• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کورونا وائرس سے احتیاط اور احادیثِ نبویہﷺ کی رہنمائی

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کورونا وائرس سے احتیاط اور احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس Covid-19تاریخ انسانی کی مہلک اور وسیع ترین وبا کی حیثیت رکھتا ہے۔ 175 ممالک میں اڑھائی کروڑ سے زائدمتاثرین میں سے آٹھ لاکھ انسان اس وائرس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں جن میں ترقی اور صحت کے عالمی معیار کے بلند بانگ دعوے کرنیوالے ممالک سرفہرست ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر ہر ملک میں کئی مہینوں پر محیط لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے جس سے وسیع پیمانے پر عالمی سفروسیاحت، صنعت و تجارت ، عالمی معیشت اور ملازمتوں کا ٹریلنوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔معلوم تاریخ میں عالمی سطح پر اتنی ہلاکتوں، معاشی بحران، اور ویرانی کی کوئی مثال نہیں ملتی!!
سائنسی ترقی اور طبّی تحقیقات کے بلندبانگ دعوے کرنے والا انسان اس حقیر وائرس کے سامنے بےبس نظر آتا ہے۔ انسانی وجود میں اس کا علاج تو موجود ہے جو مضبوط مدافعت کی صورت میں اس وائرس کو بے اثر کردیتا ہے، جبکہ سائنسی ماہرین اس صحت یاب انسان سے حاصل شدہ پلازما کی قدرتی ویکسین سے دیگر انسانوں کے علاج میں کوشاں تو ہیں، لیکن اللّٰہ کی عظمت کے منکر ہیں۔ وائرس کی شدت کی نوعیت یہ ہے کہ
یہ بعض صورتوں میں جان لیوا اورمہلک ہے۔ اس کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اور اس کے پھیلنے کے لامحدود امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کا وائرس ہر سطح پر بآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ ایسا اَن دیکھا ننھا وائرس ہے جس کی ہلاکت خیزی کا علم اس وقت ہوتا ہے جب اس سے بچنے کے امکانات مشکل تر ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کی علامتیں بھی ضروری نہیں کہ ہر مریض میں لازما ًپائی جائیں ، بلکہ بعض اوقات واضح علامتوں کے بغیر بھی بعض مریض اس کا شکار بن سکتے ہیں۔ ایک بار آجانے کے بعد کسی شہر میں دوبارہ شدید لہر آنے کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا ہے۔
طبی ماہرین کا تجویز کردہ لاک ڈاؤن ،سماجی فاصلہ یا مسلسل سطح اور ہاتھوں کو دھوتے رہنا بھی اس کا کوئی علاج نہیں، بلکہ یہ سب ایک نادیدہ وائرس کے سامنے محض ایک احتیاطی تدبیر ہے کہ جب اس کی پہچان ہی کوئی نہیں تو اپنے آپ کو بند کرکے، اس وائرس کو پھیلنے سے ممکنہ طور پر روکا جائے ۔اور اگر یہ وائرس کسی شخص میں منتقل ہوجائے تو پھر نہ صرف چند دنوں میں اس سے سب ملنے والوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے بلکہ اس کی شدت ،سنگینی او رنقصان بھی تمام تر اللّٰہ جل جلالہ کے فیصلے پر ہی موقوف ہے۔ حتی کہ مرض سے متاثرہ علاقے کو باقی دنیا سے کاٹ دینے کے باوجود بھی اس کی کلی روک تھام نہیں ہوسکی ۔آٹھ ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک انسانی زندگی معمول پر نہیں آسکی اور ہردم ہلاکت وبربادی کا خوف منڈلا رہا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلامی تعلیمات میں ہر دور اور ہر مسئلہ کی رہنمائی موجود ہے، کیونکہ اللّٰہ کی یہ ہدایت رہتی دنیا کے لئے کافی وشافی ہے۔ یہ رہنمائی ہر شخص اپنے علم اور مشاہدے سے رحمتِ الٰہی کے مطابق حاصل کرتا ہے۔دورِ جدید کے اس خطرناک وائرس کے بارے میں بھی احادیثِ نبویہﷺ سے بہت سی رہنمائی ملتی ہے ۔ اور مسلمانوں کو زندگی کے ہر مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت کا علم رکھنے والے علماے کرام سے ہی رہنمائی لینی چاہیے:
﴿وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ(النساء: 83)
’’
اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر اُن تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً پھیلا دیتے ہیں ۔ حالانکہ اگر وہ اسے رسولﷺ یا مستند علما ے کرام تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح استدلال کرسکتے ۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیع اس آیت کی تفسیر میں ’معارف القرآن ‘ میں لکھتے ہیں:

’’حضرت حسن، قتادہ اور ابن ابی لیلی رحمہم اللّٰہ کے نزدیک اُولی الامر سے علما اور فقہا مراد ہیں۔ حضرت سدی فرماتے ہیں کہ اُمرا اور حکام مراد ہیں۔ ابوبکر جصاص ان دونوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ دونوں مراد ہیں، اس لئے کہ ’اُولی الامر ‘کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے۔‘‘
بعض علماے کرام صرف توکل واعتماد کی تلقین کرتے ہیں تو ڈاکٹرز اور عالمی اداروں کی ہم نوائی میں حکومتیں صرف اسباب واحتیاط پر زور دیتی ہیں۔ کورونا مریض کے بارے میں قرآن وسنت کی رو سے توکل اوراحتیاط کے مابین توازن اور درست توجیہ کیا ہے؟ غیرمعمولی احتیاط سے کونسے شرعی احکام متاثر ہوتے ہیں؟ مساجد کو کلیۃً بند کیا جاسکتا ہے یا یہاں مخصوص شرائط عائد کی جاسکتی ہیں؟ ان مخصوص شرائط کے احکام کیا ہیں؟ مرض کی سنگینی میں مسلمانوں کے احتیاط نہ کرنےکی صورت میں مسلم حکومت کس حد تک پابندی عائد کرسکتی ہے...؟
یہ تمام مسائل شرعی حیثیت رکھتے ہیں، اوران کے بارے میں معاشرے میں پائی جانے والی افراط وتفریط میں مذکورہ آیتِ کریمہ کی رو سے قرآن وسنت اور علماے کرام سے رہنمائی لینا از بس ضروری ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اوّل: اللّٰہ کے فیصلوں پر کلّی توکل واعتماد اور مرض کا متعدی ہونا
پہلے توکل کے بارے میں قرآن کریم کی عمومی آیات اور مرض کے متعدی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں احادیثِ مبارکہ سے رہنمائی ملاحظہ کریں:
a اللّٰہ تعالیٰ پر توکل واعتماد کا بنیادی عقیدہ قرآن کریم میں جابجا بیان ہوا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۰۰۳
’’ اور جو شخص اللّٰہ پر توکل کرے تو وہ اسے کافی ہے، اللّٰہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ بلاشبہ اللّٰہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ (الطّلاق:3)
b قرآن کریم میں یہ عقیدہ کئی آیات میں بار بار بیان ہوا ہے:
﴿قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۵۱ (التوبۃ: 51)
’’آپ ان سے کہیے : ہمیں اگر کوئی مصیبت آئے گی تو وہی آئے گی جو اللّٰہ نے ہمارے مقدر کر رکھی ہے، وہی ہمارا سرپرست ہے اور مؤمنوں کو اللّٰہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘
c ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں تقدیر میں لکھی جاچکی ہے، اور انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ اسباب پر بے جا انحصار کرکے، موت سے بھاگنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے یوں وعید سنائی :
﴿ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ (آل عمران: 154)
’’آپ ان سے کہیے کہ : اگر تم لوگ اپنے گھروں میں رہتے تب بھی جن لوگوں کے لیے مرنا مقدر ہوچکا تھا، وہ یقیناً اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔‘‘
d آپ اپنے صحابہ کرام﷢ کو گاہے بگاہے، اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس پرتوکل کا مکرر درس دیا کرتے، جیساکہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس﷜ کو آپ نے نصیحت فرمائی:
«يَا غُلَامُ! إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ، قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ».[1]
’’اے لڑکے! بے شک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللّٰہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، اللّٰہ کے حقوق کا خیال رکھو تواسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللّٰہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللّٰہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللّٰہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللّٰہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔‘‘
e اسی طرح جب ہجرتِ مدینہ کے سفر میں غار ثور کے باہر کافر پہنچ گئے اورسیدنا ابوبکر صدیق فکر مند ہوگئے، تو ایسے سخت وقت میں نبی مکرمﷺ نے کس طرح اللّٰہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی حفاظت کا درس دیا:
﴿اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا (التوبۃ: 40)
اور وہ ﷺاپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے :’’غم نہ کرو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘پھر اللّٰہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور ایسے لشکروں سے انکی مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے ۔‘‘
f جب سیدنا لوط﷤ نے ظاہری اسباب کی کمی کا شکوہ کیا تو اگلی آیات میں سیدنا شعیب﷤ کی زبانی اللّٰہ تعالیٰ نے اس دعوے کی یوں اصلاح فرمادی:
﴿قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ۰۰۸۰ (هود: 80)
’’سیدنا لوط﷤ نے کہا : کاش ! میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا۔‘‘
مولانا کیلانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’اگر میرا بھی یہاں مضبوط قبیلہ یا برادری ہوتی تو شاید میں ایسا بےبس اور مجبور نہ ہوتا۔‘‘
پھر سیدنا شعیب﷤ کو جب اُن کی قوم نے یہی طعنہ دیا تو اُنہوں نے یوں توکل کا اظہار کیا:
﴿وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا وَلَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١ٞ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ۰۰۹۱ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَهْطِيْۤ اَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ۠ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِيًّا١ؕ اِنَّ رَبِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۰۰۹۲
’’تم ہمارے درمیان ایک کمزور سے آدمی ہو اور اگر تمہاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمہیں سنگسار کردیتے اور تم ایسے نہیں جس کا ہم پر کوئی دباؤ ہو۔ شعیب﷤ نے کہا: اے قوم! کیا تم پر میری برادری کا دباؤ اللّٰہ سے زیادہ ہے جسے تم نے بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو میرا پروردگار یقیناً اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘ (ہود: 92)
[1] جامع الترمذي: أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ فَضلِ كُلِّي قَرِيبِ هَيِّنِ سَهلِ)، رقم 2516
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
متعدی امراض کے بارے میں براہِ راست احادیث سے رہنمائی
a امراض کے متعدی نہ ہونے کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ﷜ سے مروی ارشادِ نبوی ہے:
«لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ.»[1]
چھوت لگنا، بد شگونی لینا، اُلّو کا منحوس ہونا، ماہ صفر کے بارے میں بد اعتقادی؛ یہ سب لغو خیالات ہیں۔ البتہ کوڑھی آدمی سے اس طرح بھاگ جیسے تو شیر سے دور بھاگتا ہے۔
مولانا عبد الستار الحماد﷾ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ بیماری، اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللّٰہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔ اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللّٰہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ،ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں: یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔‘‘
b بدشگونی اور بیماری کے متعدی ہونے کی نفی پر سیدنا ابوہریرہ﷜ سے مروی یہ فرمانِ نبوی بھی ہے:
«أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ: النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَى، أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ، مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ؟، وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا».[2]
’’میری اُمت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ اُنہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا،حسب ونسب میں طعنہ زنی،اوربیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کاعقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہناکہ ایک اونٹ کوکھجلی ہوئی اور اس نے سواونٹ میں کھجلی پھیلادی تو آخر پہلے اونٹ کوکھجلی کیسے لگی؟ اور ستاروں کا عقیدہ رکھنا۔مثلاًفلاں اورفلاں نچھتر(ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی۔‘‘
c جب اونٹوں کے بارے میں کسی نے دوسرے سے مرض لگنے کا دعویٰ کیا تو نبی کریمؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
فَقَالَ: «لَا يُعْدِي شَيْءٌ شَيْئًا.» فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الْبَعِيرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَةُ بِذَنَبِهِ فَتَجْرَبُ الْإِبِلُ كُلُّهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ، لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ. خَلَقَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ وَكَتَبَ حَيَاتَهَا وَرِزْقَهَا وَمَصَائِبَهَا».[3]
’’فرمایا: کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے ہرنفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی ، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔‘‘

[1] ‌ صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ الجُذَامِ)، رقم 5707
[2] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْحِ)، رقم 1001
[3] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْقَدَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ لاَ عَدْوَى وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ)، رقم 2143، صحیح لغیرہ
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توکل اور اسباب ؛ ایک تقابلی تجزیہ
قرآن کریم میں توکل واعتماد کے مکرر تذکروں کےساتھ امراض کے متعدی نہ ہونےکے بارے میں احادیثِ نبویہ میں واضح رہنمائی موجود ہے جس بارے میں علما ے کرام میں کئی موقف[1] پائے جاتے ہیں:
a حافظ ابو عمرو ابن صلاح شہروزی (م 643ھ)وغیرہ نے ’مرض کے متعدی ہونے کی نفی‘ اور ’کوڑھی سے دور بھاگنے‘ کے دو فرامین نبوی میں تطبیق[2] یوں دی ہے کہ
ووجْه الجمع بينهما: أن هذه الأمراضَ لا تُعْدِي بطبعها، لكنّ الله سبحانه وتعالىٰ جعلَ مخالَطَةَ المريضِ بها للصحيح سببًا لإعدائه مَرَضَه، ثم قد يتخلف ذلك عن سببه كما في غيره من الأسباب. كذا جمع بينهما ابن الصلاح، تَبَعاً لغيره.[3]
’’دونوں میں مطابقت پیدا کرنے کی صورت یہ ہے کہ امراض بذاتہٖ تو متعدی نہیں ہوتے، بلکہ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے مریض سے میل جول کو تندرست شخص میں مرض کے منتقل ہونے کا سبب بنایا ہے۔پھر دیگر اسباب کی طرح ، بعض اوقات اس شخص پر (حکم الٰہی سے )سبب مؤثر نہیں ہوتا۔
حافظ ابن صلاح نے دیگر علما کی اتباع میں یوں احادیث کو جمع کیا ہے۔ ‘‘
b ان دونوں احادیث میں مطابقت کا ایک اورموقف ملا علی قاری ہروی (م 1040ھ)نے بھی ذکر کیا ہے:
وَقد يُقَال: [الْجمع بَينهمَا] بِأَن النَّفْي للاعتقاد، والأمرَ بالفرار للْفِعْل، كَمَا نَهى ﷺ عَن الدُّخُول فِي بلدِ الطَّاعُون مَعَ أَن المعتقد أنْ لَا تَأْثِير لغير الله تَعَالَىٰ.[4]
’’ان دونوں احادیث کو جمع کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرض کے متعدی ہونے کی نفی تو عقیدہ کی بنا پر ہے جبکہ متعدی سے دور بھاگنے کا حکم ایک عملی رویّہ ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے اس عقیدہ کے باوجود کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مرض کو مؤثر کرنے پر قادر نہیں، اس امر سے روکا ہے کہ طاعون والے شہر میں مت جاؤ۔‘‘
یہاں دو احادیث کے ظاہری اختلاف میں دو طرح سے مطابقت کی گئی ہے: پہلی یہ کہ جس طرح مادّی اسباب خود مؤثر نہیں ہوتے ، اسی طرح كوئی مرض بھی از خود دوسرے کو نہیں لگتا بلکہ ہمارا مضبوط عقیدہ یہی ہونا چاہیے کہ دراصل کوئی مرض صرف اللّٰہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہی لاحق ہوتا ہے۔ اور دوسری مطابقت وتوجیہ یہ ہے کہ پہلے حکم کا تعلق عقیدہ سے ہے جبکہ دوسری کا عملی رویہ[5] ہے۔
چنانچہ آغاز میں ذکر کردہ احادیث میں بتایا گیا ہے کہ اسباب اور امراض کے از خود متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا، نہ صرف غلط ہے بلکہ بہت سے توہمانہ مسائل کو جنم دیتا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ پہلے شخص کو آخر جس کے حکم سے بیماری لگی، باقی افراد کو بھی اسی بنیاد پر مرض لاحق ہوا۔ گویا ان آیات و احادیث میں اللّٰہ عزوجل پر توکل کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اسباب اورعلاج سے پہلے، انسانی د ل ودماغ جب تک اطمینان اورحوصلہ میں نہ ہوں، اس وقت تک جسمانی مدافعت بھی کارگر نہیں ہوتی اور عقائد کی مضبوطی ہی انسانی دفاع میں بنیادی اور اصلی کردار ادا کرتی ہے۔

c مذکورہ بالا دونوں مطابقتوں کے علاوہ ایک تطبیق حافظ ابن حجر نے پیش کی ہے اور ان کا استدلال لَا عَدْوَى کے نبوی لفظ سے ہے جو 7 اور 9 نمبر احادیث میں دوبار مذکور ہے۔ ایسے ہی فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَکے سوال کے ساتھ نبی کریمﷺ نے اس دعوے کو مزید مؤکد کردیا ہے جو 8 اور 9 نمبر احادیث میں ہے۔پھر آپﷺ کے فیصلہ کن الفاظ بھی ہیں : «لا يُعْدِي شيءٌ شَيئًا»...چنانچہ حافظ کہتے ہیں:
والأَولى في الجمع أنْ يُقال: إنَّ نَفْيَه ﷺ للعدوى باقٍ على عُمومه، وقد صحّ قولُهُ ﷺ : «لا يُعْدِي شيءٌ شَيئًا»، وقولُهُ ﷺ لمن عارضه بأن البعيرَ الأجربَ يكون في الإبل الصحيحة فيخالِطها فتَجْربُ، حيث رَدَّ عليه بقوله: «فَمَنْ أَعْدَى الأول؟!». يعني أن الله سبحانه وتعالى ابتدأ بذلك في الثاني كما ابتدأه في الأول. وأما الأمر بالفرار من المجذوم فمِن بابِ سدِّ الذرائع، لئلاّ يتفق للشخص الذي يخالِطه شيء من ذلك بتقدير الله تعالى ابتداءً، لا بالعدوى المنفية؛ فَيَظُنّ أنّ ذلك بسببِ مخالطته؛ فَيَعْتَقِدَ صحةَ العدْوى؛ فيقعَ في الحرجِ؛ فأَمر بتجنبه حَسْماً للمادة.[6]
’’جمع کرتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ نبی کریمﷺ نے امراض کے متعدی ہونے کا جو انکار کیا ہے، وہ اپنی جگہ ؍عموم پرقائم ہے کیونکہ آپ کا یہ صحیح فرمان ہے کہ ’’کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ ‘‘ اور آپﷺ نے اس شخص...جس نے آپ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ خارشی اونٹ، تندرست اونٹوں میں مل کر ان کو بھی بیمار کردے گا... کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پھر پہلے کو کس نے متاثر کیا تھا؟آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ (متعدی سبب کی بجائے )اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہی دوسرے میں اس بیماری کو شروع کیا ، جیسا کہ پہلے میں آغاز کیا تھا۔ البتہ کوڑھی سے دور بھاگنے کے حکم کی وجہ (حقیقی اثرات کی بجائے) اس خرابی کا راستہ بند کرنا ہے کہ دوسرا میل جول کرنے والا شخص بیماری کے آغاز میں یکجا ہونے پر ، پہلے پر اس کا الزام عائد نہ کردے اور متعدی ہونے کا اعتقاد نہ رکھ لے، حالانکہ دونوں میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہی مرض آیا ہے ، مرض کے متعدی ہونے کے انکار شدہ نظریے کی بنا پر نہیں ۔اس طرح لوگوں میں اُلجھنیں پیدا ہوں گی۔ تو اس پریشانی کے خاتمےکے لئے نبی کریمﷺ نے مریض سے میل ملاقات کو روک دیا۔ ‘‘ واللّٰہ اعلم
فرق یہ ہوا کہ ابن صلاح تو سبب کی بنا پر بیماری کے متعدی ہونے کو تسلیم کر رہے ہیں تاہم سبب کے بذاتہٖ مؤثر ہونے کی بجائے ، اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے (قضا وقدر) کی طرف کرتے ہیں، جبکہ ابن حجر تین واضح فرامین نبویہ کی بنا پر بیماری کے متعدی ہونے کے نظریے کے سرے سے ہی قائل نہیں ، اور کوڑھی سے دور بھاگنے کو محض ایک اضافی حکمت اور نبوی مصلحت قرار دے رہے ہیں تاکہ معاشرے میں اُلجھنیں نہ پھیلیں۔
پہلے اور تیسرے موقف میں فرق کا نتیجہ عملی طور پر یہ نکلتا ہے کہ بقول حافظ ابن حجر: جب اصلاً ہی کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا تو راسخ الاعتقاد لوگوں کو مریض سے میل ملاقات کرلینے میں کوئی حرج نہیں ۔جبکہ بقول حافظ ابن صلاح : امراض میں تعدی کا امکان جب حکم الٰہی کی بنا پر موجود ہے تو متعدی امراض والوں سے دور رہنا شرعی حکم ہے، تاہم ایسے مرض کے لگنے کو مریض کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ تطبیق وتوجیہ میں اس فرق کا اثر شروحِ حدیث اور علما وفقہا کے اقوال میں بھی نظر آتا ہے۔ اور اگلے صفحات میں مذکور احتیاط کے نبوی احکام کو بعض علماے کرام حقیقت کی بجائے صرف اعتقادی کمزوری اور حکمت ومصلحت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔

d دورِ حاضر کے بعض علما نے حافظ ابن صلاح کے موقف کو زیادہ ترجیح دی ہے، چنانچہ نزهة النظرکے شارح طیبہ یونیورسٹی کےاُستاذ ڈاکٹر عبد اللّٰہ روحیلی حافظ ابن حجر کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بل هذا الجمع لا يصح أن يُفسَّر به حديث رسول الله ﷺ، فضلاً أن يكون هو الأَولى. والمعنى الظاهر في حديثٍ، لا يصح أن يُتْرَك إلا لحديثٍ آخر. قوله: "من ذلك بتقدير الله ابتداءً، لا بالعدوى المنفية". هذا ليس بسديد. ويُقال فيه: ومَن قال: إنَّ تقدير الله تعالى منافٍ للعدوى أو أنّ العدوى منافية لقدَرِ الله؟ !... وقوله:"فيظن أن ذلك بسبب مخالطته". هذا هو الواقع أنه بسبب المخالطة، وهو في الوقت نفسه بقدر الله، فلماذا إقامة هذا التعارض بينهما؟ ! وبأيّ دليل؟ ![7]
’’ ابن حجر والی تطبیق کے ساتھ حدیث رسول کی تفسیر کرنا درست ہی نہیں چہ جائیکہ اسے راجح بھی قرار دیا جائے۔ اور حدیث کے ظاہری معانی کو کسی دوسری حدیث کے بغیر ترک کرنا درست نہیں ۔ ابن حجرکا یہ قول کہ "دوسرے کی بیماری آغاز سے ہی اللّٰہ کے حکم سے لگی ہے، انکار شدہ متعدی امر کی بنا پر نہیں"درست نہیں ۔ کوئی اس پر یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ کیا اللّٰہ سبحانہ کی تقدیر مرض کے متعدی ہونے کے منافی ہوسکتی ہے، یا مرض کا متعدی ہونا اللّٰہ کی تقدیر کے منافی ہوسکتاہے؟!... نیز ابن حجر کا یہ کہنا کہ "یہ گمان کیا جائے گا کہ میل جول کی بنا پر یہ مرض لگا ہے۔" حالانکہ یہی واقعاتی بات ہے کہ میل جول سے مرض لگتا ہےاور وہ اسی وقت اللّٰہ کی تقدیر بھی ہوتا ہےتو پھر دونوں میں تعارض کیسے اور کس دلیل سے قائم کیا ہے۔ ‘‘
e حافظ ابن صلاح کی تطبیق پر دمشق یونیورسٹی کے اُستاذِ حدیث شیخ نور الدین عتر کہتے ہیں کہ
جواب ابن الصلاح أقوٰى، وهو أنسب لتفسير الأمر باجتناب المخالطة. وقيل لاعدوى خبر أريد به النهي أي لا يُعد أحد غيره.[8]
’’ابن الصلاح کا جواب زیادہ مضبوط ہے اور مریض وتندرست کے مابین میل جول کو روکنے کی یہی زیادہ بہتر تشریح ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ فرمان نبوی: "کوئی مرض متعدی نہیں۔" دراصل خبر کی بجائے حکم ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو بیماری نہ لگائے۔‘‘
f شیخ محمد صالح العثیمین  نے بھی تطبیق دیتے ہوئے حافظ ابن صلاح کے موقف کو اختیار کیا ہے، لکھتے ہیں:
" يجب على ولي الأمر أن يعزل الجذماء عن الأصحاء، أي حجر صحي، ولا بد، ولا يعد هذا ظلماً لهم، بل هذا يعد من باب اتقاء شرهم؛ لأن النبي ﷺ قال: «فرَّ من المجذوم فرارك من الأسد»."
وظاهر هذا الحديث يعارض قوله ﷺ: «لا عدوى ولا طِيَرة». ولا شك في هٰذا؛ لأنه إذا انتفت العدوى فماذا يضرّنا إذا كان المجذوم بيننا، ولكن العلماء رحمهم الله أجابوا بأن العدوى التي نفاها الرسول ﷺ إنما هي العدوٰى التي يعتقدها أهل الجاهلية، وأنها تعدي ولا بدّ، ولهذا لما قال الأعرابي: يا رسول الله! كيف يكون لا عدوى والإبل في الرمل كأنها الظباء، ـ يعني ليس فيها أي شيء ـ يأتيها الجمل الأجرب فتجرب؟! فقال النبي ﷺ: «مَنْ أعدى الأول»؟ والجواب: أن الذي جعل فيه الجرب هو الله، إذًا فالعدوى التي انتقلت من الأجرب إلىٰ الصحيحات كان بأمر الله عزّ وجل، فالكل بأمر الله تبارك وتعالىٰ. وأما قوله ﷺ: «فر من المجذوم» فهذا أمر بالبعد عن أسباب العطب؛ لأن الشريعة الإسلامية تمنع أن يلقي الإنسان بنفسه إلى التهلكة.[9]
’’حاکم کو چاہیے کہ کوڑھیوں کو تندرستوں سے دور رکھے، یعنی صحت کے لئے دوری۔ یہ ضروری ہے اور ظلم نہیں کہلائے گی، بلکہ اس کو ان کے شرسے بچاؤ سمجھا جائے گا، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے: کوڑھی سے ایسے دور بھاگو جیسے شیر سے بچتے ہو۔‘‘یہ فرمانِ نبویﷺ بظاہر «لاعدوٰى ولاطِيَرة»کے مخالف ہےاور بلاشبہ ایسے ہی ہے کیونکہ جب نبی کریمﷺ نے امراض کے متعدی ہونے کی نفی کر دی تو پھر ہمیں کوڑھی کے اپنے درمیان ہونے کا کیا نقصان ہے؟ لیکن علماے کرام نے اس کا جواب دیا ہے کہ نبی کریم نے (ہر متعدی کی بجائے) یہاں اہل جاہلیہ کے عقیدۂ تعدیہ کی نفی كی ہے۔اور امراض متعدی ہوتے ہیں، اس کو مانے بنا چارہ نہیں۔ اسی بنا پر جب دیہاتی نے اعتراض کیا کہ یارسول اللہ! متعدی کیسے نہیں ہوتے حالانکہ اونٹ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں اور اُنہیں ایک خارشی اونٹ آکر بیمار کردیتا ہے۔تو نبی کریم نے پوچھا تھا کہ پہلے کو کس نے بیماری لگائی؟ جس کا جواب یہ ہے کہ بیماری کو اللہ نے ان میں ڈالا۔ چنانچہ وہ متعدی بیماری جو خارشی سے صحیح اونٹوں کو لگی ، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لگی،سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ غرض نبی کریمﷺ کا فرمان «فرّ من المجذوم»انسانوں کو اسبابِ ہلاکت سے دور کرنے کے لئے ہے کیونکہ شریعتِ اسلامیہ انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکتی ہے۔ ‘‘
[1] حافظ ابن حجر  نے فتح الباری :10؍ 159 تا 163 میں اس حوالے سے تما م اقوال اور ان کے دلائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔
[2] مقدمة ابن الصلاح في علوم الحدیث: ص 284؛ اور امام نووی لکھتے ہیں:
وجه الجمع أن الامراض لا تعدی بطبعها و لکن جعل الله سبحانه وتعالى مخالطتها سببا للاعداء فنفی في الحدیث الأول ما یعقتده الجاهلية من العدوی بطبعها وأرشد في الثانی إلىٰ مجانبة ما یحصل عنده الضرر عادة بقضاء الله وقدره . (شرح مسلم از نووی:1؍35)
[3] نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر للحافظ ابن حجر: ص 91، طبع 1429ھ
[4] شرح نخبۃ الفکراز ملا علی قاری: ص 369، دار ارقم، بیروت
[5] مرض کے متعدی نہ ہونے کا حکم اعتقادی ہے، اور نبی کریمﷺ کا متعدی امراض میں عملی رویّہ آگے مذکوراحادیث میں آپ کے فرمان اور عمل سے ثابت ہورہا ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ عقیدہ وعمل کے دو رخ نہیں ہوسکتے،حالانکہ سیدنا یعقوب ﷤ نے عقیدہ توکل کے باوجود برادرانِ یوسف کو اکٹھے عزیز مصر کے دربار میں داخل ہونے سے روکا۔ (یوسف:67) نبی کریمﷺ نے توکل کے باوجود مدینہ سے ہجرت کی اور مشرکین سے غزوات کئے۔ اور مرگی ودیگر بیماریوں میں توکل کی فضیلت ذکر کرنے کے باوجود علاج کو بھی مناسب قرار دیا۔گویا عقیدہ توکل کے مفہوم میں ہی جائز اسباب کو اختیار کرنا بھی شامل ہے، اور یہ توکل کے منافی نہیں،جیسا کہ آگے شیخ ابن تیمیہ کا موقف بھی آرہا ہے۔
[6] نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر للحافظ ابن حجر: ص 92، 1429ھ
[7] نزهة النظرفي توضيح نخبة الفكر،تحقیق: ڈاکٹر عبد اللہ روحیلی:ص92،طبع دوم1429ھ
[8] نزهة النظرفي توضيح نخبة الفكر، تحقیق: نور الدين عتر:ص 77،مکتبۃ البشری ،کراچی 1437ھ
[9] الشرح الممتع علیٰ زاد المستقنع از شیخ ابن عثیمین:11؍121،دار ابن الجوزی، 1422ھ
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حاصل بحث اور نتیجہ
مذکورہ بالا بحث بیماری کے ازخود متعدی ہونے یا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے، یا سرے سے متعدی ہی نہ ہونے کے گرد گھومتی ہے۔ دورِ حاضر کی طبّی تحقیقات بھی حافظ ابن صلاح کی توجیہ کے قریب تر ہیں جس میں دونوں طرح کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ کے عملی اقدامات سے بھی انہی کی تائید ہوتی ہے، اگلے صفحہ پر مذکور سیدنا عمرؓ کی تطبیق اور اقدام بھی اسی کے مطابق ہے، جبکہ توکل واعتماد کی ظاہری تعریف اور بعض احادیث کے اکیلے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، جب تک ان کے ساتھ دوسری احادیث کو ملایا نہ جائے۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ان مختلف مواقف سے مسلمانوں کے عملی رویّہ اور نتیجہ میں بہت زیادہ فرق نہیں آتا کیونکہ عقیدۂ توکل کے ساتھ نبی کریمﷺ نے علاج بھی کیا اور دوائیں لیں، کوڑھی مریض سے عملاً فاصلہ رکھا، اور متاثرہ شہر میں آمد ورفت سے رکنے کے احکام دیے ۔ اس بنا پر مختلف توجیہات میں علمی اختلاف کی بنا پر جو شخص نبی کریمﷺ کی بیان کردہ عملی احتیاط کی مخالفت کرے، وہ بہرحال درست موقف پر نہیں کیونکہ مختلف توجیہات کے باوجود عمل اور نتیجہ بھی صحیح احادیث نبویہ سے ہی واضح ہے جو آگے آرہی ہیں۔
راجح بات یہی ہے کہ عقیدہ توکل کے مفہوم میں عملی احتیاطوں اور طبّی تدابیر کی احادیثِ نبویہﷺ بھی شامل ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دوم: وبائی علاقے میں جانے اور وہاں سے نکلنے کی ممانعت
بیماری کے سلسلے میں شریعتِ اسلامیہ ہمیں عملاً پوری احتیاط کی تلقین کرتی ہے، چنانچہ جس علاقے میں بیماری بڑے پیمانے پر پھیل جائے ، اس کی طرف سفر کرنا اور وہاں سے نکلنا دونوں ہی ناجائز ہیں۔
a سیدنا اُسامہ بن زید ﷜سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
«الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ. فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ. وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ».[1]
" طاعون(اللّٰہ کی بھیجی ہو ئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرا ئیل پر بھیجا گیا یا (فرما یا :)تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا۔ جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لو گ (مو جو د) ہو تو تم اس سے بھا گ کر وہاں سے مت نکلو۔‘‘
b سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس﷜ سے مروی ہے کہ
سیدنا عمرؓ بن خطاب شام کی طرف جب نکلے تو
سرغ مقام پر ان کو عساکرِ اسلام کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح﷜ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملے اور بتایا کہ شام کے علاقے میں وبا پھوٹ پڑی ہے۔ تو سیدنا عمر﷜ نے اوّلین مہاجرین کو مشورے کے لئے بلالیا ۔بعض نے کہا کہ جس نیک کام کے لئے آپ نکل پڑے ہیں، اس سے واپس نہ ہوں، جبکہ دوسروں نے وبائی علاقے سے دور رہنے اور صحابہ کرا م﷢ کو محفوظ رکھنے کا مشورہ دیا۔ پھر آپ نے انصاریوں کو بلایا، اُنہوں نے بھی اوّلین مہاجرین جیسا ہی مشورہ دیا۔ پھر آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے والے قریشیوں کو طلب کیا، ان سب کا متفقہ موقف یہ تھا کہ
نرٰى أن ترجع بالناس ولا تقدّمُهم على هذا الوباء، فنادى عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ في الناس: إني مصبح على ظَهر فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة بن الجراح رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أفرارًا من قدر اللهِ! فقال عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة! وكان عمر يكره خلافه؛ نعم، نفرّ من قدر الله إلىٰ قدر الله؛ أرأيت لو كان لك إبل، فهبطت واديًا له عدوتان: إحداهما خصبة والأخرى جدبة. أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله.[2]
’’ہمارا موقف ہے کہ آپ لوگوں کو لے کرواپس چلے جائیں اور ان کو اس وبا کے سامنے نہ کریں ۔ چنانچہ سیدنا عمر﷜ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں سواری پر واپس نکلنے والا ہوں ، سولوگ بھی آپ کے ساتھ واپس ہولیے۔ تب ابو عبیدہ بن جراح بولے: کیا آپ اللّٰہ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ توسیدنا عمر نے جواب دیا: ابو عبیدہ!کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا۔ دراصل سیدنا عمرؓ ان کی مخالفت کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔پھربولے: ہاں ! اللّٰہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جاتا ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگرآپ کے پاس اونٹ ہوں، اور وہ ایسی وادی میں جاپہنچیں جس کے دو جانبی راستے ہوں: ایک سرسبز اور دوسرا قحط زدہ۔ اگر آپ ان کو سرسبز وادی میں لے گئے تو آپ نے اللّٰہ کی تقدیر کے مطابق ایسے کیا اور اگر انہیں ویران وادی میں لے گئے تو یہ بھی اللّٰہ کی تقدیر کے مطابق ہوا۔ ‘‘
اسی دوران سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف﷜ آن پہنچے جو کسی مصروفیت کی وجہ سے کہیں گئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نبی کریمﷺ کی واضح رہنمائی میرے پاس موجود ہے جو میں نے خود سنی ہے۔ پھر انہوں نے اوپر مذکور(سیدنا اُسامہ ؓبن زید والا) فرما ن نبوی ﷺسنایا۔اس کے باوجود تاریخ کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ طاعونِ عمواس (18ھ)کے اس واقعے میں شام میں مصروفِ جہاد 35 ہزار مجاہدین میں سے صرف چھے ہزار زندہ بچے اور شہداے طاعون کی تعداد 25 ، 26ہزار سے کم نہ تھی۔[3]
c طاعونِ عمواس میں سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح ،پھر سیدنا معاذؓ بن جبل عساکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے، اور دونوں ہی اس وبا سے شہید ہوگئے۔ دونوں کے بعد سیدنا عمرو بن العاص ﷢ امیر مقرر ہوئے، تو لوگوں کو خطاب میں یہ ہدایت کی:
" أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ، فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ "... فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو فَوَاللهِ مَا كَرِهَهُ.[4]
’’اے لوگو! یہ بیماری جب سے آئی ہے، یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ تم پہاڑوں پر چڑھ ؍ داخل ہوکر اس سے احتیاط کرو۔ جب یہ ہدایت سیدنا عمر ﷜ کو پہنچی تو اُنہوں نے اس کو ناپسند نہ کیا۔ ‘‘
ان احادیث وآثار میں ایسے علاقے سے نکلنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے جہاں بڑے پیمانے پر بیماری پھیل چکی ہو۔ ان احادیث کا تعلق احتیاط کے عملی رویے سے ہے کہ تقدیر پر انحصار کربیٹھنے کی بجائے عملی طور پر بچاؤ کی کوشش بھی کرنا چاہیے اور عملی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔اور وَبا زدہ علاقے میں موجود لوگوں کے نہ نکلنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جو لوگ وبا سے متاثر ہیں وہ اس کو باہر نہ پھیلائیں اور اندر متاثرہ مریضوں کا احتیاط کے ساتھ علاج کرنا بھی ممکن ہوسکے ۔

ïدنیا میں اس وقت کورونا وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ نبی کریم ﷺ کی اس ہدایت کو نظرانداز کرنا ہے۔ جب ہدایتِ نبوی یہ ہے کہ مرض سے متاثرہ علاقے سے کوئی شخص بھی مت نکلے تو آپ نے ہر شخص کے لئے اس کو ممنوع قرار دیا اور کسی وطن سے تعلق یا نظریہ سے وابستگی کی بنا پر لوگوں کو نکلنے سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ جبکہ دورِ حاضر میں ہر حکومت اپنے شہریوں کو متاثرہ علاقوں سے اکٹھا کرکے اپنے ممالک میں لانے کی فکر میں ہے۔ یہ وہ حکومتی ذمہ داری ہے جسے نیشنل ازم (وطنیت) پر مبنی جدید ریاستی نظام نے اختیار کررکھا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر چین یا یورپ میں پھیلنے والا مرض پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ہوائی سفر کی آسانی کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار کوئی وبا اتنے بڑے پیمانے پر پھیلی ہے۔ پاکستان میں بھی سوا لاکھ پاکستانیوں کو دنیا بھر سے بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے واپس بلایا گیا ہے ۔ شرعی تعلیمات کو نظر انداز کرنے والا یہی مادی رویّہ اور مغربی نظریہ دنیا بھر میں اس وبائی مرض کو سب سے زیادہ پھیلانے کی حقیقی وجہ ہے...!!
چونکہ متاثرہ علاقوں سے زیادہ نقل وحرکت کی بنا پر وبائی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے،اس لئے دنیا بھر میں کورونا کے مرض نے سب سے زیادہ یورپ میں تباہی پھیلائی ہے، اور یورپ دنیا کے انہی ممالک پر مشتمل ہے جہاں دنیا بھر کے مسافر وں کی سب سے زیادہ آمد ورفت ہوتی ہے۔ یورپی ممالک مثلاً لندن ، پیرس اور اٹلی وغیرہ بین الاقوامی مسافروں کے مرکزی پلیٹ فارم
Hubکی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی صورتحال امریکی شہر نیویارک کی بھی ہے جہاں پورے امریکہ میں سب سے زیادہ وائرس پھیلا ۔جبکہ برصغیر کے ممالک میں جہاں سیاحوں اور غیر ملکی شہریوں کی آمد ورفت کم ہے، وہاں یہ مرض بھی اتنا ہلاکت خیز ثابت نہیں ہوا۔
ï اس فرمانِ نبوی کے تناظر میں سعودی حکومت کا حرمین شریفین کو عالمی زائرین کے لئے محدود مدت تک بند کرنے کا انتظامی فیصلہ معقولیت رکھتا ہے، اور جب اُن کے لئے پابندی عائد ہوگئی تو پھر مختلف شہروں کے معتمرین کے لئے بھی آمدورفت کو محدود کرنے میں کوئی مشکل نہ رہی تاکہ عالمی سطح پر وطنی امتیاز کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ اسی بنا پرسعودی حکومت نے اس سال حج میں بھی غیرملکی حاجیوں کو روک کر، ملک میں موجود مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کرنے کی ہی اجازت[5] دی ۔
[1] صحيح مسلم: كِتَابُ السَّلَامِ (بَابُ الطَّاعُونِ وَالطِّيَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا)، رقم 5772
[2] ریاض الصالحین از نووی: باب كراهة الخروج من بلد وقع به الوباء فرارا منه وكراهة القدوم: رقم 1791
[3] تاریخ دمشق: 25؍ 485، تاریخ طبری، الاستیعاب از ابن عبد البر، سنن سعید بن منصور: ص 232
[4] مسند احمد بن حنبل: 3؍ 226، رقم 1698
[5] حج وعمرہ کے حوالے سے سعودی حکومت کا دنیا بھر کے متاثرہ شہروں سے زائرین کی آمد ورفت کو حدیث نبوی کی بنا پر مطلقاً روک دینا اور رمضان المبارک ودیگر اوقات میں حرمین شریفین اور اہم مساجد میں عبادات کو محدود کرتے ہوئے کلی موقوف نہ کرنا احتیاط کا تقاضاہے۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ سعودی مساجد کو کلی طور پر بند بھی کردیا گیا تھا، اگر اس میں کوئی حقیقت ہو تو یہ موقف بہر حال محل نظر ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سوم: مریض سے فاصلہ Distance کی تلقین
نبی مکرم ﷺ نے وبائی علاقے کی بند ش کے ساتھ ساتھ کسی علاقے میں وباسے متاثرہ شخص سے بھی دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے، جیسا کہ آغاز میں سیدنا ابوہریرہ﷜ کی پہلی حدیث میں کوڑھی(مجذوم) شخص سے اس طرح دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ انسان شیر سے صرف احتیاط ہی نہیں کرتا بلکہ بہت دور بھاگتا اور اپنا پورا بچاؤ کرتا ہے۔ اور بعض احادیث میں جو کوڑھی کے ساتھ کھانےپینے کا تذکرہ [1]ملتا ہے ، ان کی سند قابل اعتماد نہیں۔ گویا کسی مرض کے خود متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا تو حرام ہے لیکن عملی رویے میں اس سے مکمل احتیاط کرنا ضروری ہے۔اور یہ گزر چکا ہے کہ عقیدہ وعمل میں اصل اعتبار اور انحصار عقیدہ پر ہوتا ہے۔
a اسی طرح جذام کے مریض کو چاہیے کہ وہ بھی تندرست لوگوں سے الگ تھلگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک مجذوم (کوڑھی) شخص بھی تھا جو نبی کریم ﷺ سے اسلام کی بیعت کرنا چاہتا تھا۔ تو آپ نے اسے پیغام بھیجا: «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ».[2]
’’ہم نے(بالواسطہ )تمہا ری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔ ‘‘
ï نبی کریمﷺ نے کوڑھی سے شیر کی طرح دور بھاگنے کا حکم دے کر، صحابہ کرام نے اس پر عمل کرتے ہوئے طاعون زدہ علاقے سے دور رہ کر، اور نبی کریمﷺ نے بیعت کے معروف طریقے کو چھوڑ کر، جب دوسروں کی بیعت پر اکتفا کیا، تو معلوم ہوا کہ احتیاط پر مبنی عملی رویہ ہی وہ نبوی توکل ہےجس کی ہمیں اتباع کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں کہ خود ساختہ توکل کے نام پر ہم امراض کے متعدی نہ ہونے کے عقیدہ کو سامنے رکھتے ہوئے، ثابت شدہ مریض سے فاصلہ اور احتیاط کو ترک کردیں۔
b نیزمتعدی مریض كو اپنے گھر (اور اپنے علاقے )میں بیٹھ جانے پر نبی کریمﷺ نے صبر کی تلقین فرمائی، اور شہادت کے اجر کاوعدہ دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے نبی کریمﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
«أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، فَجَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ».[3]
’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہے ، جو اللّٰہ جن پر چاہے بھیجتا ہے اور مؤمنوں کے لئے باعثِ رحمت بھی ہوتا ہے۔ (اور وہ یوں کہ ) جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے گھر میں ثواب کی نیت سے صبر کرکے بیٹھا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللّٰہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، تو اس کے لیے شہید جیسا اجر ہے۔‘‘
اور صحيح بخاری کی تین احادیث میں فِي بَيْتِهِ کی بجائے فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا[4] کے الفاظ بھی ہیں۔
c وبائی امراض میں وفات پانے والا ’شہید‘ ہے۔ جیسا کہ یہ فرما نِ نبوی سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے:
«مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ».[5]
’’تم آپس میں شہید کس کو شمار کرتے ہو؟صحابہ نے عرض کی: اللّٰہ کے رسول! جو شخص اللّٰہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔آپ نے فرمایا: "پھر تو میری امت کے شہدا بہت کم ہوئے۔" صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جو شخص اللّٰہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اللّٰہ کی راہ میں (طلبِ علم، سفرِ حج، جہاد کے دوران میں اپنی موت) مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے، جو شخص پیٹ کی بیماری میں (مبتلا ہو کر) مر جائے وہ شہید ہے۔‘‘
d اور سیدنا عتبہ بن عبد سلمی ﷜نبی کریم ﷺکا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:
«يَأْتِي الشُّهَدَاءُ وَالْمُتَوَفَّوْنَ بِالطَّاعُونِ، فَيَقُولُ أَصْحَابُ الطَّاعُونِ: نَحْنُ شُهَدَاءُ، فَيُقَالُ: انْظُرُوا، فَإِنْ كَانَتْ جِرَاحُهُمْ كَجِرَاحِ الشُّهَدَاءِ تَسِيلُ دَمًا رِيحَ الْمِسْكِ، فَهُمْ شُهَدَاءُ فَيَجِدُونَهُمْ كَذَلِكَ».[6]
’’شہدا اور طاعون سے وفات پانے والے(روزِقیامت )آئیں گے۔تو طاعون سے مرنے والے کہیں گے کہ ہم بھی شہید ہیں۔ کہا جاے گا کہ ان کو توجہ سے دیکھو ، اگر ان کے زخموں سے شہیدوں کے زخموں کی طرح مسک کی خوشبو والا خون بہہ رہا ہو تو یہ بھی شہدا ہوئے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی خون پائیں گے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ طاعون جیسے وبائی امراض کورونا وغیرہ سے وفات پانے والوں کو بھی قیاساً شہید (حکمی) کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں مولانا عبد الستار الحماد ﷾ لکھتے ہیں:
’’اس امت پر اللّٰہ کی بہت مہربانی ہے کیونکہ جو بیماری دوسری امتوں کے لیے بطورِ عذاب مسلط کی گئی تھی وہ اس امت کے لیے باعثِ رحمت بنا دی گئی ہے۔اس حدیث کے مطابق طاعون سے مرنا ’شہادتِ صغریٰ‘ ہے۔ ‘‘
e نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت متعدی امراض Viral Diseasesکے علاوہ عام مریضوں حتی کہ بیمار جانوروں کے بارے میں بھی ہے ، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ﷜ سے مروی ہے کہ
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرضٌ عَلَى مُصِحٍّ».[7]
” کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔ “
شيخ الاسلام ابن تیمیہ  سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو متعدی مریض ہونے کے باوجود صحت مند لوگوں کے درمیان رہنے پر مصر ہے۔ لوگ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں تو وہ کیا اسے نکال سکتے ہیں؟
نَعَمْ لَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُ مِنْ السَّكَنِ بَيْنَ الْأَصِحَّاءِ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «لَا يُورَدُ مُمَرَّضٌ عَلَى مُصِحٍّ». فَنَهَى صَاحِبَ الْإِبِلِ الْمِرَاضِ أَنْ يُورِدَهَا عَلَى صَاحِبِ الْإِبِلِ الصِّحَاحِ مَعَ قَوْلِهِ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ». وَكَذَلِكَ رُوِيَ أَنَّهُ لَمَّا قَدِمَ مَجْذُومٌ لِيُبَايِعَهُ أَرْسَلَ إلَيْهِ بِالْبَيْعَةِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ فِي دُخُولِ الْمَدِينَةِ.[8]
’’آپ نے جواب دیا: ہاں لوگوں کو اسے صحت مندوں سے نکالنا جائز ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرما ن ہے کہ بیمار شخص کو صحت مندوں کے پاس نہ لے جایا جائے۔ پھر آپ ﷺنے بیمار اونٹوں کے مالک کو صحیح اونٹوں کے پاس لے جانے سے روک دیا، اپنے اس فرمان کے باوجود کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی اور بدشگونی نہیں ہے۔ اور آپ ﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ جب ایک کوڑھی مدینہ میں بیعت کے لئے آنا چاہتا تھا تو نبی کریمﷺ نے بیعت ہونے کا پیغام اسے بھیج دیا اور اسے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ ‘‘
f سیدنا جابر بن عبد اللّٰہ ﷜سے نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے:
«مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ».[9]
”جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔ یا فرمایا: وہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے۔ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لہسن اور پیاز کھانا تو جائز ہے لیکن مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ۔ اس حدیث سے یہ مفہوم لینا تو درست نہیں کہ تھوم پیاز اور دوسری بودار چیزوں کی بنا پر انسان کو باجماعت نماز سے رخصت مل جاتی ہے،کیونکہ کسی محدث وفقیہ نے باجماعت نماز کے اعذار میں اس کو بیان نہیں کیا، البتہ اس سے یہ ضرورمراد ہے کہ مسلمان کو نماز کے اوقات میں ایسی چیزوں کو کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے۔ جب کوئی مسلمان باجماعت نماز کے اوقات سے قبل عمداً کچا لہسن اور پیاز کھائے گا تو اس کو نماز باجماعت تو پڑھنا ہوگی، تاہم دوسروں کو اذیت دینے کی بنا پر وہ گناہ گار ہوگا۔اور عمداً اس فعل کے ارتکاب پر اسے مسجد میں آنے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔قاضی ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ فِي النَّهْيِ عَنْ قُرْبَانِ آكِلِ الثُّومِ وَالْبَصَلِ الْمَسْجِدَ... وَكَذَلِكَ أَلْحَقَ بَعْضُهُمْ بِذَلِكَ مَنْ بِفِيهِ بَخَرٌ أَوْ بِهِ جُرْحٌ لَهُ رَائِحَةٌ، وَكَذَلِكَ الْقَصَّابُ، وَالسَّمَّاكُ، وَالْمَجْذُومُ وَالْأَبْرَصُ أَوْلَى بِالْإِلْحَاقِ. وَقَالَ سَحْنُونٌ لَا أَرَى الْجُمُعَةَ عَلَيْهِمَا.وَاحْتَجَّ بِالْحَدِيثِ وَأَلْحَقَ بِالْحَدِيثِ كُلُّ مَنْ آذَى النَّاسَ بِلِسَانِهِ. [10]
’’ صحیح حدیث کی بنا پر لہسن ، پیاز کھانے والے کو مسجد کے قریب آنے سے روکا گیا ہے۔ بعض علما نے ان کے ساتھ ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جس کے منہ سے کوئی بوآتی ہو، یا بدبودار زخم ہو۔ جیسے قصاب اور مچھلی فروش وغیرہ، اور کوڑھی اور برص کے مریض کو بھی ان سے ملانا زیادہ مناسب ہے۔ اور امام سحنون مالکی(م854ھ) کہتے ہیں کہ میں ان پر جمعہ پڑھنا لازمی نہیں سمجھتا۔ اس پر انہوں نے حدیث سے استدلال کیا ہے اور حدیث میں ہر اس شخص کو شامل کیا ہے جو اپنی زبان سے دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
جب معمولی تکلیف دہ چیز سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے، جیسا کہ اس پر دیگر احادیث بھی ہیں تو پھر متعدی امراض سے تو دوسرے مسلمانوں کو بچانا بالاولیٰ ضروری ہے۔
ïاس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باجود اگر کوئی متاثرہ شخص ، صحت مند لوگوں میں گھستا ہے تو وہ ہدایتِ نبوی سے انحراف کرکے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔اسے نیکی کا کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ جیسا کہ امام منصور بن یونس بہوتی حنبلی(م 1051ھ) لکھتے ہیں:
"ولا يجوز للجُذَماء، مخالطة الأصحاء عمومًا، ولا مخالطة أحد معين صحيح إلا بإذنه، وعلى ولاة الأمور منعهم من مخالطة الأصحاء، بأن يسكنوا في مكان مفرد لهم ونحو ذلك، وإذا امتنع ولي الأمر من ذلك أو المجذوم: أثم، وإذا أصر على ترك الواجب مع علمه به: فسق). قاله [أي شيخ الإسلام] في الاختيارات. وقال: كما جاءت به سنة رسول الله ﷺ وخلفائه ، وكما ذكر العلماء".[11]
’’کوڑھ کے مریضوں کے لئے صحت مند لوگوں سے ملنا جلنا عمومی طور پر جائز نہیں۔ اور کسی خاص فرد سے اس کی اجازت کے بغیر ملنا جلنا بھی جائزنہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے مریضوں کو تندرست افراد کے ساتھ گھلنے ملنے سے منع کریں۔ اور ان کے لئے علیحدہ جگہ کا انتظام کریں۔ اگر حکمران ایسا نہ کرے یا خود مریض علیحدہ رہنے کی پابندی نہ کرے، تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور جاننے کے بعد اس واجب کو چھوڑنے پر اصرار کرے تو فسق کا مرتکب ہوگا۔ یہی بات شیخ الاسلام نے اختیارات میں کہہ کر لکھا ہے کہ یہی رسول اللہ ﷺ ، اور آپ کے خلفا کا طریقہ ہے ، جیساکہ علما نے واضح کیا ہے۔ ‘‘
مفتی کفایت اللّٰہ دہلوی حنفی لکھتے ہیں:
’’...ان صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلّہ اور مسجد غیر محلّہ کا فرق نہیں ہے، محلّہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے توغیر محلہ کی مسجد سے بالاولیٰ روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویثِ مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے۔ ‘‘[12]
g ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی ممانعت : نبی کریمﷺ نے اسلام کو سراسر سلامتی قرار دیا، اور مشہور فرمانِ نبوی ، سیدنا عبد اللّٰہ بن عمروؓسے مروی ہے:
«المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ».[13]
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘
کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں تمام فقہی مسالک کا موقف لکھا ہے:
"ذهب المالكية والشافعية والحنابلة: إلى منع مجذوم يُتأذى به، من مخالطة الأصحاء، والاجتماع بالناس، لحديث: «فر من المجذوم فرارك من الأسد».
وقال الحنابلة: لا يحل لمجذوم مخالطة صحيح إلا بإذنه. فإذا أذن الصحيح لمجذوم بمخالطته: جاز له ذلك. لحديث «لا عدوى ولا طيرة». [14]
’’مالکیہ، شافعیہ او رحنابلہ کے مطابق کوڑھی کو ہر ایسے کام سے روکا جائے جس کے ذريعے اس کا مرض دوسروں میں پھیل جائے، مثلاً صحت مند لوگوں سے دور رہنا، لوگوں کے ساتھ اکٹھے نہ ہونا، اس فرمان نبوی کی بنا پر :«فرّ من المجذوم فرارك من الأسد» جبكہ حنابلہ کا موقف ہے کہ اگر تندرست آدمی اجازت دے دے تو پھر کوڑھی کا اس سے میل جول جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے : «لا عدوى ولا طيرة».‘‘
h ایسا ہی آپ ﷺکا ایک اور فرمان بھی ہے، جیسے سیدنا عبادۃ بن صامت نے روایت کیا ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى أَنْ «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ».[15]
’’ رسول اللّٰہ ﷺ نے فیصلہ دیا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔‘‘
ضِرار کو اگر باب مفاعلہ سے لیں تو یہ مطلب ہوا کہ کسی فرد کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اجتماعی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ

’’جذامی سے جمعہ و جماعت ساقط اور معاف ہے اس وجہ سے کہ وہ مسجد میں نہ آئے پس جذامی کو چاہیے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہونا چاہیے اور جو لوگ جذامی شخص سے علیحدہ رہیں اوراحتراز کریں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے کہ جذامی سے بھاگنے اور بچنے کا حکم رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔ ‘‘[16]
[1] یہ حدیث ضعیف ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺنے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا: ’’اللّٰہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔‘‘ (جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817، سنن ابو داود: 3925)
[2] صحيح مسلم: كِتَابُ السَّلَامِ (بَاب اجْتِنَابِ الْمَجْذُومِ وَنَحْوِهِ)، رقم 2231
[3] مسند احمد بن حنبل: 24358، 25212اور 26139 صحیح... آخری روایت میں بَيْتِهِ کے الفاظ ہیں۔
[4] صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابٌ): رقم 3473، 5734 اور 6619
[5] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ بَيَانِ الشُّهَدَاءِ)، رقم 4941
[6] مسند أحمد بن حنبل:29؍198، رقم 17651، حسن
[7] ‌ صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ لاَ هَامَةَ)، رقم 5771
[8] مجموع فتاوٰى: 24؍285، مجمع ملک فہد، مدینہ منورہ1416ھ
[9] ‌ صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرُهَا)، رقم 7359
[10] ردّ المحتار از قاضی ابن عابدین: 1؍661
[11] كشاف القناع عن متن الاقناع از امام بہوتی: 6؍ 126
[12] کفایت المفتی: 3؍13۱،دار الاشاعت، اُردوبازار، کراچی
[13] صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابٌ: المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ)، رقم 10
[14] الموسوعة الفقهية الكويتية: 15؍ 131
[15] سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ بَنَى فِي حَقِّهِ مَا يَضُرُّ بِجَارِهِ)، رقم 2340، صحیح
[16] فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۳؍۷۰
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قابل توجہ اُموراور محل اختلاف
کورونا کے امراض کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں، اس کے باوجود پاکستان کی مساجد میں عالم اسلام کے برخلاف علماے کرام نے باجماعت نماز و تراویح اورجمعہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اوربعض لوگوں کو اس بارے میں غلط فہمی لاحق ہوئی، حالانکہ اجتماعی عبادات کے بارے میں پاکستان کے علماے کرام کا یہ موقف اور اصرار اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔
اوپرجتنی بھی احادیثِ نبویہ ذکر کی گئی ہیں، ان میں نبی کریمﷺ نے یہ احتیاط ایسے شخص سے کی ہے یا ایسے شخص کو اس کا پابند کیا ہے، جو واقعتاً مریض ہو، یا اس میں مرض کی علامات ظاہر ہوچکی ہوں۔ چنانچہ ایسے شخص کے بارے میں تو اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر مسلم حکومتوں کا یہ مطالبہ، مریضوں سے بڑھ کرتمام انسانوں کے بارے میں ہے کہ ہر انسان سے بھی یہی احتیاط برتی جائے۔ اور اس کو ’سماجی فاصلہ‘
Social Distanceکا نام دیا گیا۔ حالانکہ کسی حدیث میں بھی تمام مسلمانوں کے بارے میں اس احتیاط کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اس لئے ایسی احتیاط کرنا دراصل سنگین حالات وظروف اور بیماری کے بہت زیادہ پھیل جانے کے وقت ہے جس کو حقیقی صورتحال کا کامل ادراک کرتے اور دیگر شرعی احکام ومصالح کے پیش نظر رکھتے ہوئے نافذ کیا جائے گا۔جیسا کہ علماے کرام کا درج ذیل فتویٰ ہے:
سؤال: هل يُعدُّ وجود مثل هذا المرض المذكور عذرًا للتخلف عن صلاة الجمعة في حق من تجب عليه؟
وجواب ذلك يختلف بحسب الواقع والضرر المتوقع ونسبة وقوعه. وبصفة عامة فإن الحكم للغالب. والنادر لا حكم له.[1]
’’کیا کورونا جیسے امراض کی بنا پر ان لوگوں کو نماز جمعہ چھوڑنے کی اجازت ہے، جن کے لئے نمازِ جمعہ واجب ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا جواز واقعات،نقصان کی کیفیت اور امکانی نسبت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ عام جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اعتبار کیا جائے، اور شاذ ونادر کا کوئی لحاظ نہیں ۔ ‘‘
دارالعلوم دیوبند کے اُستاد مفتی امانت علی قاسمی لکھتے ہیں:
’’میں غور و فکر کے بعداس سلسلے میں میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کوئی ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ بلکہ جو علاقے اس سے زیادہ متاثر ہیں وہاں کے احکام ذرا مختلف ہوں گے اور جہاں صرف احتیاط کے تحت اس طرح کی بات کی جارہی ہے وہاں کے احکام اس سے قدرے مختلف ہوں گے۔ جن علاقوں میں وائرس سے متاثر لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں پر احتیاط کی شدید ضرورت ہوگی اور اس احتیاط کے تحت اگر مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی بات کہی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے ۔‘‘[2]
یہی موقف قاضی محمد امین ابن عابدین شامی بھی پیش کرچکے ہیں:
’’شرعی اَحکام میں وہ خوف معتبر ہوتا ہے جو ظن غالب کا فائدہ دے، مثلاً کسی مرگی کے مریض کو تجربہ سے یہ بات معلوم ہو کہ روزہ رکھنے سے اسے مرگی کے دورے پڑتے ہیں تو اب اس کے لیے مرگی کے دورے پڑنے کے خوف سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہوگی۔ عام طور پر ایسا خوف کسی علامت سے، تجربے سے، یا ماہر مسلمان دین دار طبیب کے قول سے معلوم ہوتا ہے۔ باقی جو خوف کسی علامت، تجربہ یا ماہر دین دار طبیب کے قول کے بغیر ہی دل میں پیدا ہو یا کسی غیر مسلم کے کہنے سے پیدا ہو جس کی تصدیق مسلمان دین دار ڈاکٹر نہ کریں تو اس اندیشے کا شرعاً اعتبار نہیں ہے، أَمَّا الْكَافِرُ فَلَا يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِهِ لِاحْتِمَالِ أَنَّ غَرَضَهُ إفْسَادُ الْعِبَادَةِ[3]بلکہ وہ خوف توہم پرستی اور بد شگونی کے اعتقاد میں مبتلا کردیتا ہے جس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔‘‘[4]
ïجہاں تک کسی متاثرہ علاقے سے نقل وحرکت کی ممانعت کی بات ہے، تو اس میں شریعت نے سب انسانوں کے متاثر ہونے کی بجائے، اکثریتی عوا م میں مرض پھیل جانے پر انحصار کیا ہے، جیسا کہ ووہان، میلانو اور نیویارک وغیرہ جیسے شہر جہاں یہ مرض بڑے پیمانے پر پھیلا ۔ اور جہاں تک ایک علاقے میں بسنے والے افراد کی بات ہے، تو اس میں کوڑھی کے مرض اور بدبو کے امکانی نقصان کے پیش نظر نبی کریمﷺ نے صرف متاثرہ افراد کو منع فرمایا۔ اس میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کو امکانی مریض تک وسیع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ معمولی علامتوں جیسے کھانسی، بخار اور متاثرہ علاقوں سے سفر کرکے آنے والوں تک احتیاط کو پھیلایا جاسکتا ہے۔
[1] https://www.islamweb.net/ar/fatwa/414400
[2] کورونا وائرس، اسلامی ہدایات اور جدید مسائل از مفتی امانت علی قاسمی: ص 20
[3] الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (ردّ المحتار): 2؍ 422
[4] کورونا پر فتویٰ جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن کراچی، ص 12
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مریض کی عیادت او رعلاج کے شرعی حقوق
واضح رہے کہ ہرانسان سے سماجی فاصلہ رکھنے کے وسیع تر حکومتی احکامات سے ، عام مسلمانوں سے میل جول اور ان کے حقوق کے بہت سے واضح شرعی احکام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں میں مصافحہ اورمعانقہ ، عزیز واقربا سے ملاقات ، باجماعت نماز، نمازِ تراویح [1]،نمازِ جنازہ، اور مریض شخص کی عیادت وتیمار داری اور علاج وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ مریض شخص کا تو اسی طرح پوری احتیاط کے ساتھ ، تیمار داری اور علاج کرنا چاہیے جیسا کہ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں میں کورونا سے متاثرہ اشخاص کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی حقوق اور میل جول کے باقی شرعی احکام کا تعلق ہے تو ان کو صرف کسی موہوم امکان کی بنا پر ختم کردینے کی بجائے ، مضبوط شرعی بنیاد ہونی چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ».[2]
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا،مریض کی عیادت کرنا،جنازے میں شریک ہونا،دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔‘‘
مریض کی عیادت کے بے پناہ اجر کے علاوہ اس کا علاج کرنے اور اس کو دم کرنےکے بھی شرعی احکام ہیں، جس کی تفصیل حاشیہ میں درج کتابچہ[3] میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ïمسلم حکومت کے پاس یہ اُصولی اختیار تو موجود ہے کہ وہ علما ے حقہ کی مشاورت کے ساتھ ، ماہرین کی آرا کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلمانوں کے مفاد اور تحفظ کے لئے انسدادی تدبیری احکام جاری کرے ۔اور تدبیری احکام کے لئے، شرعی احکام کے برعکس اس امر کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ اس کی مثال احکامِ شرعیہ یا خیر القرون کے دور سے لازماً پیش کی جائے۔بلکہ اس حکومتی تدبیر وانسداد کے لئے شریعت کے مخالف نہ ہونے اور مقاصدِ شرع سے ہم آہنگ ہونا ہی کافی ہے، جیسا کہ فی زمانہ تبلیغی جلسوں، دینی مضامین ومجلّات ، اسلامی کتب وشروح اور باقاعدہ دینی مدارس کی مثال خیر القرون میں نہیں ملتی۔تاہم جب پاکستانی حکمران ...
· علماے کرام سے حقیقی اور اعتماد پر مبنی مشاورت نہیں کرتے، ان کی بات پر کان نہیں دھرتے۔
· مہلک مرض کے باوجود اس کے خاتمے کے روحانی اسباب یعنی اپنے شخصی وقومی اعمال پر نظرثانی، مساجد وعبادات،صدقات اور اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ واستغفارکی طرف توجہ کرنے کی بجائے صرف مادی وجوہات پر ہی اصرار جاری رکھتے ہیں۔
· بیماری کی واقعاتی صورتحال کے تجزیے میں ڈاکٹرز کے ساتھ علما ے کرام کو بھی شریک نہیں کرتے، تاکہ انہیں حقیقی صورتحال بتانے کے ساتھ، ان سے شرعی رہنمائی بھی حاصل کی جائے۔
· مرض کے حقائق میں خود ریسرچ کرنے کی بجائے، مغربی اقوام کی تحقیقات پر اندھا دھند یقین کرتے ہیں جن کے ہاں اسلامی عقائد و عبادات یا مسلم بھائی چارے کے حقوق کی کوئی پروا نہیں۔
· اپنے عوام کے خالص مفادات کی بجائے، عالمی اداروں کے دباؤ اور ان سے سیاسی ومادی مفادات کے حصول پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
· علاج معالجہ کو معیاری بنانے کی بجائے، صرف اعداد وشمار اور ابلاغی مہم میں عوام کو مصروف رکھتے ہیں۔
· مساجد ومدارس اور دینی احکام و شعائر پر پابندیوں اور دھمکیوں کے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھتے اور اسی وقت میڈیا سنٹرز، کاروبار، منڈیوں اور دنیوی مفادات پر کوئی بندش عائد نہیں کرتے۔
· مختلف شہروں میں مرض کی صورتحال میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔جیساکہ اب کورونا مرض کے چند ماہ گزرنے کے بعد پاکستان اور یورپ میں مرض کے حالات اور اسباب میں واضح فرق کا پوری دنیا اعتراف کررہی ہے۔
تو ایسے حالات میں تضاد پر مبنی حکومتی رویہ اور اقدامات شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتی شخصیت، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد بھی اپنے ایوان میں اس کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں۔ان حالات میں سماجی رہنمائی کےشرعی مرکز کی اہمیت اور ضرورت دو چند ہوجاتی ہے جہاں سے دینی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلم عوام کی مصلحت پر مبنی جامع رہنمائی ، ہدایات اور اقدامات کئے جائیں۔ اور ایسا نہ ہوپانے کی صورت میں معاشرتی انتشار بڑھتا جاتا ہے۔

[1] بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نمازِ تراویح ایک نفلی نماز ہے جس کو صحابہ کرام نے رواج دیا اور اس کو چھوڑا یا گھروں میں ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ رمضان المبارک میں روزوں کے بعد قیام اللیل دوسرا خصوصی اسلامی شعار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود متعدد بار صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھائیں، جیسا کہ صحیحین میں آتا ہے اور اس کے فرض ہوجانے کےخوف سے آپ نے اس کو ترک بھی کیا۔ جب نبی کریمﷺ کے بعد یہ امکانِ فرضیت جاتا رہا تو صحابہ کرام نے اس نبوی طریقے کو باضابطہ طور پر جاری کردیا۔ چنانچہ مساجد سے قیام اللیل کے اسلامی شعار کا خاتمہ کردینا ، خیر القرون سے جاری چودہ صدیوں کی مسلمہ اسلامی روایت کو ختم کرنا ہے جو رمضان المبارک کا اسلامی شعار ہے۔
[2] ‌ صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ)، رقم 1240
[3] ’مریضوں کے حقوق وفرائض‘ ازڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن: ص 11 تا 28، دارالحدیث کمالیہ ، راجووال
 
Top