سوم: مریض سے فاصلہ Distance کی تلقین
نبی مکرم ﷺ نے وبائی علاقے کی بند ش کے ساتھ ساتھ کسی علاقے میں وباسے متاثرہ شخص سے بھی دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے، جیسا کہ آغاز میں سیدنا ابوہریرہ کی پہلی حدیث میں کوڑھی(مجذوم) شخص سے اس طرح دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ انسان شیر سے صرف احتیاط ہی نہیں کرتا بلکہ بہت دور بھاگتا اور اپنا پورا بچاؤ کرتا ہے۔ اور بعض احادیث میں جو کوڑھی کے ساتھ کھانےپینے کا تذکرہ [1]ملتا ہے ، ان کی سند قابل اعتماد نہیں۔ گویا کسی مرض کے خود متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا تو حرام ہے لیکن عملی رویے میں اس سے مکمل احتیاط کرنا ضروری ہے۔اور یہ گزر چکا ہے کہ عقیدہ وعمل میں اصل اعتبار اور انحصار عقیدہ پر ہوتا ہے۔
a اسی طرح جذام کے مریض کو چاہیے کہ وہ بھی تندرست لوگوں سے الگ تھلگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک مجذوم (کوڑھی) شخص بھی تھا جو نبی کریم ﷺ سے اسلام کی بیعت کرنا چاہتا تھا۔ تو آپ نے اسے پیغام بھیجا: «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ».[2]
’’ہم نے(بالواسطہ )تمہا ری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔ ‘‘
ï نبی کریمﷺ نے کوڑھی سے شیر کی طرح دور بھاگنے کا حکم دے کر، صحابہ کرام نے اس پر عمل کرتے ہوئے طاعون زدہ علاقے سے دور رہ کر، اور نبی کریمﷺ نے بیعت کے معروف طریقے کو چھوڑ کر، جب دوسروں کی بیعت پر اکتفا کیا، تو معلوم ہوا کہ احتیاط پر مبنی عملی رویہ ہی وہ نبوی توکل ہےجس کی ہمیں اتباع کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں کہ خود ساختہ توکل کے نام پر ہم امراض کے متعدی نہ ہونے کے عقیدہ کو سامنے رکھتے ہوئے، ثابت شدہ مریض سے فاصلہ اور احتیاط کو ترک کردیں۔
b نیزمتعدی مریض كو اپنے گھر (اور اپنے علاقے )میں بیٹھ جانے پر نبی کریمﷺ نے صبر کی تلقین فرمائی، اور شہادت کے اجر کاوعدہ دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے نبی کریمﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
«أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، فَجَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ».[3]
’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہے ، جو اللّٰہ جن پر چاہے بھیجتا ہے اور مؤمنوں کے لئے باعثِ رحمت بھی ہوتا ہے۔ (اور وہ یوں کہ )
جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے گھر میں ثواب کی نیت سے صبر کرکے بیٹھا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللّٰہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، تو اس کے لیے
شہید جیسا اجر ہے۔‘‘
اور صحيح بخاری کی تین احادیث میں فِي بَيْتِهِ کی بجائے فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا[4] کے الفاظ بھی ہیں۔
c وبائی امراض میں وفات پانے والا ’شہید‘ ہے۔ جیسا کہ یہ فرما نِ نبوی سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے:
«مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ».[5]
’’تم آپس میں شہید کس کو شمار کرتے ہو؟صحابہ نے عرض کی: اللّٰہ کے رسول! جو شخص اللّٰہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔آپ نے فرمایا: "پھر تو میری امت کے شہدا بہت کم ہوئے۔" صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جو شخص اللّٰہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اللّٰہ کی راہ میں (طلبِ علم، سفرِ حج، جہاد کے دوران میں اپنی موت) مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے، جو شخص پیٹ کی بیماری میں (مبتلا ہو کر) مر جائے وہ شہید ہے۔‘‘
d اور سیدنا عتبہ بن عبد سلمی نبی کریم ﷺکا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:
«يَأْتِي الشُّهَدَاءُ وَالْمُتَوَفَّوْنَ بِالطَّاعُونِ، فَيَقُولُ أَصْحَابُ الطَّاعُونِ: نَحْنُ شُهَدَاءُ، فَيُقَالُ: انْظُرُوا، فَإِنْ كَانَتْ جِرَاحُهُمْ كَجِرَاحِ الشُّهَدَاءِ تَسِيلُ دَمًا رِيحَ الْمِسْكِ، فَهُمْ شُهَدَاءُ فَيَجِدُونَهُمْ كَذَلِكَ».[6]
’’شہدا اور طاعون سے وفات پانے والے(روزِقیامت )آئیں گے۔تو طاعون سے مرنے والے کہیں گے کہ ہم بھی شہید ہیں۔ کہا جاے گا کہ ان کو توجہ سے دیکھو ، اگر ان کے زخموں سے شہیدوں کے زخموں کی طرح مسک کی خوشبو والا خون بہہ رہا ہو تو یہ بھی شہدا ہوئے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی خون پائیں گے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ طاعون جیسے وبائی امراض کورونا وغیرہ سے وفات پانے والوں کو بھی قیاساً شہید (حکمی) کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں مولانا عبد الستار الحماد ﷾ لکھتے ہیں:
’’اس امت پر اللّٰہ کی بہت مہربانی ہے کیونکہ جو بیماری دوسری امتوں کے لیے بطورِ عذاب مسلط کی گئی تھی وہ اس امت کے لیے باعثِ رحمت بنا دی گئی ہے۔اس حدیث کے مطابق طاعون سے مرنا ’شہادتِ صغریٰ‘ ہے۔ ‘‘
e نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت متعدی امراض Viral Diseases
کے علاوہ عام مریضوں حتی کہ بیمار جانوروں کے بارے میں بھی ہے ، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرضٌ عَلَى مُصِحٍّ».[7]
” کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔ “
شيخ الاسلام ابن تیمیہ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو متعدی مریض ہونے کے باوجود صحت مند لوگوں کے درمیان رہنے پر مصر ہے۔ لوگ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں تو وہ کیا اسے نکال سکتے ہیں؟
نَعَمْ لَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُ مِنْ السَّكَنِ بَيْنَ الْأَصِحَّاءِ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «لَا يُورَدُ مُمَرَّضٌ عَلَى مُصِحٍّ». فَنَهَى صَاحِبَ الْإِبِلِ الْمِرَاضِ أَنْ يُورِدَهَا عَلَى صَاحِبِ الْإِبِلِ الصِّحَاحِ مَعَ قَوْلِهِ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ». وَكَذَلِكَ رُوِيَ أَنَّهُ لَمَّا قَدِمَ مَجْذُومٌ لِيُبَايِعَهُ أَرْسَلَ إلَيْهِ بِالْبَيْعَةِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ فِي دُخُولِ الْمَدِينَةِ.[8]
’’آپ نے جواب دیا: ہاں لوگوں کو اسے صحت مندوں سے نکالنا جائز ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرما ن ہے کہ بیمار شخص کو صحت مندوں کے پاس نہ لے جایا جائے۔ پھر آپ ﷺنے بیمار اونٹوں کے مالک کو صحیح اونٹوں کے پاس لے جانے سے روک دیا، اپنے اس فرمان کے باوجود کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی اور بدشگونی نہیں ہے۔ اور آپ ﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ جب ایک کوڑھی مدینہ میں بیعت کے لئے آنا چاہتا تھا تو نبی کریمﷺ نے بیعت ہونے کا پیغام اسے بھیج دیا اور اسے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ ‘‘
f سیدنا جابر بن عبد اللّٰہ سے نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے:
«مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ».[9]
”جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔ یا فرمایا: وہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے۔ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لہسن اور پیاز کھانا تو جائز ہے لیکن مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ۔ اس حدیث سے یہ مفہوم لینا تو درست نہیں کہ تھوم پیاز اور دوسری بودار چیزوں کی بنا پر انسان کو باجماعت نماز سے رخصت مل جاتی ہے،کیونکہ کسی محدث وفقیہ نے باجماعت نماز کے اعذار میں اس کو بیان نہیں کیا، البتہ اس سے یہ ضرورمراد ہے کہ مسلمان کو نماز کے اوقات میں ایسی چیزوں کو کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے۔ جب کوئی مسلمان باجماعت نماز کے اوقات سے قبل عمداً کچا لہسن اور پیاز کھائے گا تو اس کو نماز باجماعت تو پڑھنا ہوگی، تاہم دوسروں کو اذیت دینے کی بنا پر وہ گناہ گار ہوگا۔اور عمداً اس فعل کے ارتکاب پر اسے مسجد میں آنے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔قاضی ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ فِي النَّهْيِ عَنْ قُرْبَانِ آكِلِ الثُّومِ وَالْبَصَلِ الْمَسْجِدَ... وَكَذَلِكَ أَلْحَقَ بَعْضُهُمْ بِذَلِكَ مَنْ بِفِيهِ بَخَرٌ أَوْ بِهِ جُرْحٌ لَهُ رَائِحَةٌ، وَكَذَلِكَ الْقَصَّابُ، وَالسَّمَّاكُ، وَالْمَجْذُومُ وَالْأَبْرَصُ أَوْلَى بِالْإِلْحَاقِ. وَقَالَ سَحْنُونٌ لَا أَرَى الْجُمُعَةَ عَلَيْهِمَا.وَاحْتَجَّ بِالْحَدِيثِ وَأَلْحَقَ بِالْحَدِيثِ كُلُّ مَنْ آذَى النَّاسَ بِلِسَانِهِ. [10]
’’ صحیح حدیث کی بنا پر لہسن ، پیاز کھانے والے کو مسجد کے قریب آنے سے روکا گیا ہے۔ بعض علما نے ان کے ساتھ ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جس کے منہ سے کوئی بوآتی ہو، یا بدبودار زخم ہو۔ جیسے قصاب اور مچھلی فروش وغیرہ، اور کوڑھی اور برص کے مریض کو بھی ان سے ملانا زیادہ مناسب ہے۔ اور امام سحنون مالکی(م854ھ) کہتے ہیں کہ میں ان پر جمعہ پڑھنا لازمی نہیں سمجھتا۔ اس پر انہوں نے حدیث سے استدلال کیا ہے اور حدیث میں ہر اس شخص کو شامل کیا ہے جو اپنی زبان سے دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
جب معمولی تکلیف دہ چیز سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے، جیسا کہ اس پر دیگر احادیث بھی ہیں تو پھر متعدی امراض سے تو دوسرے مسلمانوں کو بچانا بالاولیٰ ضروری ہے۔
ïاس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باجود اگر کوئی متاثرہ شخص ، صحت مند لوگوں میں گھستا ہے تو وہ ہدایتِ نبوی سے انحراف کرکے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔اسے نیکی کا کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ جیسا کہ امام منصور بن یونس بہوتی حنبلی(م 1051ھ) لکھتے ہیں:
"ولا يجوز للجُذَماء، مخالطة الأصحاء عمومًا، ولا مخالطة أحد معين صحيح إلا بإذنه، وعلى ولاة الأمور منعهم من مخالطة الأصحاء، بأن يسكنوا في مكان مفرد لهم ونحو ذلك، وإذا امتنع ولي الأمر من ذلك أو المجذوم: أثم، وإذا أصر على ترك الواجب مع علمه به: فسق). قاله [أي شيخ الإسلام] في الاختيارات. وقال: كما جاءت به سنة رسول الله ﷺ وخلفائه ، وكما ذكر العلماء".
[11]
’’کوڑھ کے مریضوں کے لئے صحت مند لوگوں سے ملنا جلنا عمومی طور پر جائز نہیں۔ اور کسی خاص فرد سے اس کی اجازت کے بغیر ملنا جلنا بھی جائزنہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے مریضوں کو تندرست افراد کے ساتھ گھلنے ملنے سے منع کریں۔ اور ان کے لئے علیحدہ جگہ کا انتظام کریں۔ اگر حکمران ایسا نہ کرے یا خود مریض علیحدہ رہنے کی پابندی نہ کرے، تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور جاننے کے بعد اس واجب کو چھوڑنے پر اصرار کرے تو فسق کا مرتکب ہوگا۔ یہی بات شیخ الاسلام نے
اختیارات میں کہہ کر لکھا ہے کہ یہی رسول اللہ ﷺ ، اور آپ کے خلفا کا طریقہ ہے ، جیساکہ علما نے واضح کیا ہے۔ ‘‘
مفتی کفایت اللّٰہ دہلوی حنفی لکھتے ہیں:
’’...ان صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلّہ اور مسجد غیر محلّہ کا فرق نہیں ہے، محلّہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے توغیر محلہ کی مسجد سے بالاولیٰ روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویثِ مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے۔ ‘‘
[12]
g ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی ممانعت : نبی کریمﷺ نے اسلام کو سراسر سلامتی قرار دیا، اور مشہور فرمانِ نبوی ، سیدنا عبد اللّٰہ بن عمروؓسے مروی ہے:
«المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ».[13]
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘
کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں تمام فقہی مسالک کا موقف لکھا ہے:
"ذهب المالكية والشافعية والحنابلة: إلى منع مجذوم يُتأذى به، من مخالطة الأصحاء، والاجتماع بالناس، لحديث: «فر من المجذوم فرارك من الأسد».
وقال الحنابلة: لا يحل لمجذوم مخالطة صحيح إلا بإذنه. فإذا أذن الصحيح لمجذوم بمخالطته: جاز له ذلك. لحديث «لا عدوى ولا طيرة».
[14]
’’مالکیہ، شافعیہ او رحنابلہ کے مطابق کوڑھی کو ہر ایسے کام سے روکا جائے جس کے ذريعے اس کا مرض دوسروں میں پھیل جائے، مثلاً صحت مند لوگوں سے دور رہنا، لوگوں کے ساتھ اکٹھے نہ ہونا، اس فرمان نبوی کی بنا پر :
«فرّ من المجذوم فرارك من الأسد» جبكہ حنابلہ کا موقف ہے کہ اگر تندرست آدمی اجازت دے دے تو پھر کوڑھی کا اس سے میل جول جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے : «لا عدوى ولا طيرة».‘‘
h ایسا ہی آپ ﷺکا ایک اور فرمان بھی ہے، جیسے سیدنا عبادۃ بن صامت نے روایت کیا ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى أَنْ «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ».[15]
’’ رسول اللّٰہ ﷺ نے فیصلہ دیا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔‘‘
ضِرار کو اگر باب مفاعلہ سے لیں تو یہ مطلب ہوا کہ کسی فرد کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اجتماعی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ
’’جذامی سے جمعہ و جماعت ساقط اور معاف ہے اس وجہ سے کہ وہ مسجد میں نہ آئے پس جذامی کو چاہیے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہونا چاہیے اور جو لوگ جذامی شخص سے علیحدہ رہیں اوراحتراز کریں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے کہ جذامی سے بھاگنے اور بچنے کا حکم رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔ ‘‘
[16]
[1] یہ حدیث ضعیف ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺنے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا: ’’اللّٰہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔‘‘ (جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817، سنن ابو داود: 3925)
[2] صحيح مسلم: كِتَابُ السَّلَامِ (بَاب اجْتِنَابِ الْمَجْذُومِ وَنَحْوِهِ)، رقم 2231
[3] مسند احمد بن حنبل: 24358، 25212اور 26139 صحیح... آخری روایت میں بَيْتِهِ کے الفاظ ہیں۔
[4] صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابٌ): رقم 3473، 5734 اور 6619
[5] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ بَيَانِ الشُّهَدَاءِ)، رقم 4941
[6] مسند أحمد بن حنبل:29؍198، رقم 17651، حسن
[7] صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ لاَ هَامَةَ)، رقم 5771
[8] مجموع فتاوٰى: 24؍285، مجمع ملک فہد، مدینہ منورہ1416ھ
[9] صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرُهَا)، رقم 7359
[10] ردّ المحتار از قاضی ابن عابدین: 1؍661
[11] كشاف القناع عن متن الاقناع از امام بہوتی: 6؍ 126
[12] کفایت المفتی: 3؍13۱،دار الاشاعت، اُردوبازار، کراچی
[13] صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابٌ: المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ)، رقم 10
[14] الموسوعة الفقهية الكويتية: 15؍ 131
[15] سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ بَنَى فِي حَقِّهِ مَا يَضُرُّ بِجَارِهِ)، رقم 2340، صحیح
[16] فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۳؍۷۰