• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھڑے ہو کر پیشاب کرنا

شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم
محترم شیوخ

کیا نبی صل اللہ علیہ وسلم نے حالت مجبوری میں کھڑے ہوکر پیشاپ کیا ھے کوئ حدیث؟؟؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک قبیلے کے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر گئے تو وہاں کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔پھر پانی منگایا۔ میں آپ ﷺ کے پاس پانی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضو)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم
کیا نبی صل اللہ علیہ وسلم نے حالت مجبوری میں کھڑے ہوکر پیشاپ کیا ھے کوئ حدیث؟؟؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عن حذيفة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "اتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما، ‏‏‏‏‏‏ثم دعا بماء فجئته بماء فتوضا".
سيدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑا خانہ پر تشریف لائے (پس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ پھر پانی منگایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۰ (۲۲۴)، ۶۱ (۲۲۵)، ۶۲ (۲۲۶)، المظالم ۲۷ (۲۴۷۱)، صحیح مسلم/الطھارة ۲۲ (۲۷۳)، سنن الترمذی/الطھارة ۹ (۱۳)، سنن النسائی/الطھارة ۱۷ (۱۸)، ۲۴ (۲۶، ۲۷، ۲۸)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۱۳ ، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۹۴)، سنن الدارمی/الطھارة (۹/۶۹۵)

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو یہ کام جواز کے بیان کے لئے کیا، یا وہ جگہ ایسی تھی جہاں بیٹھنا مناسب نہیں تھا، کیونکہ بیٹھنے میں وہاں موجود نجاست سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملوث ہونے کا احتمال تھا، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے میں کوئی بیماری تھی جس کے سبب آپ نے ایسا کیا، واللہ اعلم۔
________________
ام المؤمنین سيدة عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ :
من حدثکم أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ، ماکان یبول إلا قاعداً "
(سنن الترمذي ، سنن النسائي)۔

تمہیں جو شخص یہ بتائے کہ نبی ﷺ (ہمیشہ) کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچا نہ سمجھو۔ آپ (عام طور پر) صرف بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔

تو یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نبیﷺ کی سنت سے جو معلوم تھا اسے بیان کردیا اور (صریح تعارض کی صورت میں) مثبت منفی پر مقدم ہوتا ہے پس یہ ضروری ہے کہ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو (جواز کی دلیل کے طور پر) لازم پکڑا جائے کیونکہ اس کی بنیاد ، دیکھنے پر ہے جس کا تعلق حسِ بصارت سے ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کا تعلق علم کے ساتھ ہے ۔ (یہ ظاہر ہے کہ بعض اوقات) علم سے بعض چیزیں چھپی رہ جاتی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور جید علماء پر مشتمل مفتیان کرام کی کمیٹی اللجنۃ الدائمہ کا فتوی ہے :

السؤال الأول من فتوى رقم 2001
سوال : هل تبول الإنسان واقفا حرام أو حلال؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه. . وبعد:
لا يحرم تبول الإنسان قائما لكن يسن له أن يتبول قاعدا لقول عائشة رضي الله عنها: «من حدثكم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه ما كان يبول إلا قاعدا (1) » رواه الترمذي وقال: هذا أصح شيء في الباب ولأنه أستر له وأحفظ له من أن يصيبه شيء من رشاش بوله.
وقد رويت الرخصة في البول قائما عن عمر وعلي وابن عمر وزيد بن ثابت رضي الله عنهم لما رواه البخاري ومسلم عن حذيفة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنه أتى سباطة قوم فبال قائما (2) » ولا منافاة بينه وبين حديث عائشة رضي الله عنها لاحتمال أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم فعل ذلك لكونه في موضع لا يتمكن فيه من الجلوس أو فعله ليبين للناس أن البول قائما ليس بحرام وذلك لا ينافي أن الأصل ما ذكرته عائشة رضي الله عنها من بوله صلى الله عليه وسلم قاعدا وأنه سنة لا واجب يحرم خلافه.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

__________
(1) الإمام أحمد 1 / 192 والترمذي (تحفة الأحوذي) 1 / 27 وابن ماجه 1 / 112 برقم 307.
(2) الإمام أحمد 4 / 246، 5 / 382، 394 والبخاري 1 / 62، ومسلم 1 / 228 برقم (273) وأبو داود 1 / 6، 7 برقم (23) والنسائي 1 / 29، والترمذي (تحفة الأحوذي) 1 / 30 وابن ماجه 1 / 111، 112 برقم (305، 306) .

ترجمہ :
سوال نمبر: 1 - فتوی نمبر:( 2001 )
سوال: کسی انسان کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام ہے یا حلال؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: تمام تعريفيں صرف الله كيلئے ہيں، اور صلاۃ وسلام نازل ہو اللہ کے رسول پر، آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد:
کسی بھی انسان کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے، لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا سنت ہے، اس لئے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ جو تم سے یہ بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تم اس کی تصدیق نہ کرو، کیونکہ آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روايت كيا ہے، اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے۔ اور اس لئے بھی کہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں زیادہ سترپوشی ہوتی ہے، اور اسی میں پیشاب کے چھینٹوں سے زیادہ حفاظت ہوتی ہے۔
اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے سلسلے میں سیدنا عمر، علی، ابن عمر، اور زید بن ثابت رضی الله عنهم سے اجازت اور چھوٹ منقول ہے،
اس لئے کہ امام بخاری اور مسلم نے سیدنا حذیفہ رضي الله عنه سے روایت کیا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کسی قوم کی کوڑی (کوڑا پھینکنے کی جگہ) پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس حدیث اور حضرت عائشہ رضي الله عنها کی سابقہ حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے کہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہاں کھڑے ہوکر پیشاب اس لئے کيا کہ یہ جگہ بیٹھنے کے مناسب نہیں تھی، یا آپ نے اس لئے کیا، تاکہ لوگوں کو یہ بتلا دیں کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے، اور اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوتی ہے جس کا ذکر سیدہ عائشہ رضي الله عنها نے کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم ہمیشہ بیٹھ ہی کر پیشاب کیا کرتے تھے، اور یہ ایک سنت ہے، کوئی ایسا واجب نہیں ہے کہ اس کے خلاف کرنا حرام ہی ہو۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی ( جلد کا نمبر 5، صفحہ 107)
ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
  1. کسی بھی انسان کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے،
  2. لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا سنت ہے،
  3. امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے۔ اور اس لئے بھی کہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں زیادہ سترپوشی ہوتی ہے، اور اسی میں پیشاب کے چھینٹوں سے زیادہ حفاظت ہوتی ہے۔
پہلی دو باتیں تو بلا شبہ غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ البتہ تیسری بات تشریح طلب ہے۔ واضح رہے کہ دور رسالت میں بول و براز کھلے میدانوں اور ویرانوں میں کیا جاتا تھا۔ آج بھی بہت سے غریب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن بیشتر متمدن معاشروں میں چہار دیواری کے اندر مقفل بیت الخلاء ہوتے ہیں۔ عوامی مقامات پر بھی بیت الخلاء چہار دیواری کے اندر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی بہت سے مقامات پر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہے۔ سوٹ پینٹ میں ملبوس یا صنعتی کور آل (جس میں پینٹ اور شرٹ جڑی ہوءی ہوتی ہے) پہنے فرد کے لیے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ ستر پوشی کی بیت الخلا کے اندر ویسے بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اکثر ہواءی جہازوں میں تو بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

لہٰذا کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیت الخلاء کے اندر اگر بیٹھ کر پیشاب کرنا محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہو تو بیٹھ کر ہی کیا جاءے۔ لیکن اگر کپڑوں یا بہت الخلاء کی بناوٹ ایسی ہو کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہو تو کھڑے ہوکر ہی کیا جاءے۔؟؟؟
اسی طرح بول و براز اگر کھلے میدان میں کیا جاءے تب ہی قبلہ کی طرف رُخ یا پشت ممنوع ہے۔ چہار دیواری کے اندر واقع بیت الخلاء میں کوءی بھی سمت ممنوع نہیں ہے ؟؟؟
اہل علم سے وضاحت کی درخواست ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
پہلی دو باتیں تو بلا شبہ غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ البتہ تیسری بات تشریح طلب ہے۔ واضح رہے کہ دور رسالت میں بول و براز کھلے میدانوں اور ویرانوں میں کیا جاتا تھا۔ آج بھی بہت سے غریب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن بیشتر متمدن معاشروں میں چہار دیواری کے اندر مقفل بیت الخلاء ہوتے ہیں۔ عوامی مقامات پر بھی بیت الخلاء چہار دیواری کے اندر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی بہت سے مقامات پر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہے۔ سوٹ پینٹ میں ملبوس یا صنعتی کور آل (جس میں پینٹ اور شرٹ جڑی ہوءی ہوتی ہے) پہنے فرد کے لیے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ ستر پوشی کی بیت الخلا کے اندر ویسے بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اکثر ہواءی جہازوں میں تو بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

لہٰذا کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیت الخلاء کے اندر اگر بیٹھ کر پیشاب کرنا محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہو تو بیٹھ کر ہی کیا جاءے۔ لیکن اگر کپڑوں یا بہت الخلاء کی بناوٹ ایسی ہو کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا زیادہ محفوظ اور چھینٹوں سے بچاتا ہو تو کھڑے ہوکر ہی کیا جاءے۔؟؟؟
اسی طرح بول و براز اگر کھلے میدان میں کیا جاءے تب ہی قبلہ کی طرف رُخ یا پشت ممنوع ہے۔ چہار دیواری کے اندر واقع بیت الخلاء میں کوءی بھی سمت ممنوع نہیں ہے ؟؟؟
ان معروضات کے پیش نظر دو بنیادی باتیں سمجھ لینا ضروری ہیں :
(1) پہلی بات یہ کہ پیشاب سے اپنے جسم اور کپڑوں کو بچانا از حد ضروری ہے ؛
امام بخاریؒ اپنی صحیح میں باب منعقد کرتے ہیں :

بَابُ مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ لاَ يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ:
باب: پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے

‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ:‏‏‏‏ كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ ))
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔ صحیح بخاری 226
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
(2) دوسری بات قضائے حاجت کے وقت پردہ کا وجوب
امام ترمذیؒ نے اس مسئلہ پر ایک مرسل حدیث بیان فرمائی ہے :

عن الاعمش، عن انس، قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا اراد الحاجة لم يرفع ثوبه حتى يدنو من الارض ".
سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہو جاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔
دوسری سند میں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہو جاتے نہیں اٹھاتے تھے ۔
ــــــــــــــــــــــــ
اس کی شرح میں علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ فرماتے ہیں :

قوله (إذا أراد الحاجة) أي قضاء الحاجة والمعنى إذا أراد القعود للغائط أو للبول (حتى يدنو من الأرض) أي حتى يقرب منها محافظة على التستر واحترازا عن كشف العورة
وهذا من أدب قضاء الحاجة قال الطيبي يستوي فيه الصحراء والبنيان لأن في رفع الثوب كشف العورة وهو لا يجوز إلا عند الحاجة ولا ضرورة في الرفع قبل القرب من الأرض "(تحفۃ الاحوذی )

صحرا ہو یا بیت الخلاء قضائے حاجت کا (وجوبی ) ادب یہ ہے کہ شرمگاہ کی بے پردگی سے پوری طرح بچے ، اور زمین کے بالکل قریب جا کر ہی کپڑے کھولے ،تاکہ کشف شرم گاہ نہ ہو ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پیشاب کے چھینٹے سے اپنے جسم اور کپڑوں کو بچانا اور ستر و پردہ کا لحاظ کرنا
کے یہ دونوں تقاضے جیسے زیادہ اچھی طرح پورے ہوتے ہوں ویسے کرے،
واللہ اعلم
 
Top