• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیانبی ﷺ نےابن عمر﷜ کےطلاق حیض کوشمارکیا؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیانبی ﷺ نےابن عمر﷜ کےطلاق حیض کوشمارکیا؟


کفایت اللہ سنابلی​

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
نا عثمان بن أحمد الدقاق نا عبد الملك بن محمد أبو قلابة نا بشر بن عمر نا شعبة عن أنس بن سيرين قال سمعت بن عمر يقول : طلقت امرأتي وهي حائض فأتي عمر النبي صلى الله عليه و سلم فسأله فقال مره فليراجعها فإذا طهرت فليطلقها إن شاء قال فقال عمر يا رسول الله أفتحتسب بتلك التطليقة قال نعم
ابن عمررضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نےاپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق دے دی توعمررضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئےاوران سےپوچھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی کوواپس لےلیں پھرجب وہ پاک ہوجائےتواس کے بعداگرچاہیں تواسےطلاق دے دیں۔توعمررضی اللہ عنہ نے کہا:اےاللہ کےرسولصلی اللہ علیہ وسلم!کیاآپ اس طلاق کوشمارکرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ہاں! [سنن الدارقطني: 4/ 5 واخرجہ ایضا البيهقي فی السنن الكبرى ، ط الهند: 7/ 326 من طریق ابی قلابہ بہ]


یہ روایت ضعیف ہے اسے علامہ معلمی اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قراردیاہے۔
تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
أبو قلابة عبد الملك بن محمد الرقاشی کا تفرد

اس حدیث کو مذکورہ الفاظ کے ساتھ بیان کرنے میں ابوقلابہ منفرد ہے کسی بھی طبقے میں اس کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ اس کے اوپر کے طبقات میں اس کی شدید مخالف ثابت ہے ۔

چنانچہ انس بن سیرین کے علاوہ اسی حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دس رواۃ نے بیان کی ہے ان دس میں سے کسی نے بھی مرفوع حدیث میں یہ الفاظ بیان نہیں کئے ہیں یہ دس رواۃ یہ ہیں:

(1) نافع مولي ابن عمر (صحيح البخاري 7/ 41 رقم 5251)
(2) سالم بن عبد الله (صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
(3) يونس بن جبير (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333)
(4) عبدالله بن دينار (صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
(5) طاوس بن كيسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
(6) سعيد بن جبير (صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح علي شرط مسلم)
(7) محمد بن مسلم أبو الزبير (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 وإسناده صحيح)
(8) شقيق بن سلمة أبو وائل (مصنف ابن بي شيب. سلفية: 5/ 3 وإسناده صحيح)
(9) ميمن بن مهران (السنن الكبري للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 وإسناده صحيح)
(10) مغيرة بن يونس (شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 وإسناده حسن)

اسی طرح انس بن سیرین سے بھی اس روایت کو پانچ رواۃ نے نقل کیا ہے ان پانچ میں سے صرف شعبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں باقی چارراویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے یہ چار رواۃ درج ذیل ہیں:

عبد الملك ابن أبي سليمان (صحيح مسلم 2/ 1097 رقم 1471)
خالد بن مهران الحذاء (سنن سعيد بن منصور 1/ 402 رقم 1549واسنادہ صحیح)
يونس بن عبيد العبدي(سنن سعيد بن منصور 1/ 402 رقم 1550واسنادہ صحیح)
عاصم بن سليمان الأحول (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10958 واسنادہ صحیح)

اسی طرح شعبہ سے بھی اس روایت کو آٹھ رواۃ نے نقل کیا ہے ان آٹھ میں سے صرف بشر بن عمر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں باقی سات راویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے یہ سات رواۃ درج ذیل ہیں:

محمد بن جعفر (صحيح مسلم 2/ 1097 رقم 1471)
عبد الرحمن بن مهدي (مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 61 رقم 5268 واسنادہ صحیح)
بهز بن أسد العمي(مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 61 رقم 5268 واسنادہ صحیح)
يزيد بن هارون (المنتقى لابن الجارودص: 183 رقم735 واسنادہ صحیح )
أبو النضرهاشم بن القاسم الليثي (مستخرج أبي عوانة 3/ 149 رقم 4522 واسنادہ صحیح)
أبو الوليد هشام بن عبد الملك الباهلي(مستخرج أبي عوانة 3/ 149 رقم 4522 واسنادہ صحیح)
الحجاج بن محمد المصيصي (مستخرج أبي عوانة 3/ 149 رقم 4522 واسنادہ صحیح)

اور بشر بن محمد سے صرف أبو قلابة عبد الملك بن محمد الرقاشی نے یہ روایت بیان کی ہے اور صرف اسی نے مذکورہ الفاظ بیان کئے ہیں ۔
بلکہ ابو عوانہ کی روایت میں اس نے بھی یہ الفاظ بیان نہیں کئے ہیں دیکھئے: مستخرج أبي عوانة (3/ 150 رقم 4523 )

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں أبو قلابة عبد الملك بن محمد منفرد ہے اور مضطرب بھی ہے کبھی اس نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں اور کبھی نہیں بیان کئے ہیں ، اور اس کے حافظہ پر کلام ہے چنانچہ:

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
صدوق ، كثير الخطأ في الأسانيد والمتون ، لا يحتج بما ينفرد به
یہ صدوق تھے ، لیکن سندوں اور متون میں بکثرت غلطی کرتے تھے اس لئے جس چیز کو بیان کرنے میں یہ منفرد ہوں گے وہ حجت نہیں ہوگی [سؤالات الحاكم للدارقطني ط الفاروق ص: 92]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
صدوق يخطئ
یہ صدوق اور غلطی کرنے والے ہیں[الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 669]

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابوقلابہ الرقاشی بغداد جانے کے بعد مختلط ہوگئے تھے جیساکہ امام عراقی (المتوفى806)نے نقل کیا کہ ابن خزیمہ نے کہا:
ثنا أبو قلابة بالبصرة قبل أن يختلط ويخرج إلى بغداد
ہم سے ابوقلابہ نے بصرہ میں بیان کیا مختلط ہونے اور بغداد روانہ ہونے سے پہلے[ذيل ميزان الاعتدال للعراقی ص: 178 نقلا عن صحیح ابن خزیمہ]

امام ابن خزیمہ کے اس قول کی بنیاد پر بعض حضرات کا موقف یہ ہے کہ ابوقلابہ آخر میں مختلط ہوگئے تھے اور بغداد میں ان سے جن لوگوں نے سنا ہے وہ اختلاط کے بعد سنا ہے لہٰذا ان سے بغدادی حضرات کی روایات ضعیف ہے ۔
عرض ہے کہ زیر بحث روایت میں ابوقلابہ سے نقل کرنے والے عثمان بن أحمد الدقاق ہیں اور ان کے بارے میں ابن خزیمہ کے مذکورہ قول کے ناقل امام عراقی نے ہی صراحت کررکھی ہے کہ انہوں نے ابوقلابہ سے بغداد میں سنا ہے چنانچہ کہا:
وممن سمع منه ببغداد ۔۔۔أبو عمرو عثمان بن أحمد السماك
اور جنہوں نے ابوقلابہ سے بغداد میں سنا ہے ان میں أبو عمرو عثمان بن أحمد السماك ہیں ۔[التقييد والإيضاح للقراقی ص: 462]

امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)نے کہا:
وممن سمع منه أخيرا ببغداد أبو عمرو عثمان بن أحمد السماك وأبو بكر محمد بن عبد الله الشافعي وغيرهما، فعلى قول ابن خزيمة سماعهم منه بعد الاختلاط
جنہوں نے ابوقلابہ سے آخر میں بغداد میں سنا ہے ان میں أبو عمرو عثمان بن أحمد السماك اور أبو بكر محمد بن عبد الله الشافعي وغيرهما ہیں اور ابن خزیمہ کے قول کی بنیاد پر ابوقلابہ سے ان کا سماع اختلاط کے بعد ہے[فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 4/ 373]

جوحضرات ابوقلابہ کو مختلط مانتے ہیں ان کے نزدیک اس حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے بس یہی بات کافی ہے کہ ابوقلابہ نے اسے اختلاط کے بعد بیان کیا ہے۔
لیکن ہماری نظر میں راجح بات یہ ہے کہ ابوقلابہ کا اختلاط عام اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ تغیر حفظ کے معنی میں ہے اس لئے یہ اختلاط یعنی تغیر حفظ کے بعد بھی ثقہ یا کم از کم صدوق کے درجہ پر ہیں ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے تقریب میں لکھا ہے:
صدوق يخطىء تغير حفظه لما سكن بغداد
یہ صدوق اور غلطی کرنے والے ہیں ، بغداد سکونت اختیار کرنے کے بعد ان کا حفظ متغیر ہوگیا تھا [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4210]
ملاحظہ فرمائیں ابن حجر رحمہ اللہ نے اختلاط کا حکم نہیں لگایا بلکہ صرف تغیر حفظ کی بات کی ہے یہی بات ہمارے نزدیک راجح ہے جیساکہ ہم نے دیگر مقام پر مزید تفصیل سے یہ بات واضح کررکھی ہے۔
لہٰذا ابو قلابہ سے اہل بغداد کی روایات بھی صحیح یا کم ازکم حسن ہوں گی البتہ اگر کسی روایت میں ان کا تفرد ثابت ہوجائے اور ایک جماعت کے خلاف ان کا بیان ملے تو ایسے مقامات پر ان کی روایت قابل قبول نہیں ہوگی ۔
اور زیر بحث روایت میں یہی صورت حال ہے لہٰذا ابو قلابہ کی یہ روایت ضعیف ہے۔

نیز چونکہ امام درقطنی وغیر نے ان کے حافظہ پر مطلق جرح کی ہے اس لئے اگر غیر بغداد میں بھی ان کی ایسی روایت ملے گی جن میں یہ منفرد ہوں گے اور اوثق و اکثر کے خلاف روایت کریں گے تو ان کی ایسی روایات بھی حجت نہیں ہوگی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
علامہ معلمی رحمہ اللہ زیربحث روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما أبو قلابة فثقة، ولكن قال الدارقطني نفسه : صدوق كثير الخطأ في الأسانيد والمتون، كان يحدث من حفظه، فكثرت الأوهام في روايته.وقال الحاكم عن الدارقطني: لا يحتج بما ينفرد به
ابوقلابہ ثقہ ہیں لیکن خود(زیربحث حدیث کے راوی) امام دارقطنی نے ہی کہا ہے کہ یہ صدوق تھے ، لیکن سندوں اور متون میں بکثرت غلطی کرتے تھے یہ اپنے حافظے سے بیان کرتے تھے اس لئے ان کی روایات میں غلطیاں بہت ہیں ۔اورامام حاکم نے دارقطنی سے نقل کیا کہ جس روایت کو بیان کرنے میں یہ منفرد ہوں گے وہ حجت نہیں ہوگی [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 687]


علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وإسنادها ضعيف: لأنها من رواية عبد الملك بن محمد الرقاشى حدثنا بشر بن عمر أخبرنا شعبة عن أنس بن سيرين.والرقاشى قال الحافظ فى " التقريب " صدوق يخطىء تغير حفظه لما سكن بغداد " فقوله فى " الفتح " (9/308) : " ورجاله إلى شعبة ثقات " لا يخفى ما فيه.
اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اسے عبدالملک بن محمد الرقاشی نے حدثنا بشر بن عمر أخبرنا شعبة عن أنس بن سيرين کی سند سے بیان کیا ہے اور رقاشی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: یہ صدوق اور غلطی کرنے والے ہیں ، بغداد سکونت اختیار کرنے کے بعد ان کا حفظ متغیر ہوگیا تھا ، لہٰذا فتح الباری (9/308) میں حافظ ابن حجر کا یہ کہنا (شعبہ تک اس کے رجال ثقہ ہیں ) اس کی حقیقت مخفی نہیں ہے۔[إرواء الغليل للألباني: 7/ 128]
 
Top