قصاص چھوڑ کر تاوان لینے پر راضی ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کرتا ہے(بخاری:۳۰۷۲؛۶۰۸۲؛۱۱۶۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھانے والے کو سچا کرنے کا حکم فرمایا (بخاری: ۴۵۶۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بھی قسم کھاتے تھے: قسم ہے اس کی جو دلوں کا پھیرنے والا ہے (بخاری: ۱۹۳۷)۔
اللہ ۔ جھوٹی قسم
جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداََ کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے (بخاری: ۳۶۳۱)۔جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والے پر روز قیامت دردناک عذاب ہوگا (بخاری:۸۵۳۲؛ ۹۶۳۲)۔جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ناجائز طریقے پر حاصل کیا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا (بخاری:۹۵۶۶؛ ۶۷۶۶؛ ۷۷۶۶؛ ۶۵۳۲؛ ۷۵۳۲؛ ۹۶۳۲؛ ۶۱۴۲؛ ۷۱۴۲؛۳۸۱۷)۔
اللہ ۔ قسم، کفارہ
اللہ کی قسم! ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں کوئی قسم کھالوں اور بعد میں مجھ پرکوئی بہتر چیز واضح ہوجائے تو پھر میں وہی نہ کروں جو بہتر ہے۔ میں قسم توڑ کر بہتر کام کروں گا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کروں گا (بخاری: ۳۳۱۳؛۵۸۳۴؛۸۱۵۵؛ ۹۴۶۶)۔ جب قسم کے کفارہ کا حکم نازل ہوا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی قسم کے خلاف دوسری چیز بہتر معلوم ہوتی تو وہ اللہ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتے (بخاری: ۴۱۶۴)۔اپنے گھر والوں کے معاملہ میں اپنی کسی قسم پر اڑا رہنا، اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنے سے بڑا گناہ کرتا ہے (بخاری: ۵۲۶۶؛ ۶۲۶۶)۔ لات اور عزیٰ کی قسم کھانے والے کو تجدید ایمان کے لیے کہنا چاہئے: لا الہ الا اللہ (بخاری:۰۶۸۴)۔ اگر تم قسم کھالو اور پھر اس کے سوا کوئی اور بہتر بات نظر آئے توو ہی کرو جو بہتر ہو اور قسم کا کفارہ ادا کردو (بخاری: ۱۲۷۶؛ ۲۲۷۶)۔
اللہ ۔ صفاتی نام
اللہ کے نناوے (۹۹)نام ہیں۔ جو ان سب کو یاد رکھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا (بخاری:۶۳۷۲؛ ۰۱۴۶؛۲۹۳۷)۔
اُمت ۔ اُمتیں
ہم دنیا میں تمام اُمتوں کے بعد آنے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے۔(بخاری: ۶۷۸؛ ۶۹۸)۔ہم بعد میں آنے والے لوگ ہیں لیکن مرتبہ میں سبقت لے جانے والے ہیں (بخاری:۶۵۹۲)۔ہم آخری اُمت ہیں لیکن قیامت کے دن جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے (بخاری: ۴۲۶۶)۔ ہم آخری امت ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے رہنے والے ہیں (بخاری: ۷۸۸۶)۔ یہ اُمت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی۔ حتیٰ کہ جب اللہ کا حکم یعنی قیامت آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے (بخاری: ۶۱۱۳)۔میرے سامنے تمام اُمتیں لائی گئیں تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پر چھائی ہوئی ہے۔ مجھے بتلایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ موسیٰ ؑ ہیں (بخاری: ۰۱۴۳)۔تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کردئے جاتے تھے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے، اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔(بخاری: ۲۱۶۳؛ ۲۵۸۳)۔
اُمت محمدیؐ ۔ خصوصیت
میری اُمت کے لیے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں (بخاری: ۲۲۱۳)۔ میری امت میں سے ستّر ہزار کی ایک جماعت جنت میں ایک ہی وقت میں داخل ہوگی جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے (بخاری: ۷۴۲۳)۔مجھے اُمید ہے کہ تمام اہل جنت کے آدھے لوگ میری اُمت میں سے ہوں گے(بخاری: ۸۴۳۳)۔جنتیوں کی نصف آبادی میری اُمت پر مشتمل ہوگی۔ یہ سُن کر صحابہ ؓ نے تعرہ تکبیر بلند کیا (بخاری:۱۴۷۴)۔میری اُمت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب ہی رہیں گے یہاں تک کہ جب قیامت یا موت آئے گی تب بھی وہ غالب ہی ہوں گے(بخاری: ۰۴۶۳؛ ۱۱۳۷)۔ میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت پر قائم رہے گا۔ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی(بخاری: ۱۴۶۳؛ ۰۶۴۷)۔میری اُمت کو خیالات فاسدہ معاف ہے جب تک وہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے نہ ادا کرے (بخاری: ۸۲۵۲؛ ۹۶۲۵)۔ اللہ نے میری امت کی ان غلطیوں کو معاف کیا ہے جن کا صرف دل میں وسوسہ گزرے یا دل میں اسے کرنے کی خواہش پیدا ہو مگر اس کے مطابق نہ عمل کرے اور نہ کوئی بات کرے (بخاری: ۴۶۶۶)۔گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے سوامیری تمام اُمت کو معاف کردیا جائے گا (بخاری: ۹۶۰۶)۔ہر نبی کو ایک مقبول دعا حاصل ہوتی ہے۔میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے(بخاری: ۴۰۳۶؛ ۵۰۳۶؛ ۴۷۴۷)۔میری امت کے ستّر (۰۷) ہزار ایسے لوگ بے حساب کتاب جنت میں جائیں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں (بخاری: ۲۷۴۶)۔میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے افق کی طرف ایک زبر دست جماعت دکھائی اور فرمایا: یہ آپ کی امت ہے۔ اس کے آگے آگے جو ستّر (۰۷) ہزار کی تعداد ہے، ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے (بخاری: ۱۴۵ ۶؛ ۲۴۵۶)۔
اُمت محمدیؐ ۔ غیر جنتی
میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا گویا اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا (بخاری: ۰۸۲۷)۔
امت ۔ اسباب تباہی
اختلاف نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہوگئے(بخاری:۰۱۴۲)۔تم لوگ پہلی امتوں یعنی یہود و نصاریٰ کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کروگے یہاں تک کہ اگر وہ کسی ساہنہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے(بخاری: ۶۵۴۳)۔ میری اُمت میں ایسے بُرے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا، ریشمی لباس، شراب اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور امراء فقیروں کی ضرورت پورا کرنے کی بجائے انہیں ٹال دیا کریں گے۔ اللہ ان کی سرکشی کی وجہ سے انہیں ہلاک کردے گا اور بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سؤر کی صورتوں میں مسخ کردے گا (بخاری: ۰۹۵۵)۔ تم سے پہلے کی امتیں غیر ضروری سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔(بخاری: ۸۸۲۷)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت اگلی امتوں یعنی پارسی اور رومیوں کے مطابق نہیں ہوجائے گی۔(بخاری: ۹۱۳۷)۔تم اپنے سے پہلی امتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی ایک ایک بات میں اتباع کروگے(بخاری: ۰۲۳۷)۔مسیلمہ اپنے حامیوں کے ساتھ مدینہ میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اگر تونے اسلام سے پیٹھ پھیرا تو اللہ تجھے ہلاک کردے گا (بخاری: ۱۶۴۷)۔
انسان ۔ پیدائش
تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس چالیس دنوں کے تین مرحلوں (یعنی ایک سو بیس دنوں یا چار ماہ) میں ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ اس بچہ کا عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور نیک ہے یا بد لکھ لیتاہے، تب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے۔ (بخاری: ۸۰۲۳؛۲۳۳۳؛۴۹۵ ۶؛ ۵۹۵۶؛ ۴۵۴۷)۔ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ تم بھی اس سے محبت رکھو۔ پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو یہ بات بتلاکر کہتے ہیں کہ تم سب لوگ اس سے محبت رکھو۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں (بخاری: ۹۰۲۳)۔مرد و زن کے ملاپ کے وقت اگرمرد کی منی پہل کرجاتی ہے تو بچہ مرد کی شکل و صورت پر اور اگر عورت کی منی پہل کرجائے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے (بخاری: ۹۲۳۳)۔اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم کے لیے ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے۔ پھر جب اللہ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے رب! یہ مرد ہے یا عورت؟ یہ بد ہے یا نیک؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی مدت زندگی کتنی ہے؟ چنانچہ یہ تمام تفاصیل اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں (بخاری: ۳۳۳۳)۔عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر کوئی اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار اسے توڑ کے رہے گا اور اگر اسے یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو (بخاری: ۱۳۳۳)۔اللہ جب مخلوق کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہوکر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ نے رحم سے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے، میں بھی اسے توڑوں۔ رحم نے عرض کیا: ہاں میرے رب! اللہ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا (بخاری:۰۳۸۴)۔ جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے تو اس نے خرچ کرنے میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے۔پھر اس نے لوح محفوظ میں ہرچیز لکھ دی۔ اللہ کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ اٹھاتا جھکاتا رہتا ہے (بخاری: ۱۱۴۷؛ ۸۱۴۷؛ ۹۱۴۷)۔اللہ نے جب مخلوق پیدا کی تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے بڑھ کر ہے (بخاری: ۲۲۴۷؛ ۳۵۴۷)۔
اوامر و نواہی ۔ نیکی و ثواب
سب سے افضل عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، اس کے بعد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اوراس کے بعد حج مبرور ہے۔ (بخاری:۶۲)چار باتوں کا حکم:۱۔ شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۲۔ نماز قائم کرنا ۳۔ زکوٰۃ دینا ۴۔ مالِ غنیمت میں پانچواں حصہ ادا کرنا (بخاری:۳۲۵)۔ انسان کے اہل خانہ، مال، اولاد اور پڑوسی سب فتنہ یعنی آزمائش کی چیزیں ہیں اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی باتوں کا حکم اور بُری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں (بخاری:۵۲۵)۔اللہ کے نزدیک محبوب اعمال:۱۔ وقت پر نماز پڑھنا ۲۔والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا ۳۔اللہ کی راہ میں جہاد کرنا(بخاری:۷۲۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وہ نیک کام پسند تھا، جو ہمیشہ کیا جائے (بخاری:۲۳۱۱)۔سات کام کرنے کا حکم: جنازہ کے ساتھ چلنا، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، قسم پوری کرنے، سلام کا جواب دینے اور چھینک پر یر حمک اللہ کہنے کا حکم ہے(بخاری:۹۳۲۱؛ ۰۴۲۱؛ ۵۴۴۲؛۵۷۱۵؛ ۵۳۶۵؛ ۰۵۶۵)۔ جنت میں لے جانے والے اعمال: اللہ کی عبادت کرو۔ اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔رمضان کے روزے رکھو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو (بخاری:۶۹۳۱؛ ۷۹۳۱)۔چار باتوں کا حکم:اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ (بخاری: ۸۹۳۱)۔ دین کے کاموں میں افضل کام وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے(بخاری:۲۸۷۲)۔ اپنے وطن واپس جانے والے دو صحابیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت: ہر نماز کے وقت اذان پکارنا اور اقامت کہنا۔ اور تم دونوں میں جو بڑا ہو وہ نماز پڑھائے (بخاری:۸۴۸۲)۔ قبیلہ عبد القیس کے مسلمانوں کے وفد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس بات پر ایمان لاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو اور مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) اللہ کے لیے نکالو۔ آپؐ نے انہیں دبا، نقیر، حنتم اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا (بخاری:۵۹۰۳؛ ۲۹۴۳؛ ۰۱۵۳)۔ جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی اور ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ اس کا بدلہ پائے گا (بخاری: ۶۴۶۳)۔ تم سات سمندر پار بھی عمل کرو تو اللہ تمہارے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا (بخاری:۳۲۹۳)۔ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ اس کے لیے ایک نیکی لکھ ی جاتی ہے۔ اور جس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس بھی زیادہ تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد عمل بھی کرلیا تو اس کے لیے صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے (بخاری: ۱۹۴۶)۔ جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو۔ اور جب کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ، جس حد تک تم میں طاقت ہو (بخاری: ۸۸۲۷)۔
اوامر و نواہی ۔ برائی، گناہ
سات چیزوں یعنی چاندی کے برتن، سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیباج کپڑے، قسی اور استبرق سے منع کیا گیا ہے (بخاری:۹۳۲۱ ؛ ۰۴۲۱)۔ پانچ باتوں کی ممانعت: کدو کے تونبی، سبز رنگ کے مرتبان حنتم، کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا برتن فقیر اور بصرہ کے زفت تیل لگا ہوا برتن استعمال کرنا(بخاری:۸۹۳۱)۔ اللہ نے تم پروالدین کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، واجب حقوق کی ادائیگی نہ کرنا اور دوسروں کا مال ناجائز طریقہ سے دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ فضول بکواس کرنے، کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے (بخاری:۸۰۴۲)۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں (بخاری:۳۵۶۲؛ ۴۵۶۲)۔سات گناہوں سے بچو: (۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (۲)جادو کرنا (۳) ناحق کسی کی جان لینا (۴) سود کھانا(۵) یتیم کا مال کھانا(۶) لڑائی سے بھاگ جانا(۷) پاک دامن ایمان والیوں پر تہمت لگانا (بخاری:۶۶۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبیلہ عبد القیس کو کدو کے تونبے، کریدی ہوئی لکڑی کے برتن، سبز لاکی برتن اور روغنی برتن میں کھجور بھگو کر نبیذ مشروب بنانے سے منع فرمایا (بخاری:۸۶۳۴؛ ۹۶۳۴)۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد بھوک کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اور پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا بڑے گناہ ہیں (بخاری: ۷۷۴۴؛ ۱۶۷۴؛ ۱۱۸۶؛ ۱۶۸۶؛۱۰۰۶؛ ۰۲۵۷؛ ۲۳۵۷)۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے (بخاری:۷۹۴۴)۔