طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
بعض لوگوں نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ ’’توحید کا لفظ سب سے پہلے خوارج نے استعمال کیا ؛قرآن اور حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا!‘‘
لیکن یہ قطعی مغالطہ ہے؛اس باب میں چند امورقابل توجہ ہیں:
اولاً ،یہ کہ کوئی لفظ جب اصطلاح کا درجہ اختیار کر لیتا اور کسی گروہ کے یہاں رائج ہو جاتا ہے تواس کا وہی مفہوم معتبر ہوتا ہے جو وہ گروہ مراد لیتا ہو۔ اہل سنت وجماعت توحید کی اصطلاح کو متعین مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جس سے ہر شخص باخبر ہے؛پس اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسےاولاً کس نے ایجاد کیا اور کس غلط معنی میں استعمال کیا۔
ثانیاً،یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسے سب سے پہلے خوارج نے برتااور اپنا نام ’’اہل العدل والتوحید‘‘ رکھا؛یہ نام معتزلہ فرقے کا تھا، نہ کہ خوارج کا!
ثالثاً،کسی اصطلاح کے لیے قرآن یا سنت میں موجود ہونا ہر گز ضروری نہیں ہے؛ہاں یہ بہتر ہے کہ کتاب و سنت میں واردلفظیات اختیار کی جائیں ؛البتہ اس کا مفہوم درست ہونا چاہیے اور لفظِ توحید کا مفہوم بالکل حق ہے؛اس میں کوئی خرابی نہیں۔
رابعاً،قرآن مجیدمیں اگرچہ توحید کا لفظ موجود نہیں ہے لیکن اس مادے(Root Word)یعنی وحدکے دیگر مشتقات بہ کثرت مذکور ہیں؛مثلاً: وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:163) أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا (ص:۵) وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا )الجن: (18
اس اعتبار سےاصطلاحِ توحید کی اصل قرآن میں بھی موجود ہے۔
خامساًً،متعدداحادیث مبارکہ میں صراحتاً یہ لفظ وارد ہوا ہے؛چناں چہ ایک صحابی سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: «أما أبوك، فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت، وتصدقت عنه؛ نفعه ذلك» ’’اگر تیراوالدتوحید کا اقرار کرتا تھا تو اس کی طرف سےتیرا روزہ رکھنا اور صدقہ کرنا،اس کے لیے مفید ہو گا۔‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ : 484) اسی طرح ایک اورروایت میں ارشاد ِ نبوی ہے: يعذب ناس من أهل التوحيد في النار۔۔۔’’اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو دوزخ میں ڈلا جائے گا۔۔۔‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ : 2451) امام ترمذی ؒ نے متعدد صحابہؓ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: «سيخرج قوم من النار من أهل التوحيد، ويدخلون الجنة» ’’اہل توحید میں سے کچھ لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘(جامع ترمذی: 2638) سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قربانی کے موقع پر ایک مینڈھا اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے بھی ذبح کیا کرتے تھے جو توحید کی گواہی دیتے تھے: لمن شهد لله بالتوحيد (سنن ابن ماجۃ: 3122)
اسی طرح آں حضرت ﷺ کا فرمان ہے: كان رجل ممن كان قبلكم لم يعمل خيرًا قطُّ؛ إلا التوحيد۔(السلسلۃ الصحیحۃ : 3048)’’تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس نے سواے توحید کے کوئی بھلائی کا کام نہیں کیا تھا۔‘‘ان کے علاوہ اورروایتوں میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔
سادساً، صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحین سے بھی توحید کالفظ منقول ہے؛حبر الامۃترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کاقول ہے کہ قرآن میں جہاں بھی عبادت کا حکم ہے وہاں توحید ہی مراد ہے؛سورت کافرون کے متعلق انھی کا ارشاد ہے کہ پورے قرآن میں شیطان کے لیے اس سے زیاد باعث غیظ و غضب اور کوئی سورت نہیں کیوں کہ یہ توحید اور براءت شرک پر مبنی ہے۔امام دارالھجرۃ مالک بن انسؒ کا مقولہ ہے: محال أن نظن بالنبي صلى الله عليه و سلم أنه علّم أمته الاستنجاء و لم يعلمهم التوحيد.’’ یہ امر ناممکنات میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ گمان کریں کہ انھوں نے اپنی امت کو استنجا کے مسائل تو بتلائے ہوں لیکن انھیں توحید کی تعلیم نہ دی ہو!‘‘
حاصل کلام یہ کہ توحید کی اصطلاح سنت سے ثابت ہے اور سلف صالحین یہ بہ تواتر منقول ہے ؛پس اس کا انکار جہالت ہے یا پھر تحکم اورسینہ زوری! خداوند قدوس ہمیں توحید پر قائم رکھے اور جہل و ضلالت کے فتنوں سے محفوظ فرمائے؛آمین
لیکن یہ قطعی مغالطہ ہے؛اس باب میں چند امورقابل توجہ ہیں:
اولاً ،یہ کہ کوئی لفظ جب اصطلاح کا درجہ اختیار کر لیتا اور کسی گروہ کے یہاں رائج ہو جاتا ہے تواس کا وہی مفہوم معتبر ہوتا ہے جو وہ گروہ مراد لیتا ہو۔ اہل سنت وجماعت توحید کی اصطلاح کو متعین مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جس سے ہر شخص باخبر ہے؛پس اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسےاولاً کس نے ایجاد کیا اور کس غلط معنی میں استعمال کیا۔
ثانیاً،یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسے سب سے پہلے خوارج نے برتااور اپنا نام ’’اہل العدل والتوحید‘‘ رکھا؛یہ نام معتزلہ فرقے کا تھا، نہ کہ خوارج کا!
ثالثاً،کسی اصطلاح کے لیے قرآن یا سنت میں موجود ہونا ہر گز ضروری نہیں ہے؛ہاں یہ بہتر ہے کہ کتاب و سنت میں واردلفظیات اختیار کی جائیں ؛البتہ اس کا مفہوم درست ہونا چاہیے اور لفظِ توحید کا مفہوم بالکل حق ہے؛اس میں کوئی خرابی نہیں۔
رابعاً،قرآن مجیدمیں اگرچہ توحید کا لفظ موجود نہیں ہے لیکن اس مادے(Root Word)یعنی وحدکے دیگر مشتقات بہ کثرت مذکور ہیں؛مثلاً: وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:163) أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا (ص:۵) وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا )الجن: (18
اس اعتبار سےاصطلاحِ توحید کی اصل قرآن میں بھی موجود ہے۔
خامساًً،متعدداحادیث مبارکہ میں صراحتاً یہ لفظ وارد ہوا ہے؛چناں چہ ایک صحابی سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: «أما أبوك، فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت، وتصدقت عنه؛ نفعه ذلك» ’’اگر تیراوالدتوحید کا اقرار کرتا تھا تو اس کی طرف سےتیرا روزہ رکھنا اور صدقہ کرنا،اس کے لیے مفید ہو گا۔‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ : 484) اسی طرح ایک اورروایت میں ارشاد ِ نبوی ہے: يعذب ناس من أهل التوحيد في النار۔۔۔’’اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو دوزخ میں ڈلا جائے گا۔۔۔‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ : 2451) امام ترمذی ؒ نے متعدد صحابہؓ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: «سيخرج قوم من النار من أهل التوحيد، ويدخلون الجنة» ’’اہل توحید میں سے کچھ لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘(جامع ترمذی: 2638) سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قربانی کے موقع پر ایک مینڈھا اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے بھی ذبح کیا کرتے تھے جو توحید کی گواہی دیتے تھے: لمن شهد لله بالتوحيد (سنن ابن ماجۃ: 3122)
اسی طرح آں حضرت ﷺ کا فرمان ہے: كان رجل ممن كان قبلكم لم يعمل خيرًا قطُّ؛ إلا التوحيد۔(السلسلۃ الصحیحۃ : 3048)’’تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس نے سواے توحید کے کوئی بھلائی کا کام نہیں کیا تھا۔‘‘ان کے علاوہ اورروایتوں میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔
سادساً، صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحین سے بھی توحید کالفظ منقول ہے؛حبر الامۃترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کاقول ہے کہ قرآن میں جہاں بھی عبادت کا حکم ہے وہاں توحید ہی مراد ہے؛سورت کافرون کے متعلق انھی کا ارشاد ہے کہ پورے قرآن میں شیطان کے لیے اس سے زیاد باعث غیظ و غضب اور کوئی سورت نہیں کیوں کہ یہ توحید اور براءت شرک پر مبنی ہے۔امام دارالھجرۃ مالک بن انسؒ کا مقولہ ہے: محال أن نظن بالنبي صلى الله عليه و سلم أنه علّم أمته الاستنجاء و لم يعلمهم التوحيد.’’ یہ امر ناممکنات میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ گمان کریں کہ انھوں نے اپنی امت کو استنجا کے مسائل تو بتلائے ہوں لیکن انھیں توحید کی تعلیم نہ دی ہو!‘‘
حاصل کلام یہ کہ توحید کی اصطلاح سنت سے ثابت ہے اور سلف صالحین یہ بہ تواتر منقول ہے ؛پس اس کا انکار جہالت ہے یا پھر تحکم اورسینہ زوری! خداوند قدوس ہمیں توحید پر قائم رکھے اور جہل و ضلالت کے فتنوں سے محفوظ فرمائے؛آمین