اسلامی ریاست اور خلیفہ جہاد سے وجود میں آتے ہیں
محرم 656ھ میں تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور خلفیة المسلمین معتصم باللہ کو قتل کردیا- رجب 659 ھ تک ساڑھے سات سال مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں تھا- اگر وہ اس دوران تاتاریوں سے جہاد ترک کردیتے تو دنیا سے مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹ جاتا مگر انہوں نے جیسے بھی ہو سکتا الگ الگ ٹکڑیوں میں بھی ان کا مقابلہ جاری رکھا- یہاں تک کہ انہیں پے در پے شکستیں دے کر اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت میں کامیاب ہوگئے اور دوبارہ مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تاتاریوں سے لڑنے والے رسول اللہ کی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا جو ان کی مخالفت کرے اور جو ان کی مدد چھوڑ دے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا -یہاں تک کہ قیامت قائم ہو-
[مجموعہ فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص 416 و ص 531 ج 2]
حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ کا وجود نہ ہو اور اللہ نہ کرے اسلامی ریاستیں بھی سرے سے ختم ہوجائیں تو بجائے اس کے کہ جہاد ختم سمجھا جائے جہاد ہی وہ بابرکت چیزہے جس سے دوبارہ خلیفہ اور اسلامی ریاست کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے-
جزاک اللہ خیرا