• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے؟

محمد شاھد

مبتدی
شمولیت
جولائی 01، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے؟

1) ان عیوب کی تفصیل جو قربانی سے مانع ہے.
2) اور ان عیوب کی تفصیل جو قربانی سے مانع نہیں ہے.

✍ حافظ محمد شاھد.

قربانی کے لئے بہیمۃ الانعام یعنی اونٹ،گائے، بھیڑ، وبکری کاہو نا شرط ہے۔(دیکھئے سورۃالانعام:آیت:۱۴۲،۱۴۳،۱۴۴) اسی طرح قربانی کے جانوروں کا مسنہ(یعنی دودانتا) ہو نا شرط ہے۔ مسنہ جانور اس کو کہتے ہیں جس کے اگلے دو (دودھ کے) دانت گرگئے ہو اور اگر دوندے جانوردستیاب ہوں تو قربانی کیلئے دودانتیں جانور کا انتخاب لازم ہے۔ ہاں مجبوری کی حالت میں (یعنی مسنہ جانور مارکیٹ میں نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہیں ہے تو) ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کیا جاسکتا ہے۔لیکن یاد رہے یہ صرف مجبوری کی حالت میں ہے اور اس میں بھی صرف بھیڑ کی جنس کا جزعہ قربانی میں کفایت کریگا، بکری وغیرہ کی جنس کا جزعہ کفایت نہیں کریگا۔(دیکھیے:صحیح مسلم:۱۹۶۳،نسخہ دارالسلام:۵۰۸۲)

قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اسی لیے صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیے۔اور ان عیوب کو جاننا ہمارے لیے ضروری ہے جن سے قربانی نہیں ہوتی۔
جس طرح تقویٰ اور خالص رضائے الٰہی قربانی کی قبولیت کی اہم شرط ہے، اسی طرح جانور کا ان عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے جسے نبی کریم ﷺ نے قربانی کی قبولیت میں مانع قرار دیا ہے۔

1) ان عیوب کی تفصیل جن کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہوتی درج ذیل ہے:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أربع لا تجوز في الأضاحي:العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والكسير التي لا تنقى.»
‘‘چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:
1.ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ۔
2.ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔
3.ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
4.انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔’’
(سنن ابوداود:۲۸۰۲،سنن نسائی:۴۳۷۴،سنن ترمذی:۱۴۹۷،سنن ابن ماجہ:۳۱۴۴،صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۲،المنتقی لابن الجارود:۴۸۱،۹۰۷،صحیح ابن حبان:۱۰۴۶،سنن دارمی:۱۹۹۲،مسند احمد:۱۸۵۱۰)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۹۱۲)،امام ابن حبان (۱۰۴۶،۱۰۴۷) اور امام ابن الجارود (۹۰۷) نے صحیح کہا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ھذا حدیث حسن صحیح" یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(سنن ترمذی:۱۴۹۷)
امام حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں:" ھذا حدیث صحیح" یہ حدیث صحیح ہے۔(مستدرک حاکم:۱۷۱۸)۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(ارواءالغلیل:۴؍۳۶۰:۱۱۴۸)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: "إسنادہ صحیح" (سنن ابوداود بتحقیق زبیر علی زئی:۲۸۰۲)

مذکورہ عیوب اور ان سے قبیح ترین عیوب میں مبتلا جانور کی قربانی جائز نہیں۔ جیسے اندھا اور ٹانگ کٹا جانور۔
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: ۶۷۶هـ) نے کہا:
«أجمعوا على أن العمياء لا تجزئ.»
اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔(المجموع شرح المہذب:۸؍۴۰۴)

آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں:
جري بن كليب رحمہ اللہ (ثقہ تابعی ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا انھونے فرمایا: « نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن قال قتادة فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب فقال العضب ما بلغ النصف فما فوق ذلك.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس «أعضب القرن والأذن» ( سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: «عضب»سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو۔ (سنن ترمذی:۱۵۰۴،سنن ابو داود:۲۸۰۵،سنن ابن ماجہ:۳۱۴۵، سنن نسائی:۴۳۸۲،صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۳،مستدرک حاکم:۴؍۲۲۴،ح۷۵۳۰، الأحاديث المختارة: ج۱ ص۲۳۶ح۴۰۷)

یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راوی جری بن کلیب کو مجہول کہا ہے، امام ابو حاتم نے اس راوی کو ناقابل احتجاج قرار دیا ہے(الجرح والتعدیل:۲؍۵۲۷)۔ لیکن جری بن کلیب صدوق اور حسن الحدیث راوی ہے،تفصیل درج ذیل ہے:

✓ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۳)
✓ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا: "هذا حديث صحيح الإسناد"۔ (مستدرک حاکم:۴؍۲۲۴،ح۷۵۳۰)
✓ حافظ ضیاءالمقدسی رحمہ اللہ (المتوفی:٦٤٣ھ) نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (الأحادیث المختارة ج٢ ص٢٩-٣٠ ح٤٠٧-٤٠٨)
✓ امام ترمذی کہتے ہیں: "هذا حديث حسن صحيح"۔(سنن ترمذی:۱۵۰۴)
✓ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے جری بن کلیب کو کتاب الثقات (۴؍۱۱۷) میں ذکر کیا ہے ۔
✓ امام ابو الحسن عجلی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۱ھ) نے لکھا: "جرى بن كليب بصرى تابعي ثقة"۔( معرفة الثقات: ج۱ ص۲۶۷)

خلاصہ یہ ہے کہ جری بن کلیب حسن الحدیث راوی ہے، اور مذکورہ تفصیل سے ان کی جہالت ختم ہوگئی۔لہذا انھے مجہول یا ناقابل احتجاج قرار دینا درست نہیں ہے۔

تنبیہ:امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی اس تشریح سے پتہ چلتا ہے کے معمولی ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی جائز ہے مگر نصف (آدھا) یا اس سے زیادہ سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اور یاد رہے کہ پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ ہونا قربانی سے مانع نہیں۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۲۵۰ھ) مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهَا لَا تُجْزِئُ التَّضْحِيَةُ بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ وَهُوَ مَا ذَهَبَ نِصْفُ قَرْنِهِ أَوْ أُذُنِهِ.»
‘‘یہ حدیث دلیل ہے کہ سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے اور (أعضب القرن والأذن: سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) وہ ہیں جن کا نصف سینگ یا نصف کان ضائع ہوچکا ہو۔’’ (نیل الأوطار من أسرار منتقی الأخبار :۵؍۱۳۸)

مزید لکھتے ہیں:
«فَالظَّاهِرُ أَنَّ مَكْسُورَةَ الْقَرْنِ لَا تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ بِهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الذَّاهِبُ مِنْ الْقَرْنِ مِقْدَارًا يَسِيرًا بِحَيْثُ لَا يُقَالُ لَهَا: عَضْبَاءُ لِأَجْلِهِ، أَوْ يَكُونُ دُونَ النِّصْفِ،۔۔۔۔وَكَذَلِكَ لَا تُجْزِئُ التَّضْحِيَةُ بِأَعْضَبِ الْأُذُنِ وَهُوَ مَا صَدَقَ عَلَيْهِ اسْمُ الْعَضْبِ لُغَةً أَوْ شَرْعًا.»
راجح موقف یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سینگ والے کی قربانی جائز نہیں۔مگر جس کی سینگ تھوڑی ٹوٹی ہو یا نصف مقدار سے کم ٹوٹی ہو تو اسے عضباء (یعنی نصف یا نصف سے زیادہ مقدار میں سینگ ٹوٹا ہوا) نہیں کہا جائے گا (بلکہ اس کی قربانی جائز ہوگی)۔۔۔۔۔ اور اسی طرح اس جانور کی قربانی بھی جائز نہیں جس کے کان نصف یا نصف سے زائد کٹے ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لغوی اور شرعی اعتبار سے سچ فرمایا ہے. (نیل الأوطار:۵؍۱۳۸)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نستشرف العين والأذن» "ہمیں رسولﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور میں)آنکھ اور کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ ان میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہ ہو)۔" (سنن نسائی:۴۳۸۱،سنن ابن ماجہ،۳۱۴۳،سنن ترمذی:۱۵۰۳،صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۴، و صححہ الترمذی، وابن خزیمہ:۲۹۱۴، و ابن حبان،الاحسان:۵۸۹۰،والحاکم ۴؍۲۲۵،والذہبی)

ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ درج ذیل عیوب والے جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
1.ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ۔
2.ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔
3.ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
4.انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
5. جس کا سینگ نصف یا نصف سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
6. جس کا کان نصف یا نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
7. مذکورہ عیوب سے قبیح ترین عیوب میں مبتلا جانور جیسے اندھا اور ٹانگ کٹا جانور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2) قربانی کے جانور میں معمولی نقص معاف ہے:
مذکورہ عیوب اور ان سے شدید تر عیوب کے علاوہ دیگر عیوب جیسے معمولی نقص یا غیر ظاہر عیوب میں مبتلا جانوروں کی قربانی جائز ہے۔
امام امیر صنعانی (المتوفی:۱۱۸۲ھ) کہتے ہیں:
«وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ هَذِهِ الْأَرْبَعَةَ الْعُيُوبِ مَانِعَةٌ مِنْ صِحَّةِ التَّضْحِيَةِ وَسَكَتَ عَنْ غَيْرِهَا مِنْ الْعُيُوبِ، فَذَهَبَ أَهْلُ الظَّاهِرِ إلَى أَنَّهُ لَا عَيْبَ غَيْرُ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ، وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إلَى أَنَّهُ يُقَاسُ عَلَيْهَا غَيْرُهَا مِمَّا كَانَ أَشَدَّ مِنْهَا أَوْ مُسَاوِيًا لَهَا كَالْعَمْيَاءِ وَمَقْطُوعَةِ السَّاقِ.»
‘‘یہ حدیث دلیل ہے کہ مذکورہ عیوب قربانی سے مانع ہیں اور ان عیوب کے علاوہ دیگر عیوب سے سکوت اختیار کیا گیا، چنانچہ اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ ان چار عیوب کے سوا کوئی بھی عیب قربانی کے جواز سے مانع نہیں لیکن جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مذکورہ عیوب سے شدید تر عیوب اور ان جیسے دیگر عیوب مثلاً قربانی کے جانور کا اندھا ہونا اور ٹانگ کا کٹا ہونا جیسے عیوب وغیرہ کا بھی مذکورہ عیوب پر قیاس کیا جائے گا۔’’ (سبل السلام:۲؍۵۳۵)

امام قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام سعید بن مسیب (مشہور تابعی) سے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں) اس «أعضب القرن والأذن» ( سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا: ((العضب ما بلغ النصف فما فوق ذلك)) ‘‘«عضب»سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو۔ (سنن ترمذی:۱۵۰۴،وقال:حسن صحیح، سنن نسائی:۴۳۸۲)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی، جس میں نبیﷺ نے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے جانوروں کی قربانی سے منع کیا۔اس حدیث کی تشریح میں امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے اس قول سے پتا چلتا ہے جس جانور کا سینگ نصف یا نصف سے زیادہ ٹوٹا ہو اور اسی طرح اتنی مقدار میں کان کٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔لیکن معمولی ٹوٹے ہوئے سینگ یا جس پر رگڑ یا چوٹ کے نشانات ہو یا آدھی سے کم سینگ کا ٹوٹنا ایسا عیب نہیں جو قربانی سے مانع ہو۔ یعنی ایسے جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے اور اسی طرح کان پر چوٹ یا تھوڑا سا کان کٹا ہو،ایسے جانور کی قربانی بھی جائز ہے۔واللہ اعلم!

امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۸ ھ) نے فرمایا:
«وفيه دليل على أن العيب الخفيف في الضحايا معفو عنه.»
اس حدیث (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) میں یہ دلیل ہے کہ قربانی (والے جانور) میں معمولی نقص معاف ہے۔ (معالم السنن :۲؍۱۹۹، تحت ح ۶۸۳)

شیخ الاسلام امام ابن خزیمہ النیسابوری (متوفی:۳۱۱ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«باب النهي عن ذبح ذات النقص في العيون والآذان في الهدي والضحايا نهي ندب وإرشاد؛ إذ صحيح العينين والأذنين أفضل لا أن النقص إذا لم يكن عورا بينا غير مجزئ، ولا أن ناقص الأذنين غير مجزئ.»
"حج اور عید کی قربانی میں آنکھوں اور کانوں میں نقص والے جانور ذبح نہ کرنا نہی تنزیہی ہے، یہ مطلب نہیں کہ آنکھ اور کان میں (معمولی) نقص والا جانور بھی قربان کرنا منع ہے۔"(صحیح ابن خزیمہ،قبل حدیث ۲۹۱۴)

دانت میں نقص ہونا:
احادیث میں ان عیوب کی تفصیل بتلا دی گئی ہے جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہوتی۔لہذا ان عیوب یا ان سے بھی شدید عیوب مثلاً اندھا جانور، ٹانگ کٹا جانور وغیرہ کے علاوہ دیگر عیوب میں مبتلا جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے۔دانت کا ٹوٹنا، دانت کا زخمی ہونا یا سرے سے دانت ہی نہ ہونا ایسا عیب نہیں جو قربانی سے مانع ہو۔

عبید بن فیروز (تابعی) نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ (صحابی) سے کہا: «فإني أكره أن يكون في السن نقص.» مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو۔
انھوں نے فرمایا: «ما كرهت فدعه ولا تحرمه على أحد» ‘‘تمھیں جو چیز بُری لگے اسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔’’ (سنن ابوداود:۲۸۰۲،سنن نسائی:۴۳۷۴،وسندہ صحیح)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے اس شاندار قول سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ کسی جانور کے دانت میں نقص ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہو یا کوئی اور معمولی نقص ہو جیسے سینگ باہر سے کچھ ٹوٹا ہوا ہو یا تھوڑا سا کان کٹا ہوا ہو،یا دم کچھ ٹوٹی ہوئی ہو یا زخم لگا ہو،یا جانور کا گونگا اور بہرا ہونا یا دیگر وہ عیوب جن کی بابت شریعت خاموش ہے جیسے جانور کا رنگ بھدا ہونا، جانور کا قد چھوٹا ہونا وغیرہ تو ان کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ہاں اگر یہ عیوب والے جانور کسی کو ناپسند ہو تو ان عیوب سے پاک جانور کا انتخاب کرلیں۔پر دوسروں کے لیے ان عیوب والے جانور کی قربانی کو ناجائز یا حرام مت کہیں۔کیونکہ شریعت نے ان عیوب پر کوئی حکم نہیں لگایا۔

خصی جانور کی قربانی کا حکم:
خصی جانور کی قربانی جائز ہے اور جانور کا خصی ہونا قربانی میں عیب نہیں ہے۔سلف صالحین میں سے بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنا مکروہ سمجھتے تھے اور بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنے کی رخصت دیتے تھے۔نبی کریمﷺ سے جانور کو خصی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔اس بارے میں تمام روایات ضعف سے خالی نہیں ہے۔ان روایات کا ضعف جاننے کے لیے اور خصی جانور کی قربانی کے جواز پر دلائل دیکھنے کے لیے شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا مضمون ‘‘جانور کو خصی کرنے کی شرعی حیثیت’’ اور شیخ فاروق رفیع حفظہ اللہ کی کتاب قربانی، عقیقہ اور عشرہ ذی الحجہ ص:۸۸۔۹۰ کا مطالعہ کریں۔

حاملہ جانور کی قربانی:
حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے اور اس کے پیٹ کا مردہ بچہ حلال ہے۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۸ھ) نے اس پر اجماع نقل کیا ہے:
«وأجمعوا علي أن الجنين اذا خرج حياً، أن ذكاته بذكاة امه.»
کہ ذبیحہ کے پیٹ سے بچہ مردہ برآمد ہو تو اُس کی ماں کی قربانی اس کے لیے کافی ہوگی۔(دیکھیے:کتاب الاجماع ، باب الضحایا والذبائح ،ص۵۲،مترجم ابو القاسم عبدالعظیم )

مزید ارشاد نبویﷺ ملاحظہ ہو:جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺنے فرمایا: «ذكاة الجنين ذكاة أمه» ‘‘بچے کا ذبح کرنا اس کی ماں کو ذبح کرنے میں ہے(یعنی ماں کا ذبح کرنا پیٹ کے بچے کے ذبح کو کافی ہے)۔’’ (سنن ابوداود:۲۸۲۸، صحیح ابن حبان:۵۸۸۹،علامہ البانی نے اسے صحیح اور شیخ زبیر علی زئی نے حسن کہا ہے۔)
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
48
nce information
 
Last edited by a moderator:

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
جنابِ اعلیٰ @محمد شاھد صاحب، بہت عمدہ مضمون ہے لیکن اس میں ایک بہت ہی اہم مثلے پر بحث نہیں ملی یعنی خصی جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ (دھرمِ) جماعت مسلمین کے اندر ایسا کہا جاتا ہے کی خصی کرنا تخلیق میں تبدیلی کرنے کے مترادف ہے لہٰذا حرام عمل ہے اور ایسا جانور قربانی کے لئے جائز نہیں۔
 
Top