السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته
الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے اندرونی جسم کا معائنہ کرنے کی غرض سے خاتون کی شرم گاہ میں مشین کا ایک آلہ داخل کیا جاتا ہے. کیا اس سے خاتون پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(1) شرمگاہ میں اگر شرمگاہ کے علاوہ کوئی اور چیز داخل کی جائے تو وضوء واجب ہوگا ؛
(2) اور اگر ایسا کرنے سے منی نکل آئے تو غسل واجب ہوگا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی شق کی دلیل درج ذیل ہے ؛
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، أنه سمع عروة، يقول: دخلت على مروان بن الحكم فذكرنا ما يكون منه الوضوء، فقال مروان: ومن مس الذكر؟ فقال عروة: ما علمت ذلك، فقال مروان: أخبرتني بسرة بنت صفوان، أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من مس ذكره فليتوضأ»
مؤطا امام مالکؒ ح58 ،سنن ابی داود 181 ،سنن الترمذی ح82 ،وقال هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ،سنن النسائی 163،سنن ابن ماجہ ،سنن الدارمی )
ترجمہ : جناب عروہ ؒبن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا ، وہاں یہ موضوع چھڑ گیا کہ کس کس چیز سے وضو لازم آتا ہے ؟ مروان نے کہا کہ شرمگاہ کو چھونے سے بھی ( وضو لازم آتا ہے ؟ ) سیدناعروہؒ کہتے ہیں : میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ مروان نے کہا کہ مجھے بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے بتایا ، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ” جو کوئی اپنے ذکر کو ہاتھ لگائے اسے چاہیئے کہ وضو کرے ۔ “
اور عورت کی شرمگاہ کا بھی یہی حکم ہے ؛
عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ مَسَّ فَرْجَهُ، فَلْيَتَوَضَّأْ»
(سنن ابن ماجہ حدیث 481 ،مسند اسحاق بن راہویہ 2070، شرح معانی الآثار 450 ، مسند ابی یعلیٰ 7144 ،سنن کبری بیہقی 626 )وقال الالبانی صحیح لغیرہ )
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے ،اسے چاہیئے کہ وضوء کرے (کیونکہ اس کا وضوء ٹوٹ گیا ہے )
صحیح ابن حبان میں سیدنا ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
عن المقبري عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا أفضى أحدكم بيده إلى فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب، فليتوضأ"
یعنی نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : تم میں کسی ہاتھ اس کی شرم گاہ کو لگے ،اور (ہاتھ اور شرم گاہ کے ) درمیان میں کوئی ستر و حجاب نہ ہو ،یعنی ہاتھ براہ راست شرم گاہ کو مس کرے ،تو اسے چاہیئے کہ وضوء کرے "
اور یاد رہے :
قال ابن قدامه رحمه الله :
فعلى رواية النقض – أي : نقض الوضوء بمس الفرج - : لا فرق بين ذكره وذكر غيره ، ولا فرق بين ذكر الصغير والكبير . انتهى بتصرف من " المغني " (1/118)
مشہور محدث اور فقیہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شرمگاہ پر ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹنے کے شرعی حکم کے مطابق اپنے آلہ تناسل یا کسی کے آلہ تناسل اور چھوٹے بڑے شخص میں کوئی فرق نہیں ہوگا" کچھ تبدیلی کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔" المغنی " (1/118)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حتی کہ اگر بچے کی شرمگاہ کو بھی چھوا تو وضوء ٹوٹ جائے گا ؛
سعودی عرب کے جید علماء پر مشتمل دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا:
اپنے چھوٹے بچے کے کپڑے بدلتے ہوئے اسکی شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو کیا اس سے میرا وضو ٹوٹ جائے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
السوال: هل لمس عورة صغيري أثناء تغيير ملابسه ينقض وضوئي؟
الجواب: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه. . وبعد: لمس العورة بدون حائل ينقض الوضوء سواء كان الملموس صغيرا أو كبيرا. لما ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من مس فرجه فليتوضأ (سنن النسائي الغسل والتيمم (444) ، سنن أبو داود الطهارة (181) .) » . وفرج الممسوس مثل فرج الماس.
ترجمہ :
حمد و صلاۃ کے بعد واضح ہو کہ :
براہِ راست شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کسی چھوٹے بچے کی شرمگاہ ہو یا بڑے کی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے اپنی شرمگاہ پر ہاتھ لگایا تو وہ وضو کرے) اور اپنی یا کسی کی شرمگاہ دونوں ایک ہی حکم رکھتی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " (5/ 265)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(2) اور اگر منی خارج ہو ، چاہے جماع کے بغیر نکلے تو غسل فرض ہوگا ؛
اس بارے میں "الموسوعة الفقهية" (31/195) میں ہے کہ:
" اتّفق الفقهاء على أنّ خروج المنيّ من موجبات الغسل ، بل نقل النّوويّ الإجماع على ذلك ، ولا فرق في ذلك بين الرّجل والمرأة في النّوم أو اليقظة ، والأصل في ذلك حديث أبي سعيد الخدريّ رضي الله تعالى عنه أنّ النّبيّ صلى الله عليه وسلم قال : ( إنّما الماء من الماء ) رواه مسلم (343) ، ومعناه - كما حكاه النّوويّ - يجب الغسل بالماء من إنزال الماء الدّافق وهو المنيّ " انتهى
الموسوعة الفقهية (31/195) :
ترجمہ :
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ منی کے نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے، بلکہ مشہور محدث علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے، اور اس میں مرد یا عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، ایسے ہی منی بیداری میں خارج ہو یا نیند میں اس کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں ، اس موقف کیلئے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً پانی سے پانی (غسل )ہے) اسے مسلم (343) نے روایت کیا ہے اور اس کا مطلب جیسے کہ نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے یہ ہے : پانی سے غسل اس وقت واجب ہوتا ہے جب اچھل کر پانی یعنی منی خارج ہو"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ