چوتھی دلیل[ترمیم]
قرآن حکیم اس معاملے میں ایک اور دلیل یہ دیتا ہےکہ تمہاری پیدائش زیادہ مشکل ہے یا زمین و آسمانوں اور ان تمام چیزوں کی جو اللہ نے پیدا کر رکھی ہیں؟
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاء بَنَاهَا﴿27﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا﴿28﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا﴿29﴾
کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا، اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھر اس کا توازن قائم کیا ، اور اس کی رات ڈھانکی اور اس کا دن نکالا۔
— القرآن سورۃ النازعات:27 - 29
فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
اب ان سے پوچھو ، ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا ان چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔
— القرآن سورۃ الصافات:11
پھر خود ہی قرآن حکیم میں اس کا جواب دے دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی نسبت زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
— القرآن سورۃ المؤمن:57
یہ کیسے بڑا کام ہے؟آج کے سا ئنسی دور میں یہ بات سمجھنا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔ آئیے بات کو سمجھنے کےلیے دیگر سیاروں، سورج اور ستاروں کے مقابلے میں زمین کو دیکھتے ہیں۔آغاز زمین سے ہی کیجیے۔ فرمان خداوندی ہے:
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا﴿6﴾ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ﴿7﴾ وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ﴿8﴾ وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿9﴾ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسً﴿10﴾ وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا﴿11﴾ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا﴿12﴾ وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا﴿13﴾ وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجًا﴿14﴾ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا﴿15﴾ وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا﴿16﴾
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش (بچھونا) بنایا، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا، اور تمہیں (مردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا، اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا، اور رات کو پردہ پوش اور دن کو معاش کا وقت بنایا، اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے، اور ایک نہابت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔ اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے غلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں؟
— القرآن سورۃ النباء:6 - 16
زمین کے اندر کیا کچھ ہے ہم اس پر بات نہیں کرتے بلکہ اپنا سفر اوپر کی جانب شروع کرتے ہیں۔ہمارا اور لاکھوں مخلوقات کا گھر زمینearth سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں میں پانچواں بڑا سیارہ ہے اسے blue planet بھی کہا جاتا ہے۔ سطح زمین سے تقریباً 965 کلومیٹر اوپر تک فضا ہے جس کی سب سے نچلی تہہ(troposphere) 8سے 16 کلومیٹر میں آبی بخارات، موسموں کی تبدیلی اور بارشوں کے برسنے کا نظام چلتاہے جو زمین پر زندگی کے ممکن ہونے کا باعث ہے۔ دوسری تہہ stratosphere)) اوپر 50 کلومیٹر تک جاتی ہےاور اس کے بعد تیسری تہہ 50(mesosphere)سے80 کلومیٹر میں اوزون گیس کی تہہ سورج اور دیگر ستاروں کی نقصان دہ الٹراوائلٹ شعاؤں کو روکتی ہےیہ تہہ اوراس سے اوپر کی تہیں ایک فلٹرکی مانند ہمیں نقصان دہ شعاؤں سے بچاتی ہیں۔ اور اس کے علاوہ زمین کے (2890 کلومیٹر )ثقیل اندرونی حصے mantle کی وجہ سے پیدا ہونے والا زمین کا مقناطیسی میدان ہےجو ہمیں نقصان دہ سولر ریڈی ایشن اورشمسی ہواؤں سے بچاتا ہے۔ یہی فضاatmosphereہمیں شہابیوں کی بارش سے بھی بچاتی ہے۔ اور یوں اس بچھونےپر اللہ کے بنائے ایک محفوظ چھت کے نیچے ہم زندگی گزارتےہیں۔اس بارے میں یہ ویڈیو ضرور دیکھیے۔
اور اللہ کا یہ فرمان بھی ملاحظہ ہو:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ﴿30﴾ وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ﴿31﴾ وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ﴿32﴾ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴿33﴾
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننےسے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو)نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ کائنات کی نشانیوں کی طرف توجّہ ہی نہیں کرتے۔ اور وُہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
— القرآن سورۃ الانبیاء:30 - 33
سائنسدانوں کے مطابق بنانے والے نے اس زمین کو ایسا بنایا ہےکہ کم از کم پانچ سو ملین سال تک مزید اس پر زندگی ممکن ہے۔زمین پر 71٪پانی ہے اور باقی خشکی۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
http://en.wikipedia.org/wiki/Earth
اب ذرا یہ دیکھیے کہ ہم اس کائنات میں کتنے ہی چھوٹے ہیں۔سورج زمین سے کتنا بڑا ہے ،دیگر ستارے سورج سے کتنے بڑے ہیں اور کائنات کے فاصلے کتنے ہی زیادہ ہیں۔اس ویڈیو میں آپ زمین ، سورج اور ہماری کہکشاں میں موجود دیگر ستاروں کے ڈایا میٹرز کا ایک موازنہ دیکھیے:
اورہم کتنے چھوٹے ہیں یہ جاننے کے لیےیہ ویڈیوز تو ضرور ہی دیکھیے:
زمین کا ڈایامیٹرتقریباً 12742 کلومیٹرہے۔اس کے مقابلے میں سورج کا ڈایامیٹر 1392000کلومیٹر ہے یعنی زمین سے 109گنا زیادہ۔ اور سورج sun کی کمیت زمین کی کمیت سے 330000گنا زیادہ ہے۔سورج زمین سےتقریباً 149.6 ملین کلومیٹرز کے فاصلے پرہے اور سورج کی روشنی 8منٹ 19 سیکنڈ میں زمین تک پہنچتی ہے۔ سورج ہی کی توانائي کے باعث زمین پر ہر قسم کی زندگی ممکن ہے۔سورج کے مرکزی حصے میں ہر ایک سیکند میں 430سے 600 ملین ٹن ہائیڈروجن جلتی ہے۔جس سےہر لمحےلاکھوں ایٹم بموں کی توانائی خارج ہوتی ہے۔سورج کے بعد قریب ترین ستارہ Proxima Centauri 4.2نوری سال (نوری سال یعنی وہ ایک سال جس میں روشنی اپنا فاصلہ طے کرتی ہے)کے فاصلے پر ہے۔یاد رہے کہ ایک نوری سال 6کھرب میل کے فاصلے کے برابر ہے۔ تفصیلات دیکھیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Sun
اب ذرا اپنی کہکشاں پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جس کے اندر ہمارا نظام شمسی واقع ہے۔
ہماری کہکشاں Milky Way کی galactic disk کا ڈایا میٹر ایک لاکھ نوری سال ہے۔ ہمارا نظام شمسی ہماری کہکشاں ملکی وے کے ایک بازو Orion Arm کے اندرونی کنارےپر واقع ہے اور سورج ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد 24 تا26 ہزار نوری سال کے فاصلے پر چکر لگاتاہے اور اس اپنی کہکشاں کے مرکز کے گرداپنا ایک کلاک وائز چکر لگانے کے لیے 225تا250 ملین سال چاہییں۔ہماری کہکشاں کے قریب تریں کہکشاں Andromeda Galaxy ہم سے 2,500,000نوری سال کے فاصلے پر ہے اور اس میں اندازاً ایک ٹرلین ستارے ہیں ۔ہماری کہکشاں کائنات میں موجود اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔تفصیلات دیکھیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Milky_way
ہماری ایک ہماری کہکشاں میں دو سوبلین سے چار سو بلین تک ستارے ہیں اور نجانے کتنے ہی ستارے ایک ایک نظام شمسی ہیں اور ان کے گرد کتنے ہی سیارے گردش کر رہے ہیں یاد رہے کہ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے اور ہماری زمین اور سورج سے کتنے بڑے ستارے صرف ہماری کہکشاں میں موجودہیں اس کے لیے ایک نظر یہ ویڈیو بھی دیکھ لیجیے:
http://www.youtube.com/watch?v=7NYRVsKAkFM&feature=related
کائنات میں نجانےکتنی ہی کہکشائیں ہیں اس کےمشاہدےکےلیے جب ہبل ڈیپ فیلڈ ٹیلیسکوپ سے آسمان کے کسی ایسے حصےکا مشاہدہ کیا گیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں تو وہاں دسیوں ہزار کہکشائیں موجود تھیں جن کا قطر 47 بلین نوری سال تھا۔یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیے:
http://www.youtube.com/watch?v=fgg2tpUVbXQ
اس موقع پر اللہ کی کبریائي اور طاقت کو چشم تصور میں لانےکے لیےاس آیت کا مطالعہ مناسب ہوگا:
وَالسَّمَاء بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ ۔۔۔
اور آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ۔
— القرآن سورۃ الذاریات:47
اور یہ ہم نےکائنات کا آخری سرا نہیں تلاش کر لیا یہ تو انسان کی معلوم کائنات ہے۔ اب تو متوازی طبقات عوالم کے نظریا ت بھی پیش کیے جا رہے ہیں جس کے مطابق ایک universeنہیں بلکہparallel layers of universes ہیں جن میں سے ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں، ہر کہکشاں میں اربوں کھربوں ستارے ہیں، اور ستاروں کے گرد چکر لگاتے سیارے اور سیاروں کے گرد گھومتے فطری سیٹلائٹ یعنی چاند۔ 2007 میں سائنسدانوں نے زمین نماایک سیارہ Gliese 581d دریافت کیا جہاں پانی کا وجود ممکن بتایا گیا ۔مگروہ ہم سے 20.3 نوری سال (192ٹرلین کلومیٹرز)کے فاصلے پر ہے۔ کون پہنچ سکتا ہے اس تک؟ اور نجانے کتنا ہی کچھ رب کریم نےپیدا فرمایاہے کسے معلوم؟ قرآن تو سات آسمانوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ ہم کہاں تک پہنچ سکے ہیں ؟کہاں ہیں دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور ساتواں آسمان۔ہم کیا جانیں ؟ اور یہ تومحض آسمان دنیا کا حال بیان ہو رہا ہے:
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ۔۔۔
اور ہم نے آسمانِ دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا۔
— القرآن سورۃ الملک:5
تو کیا یہ سب اتفاقی حوادث ہیں یا تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ کسی طاقتور کا باندھا ہوا حساب ہے؟زمین سے لے کر اربوں کھربوں نوری سال کے فاصلے تک کسی دراڑ اور رخنے کے بغیر كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ کے ایک ہی قانون میں جکڑا یہ نظام کس بات کی گواہی اور شھادت دے رہا ہے؟ یہی ناں کہ اس کے پیدا کرنے والی کوئی بڑی ہی زبردست طاقت رکھنے والی ایک ہی علیم و خبیر ہستی ہے جس کا کوئي شریک نہیں ہو سکتا کیونکہ جو اس کا شریک ہو اس کا اقتدار اور اس کی طاقت کی پہنچ بھی ان ستاروں اور کہکشاؤں تک ہونی چاہیے۔ یہاں رکیے اور شرک کی حقیقت پر بھی غور کیجیے۔ہم کتنے نادان ہیں کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ خالق اور مخلوق میں کوئی نسبت ہی نہیں " لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ "کائنات میں اس کے مشابہ تو کوئي چیزہے ہی نہیں۔وہ اکیلا خالق ہے اور باقی سب مخلوق۔اور اگر غور فرمائیے تو ایسی عظیم الشان ہستی کی ذات، صفات، اختیارات، بادشاہت، ارادوں اور حقوق بندگی میں کوئی بھی دوسرا شریک ہوبھی کیسے سکتا ہے؟ جس کو رب نے اپنی لامحدود کائنات کے کسی ایک گوشے میں پیدا کیا اور وہ اس سے باہر نکلنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا وہ خدا یا خدا کا شریک کیونکر ہوگیا؟ جو کسی کے پیدا کرنے سے پیدا ہو، کسی کے رزق پر پلے، کسی کی لکھی تقدیر میں جکڑا ہوا ہو، اپنے نفع نقصان پر بھی قادر نہ ہو، جو خود محتاج ہو،جو نہ زندہ کر سکےنہ مار سکے، جس کی اپنی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہو وہ خود خدا کیسے ہوسکتاہے یا خدائی میں شریک کیسے ہو سکتا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ:
وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اُس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ )قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
— القرآن سورۃ الزمر:67
بس یہ دیکھیے کہ ہمارا کیا مقام ہے؟ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہم کہاں رہتے ہیں ؟ہم خدا کی کائنات کے ایک چھوٹے سے ذرے یعنی سورج کے نیچے رہنے والے کیا خدا اور اس کے منصوبوں کو اپنے پیمانوں سے ناپ سکتے ہیں۔کیا خود اپنی رہنمائی کر سکتے ہیں؟ یقینا ہم زندگی کے ہر قدم پر ہدایت کے لیے خدائی رہنمائي کے محتاج ہیں۔ ہمارا نظام شمسی اس کائنات میں ایک نقطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا جیسے ریت کے کسی صحرا میں ایک ذرہ، پھر ہماری زمین کیا حیثیت رکھتی ہے اور اس زمین پر حضرتِ انسان ؟ اس زمین کے کسی حصے پر کسی ملک یا قوم کا چند برسوں کے لیے طاقتور ہو جانا اللہ کی طاقت کے مقابلے میں کیا معنی رکھتاہے؟ یہاں کسی انسان کا اکڑنا ، تکبر کرنا اور خدا سے بغاوت کرنا خدا کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ خدا کی قسم ایک چیونٹی بھی کسی انسان کو چیلنج کرے تو کم از کم مار دیے جانے سے پہلے ہو سکتا ہے ایک بار کاٹ ہی لے لیکن کسی انسان کا یا کسی ملک و قوم کا خدا سے بغاوت کرنا اس چیونٹی کے انسان کو چیلنج کرنے سے زیادہ بھونڈا مذاق ہے۔ اور ایسے عظیم الشان نظام کے پیدا کرنے والے اور اس کے چلانے والے کے بارے میں چند فٹ کے انسان کا یہ کہنا کہ مجھے میری قبر سے نہ اٹھا سکے گا۔۔۔کیسی توہین ہے یہ اللہ کی عطا کردہ سماعت، بصارت ، عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کی؟ سوچئے:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور کیا ان لوگوں یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا ، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کراٹھائے؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔
— القرآن سورۃ الاحقاف:33