السلام علیکم
محترم بھائی!
بھائی!
ایسی احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں جن میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت ملتی ہے۔ جن میں سے ایک آپ نے ذکر کی ہے۔
اور دوسری طرف احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں جن میں کھڑے ہو کر پینے کا جواز ملتا ہے جن کی طرف عمران صاحب اشارہ کر رہے ہیں،
میرا مقصد صرف یہ ہے کہ صرف اپنی رائے کی بنا پر ان احادیث مبارکہ کا ردّ نہیں کرنا چاہئے
جیسے آپ نے ترمذی کی روایت کے بارے میں عجیب وغریب تبصرہ کیا۔ اس بارے میں مزید احادیث یہ ہیں:
کچھ ممبران غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں جو خود احادیث مبارکہ پر کچھ بھی کہہ لیں مگر بڑی آسانی سے دوسرے پر لکھ دیتے ہیں "کہ آپ حدیث مبارکہ کو رد کر رہے ہیں" ایسی باتوں سے اجتناب برتنا چاہئے ورنہ میرے لئے بہت آسان ہو گا آپ کے اس قول پر یہاں شیخ سے جانے والوں پر آپ کو دکھا کر پوچھ لوں کہ اس پر آپکی کیا رائے ھے اس لئے ایسی باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں۔
کنویں، ندی، دریا اور گھروں میں جو ڈسٹیلیشن طریقہ سے جو پانی ہمیں ملتا ھے یہ سب پانی کھڑے ہو کر پینے پر ممانعت ھے اسے بیٹھ کر پینا چاہئے اس کے علاوہ آب زم زم جو مکہ مکرمہ سے حاصل ہوتا ھے اسے کھڑے ہو کر پینے پر فرمایا گیا ھے۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں!
فارم لین میں اھلحدیث سے عادل سہیل ظفر جن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور ان کی اپنی ریسرچ ھے اور یہ خود ہی اس پر کام کرتے ہیں ان کی پوسٹ سے ہم دیکھتے ہیں اس پر کیا تحقیق ھے۔
کھڑے ہو کر کچھ پینے کا شرعی حُکم اور اُس کی حِکمت
(١) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا
لَا یَشْرَبَنَّ اَحَدٌ مِنْکُمْ قَائِمًا
تم میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر ہر گِز نہ پیے
(٢) ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے
اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہی عن الشُّرْبِ قَائِمًا
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا
اور اِن ہی کی دوسری روایت ہے
اَنَّ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) زَجَرَ عن الشُّرْبِ قَائِمًا
نبی (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا
(٣) بالکل یہی الفاظ انس رضی اللہ عنہُ نے بھی روایت کیئے ہیں ، اور
(٤) اِن کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں
اَنَّہُ نہی اَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا
:::قال قَتَادَۃُ فَقُلْنَا فَالْاَکْلُ:::
:::فقال ذَاکَ اَشَرُّ او اَخْبَثُ:::
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑا ہو کر پیے
::: قتادہ، انس رضی اللہ عنہُ سے روایت کرنے والے ، تابعی کہتے ہیں ، ہم نے کہا ( تو کھڑے ہو کر) کھانے کا کیا حُکم ہے :::
::: تو انس (رضی اللہ عنہُ) نے کہا کھانا تو پینے سے بڑھ کر شر والا اور زیادہ گندہ کام ہے:::
مندرجہ بالا تمام رویات صحیح مسلم / کتاب الاشربۃ / باب ١٤کراھیۃ الشُّربُ قائماً، کی ہیں ،
اِن احادیث سے جو باتیں بڑی وضاحت سے سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ کہ :::
(١)
کھڑے ہو کر کچھ بھی پینے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور ،
(٢)
اس سختی سے منع فرمایا ہے کہ پی گئی چیز کو قے ( یعنی اُلٹی) کر کے جِسم سے نکال دینے کا حُکم فرمایا ہے ،
(٣)
یہ حُکم کِسی بھی چیز کے لیے ہیں ، صِرف پانی کے لیے نہیں،
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا حُکم کراہت کا درجہ رکھتا ہے نہ کہ حرام کا ، اُن کا ایسا کہنا درست نہیں ، کیسے درست نہیں اِس کا ذِکر اِنشاء اللہ آگے آئے گا ، ایسا کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ
( علی رضی اللہ عنہُ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور فرمایا ، لوگ کھڑے ہو کر پینا مکروہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اِس لیے کھڑے ہو کر پیا ہے)
صحیح البُخاری /کتاب الاشربۃ / باب١٥الشُّربُ قائماً
(٥) اور دوسری دلیل عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا ہے کہ
سَقَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وسلم) من زَمْزَمَ فَشَرِبَ وہو قَائِمٌ
میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زمزم پلایا اور انہوں نے پیا اور وہ کھڑے تھے
صحیح مسلم / کتاب الاشربۃ / باب ١٥
کھڑے ہو کر پینے کے اجازت دینے والے ، خواہ مکروہ کہہ کر یا عام اجازت دینے والے اِن دو احادیث کو دلیل بناتے ہیں ، حیرت کی بات ہے کہ پہلی حدیث جو علی رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے یہ لوگ اُس میں علی رضی اللہ عنہُ کے اِلفاظ پر غور کیے بغیر فتویٰ دیے ہوئے ہیں ، اور اُسی پر عمل اور اُسی کو نشر کیے جا رہے ہیں ، جبکہ اِس روایت میں علی رضی اللہ عنہُ نے یہ کہا کہ''' لوگ کھڑے ہوکر پانی پینا مکرو سمجھتے ہیں ''' یہ اِلفاظ اس چیز کی واضح دلیل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہُ تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت نہیں پہنچی ورنہ کسی ایک عام سے صحابی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اُس تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات پہنچی ہو اور وہ اس کے خلاف کام کرے چہ جائیکہ علی رضی اللہ عنہُ جیسے صحابی ،کوئی اِیمان والا علی رضی اللہ عنہُ کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حُکم پہنچا ہو اور وہ اُس پر عمل نہ کریں ،
تو علی رضی اللہ عنہُ کے مذکورہ بالا اِلفاظ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ان تک یہ بات لوگوں کی بات کی حیثیت سے پہنچی ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے طور پر، جیسے کہ مسند احمد / حدیث ٩٧٠ میںہے کہ علی رضی اللہ عنہُ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا ''' کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ کھڑے ہو کر پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں''' یہ بات میری اِس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہُ نے لوگوں کی بات پر اِنکار کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پیا کیونکہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تھا اور ممانعت کا حُکم اُن تک نہیں پہنچا تھا ،
اگر علی رضی اللہ عنہُ کے اس قول کو وقتی طور پہ نظر انداز بھی کر لیا جائے تو بھی یہ بات
''' عِلم اصول الفقہ ''' میں مُقرر ہے کہ
'''کسی بھی صحابی کا کوئی ایسا قول یا فعل جو قرآن یا کسی صحیح (قولی یا فعلی) حد یث کے خلاف ہو وہ کوئی حجت نہیں ہوتا'''
تو علی رضی اللہ عنہُ کی اِن روایات میں سے علی رضی اللہ عنہُ کا کھڑے ہو کر پینے سے ممانعت پر اِنکار کرنا ، کھڑے ہوکر پینے کی اجازت دینے والوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ، جی ہاں دلیل کے طور پر علی رضی اللہ عنہُ کا یہ قول اِستعمال کِیا جا سکتا ہے کہ
'''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے'''
اور یہ ہی بات عبداللہ ابن عباس والی دوسری روایت میں بھی ہے ، یہاں تک ہمارے سامنے دو باتیں ظاہر ہوئِیں
(١) ایک تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم کہ کھڑے ہو کر کچھ بھی نہ پیا جائے اور
(٢) دوسرا ان کا اپنا فعل اپنے اس حکم کے مُخالف نظر آتا ہے ،
کوئی بھی ایسی دو صحیح روایات جو بظاہر ایک دوسرے کے مُخالف نظر آتی ہوں اِن کا اِختلاف تین قِسموں میں ہوتا ہے ، اور اِس کو حل کرنے کے لیے تین قانون بنائے گئے ہیں
''' عِلم اصول الفقہ ''' میں اِس معاملے کی تفصیل ائمہ نے بیان کی ہے ، لیکن ان قوانین کی طرف اس وقت جایا جاتا ہے جب حقیقت میں کوئی اِختلاف ہو یعنی کوئی ایسی صحیح حدیث مُیسر نہ ہو جو اختلاف کی وضاحت کر کے اس کے لیے کوئی اور حل ظاہر نہ کرتی ہو ،(ناسخ و منسوخ کا معاملہ بھی اِسی حل کے ضمن میں آتا ہے) تو ایسی صورت میں اُن قوانین کی طرف جایا جاتا ہے،
یہ چیزیں فق ''' عِلم اصول الفقہ ''' میں موجود ہیں اور اِس عِلم کے ائمہ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ملتی ہیں ''' عِلم اصول الفقہ ''' میں اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے ،اگر کوئی اِن معاملات کا تعارف حاصل کرنا چاہے تو میری کتاب ''' ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حُکم ''' کے مطالعے سے مدد مل سکتی ہے،
ہم اِس وقت جو مسئلہ سمجھ رہے ہیں ہیں، یعنی '''کھڑے ہو کر پینے کا مسئلہ ''' اِس میں نظر آنے والے اِختلاف کا حل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتا دیا گیا ہے ،
اور وہ یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب بیان فرما دِیا ، اور وہ سبب یہ ہے کہ جو کوئی بھی کھڑے ہو کر پیتا ہے شیطان اُس کے پینے میں شامل ہو جاتا ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا (قِہ ، قے کرو) ( یعنی جو پیا ہے اُسے اُلٹی کر کے نکال دو)
اُس نے عرض کِیا :::کیوں ؟:::
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( ا یُسُرُّکَ ان یَشرِبَ مَعکَ الھِر؟
کیا تُمہیں یہ بات خوشی دے گی کہ تمہارے ساتھ بِلا پیے ؟)
اُسنے کہا :::جی نہیں :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( فاِنَّہ ُ قَد شَرِبَ مَعکَ مَن ھُوَ شَرٌّ مِنہُ ؛ الشیطان ،،
بے شک (تمہارے کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے ) بِلے سے زیادہ شر والا تمہارے ساتھ پی چُکا ہے ، اور وہ ہے شیطان )
مُسند احمد / حدیث ٧٩٩٠ ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ، سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ / ضمن حدیث ١٧٥،
اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ کھڑے ہو کر پینے والے کے ساتھ شیطان شامل ہوتا ہے اور اِسی وجہ سے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا اور شدت سے منع فرمایا ،
کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب جاننے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خُود جو کھڑے ہو کر پیا ہے تو اِس کی کیا وجہ ہے ؟
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(ما مِنکُم من اَحَدٍ اِلا وقد وُکِّلَ بِہِ قَرِینُہُ من الجِنِّ ) :::
قالوا وَاِیَّاکَ یا رَسُولَ اللَّہِ :::
قال ( وَاِیَّایَ اِلا اَنَّ اللَّہَ اَعَانَنِی علیہ فَاَسلَمَ فلا یَامُرُنِی اِلا بِخَیرٍ)
( تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ جنات میں سے ایک جن نہ لگا دیا گیا ہو)
صحابہ نے عرض کیا کہ ::: اور آپ اے اللہ کے رسول ؟ :::
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہاں میں بھی لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے میری مدد کی اور میرے ساتھ جو جن لگا گیا تھا اُس نے اسلام قبول کر لیا لہذا وہ مجھ سے سوائے خیر کے اور کوئی بات نہیں کرتا )
صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،
اور اِسی باب میں اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے کہیں گئے تو ( یہ سوچ کر کہ شاید وہ صلی اللہ علیہ وسلم کِسی دوسری بیگم کے پاس گئے ہیں ) عائشہ رضی اللہ عنہا کو اِس پر غُصہ آیا ،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حالت دیکھ کر فرمایا (کیا ہوا عائشہ کیا تمہیں غُصہ آ رہا ہے؟)
عرض کیا ::میری جیسی کو آپ جیسے پر غُصہ کیوں نہ آئے؟::
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیا تمہارا شیطان آیا ہے؟)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا ::کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::اے اللہ کے رسول کیا آپکے ساتھ بھی؟::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں میرے ساتھ بھی لیکن میرے رب نے میری مدد کی حتیٰ کہ میرے شیطان نے اسلام قبول کر لیا)
صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،
حاصل کلام ::: یہ ہوا کہ کھڑے ہو کر کُچھ بھی پینا ہر اُمتی کے لیے حرام ہے ، اِس کی حِکمت شیطان کی شراکت سے محفوظ رہنا ہے۔
صاحب تھریڈ: عادل سہیل ظفر
۔۔
=======================
بھائی!
ایسی احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں جن میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت ملتی ہے۔ جن میں سے ایک آپ نے ذکر کی ہے۔
اور دوسری طرف احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں جن میں کھڑے ہو کر پینے کا جواز ملتا ہے جن کی طرف عمران صاحب اشارہ کر رہے ہیں،
میرا مقصد صرف یہ ہے کہ صرف اپنی رائے کی بنا پر ان احادیث مبارکہ کا ردّ نہیں کرنا چاہئے
جیسے آپ نے ترمذی کی روایت کے بارے میں عجیب وغریب تبصرہ کیا۔ اس بارے میں مزید احادیث یہ ہیں:
جناب انس بھائی یہ محدث کمیٹی کا فتوی بھی ساتھ اٹیچ کر رہا ہوں ایک نظر ادھر بھی!
فتویٰ نمبر : 2115
کھڑے ہو کر پینا اور چلتے ہوئے کھانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 09 September 2012 02:24 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کھڑے ہو کر پانی پینا اور چلتے پھرتے کھانا جائز ہے؟
-------------------------------------------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنت کے خلاف ہے ایسا کرنے والا اجر وثواب سے محروم ہے۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
کھانے پینے کے احکام ج1ص 444
حوالہ:
محدث فتویٰ
فتاویٰ جات: متفرقات فتویٰ نمبر : 2701
کھڑے ہو کر آب زمزم پینا
شروع از کلیم حیدر
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کھڑے ہو کر آب زمزم پینا مسنون اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
"سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم وهو قائم " (بخاری:1637)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آب زم زم پلایا ،اور آپ کھڑے تھے۔
البتہ اگر کوئی شخص بیٹھ کرپی لیتا ہے تو بھی جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
حوالہ:
محدث فتویٰ
والسلام