• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا احناف کی نماز عند اللہ مقبول نہیں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی! ضد اچھی چیز نہیں ہوتی!
میں نے پچھلے مراسلہ میں آپ کا اقتباس پیش کیا تھا؛ اسے پورے سیاق کے ساتھ پھر پیش کرتا ہوں:
یہ "پورا" سیاق نہیں ہے بھائی جان!
میں نے مکمل بات یہ کی تھی:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن داؤد بھائی! امام مالکؒ سے تو ہاتھ باندھ کر پڑھنے کا بھی ثبوت نہیں ہے یعنی باقاعدہ بالسند ثبوت نہیں ہے۔ لیکن فقہ کی آراء میں وہی مسلک کہلاتا ہے جس کی تصریح اس مسلک کے علماء کریں۔ مثلاً امام ابوحنیفہؒ کا مسلک تمام علماء احناف ایک بیان کریں تو وہ ان کی رائے اور مسلک ہوتا ہے۔ اسی طرح امام مالکؒ کا مسلک وہ ہوتا ہے جسے مالکی علماء بیان کریں۔
ویسے ان کی یہ رائے مدونہ میں بھی ہے جو کہ سحنون نے ابن القاسم سے بلاواسطہ نقل کی ہے:
قال: وقال مالك: في وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة؟ قال: لا أعرف ذلك في الفريضة وكان يكرهه ولكن في النوافل إذا طال القيام فلا بأس بذلك يعين به نفسه
یہاں پہلے قائل ابن القاسم ہیں۔ چنانچہ ترجمہ ہوگا: "(ابن القاسم نے) کہا: مالک نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کے بارے میں کہا: میں اسے فرض (نماز) میں نہیں پہچانتا اور وہ اسے ناپسند کرتے تھے لیکن نوافل میں جب قیام طویل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے اپنی مدد کرے۔"
سحنون عن ابن القاسم عن مالک مشہور سند ہے امام مالکؒ کے اقوال کی اور سب سے مضبوط سند بھی یہی ہے۔ مالکی علماء اس کے کتنے حوالے دیتے ہیں، یہ مالکی فقہ پڑھنے والے جانتے ہیں۔ ابن رشد (الجد) نے اس کے لیے مقدمہ لکھا ہے جس میں اس کی مدح کی ہے، ابن عبد البر نے اس سے روایات نقل کی ہیں، باجی مالکیؒ نے اس کے حوالے دیے ہیں وغیرہ۔ چنانچہ یہ امام مالکؒ کا مسلک ہے۔

یہاں ابن القطانؒ وغیرہ کی مدونہ پر جرح نقل نہیں کیجیے تو بہتر ہے کہ وہ ایک تو مالکی نہیں ہیں اور مالکی فقہاء امام مالکؒ کی فقہ کو زیادہ جانتے ہیں دوسرا اس کتاب سے ان کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث کی کتاب نہیں ہے، یہ امام مالکؒ کی آراء کی کتاب ہے۔
اس اقتباس میں نوے فیصد بات امام مالکؒ کے مسلک کے بارے میں ہے اور صرف دس فیصد ابن القطان کے حوالے سے ہے۔
آپ نے اس مکمل بات پر ٹکڑوں میں جواب دیا۔ اس میں آخری ٹکڑے میں آپ نے ابن القطانؒ والی اس بات کا اقتباس لیا اور کہا:
کیوں بھای ! امام مالک پر مالکیہ کی اجارہ داری ہے کیا؟
پھر آپ نے آگے کہا:
اشماریہ بھائی! ویسے ایک سوال ہے، یہ تحقیقی اصول آپ اپنے دماغ پر بوجھ ڈال کر خود تراشتے ہیں؟ یا کوئی اور ایسی پٹی پڑھاتا ہے؟
یہاں آپ نے اصول کے لیے "تراشتے ہیں" استعمال کیا جس سے یہ وہم پیدا ہوا کہ آپ کی مراد "اصول" سے "جمع" ہے ورنہ سوال یوں ہوتا: یہ اصول آپ نے خود تراشا ہے؟
چنانچہ میں نے اوپر پوسٹ میں دیکھا تو مجھے اصولی بات ایک ہی نظر آئی جو کہ امام مالکؒ کے مسلک اور مالکیہ کے بیان سے متعلق تھی۔ مجھے یہ گمان بھی نہیں گزرا کہ یہ ابن القطان والی عام فہم بات جو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، کو آپ کوئی اصول سمجھیں گے اور اس پر اس قدر حیرت کا اظہار کریں گے۔ میں تو آپ کو عالم سمجھتا تھا۔
لہذا میں نے آپ سے حسن ظن رکھتے ہوئے اسی اصولی بات سے متعلق آپ کو لنک دیے:
نہیں نہ کوئی اور مجھے یہ اصول پڑھاتا ہے اور نہ میں تراشتا ہوں۔ یہ اصول اس وقت ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں اور ان کے مطابق مسلک بیان کرتے ہیں۔ دو مثالیں دیکھیں:

http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?languagename=ar&View=Page&PageID=2112&PageNo=1&BookID=3
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=55837

ایک میں اسے مدونہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرے میں مقدمات ابن رشد سے۔ جب ایک اصول ساری دنیا میں معروف ہے اور اسے علماء کرام سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو میرے پیارے بھائی! صرف اپنا مسلک بچانے کے لیے اسے توڑنے اور مروڑنے کا کیا فائدہ ہے؟
http://www.awqaf.ae/Fatwa.aspx?SectionID=9&RefID=14329
اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ابن القاسم کی روایت مقدم ہوتی ہے۔
ان لنکوں میں مالکیہ سے امام مالکؒ کے مسلک کو نقل کیا گیا ہے اور میں نے اس کی جانب اشارہ بھی کیا ہے جسے ہائیلائٹ کر دیا ہے۔
اشارہ اس لیے کیا کہ "ان العصا قرعت لذی الحلم" اور میرا یہ حسن ظن تھا کہ آپ "ذو الحلم" ہیں۔
مجھے کیا علم تھا کہ آپ سے یہ حسن ظن نہیں رکھے جا سکتے۔ آپ نے آگے سے سوال یہ داغا:
یہ اصول کہاں ہے؟
اور یہ سوال آپ نے ابن القطان والی بات پر کیا۔ جس پر میں نے حیرت سے یہ پوچھا:
کون سا اصول؟ میں نے کون سا اصول بیان کیا ہے؟
کیا میں نے کہیں کہا ہے کہ یہ کوئی اصول ہے؟
میں نے تو ایک عام فہم بات کی ہے جسے آپ شاید کوئی اصول سمجھ بیٹھے ہیں۔
تو میرے پیارے بھائی! جس طرح ایک انجینیر کو ڈاکٹروں پر ڈاکٹری میں فیصلہ دینے کے لیے اور ایک ڈاکٹر کو ٹیکنیشنوں پر ان کے میدان میں فیصلہ دینے کے لیے اختیار نہیں دیا جا سکتا اسی طرح ایک غير مالکی محدث کو مالکیہ پر مالکی فقہ میں حکم لگانے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے اور میں نے اسی لیے یہ بات کی تھی کہ شاید آپ بدیہیات سے تو ناواقف نہ ہوں گے۔ اصولوں کو نظر و فکر سے ثابت کرنا پڑتا ہے اور بدیہیات کو ہر خاص و عام جانتا ہے۔
اس پر آپ فرماتے ہیں:
تو میرے بھائی پہلے جو میں نے آپ کا اقتباس پیش کیا تھا، اس میں اصول کا بیان تھا اور جب اصول کا بیان آجائے، تو وہاں لفظ ''اصول'' ہونا لازم نہیں، بلکہ بیان کی اس کے اصول ہونے کو کافی ہے!
اب آپ ایک بدیہی بات کو نظر و فکر اور حوالہ جات سے ثابت ہونے والا اصول سمجھ بیٹھے ہیں تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں۔

اور آپ نے اگلے مراسلہ میں خود اسے اصول لفظ ''اصول'' لکھ کر تسلیم کیا ہے!
اگلے مراسلوں میں تو میں نے اس کے سلسلے میں حیرت کا اظہار بھی کیا ہے کہ میں نے اسے اصول کب کہا ہے۔ میں نے تو جس چیز کو اصول کہا ہے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ اب آپ میرے حسن ظن کے مطابق نہیں نکلے تو اس میں تو یقیناً میری غلطی ہے کہ میں نے آپ سے ایسا حسن ظن رکھا ہی کیوں؟

اب بھی میں آپ سے کہتا ہوں!
کہ چھوڑیں اس بحث کو!
جی اب چھوڑ دیتے ہیں۔ ذرا فریق مخالف کا بیان سن لینا چاہیے بحث کو "چھوڑنے" سے پہلے تاکہ دعوی و جواب دعوی دونوں واضح ہو جائیں۔

جی! بالکل ابن حبیب کے بارے میں یہ پڑھنا چاہیئے! اور یہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ پڑھنا چاہیئے!
ویسے ایک پتے کی بات بتلاتا ہوں!
کہ کسی شخص کے متعلق، اس کی علمی وتاریخی حیثیت اور علم الحدیث میں اس کا مقام سمجھنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ امام ذہبی اور امام ابن حجر العسقلانی کے مؤقف کو دیکھا جائے! اور جس بات پر یہ دونوں متفق ہوں ، اسے رد کرنے کے لئے بہت پکی دلیل کی ضرورت ہے!
ویسے کمال کی آسان ترکیب بتائی ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس "آسان ترکیب" کو خود آپ حضرات کہاں کہاں جاری فرماتے ہیں اور کہاں کہاں "مشکل ترکیب" کی جانب جاتے ہیں؟

اگر میں آپ کی یہ "آسان ترکیب" مان بھی لوں تب بھی آپ نے ذکر کیا ہے "علم الحدیث" کا، اور ہم بات کر رہے ہیں:
اس سے معلوم ہوا کہ ابن حبیب پر فقہ مالکی کے وقت کے امام نے فقہ مالکی میں ہی کذب کی جرح کی ہے۔ اور ان کی کتاب الواضحہ پر بھی خصوصی رد کیا ہے۔
لہذا انتہائی معذرت کے ساتھ، یہ ترکیب یہاں فیل ہے۔

آگے چلتے ہیں:
اور آپ نے امام ذہبی کی کتاب سے نقل کیا ہے، اگر امام ذہبی کا اپنا مؤقف بھی اس بارے میں دیکھ لیتے، تو بہتر ہوتا، دیکھئے، امام ذہبی کیا فرماتے ہیں:
عبد الملك بن حبيب القرطبي، أحد الائمة ومصنف الواضحة، كثير الوهم صحفي.
وكان ابن حزم يقول: ليس بثقة.
وقال الحافظ أبو بكر ابن سيد الناس: في تاريخ أحمد بن سعيد الصدفى توهية عبد الملك بن حبيب، وأنه صحفي لا يدرى الحديث.
قال أبو بكر: وضعفه غير واحد، ثم قال: وبعضهم اتهمه بالكذب.
وقال ابن حزم: روايته ساقطة مطرحة، فمن ذلك روى عن مطرف بن عبد الله،
عن محمد بن الكديمى، عن محمد بن حيان الأنصاري - أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن أبي شيخ كبير.
قال: فلتحجى عنه، وليس ذلك لاحد بعده.
وروى عبد الملك، عن هارون بن صالح الطلحي، عن عبد الله بن زيد بن أسلم، عن ربيعة الرأى، عن محمد بن إبراهيم التيمي - أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحج أحد عن أحد إلا ولد عن والده.
صالح مجهول.
قلت: الرجل أجل من ذلك، لكنه يغلط.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 395 - 396 جلد 04 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 652 – 653 جلد 02 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ایک بات تو یہ کہ یہ بات اس مقام پر (یعنی کتاب میں) حدیث کے بارے میں چل رہی ہے فقہ کے بارے میں نہیں۔اس حدیث میں بھی انہیں علامہ ذہبیؒ نے "لکنہ یغلط" کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔

ابن حجر العسقلانی نے بھی امام ذہبی کے اس بیان کو نقل کر کے اس سے علق کیا ہے:
عبد الملك بن حبيب القرطبي [أَبُو مروان]
أحد الأئمة ومصنف الواضحة كثير الوهم صحفي.
وكان ابن حزم يقول: ليس بثقة.
وقال الحافظ أبو بكر بن سيد الناس: في تاريخ أحمد بن سعيد الصدفي توهية عبد الملك بن حبيب وأنه صحفي لا يدري الحديث.
قال أبو بكر: وضعفه غير واحد. ثم قال: وبعضهم اتهمه بالكذب.
قال ابن حزم: روايته ساقطة مطرحة.
فمن ذلك روى عن مطرف بن عبد الله عن محمد بن الكربي، عَن مُحَمد بن حَبان الأنصاري: أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن أبي شيخ كبير قال: فلتحجي عنه وليس ذلك لأحد بعده.
وروى عبد الملك عن هارون بن صالح الطلحي، عَن عَبد الله بن زيد بن أسلم عن ربيعة الرأي، عَن مُحَمد بن إبراهيم التيمي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحج أحد عن أحد إلا ولد عن والده.
هارون بن صالح، مجهول.
قلت: الرجل أَجَلُّ من ذلك لكنه يغلط، انتهى.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 255 - 256 جلد 05 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت
اگر آپ ابن حجرؒ کے اگلے تین صفحات بھی نقل فرما دیتے تو بہت اچھا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ شاملہ میں لسان المیزان کا جو نسخہ ہے اس میں اگلی تفصیل موجود نہیں ہے جبکہ جس نسخے کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں آگے تین صفحات موجود ہیں۔ میں تو وہاں سے تین صفحات نقل نہیں کر سکتا۔ آپ خود ہی فرما دیں تو اچھا ہے۔
ان تین صفحات سے کم از کم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ابن حجرؒ نے علامہ ذہبیؒ کے قول پر "مطلقاً علق" نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی اقوال ذکر کیے ہیں۔ اگر حافظؒ کا صرف نقل کرنا "علق" کہلاتا ہے تو پھر یہ "علق" دوسرے اقوال میں بھی ہے۔ حافظؒ نے آگے قاضي عياض اور علامہ باجی مالکیؒ جیسے بڑے مالکیؒ علماء کے حوالے سے ان پر اصبغ اور دوسرے مالکیہ کی روایات میں جرح نقل کی ہے۔

امام ذہبی مزید صراحت سے فرمایا:
عبد الملك بن حبيب الأندلسي الفقيه: وهاه ابن حزم وغيره. قلت: ابن حزم مشدد لا يقبل قدحه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 44 جلد 01 ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
علامہ ذہبیؒ نے یہاں فقط ابن حزمؒ کی جرح کو رد کیا ہے دوسروں کی نہیں۔ جبکہ جرح میں دوسروں کا بھی ذکر "وغیرہ" سے کیا ہے۔

ابن حجر العسقلانی نے بھی صراحت کے ساتھ کذب کی جرح کو رد کیا ہے اور انہوں نے بھی اس امر میں امام ذہبی سے موافقت کی ہے؛ ملاحظہ فرمائیں:
وقال أحمد بن سعيد الصدفي: كان يطعن عليه أنه يستجيز الأخذ بالمناولة بغير مقابلة.
ويقال: إن ابن أبي مريم دخل عليه فوجد عنده كتب أسد وهي كثيرة قال: فقلت له: متى سمعتها؟ قال: قد أجازها لي صاحبها.
قال: فجئت أسدا فسألته فقال: أنا لا أرى القراءة فكيف أجيز، إنما أخذ منى كتبي ليكتبها.
قال أحمد بن خالد: إقرار أسد له بذلك هي الإجازة بعينها كذا قال.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 258 - 259 جلد 05 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت
ابن حجر العسقلانی نے تهذیب التهذيب میں مزید صراحت سے بیان کیا ہے:
"تمييز عبد الملك" بن حبيب بن سليمان بن مروان بن جاهمة بن عباس بن مرداس الأندلسي الفقيه أبو مروان السلمي
۔۔۔۔
۔۔۔۔
وقال أبو بكر بن شيبة ضعفه غير واحد وبعضهم أتهمه بالكذب وفي تاريخ أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي توههنه فإنه كان صحفيا لا يدري ما الحديث قلت هذا القول أعدل ما قيل فيه فلعله كان يحدث من كتب غيره فيغلط وذكر ابن الفرضي أنه كان يتسهل في السماع ويحمل على سبيل الإجازة أكثر رواياته ولما سئل أسد بن موسى عن رواية عبد الملك بن حبيب عنه قال إنما أخذ من كتبي فقال الأئمة إقرار أسد بهذا هي الإجازة بعينها إذا كان قد دفع له كتبه كفى أن يرويها عنه على مذهب جماعة من السلف وسئل وهب بن ميسرة عن كلام بن وضاح في عبد الملك بن حبيب فقال ما قال فيه خيرا ولا سرا إنما قال لم يسمع من أسد بن موسى وكان ابن لبابة يقول عبد الملك عالم الأندلس روى عنه ابن وضاح وبقي بن مخلد ولا يرويان إلا عن ثقة عندهما وقد افحش بن حزم القول فيه ونسبه إلى الكذب وتعقبه جماعة بأنه لم يسبقه أحد إلى رميه بالكذب.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 237 - 238 جلد 04 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 610 - 611 جلد 02 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 - 391 جلد 06 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
یہاں حافظ ابن حجرؒ نے ان کے اسد بن موسی سے کتابیں لینے والے واقعے کو نقل کر کے اس میں ان کے دفاع میں اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہاں ہے:
قَالَ أَبُو عُمَر أَحْمَد بْن سَعِيد الصَّدفيّ: قلتُ لأحمد بْن خَالِد: إنّ الواضحة عجيبة جدا، وإن فيها علما عظيما، فما يدخلها؟ قَالَ: أول شيء: إنّه حكى فيها مذاهب لَم نجدها لأحدٍ من أصحابه، ولا نُقِلَت عنهم، ولا هِيَ فِي كتبهم.
ثُمَّ قَالَ أبو عمر الصَّدفيّ فِي تاريخه: كَانَ كثير الرواية، كثير الجمع، يعتمدُ عَلَى الأخذ بالحديث. ولَم يكن يميّزه، ولا يعرف الرجال، وكان فقيهًا فِي المسائل، وكان يُطْعَنُ عَلَيْهِ بكثرة الكُتُب، وذُكِرَ أنّه كَانَ يستجيزُ الأخذ بلا رواية ولا مقابلة، وذكر أنه أخذ إجازة كبيرة، وأُشير إِلَيْهِ بالكذب. سمعتُ أَحْمَد بْن خَالِد يطعن عَلَيْهِ بذلك ويتنقّصه غير مرّة. وقال: قد ظهر لنا كذبه في الواضحة في غير شيء.
یہ صراحتاً ان پر اور ان کی کتاب "الواضحہ" پر کذب کی جرح ہے۔
رہ گئی بات ان حضرات کی جنہوں نے ان کا دفاع کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ جرح والی روایت اس بارے میں واضح ہے:
قال أحمد بن خالد: سمعت ابن وضاح يقول: أخبرني ابن أبي مريم قال: كَانَ ابن حبيب بِمصر، فكان يضعُ الطّويلة، وينسخُ طول نَهاره. فقلتُ: إلى كم ذا النَّسْخ؟ مَتَى تقرأه عَلَى الشيخ؟ فقال: قد أجازَ لي كُتُبه، يعني أسد بْن مُوسَى، فخرجتُ من عنده فأتيتُ أسدًا فقلتُ: تمنعنا أن نقرأ عليك وتجيز لغيرنا؟ فقال: أَنَا لا أرى القراءة فكيف أُجيز؟ فأخبرته فقال: إنما أخذ مني كتبي فيكتب منها، لَيْسَ ذا عليّ.
یہاں ابن حبیب نے صراحت سے کہا ہے کہ "مجھے انہوں نے (یعنی اسد بن موسی) نے اجازت دی ہے" جبکہ اسد بن موسی نے اس کا انکار کیا ہے کہ "میں تو قراءت نہیں کرنے دیتا، اجازت کیسے دے سکتا ہوں؟" پھر آگے مزید صراحت سے کہا ہے: "اس نے مجھ سے میری کتابیں لی ہیں اور ان سے لکھتا ہے۔ اس کی ذمے داری مجھ پر نہیں ہے۔"
یہ اصل کذب ہے کہ اسد نے اجازت نہیں دی اور انہوں نے اسد کی جانب اجازت کی نسبت کی۔ باقی رہ گئی مذہب کی روایت کی بات تو وہ درست ہے۔
یہاں آپ دیکھیں کہ حافظ کے پاس موجود عبارت نامکمل ہے:
قال: فجئت أسدا فسألته فقال: أنا لا أرى القراءة فكيف أجيز، إنما أخذ منى كتبي ليكتبها.
قال أحمد بن خالد: إقرار أسد له بذلك هي الإجازة بعينها كذا قال.
اس نامکمل عبارت کے آگے احمد بن خالد کا قول ہے۔ جبکہ ذہبیؒ نے یہ عبارت مکمل نقل کی ہے:
فقال: أَنَا لا أرى القراءة فكيف أُجيز؟ فأخبرته فقال: إنما أخذ مني كتبي فيكتب منها، لَيْسَ ذا عليّ.
یہ آخری جملہ "لیس ذا علي" احمد بن خالد کے اجازت والے قول کو رد کر رہا ہے کہ اسد بن موسی اس کو اجازت سمجھتے ہی نہیں تھے۔ جب دینے والا اجازت نہیں سمجھتا تو پھر غیر کے قول کا کیا اعتبار؟ ہاں اگر احمد بن خالد نے یہاں یہ مراد لیا ہو کہ فقہاء مالکیہ کے نزدیک کتاب دینا اجازت دینے کے برابر ہوتا ہے تو وہ الگ بات ہے۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ احمد بن خالد کا یہ قول اگر ثابت ہے تو بھی یہ فقط اس اجازت والے مسئلے کے بارے میں ہے۔ ورنہ اس کے علاوہ انہوں نے ابن حبیب پر نقل مذہب کے بارے میں جرح کی ہے:
قَالَ أَبُو عُمَر أَحْمَد بْن سَعِيد الصَّدفيّ: قلتُ لأحمد بْن خَالِد: إنّ الواضحة عجيبة جدا، وإن فيها علما عظيما، فما يدخلها؟ قَالَ: أول شيء: إنّه حكى فيها مذاهب لَم نجدها لأحدٍ من أصحابه، ولا نُقِلَت عنهم، ولا هِيَ فِي كتبهم.
احمد بن خالد نے ان پر جھوٹ کی جرح بھی کی ہے:
ثُمَّ قَالَ أبو عمر الصَّدفيّ فِي تاريخه: كَانَ كثير الرواية، كثير الجمع، يعتمدُ عَلَى الأخذ بالحديث. ولَم يكن يميّزه، ولا يعرف الرجال، وكان فقيهًا فِي المسائل، وكان يُطْعَنُ عَلَيْهِ بكثرة الكُتُب، وذُكِرَ أنّه كَانَ يستجيزُ الأخذ بلا رواية ولا مقابلة، وذكر أنه أخذ إجازة كبيرة، وأُشير إِلَيْهِ بالكذب. سمعتُ أَحْمَد بْن خَالِد يطعن عَلَيْهِ بذلك ويتنقّصه غير مرّة. وقال: قد ظهر لنا كذبه في الواضحة في غير شيء.
بلکہ ابن حجر العسقلانی نے تو ابن لبابة کے قول سے ابن وضاح اور بقية بن مخلد سے ابن حبیب کی توثیق بھی نقل کی ہے۔
ان میں ابن وضاح کے بارے میں تو حافظؒ نے وہب بن میسرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ ان کے بارے میں نہ خیر کی بات کرتے تھے اور نہ شر کی۔ یعنی ابن وضاح کے نزدیک ان پر توقف تھا۔ البتہ بقی بن مخلد کے سلسلے میں ممکن ہے حافظؒ کی بات درست ہو لیکن یہ صریح جرحوں کے خلاف ہے۔

بہر حال روایت حدیث میں ابن حبیب کثیر الخطاء اور ضعیف ہیں
ٹھیک ہے۔ آگے دیکھتے ہیں۔۔۔

جاری ہے۔۔۔
 
Top