• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا احناف کی نماز عند اللہ مقبول نہیں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس روایت کو درست تسلیم کرتے ہوئے امام مالک سے ہی دوسری روایت پر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا!
دوسری روایت کی سند بتائیے!

یہ اصول کہاں ہے؟
کون سا اصول؟ میں نے کون سا اصول بیان کیا ہے؟
کیا میں نے کہیں کہا ہے کہ یہ کوئی اصول ہے؟
میں نے تو ایک عام فہم بات کی ہے جسے آپ شاید کوئی اصول سمجھ بیٹھے ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نماز کے وہ ظاہری اعمال بتائیں جن میں احناف کسی سنت کے مخالف ہوں۔ کیونکہ اگر کسی کا عمل سنت کے مطابق ہے تو وہ یقناً عنداللہ مقبول ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کون سا اصول؟ میں نے کون سا اصول بیان کیا ہے؟
کیا میں نے کہیں کہا ہے کہ یہ کوئی اصول ہے؟
میں نے تو ایک عام فہم بات کی ہے جسے آپ شاید کوئی اصول سمجھ بیٹھے ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب اس پر میں کیا کہوں!
بھائی جان! آپ نے خود اس حوالہ سے کہا تھا، آپ شاید اپنے کلام کو ہی بھول رہے ہیں!
نہیں نہ کوئی اور مجھے یہ اصول پڑھاتا ہے اور نہ میں تراشتا ہوں۔ یہ اصول اس وقت ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں اور ان کے مطابق مسلک بیان کرتے ہیں۔ دو مثالیں دیکھیں:

http://www.alifta.net/Fatawa/Fatawa...me=ar&View=Page&PageID=2112&PageNo=1&BookID=3
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=55837

ایک میں اسے مدونہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرے میں مقدمات ابن رشد سے۔ جب ایک اصول ساری دنیا میں معروف ہے اور اسے علماء کرام سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو میرے پیارے بھائی! صرف اپنا مسلک بچانے کے لیے اسے توڑنے اور مروڑنے کا کیا فائدہ ہے؟
اور جب آپ کے پیش کردہ لنک میں ہمیں مطلوبہ اصول نظر نہ آیا، تو ہم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اصول یہاں کہاں ہے!
پہلے خود اسے اصول کہا اور اب آپ فرماتے ہو کہ آپ نے کسی اصول کا نہیں کہا!
خیر چلیں! اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں!
پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا:
خیر! ابھی آپ کے اس اصول کے بطلان کا بیان تو چھوڑتے ہیں!
دوسری بات کی طرف آتے ہیں:
دوسری روایت کی سند بتائیے!
بہت خوب!
مگر فقہی آراء کے متعلق تو آپ سند کے محتاج نہ تھے:
آپ نے تو فرمایا تھا:
ابن داؤد بھائی! امام مالکؒ سے تو ہاتھ باندھ کر پڑھنے کا بھی ثبوت نہیں ہے یعنی باقاعدہ بالسند ثبوت نہیں ہے۔ لیکن فقہ کی آراء میں وہی مسلک کہلاتا ہے جس کی تصریح اس مسلک کے علماء کریں۔ مثلاً امام ابوحنیفہؒ کا مسلک تمام علماء احناف ایک بیان کریں تو وہ ان کی رائے اور مسلک ہوتا ہے۔ اسی طرح امام مالکؒ کا مسلک وہ ہوتا ہے جسے مالکی علماء بیان کریں۔
اب آپ اپنے مؤقف سے ذرا نیچے اتر آئیں، کہ جیسا ہم نے آپ کو کہا تھا:
یہ ایک قرینہ تو ہو سکتا ہے، لیکن ثبوت نہیں!
یہ نہ سمجھیں کہ ہم آپ کو اس بحث میں الجھا کر سند کے مطابہ کو پس پشت ڈال رہے ہیں،
بلکہ اگر آپ میرے مراسلوں کو بغور پڑھتے تو وہاں اس کی سند مذکور تھی؛
میں وہ اقتباس پیش کرتا ہوں:
قال البناني: وهو قول مالك في رواية مطرّف، وابن الماجشون عنه في الواضحة،
قال البناني: وهو قول مالك في رواية مطرّف، وابن الماجشون عنه في الواضحة،
خیر! اب ہم آپ کو یہ سند ایک اور کتاب سے پیش کرتے ہیں!
هل توضع اليمنى على اليسرى في المكتوبة
في المدونة: لابن القاسم عن مالك: إنما ذلك في النوافل من طول القيام ولا أحبه في المكتوبة.

وفي الواضحة لابن حبيب: سألت عن ذلك مطرفا وابن الماجشون فقالا: لا بأس بذلك في النافلة والمكتوبة، وروياه عن مالك، وقالا: كان مالك يستحسنه.
قال ابن حبيب: وروى أشهب عن مالك أنه لا بأس به في المكتوبة والنافلة، وكذلك يقول ابن نافع قال: وذلك من السنة.
وذكر ابن مزين قال: وروى أشهب وابن نافع وابن وهب عن مالك إجازة ذلك في الفرائض.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 اختلاف أقوال مالك وأصحابه - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463 هـ) - دار الغرب الإسلامي


ابن عبد البر نے اس روایت کی ابن حبیب کی کتاب الواضحة من السنن والفقه میں ہونے کی تصریح کی ہے،
لہٰذا آپ کی مطلوبہ سند درج ذیل ہے؛


أبو مروان، عبد الملك بن حبيب بن سليمان بن هارون بن جاهمة بن الصحابي عباس بن مرداس، السلمي المرداسي الأندلسي القرطبي المالكي، المعروف ابن حبيب (المتوفي 238هـ)

عن
أبو مصعب مطرف بن عبد الله بن مطرف بن سليمان بن يسار اليساري الهلالي (المتوفي 220 ه)

و
أبو مروان عبد الملك بن عبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة بن الماجشون التيمي مولاهم المدني المالكي، المعروف بابن الماجشون (المتوفي 213 ه)
عن
مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ)


 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اپناکام خود کریں
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورة المائدة 02)
اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اشماریہ بھائی! اب اس پر میں کیا کہوں!
بھائی جان! آپ نے خود اس حوالہ سے کہا تھا، آپ شاید اپنے کلام کو ہی بھول رہے ہیں!

اور جب آپ کے پیش کردہ لنک میں ہمیں مطلوبہ اصول نظر نہ آیا، تو ہم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اصول یہاں کہاں ہے!
پہلے خود اسے اصول کہا اور اب آپ فرماتے ہو کہ آپ نے کسی اصول کا نہیں کہا!
خیر چلیں! اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں!
پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا:

میں نے کہیں "اس" جملے کو اصول کہا تھا جس کا آپ نے اقتباس لیا ہے؟

خیر! اب ہم آپ کو یہ سند ایک اور کتاب سے پیش کرتے ہیں!
هل توضع اليمنى على اليسرى في المكتوبة
في المدونة: لابن القاسم عن مالك: إنما ذلك في النوافل من طول القيام ولا أحبه في المكتوبة.

وفي الواضحة لابن حبيب: سألت عن ذلك مطرفا وابن الماجشون فقالا: لا بأس بذلك في النافلة والمكتوبة، وروياه عن مالك، وقالا: كان مالك يستحسنه.
قال ابن حبيب: وروى أشهب عن مالك أنه لا بأس به في المكتوبة والنافلة، وكذلك يقول ابن نافع قال: وذلك من السنة.
وذكر ابن مزين قال: وروى أشهب وابن نافع وابن وهب عن مالك إجازة ذلك في الفرائض.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 اختلاف أقوال مالك وأصحابه - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463 هـ) - دار الغرب الإسلامي


ابن عبد البر نے اس روایت کی ابن حبیب کی کتاب الواضحة من السنن والفقه میں ہونے کی تصریح کی ہے،
لہٰذا آپ کی مطلوبہ سند درج ذیل ہے؛


أبو مروان، عبد الملك بن حبيب بن سليمان بن هارون بن جاهمة بن الصحابي عباس بن مرداس، السلمي المرداسي الأندلسي القرطبي المالكي، المعروف ابن حبيب (المتوفي 238هـ)

عن
أبو مصعب مطرف بن عبد الله بن مطرف بن سليمان بن يسار اليساري الهلالي (المتوفي 220 ه)

و
أبو مروان عبد الملك بن عبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة بن الماجشون التيمي مولاهم المدني المالكي، المعروف بابن الماجشون (المتوفي 213 ه)
عن
مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ)
پہلی بات: اس روایت میں یہ ہے:
وقالا: كان مالك يستحسنه.
یہ ان دونوں کا خیال ہے۔ جب کہ مدونہ والی روایت میں خود امام مالکؒ نے کہا ہے:
لا أعرف ذلك في الفريضة
قائل اپنی بات کو خود بخوبی جانتا ہے۔
اگرچہ اس سے پہلے یہ بھی ہے:

وروياه عن مالك
لیکن اس روایت کے الفاظ کیا ہیں؟ یہ معلوم نہیں۔ اس کتاب میں ابن عبد البر نے مدونہ کے الفاظ بھی یہ نقل کیے ہیں:
إنما ذلك في النوافل من طول القيام ولا أحبه في المكتوبة.
حالانکہ مدونہ کے یہ الفاظ نہیں ہیں۔ لہذا جو امام مالکؒ کے قطعی الفاظ ہیں ان کو ترجیح ہوگی۔

دوسری بات: اس کتاب کو لکھا ہے ابن حبیب نے۔ اور ابن حبیب کے بارے میں یہ پڑھ لیجیے:
تاريخ الإسلام ت بشار (5/ 875)
قَالَ أَبُو عُمَر أَحْمَد بْن سَعِيد الصَّدفيّ: قلتُ لأحمد بْن خَالِد: إنّ الواضحة عجيبة جدا، وإن فيها علما عظيما، فما يدخلها؟ قَالَ: أول شيء: إنّه حكى فيها مذاهب لَم نجدها لأحدٍ من أصحابه، ولا نُقِلَت عنهم، ولا هِيَ فِي كتبهم.
ثُمَّ قَالَ أبو عمر الصَّدفيّ فِي تاريخه: كَانَ كثير الرواية، كثير الجمع، يعتمدُ عَلَى الأخذ بالحديث. ولَم يكن يميّزه، ولا يعرف الرجال، وكان فقيهًا فِي المسائل، وكان يُطْعَنُ عَلَيْهِ بكثرة الكُتُب، وذُكِرَ أنّه كَانَ يستجيزُ الأخذ بلا رواية ولا مقابلة، وذكر أنه أخذ إجازة كبيرة، وأُشير إِلَيْهِ بالكذب. سمعتُ أَحْمَد بْن خَالِد يطعن عَلَيْهِ بذلك ويتنقّصه غير مرّة. وقال: قد ظهر لنا كذبه في الواضحة في غير شيء. وقال أحمد بن خالد: سمعت ابن وضاح يقول: أخبرني ابن أبي مريم قال: كَانَ ابن حبيب بِمصر، فكان يضعُ الطّويلة، وينسخُ طول نَهاره. فقلتُ: إلى كم ذا النَّسْخ؟ مَتَى تقرأه عَلَى الشيخ؟ فقال: قد أجازَ لي كُتُبه، يعني أسد بْن مُوسَى، فخرجتُ من عنده فأتيتُ أسدًا فقلتُ: تمنعنا أن نقرأ عليك وتجيز لغيرنا؟ فقال: أَنَا لا أرى القراءة فكيف أُجيز؟ فأخبرته فقال: إنما أخذ مني كتبي فيكتب منها، لَيْسَ ذا عليّ.

احمد بن سعید الصدفی:
أَحْمَد بْن سعَيِد بْن حزْم بْن يونس، أَبُو عُمَر الصَّدَفيّ الأندلسيّ. [المتوفى: 350 هـ]
احمد بن خالد:
أحمد بن خالد بن يزيد، أبو عمر ابن الْجَبَّاب الأندلسيّ القُرْطُبيّ الحافظ الكبير، [المتوفى: 322 هـ]
۔۔۔۔قال القاضي عِياض: كان إمامًا في وقته في الفقه في مذهب مالك، وفي الحديث لا يُنازَع، سمع منه خلْق، وصنَّف " مُسْنَد مالك " وكتاب " الصلاة " وكتاب " الإيمان " وكتاب " قصص الأنبياء ".

اس سے معلوم ہوا کہ ابن حبیب پر فقہ مالکی کے وقت کے امام نے فقہ مالکی میں ہی کذب کی جرح کی ہے۔ اور ان کی کتاب الواضحہ پر بھی خصوصی رد کیا ہے۔

تاريخ الإسلام ت بشار (5/ 876)
وقال أحمد بن محمد بن عبد البر التاريخي: هُوَ أولُ من أظهر الحديث بالأندلس، وكان لا يميز صحيحه من سقيمه، ولا يفهم طُرُقه، ويُصَحِّف أسماء الرجال، ويحتجّ بالمناكير. فكان أهلُ زمانه لا يرضون عَنْهُ، وينسبونه إلى الكذب. قال أحمد بن محمد بن عبد البر: وكان الذي بين عبد الملك بن حبيب وبين يحيى بن يحيى سيئا، وذلك أنه كان كثير المخالفة ليحيى. وكان قد لقي أصبغ بِمصر، فأكثر عَنْهُ فكان إذا اجتمعَ مَعَ يحيى بن يحيى، وسعيد بن حسان، ونظرائهما عند الأمير عبد الرحمن وقضاته فسئلوا، قال يحيى بن يحيى بِما عنده، وكان أسنّ القوم وأَوْلاهُم بالتقدم - فيدفع عليه عبد الملك بن حبيب بأنه سمعَ أصبغ بْن الفَرَج يَقُولُ كذا. فكان يحيى يغمه بمخالفته لَهُ. فلمّا كَانَ فِي بعض الأيام جمعهم القاضي في الجامع، فسألهم عَنْ مسألة، فأفتى فيها يحيى بْن يحيى، وسعيد بْن حسان بالرواية، فخالفهما عَبْد الملك، وذكر خلافهما روايةً عَنْ أصبغ. وكان عَبْد الأعلى بْن وهب من أحداث أهل زمانه، وكان قد حجّ وأدركَ أصبغ بْن الفَرَج بِمصر، وروى عَنْهُ. فدخل يومًا بأثر شورى القاضي فحدثنا أحمد بن خالد عن ابن وضاح عن عبد الأعلى، قال: دخلت يوما على سعيد بن حسان، فقال لي: أَبَا وهْب، ما تقولُ فِي مسألة كذا؟ - للمسألة التي سألَهم فيها القاضي - هَلْ تذكر لأصبغ بن الفرج فيها شيئا؟ فقلت: نعم، أصبغ يقول فيها كذا، وكذا فأفتى بموافقة يحيى بن يحيى وسعيد بن حسان. فقال لي سَعِيد: أنظر ما تَقُولُ، أنت عَلَى يقين من هذا؟ قلت: نعم. قال: فأتني بكتابك، فخرجتُ مسرعًا، ثُمَّ ندمتُ ودخل عليّ الشك. ثُمَّ أتيتُ داري، فأخرجتُ الكتاب من قرطاس كما رويته عَنْ أصبغ، فسُررتُ، ومضيتُ إلى سَعِيد بالكتاب. فقال: تمضي بِهِ إلى أَبِي محمد. فمضيتُ بِهِ إلى يحيى بْن يحيى، فأعلمته ولم أدر ما القصة. فاجتمعا بالقاضي وقالا: إن عَبْد الملك يُخالفنا بالكذب. والمسألة التي خالفنا فيها عندك. هنا رجلٌ قد حجّ وأدرك أصبغ، وروى عَنْهُ هذه المسألة، كقولنا عَلَى خلاف ما ادّعاهُ عَبْد الملك، فارْدَعْه وكُفَّهُ. فجمَعهم القاضي ثانيًا، وتكلّموا، فقال عَبْد الملك: قد أعلمتُك ما يقولُ فيها أَصْبَغ. فبَدرَ عَبْد الأعلى بْن وَهْب فقال: يكذب عَلَى أصبغ. أَنَا رويت هذه المسألة عَنْهُ عَلَى ما قَالَ هذان، وهذا كتابي.
وأخرج المسألة، فأخذ القاضي الكتاب وقرأ المسألة، فقال لعبد الملك ما ساءه من القول، وحرج عليه، وقال: تُفْتينا بالكذِب والخطأ، وتُخالفُ أصحابَك بالهوى؟ لولا البُقْيَا عليك لعاقبتك. ثُمَّ قاموا. قَالَ عبد الأعلى: فلما خرجت خطرت عَلَى دار ابن رستم الحاجب، فرأيتُ عَبْد الملك خارجا من عنده وفي وجهه البشر. فقلت: ما لي لا أدخلُ عَلَى ابن رستم؟ فدخلت، فلم ينتظر جلوسي وقال: يا مسكين من غرّك، أو من أدخلك في مثل هذا تعارض مثل عَبْد الملك بْن حبيب وتكذّبه؟ فقلتُ: أصلحكَ اللَّه، إنّما سألني القاضي عَنْ شيء، فأجبته بِما عندي. ثُمَّ خرجتُ من عنده. فإذا بعبد الملك قد شكا إليه الخبر وقال له: إنه عمل على صنيعته وأتى برجل لَيْسَ من أهل العلم والرواية، فأجلس معي وكذبني، وأوقفني موقفًا عجيبًا. فقال لَهُ ابن رستم: اكتب بطاقة تجلي الأمر وارفعها إلى الأمير. فكتبَ يصف القصة، ويَشنّع. فأمر الأمير أن يبعث في القاضي. فبعث فيه، فخرجت إليه وصية الأمير يقول له: من أمرك أن تشاور عَبْد الأعلى. وكان عَبْد الملك قد بنى بطاقته عَلَى أن يحيى بْن يحيى أمره بذلك. فقال القاضي: ما أمرني أحد بمشاورته، ولكنه كَانَ يختلفُ إليّ، وكنت أعرفه من أهل العلم والخير، مَعَ الحركة والفَهْم والحج والرحلة، فلمْ أرَ نفسي فِي سَعَة من تَرْك مشاورة مثله. وسأل الأمير وزراءه عَنْ عَبْد الأعلى، فأثنوا عَلَيْهِ ووصفوا عِلْمَه وولاءه. وكان لَهُ ولاء. قال عبد الأعلى: فصحبت يوما عيسى ابن الشهيد، فقال لي: قد رفعت عليك رقعة رديئة لكن الله دفع شرها.

احمد بن محمد بن عبد البر:
أحمد بن محمد بن عبد البرّ بن يحيى، أبو عبد الملك القرطبيُّ الأُمويُّ. [المتوفى: 338 هـ]
صاحب " تاريخ الفقهاء والقُضاة ". وكان ممّن طلب العلم كثيرًا، وبحث عنه. وأخذ عن شيوخ الأندلس، وعّول على محمد بن لبابة، وعبيد الله بن يحيى، وقاسم بن أصبغ، وأسلم بن عبد العزيز. وكان واسع الراوية والدراية، ومات كهْلًا.

یہ قصہ ابن حبیب کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔
ایک ایسے شخص کی روایت ابن القاسم اور سحنون کے برابر کیسے کی جا سکتی ہے؟

بہت خوب!
مگر فقہی آراء کے متعلق تو آپ سند کے محتاج نہ تھے
جی اور ابھی بھی سند کا محتاج نہیں ہوں۔ لیکن جب آپ مالکی علماء کی اس بات ماننے میں پس و پیش کر رہے تھے کہ امام مالکؒ کی سب سے مشہور اور مضبوط روایت مدونہ والی ہے اور یہ کہ مالکیہ نے اسی روایت کو متون میں ذکر کیا ہے تو میں نے سوچا کہ سند کے اعتبار سے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے کہیں "اس" جملے کو اصول کہا تھا جس کا آپ نے اقتباس لیا ہے؟
اشماریہ بھائی! ضد اچھی چیز نہیں ہوتی!
میں نے پچھلے مراسلہ میں آپ کا اقتباس پیش کیا تھا؛ اسے پورے سیاق کے ساتھ پھر پیش کرتا ہوں:
یہاں ابن القطانؒ وغیرہ کی مدونہ پر جرح نقل نہیں کیجیے تو بہتر ہے کہ وہ ایک تو مالکی نہیں ہیں اور مالکی فقہاء امام مالکؒ کی فقہ کو زیادہ جانتے ہیں دوسرا اس کتاب سے ان کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث کی کتاب نہیں ہے، یہ امام مالکؒ کی آراء کی کتاب ہے۔
اس پر ہم نے سے کہا :
اشماریہ بھائی! ویسے ایک سوال ہے، یہ تحقیقی اصول آپ اپنے دماغ پر بوجھ ڈال کر خود تراشتے ہیں؟ یا کوئی اور ایسی پٹی پڑھاتا ہے؟
خیر! ابھی آپ کے اس اصول کے بطلان کا بیان تو چھوڑتے ہیں!
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:
نہیں نہ کوئی اور مجھے یہ اصول پڑھاتا ہے اور نہ میں تراشتا ہوں۔ یہ اصول اس وقت ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں اور ان کے مطابق مسلک بیان کرتے ہیں۔ دو مثالیں دیکھیں:

http://www.alifta.net/Fatawa/Fatawa...me=ar&View=Page&PageID=2112&PageNo=1&BookID=3
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=55837

ایک میں اسے مدونہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرے میں مقدمات ابن رشد سے۔ جب ایک اصول ساری دنیا میں معروف ہے اور اسے علماء کرام سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو میرے پیارے بھائی! صرف اپنا مسلک بچانے کے لیے اسے توڑنے اور مروڑنے کا کیا فائدہ ہے؟
آپ نے خود یہاں اسے اصول کہا، کہ جس کے متعلق میں نے یہ سوال کیا تھا کہ آیا آپ خود یہ اصول تراشتے ہیں، یا کوئی اور آپ کو پٹی پڑھاتا ہے؟ آپ نے اس کے متعلق کہا کہ نہ کوئی آپ کو پڑھاتا ہے اور نہ ہی آپ خود تراشتے ہو، بلکہ یہ اصول ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں!
یہاں آپ نے خود اسے اصول کہا!
اور جب ہم نے آپ کہا کہ آپ کے دیئے ہوئے لنک میں یہ اصول کہاں ہے؟
اور ایک بات ہم نے آپ سے یہ پوچھی کہ:
چلیں ایک کام اور کریں!
امام مالک کے کسی شاگرد سے امام مالک کی یہ روایت دکھلا دیں کہ امام مالک نے اسے یہ روایت پڑھائی ہے، اور کہا ہو کہ یہ منسوخ ہے، یا ضعیف ہے، یا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا!
اس پر آپ نے غالباً یہ گمان کیا کہ آپ کے بیان کردہ اصول کو تو آپ شاید پیش کرنے سے قاصر ہیں، تو ایسا کریں کہ ابن داؤد نے جو سوال کیا ہے، اسی کو اصول کہتے ہوئے، یا شاید آپ نے میرے اس کلام سے کوئی اصول اخذ کیا ہو،، گو کہ میرے کلام میں کوئی اصول و قاعدہ نہیں! ابن داؤد سے ہی مطالبہ کردو کہ وہ یہ اصول پیش کرے!
آپ نے یوں فرمایا تھا:
مالکی فقہ کے حوالے سے یہ اصول کس نے بیان کیا ہے؟؟؟
اس پر ہم نے آپ کو بتلایا کہ بھائی! ہم نے یہاں کوئی اصول بیان نہیں کیا، اور نہ ہی ہمارے کلام میں ایسی کوئی بات ہے کہ جس سے کوئی اصول و قاعدہ کہا جائے!ٰ
ہم نے آپ سے عرض کی:
کون سا اصول؟
میں نے تو کسی اصول و قاعدہ کا یہاں ذکر بھی نہیں کیا!
بس ایک بات پوچھی ہے!
آپ نے اس سے اصول کیا اخذ کیا ہے؟
میرے کلام سے آپ کا ماخوذ اصول ہی بیان کر دیں! کہ آپ نے یہاں سے کون سا اصول اخذ کر لیا؟
اور نہ ہی آپ نے یہ بات بتلائی کہ آپ نے ہمارے کلام سے کیا اصول سمجھا یا اخذ کیا؟
اور پھر آپ نے آپ سے مطلوب اصول کو پیش کرنے کی بجائے ، اپنے کلام سے انکار کرتے ہوئے، کہ جسے آپ نے خود اصول کہا انکاری ہو گئے اور فرماتے ہیں:
کون سا اصول؟ میں نے کون سا اصول بیان کیا ہے؟
کیا میں نے کہیں کہا ہے کہ یہ کوئی اصول ہے؟
میں نے تو ایک عام فہم بات کی ہے جسے آپ شاید کوئی اصول سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہم نے آپ کے اقتباسات پیش کر کے آپ کو بتلایا کہ بھائی! آپ خود اسے اصول کہا ہے!
اور یہ بھی کہا کہ اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں!
اور جب آپ کے پیش کردہ لنک میں ہمیں مطلوبہ اصول نظر نہ آیا، تو ہم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اصول یہاں کہاں ہے!
پہلے خود اسے اصول کہا اور اب آپ فرماتے ہو کہ آپ نے کسی اصول کا نہیں کہا!
خیر چلیں! اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں!
مگر آپ نے اس بحث کو جاری رکھا اور سوال کیا:
میں نے کہیں "اس" جملے کو اصول کہا تھا جس کا آپ نے اقتباس لیا ہے؟
تو میرے بھائی پہلے جو میں نے آپ کا اقتباس پیش کیا تھا، اس میں اصول کا بیان تھا اور جب اصول کا بیان آجائے، تو وہاں لفظ ''اصول'' ہونا لازم نہیں، بلکہ اصول کے بیان کا ہونا، اس کے اصول ہونے کو کافی ہے!
اور آپ نے اگلے مراسلہ میں خود اسے اصول لفظ ''اصول'' لکھ کر تسلیم کیا ہے!
اب بھی میں آپ سے کہتا ہوں!
کہ چھوڑیں اس بحث کو!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
پہلے میں دوسری بات کے حوالہ سے تحریر کرتا ہوں؛
دوسری بات: اس کتاب کو لکھا ہے ابن حبیب نے۔ اور ابن حبیب کے بارے میں یہ پڑھ لیجیے:
تاريخ الإسلام ت بشار (5/ 875)
قَالَ أَبُو عُمَر أَحْمَد بْن سَعِيد الصَّدفيّ: قلتُ لأحمد بْن خَالِد: إنّ الواضحة عجيبة جدا، وإن فيها علما عظيما، فما يدخلها؟ قَالَ: أول شيء: إنّه حكى فيها مذاهب لَم نجدها لأحدٍ من أصحابه، ولا نُقِلَت عنهم، ولا هِيَ فِي كتبهم.
ثُمَّ قَالَ أبو عمر الصَّدفيّ فِي تاريخه: كَانَ كثير الرواية، كثير الجمع، يعتمدُ عَلَى الأخذ بالحديث. ولَم يكن يميّزه، ولا يعرف الرجال، وكان فقيهًا فِي المسائل، وكان يُطْعَنُ عَلَيْهِ بكثرة الكُتُب، وذُكِرَ أنّه كَانَ يستجيزُ الأخذ بلا رواية ولا مقابلة، وذكر أنه أخذ إجازة كبيرة، وأُشير إِلَيْهِ بالكذب. سمعتُ أَحْمَد بْن خَالِد يطعن عَلَيْهِ بذلك ويتنقّصه غير مرّة. وقال: قد ظهر لنا كذبه في الواضحة في غير شيء. وقال أحمد بن خالد: سمعت ابن وضاح يقول: أخبرني ابن أبي مريم قال: كَانَ ابن حبيب بِمصر، فكان يضعُ الطّويلة، وينسخُ طول نَهاره. فقلتُ: إلى كم ذا النَّسْخ؟ مَتَى تقرأه عَلَى الشيخ؟ فقال: قد أجازَ لي كُتُبه، يعني أسد بْن مُوسَى، فخرجتُ من عنده فأتيتُ أسدًا فقلتُ: تمنعنا أن نقرأ عليك وتجيز لغيرنا؟ فقال: أَنَا لا أرى القراءة فكيف أُجيز؟ فأخبرته فقال: إنما أخذ مني كتبي فيكتب منها، لَيْسَ ذا عليّ.

احمد بن سعید الصدفی:
أَحْمَد بْن سعَيِد بْن حزْم بْن يونس، أَبُو عُمَر الصَّدَفيّ الأندلسيّ. [المتوفى: 350 هـ]
احمد بن خالد:
أحمد بن خالد بن يزيد، أبو عمر ابن الْجَبَّاب الأندلسيّ القُرْطُبيّ الحافظ الكبير، [المتوفى: 322 هـ]
۔۔۔۔قال القاضي عِياض: كان إمامًا في وقته في الفقه في مذهب مالك، وفي الحديث لا يُنازَع، سمع منه خلْق، وصنَّف " مُسْنَد مالك " وكتاب " الصلاة " وكتاب " الإيمان " وكتاب " قصص الأنبياء ".

اس سے معلوم ہوا کہ ابن حبیب پر فقہ مالکی کے وقت کے امام نے فقہ مالکی میں ہی کذب کی جرح کی ہے۔ اور ان کی کتاب الواضحہ پر بھی خصوصی رد کیا ہے۔

تاريخ الإسلام ت بشار (5/ 876)
وقال أحمد بن محمد بن عبد البر التاريخي: هُوَ أولُ من أظهر الحديث بالأندلس، وكان لا يميز صحيحه من سقيمه، ولا يفهم طُرُقه، ويُصَحِّف أسماء الرجال، ويحتجّ بالمناكير. فكان أهلُ زمانه لا يرضون عَنْهُ، وينسبونه إلى الكذب. قال أحمد بن محمد بن عبد البر: وكان الذي بين عبد الملك بن حبيب وبين يحيى بن يحيى سيئا، وذلك أنه كان كثير المخالفة ليحيى. وكان قد لقي أصبغ بِمصر، فأكثر عَنْهُ فكان إذا اجتمعَ مَعَ يحيى بن يحيى، وسعيد بن حسان، ونظرائهما عند الأمير عبد الرحمن وقضاته فسئلوا، قال يحيى بن يحيى بِما عنده، وكان أسنّ القوم وأَوْلاهُم بالتقدم - فيدفع عليه عبد الملك بن حبيب بأنه سمعَ أصبغ بْن الفَرَج يَقُولُ كذا. فكان يحيى يغمه بمخالفته لَهُ. فلمّا كَانَ فِي بعض الأيام جمعهم القاضي في الجامع، فسألهم عَنْ مسألة، فأفتى فيها يحيى بْن يحيى، وسعيد بْن حسان بالرواية، فخالفهما عَبْد الملك، وذكر خلافهما روايةً عَنْ أصبغ. وكان عَبْد الأعلى بْن وهب من أحداث أهل زمانه، وكان قد حجّ وأدركَ أصبغ بْن الفَرَج بِمصر، وروى عَنْهُ. فدخل يومًا بأثر شورى القاضي فحدثنا أحمد بن خالد عن ابن وضاح عن عبد الأعلى، قال: دخلت يوما على سعيد بن حسان، فقال لي: أَبَا وهْب، ما تقولُ فِي مسألة كذا؟ - للمسألة التي سألَهم فيها القاضي - هَلْ تذكر لأصبغ بن الفرج فيها شيئا؟ فقلت: نعم، أصبغ يقول فيها كذا، وكذا فأفتى بموافقة يحيى بن يحيى وسعيد بن حسان. فقال لي سَعِيد: أنظر ما تَقُولُ، أنت عَلَى يقين من هذا؟ قلت: نعم. قال: فأتني بكتابك، فخرجتُ مسرعًا، ثُمَّ ندمتُ ودخل عليّ الشك. ثُمَّ أتيتُ داري، فأخرجتُ الكتاب من قرطاس كما رويته عَنْ أصبغ، فسُررتُ، ومضيتُ إلى سَعِيد بالكتاب. فقال: تمضي بِهِ إلى أَبِي محمد. فمضيتُ بِهِ إلى يحيى بْن يحيى، فأعلمته ولم أدر ما القصة. فاجتمعا بالقاضي وقالا: إن عَبْد الملك يُخالفنا بالكذب. والمسألة التي خالفنا فيها عندك. هنا رجلٌ قد حجّ وأدرك أصبغ، وروى عَنْهُ هذه المسألة، كقولنا عَلَى خلاف ما ادّعاهُ عَبْد الملك، فارْدَعْه وكُفَّهُ. فجمَعهم القاضي ثانيًا، وتكلّموا، فقال عَبْد الملك: قد أعلمتُك ما يقولُ فيها أَصْبَغ. فبَدرَ عَبْد الأعلى بْن وَهْب فقال: يكذب عَلَى أصبغ. أَنَا رويت هذه المسألة عَنْهُ عَلَى ما قَالَ هذان، وهذا كتابي.
وأخرج المسألة، فأخذ القاضي الكتاب وقرأ المسألة، فقال لعبد الملك ما ساءه من القول، وحرج عليه، وقال: تُفْتينا بالكذِب والخطأ، وتُخالفُ أصحابَك بالهوى؟ لولا البُقْيَا عليك لعاقبتك. ثُمَّ قاموا. قَالَ عبد الأعلى: فلما خرجت خطرت عَلَى دار ابن رستم الحاجب، فرأيتُ عَبْد الملك خارجا من عنده وفي وجهه البشر. فقلت: ما لي لا أدخلُ عَلَى ابن رستم؟ فدخلت، فلم ينتظر جلوسي وقال: يا مسكين من غرّك، أو من أدخلك في مثل هذا تعارض مثل عَبْد الملك بْن حبيب وتكذّبه؟ فقلتُ: أصلحكَ اللَّه، إنّما سألني القاضي عَنْ شيء، فأجبته بِما عندي. ثُمَّ خرجتُ من عنده. فإذا بعبد الملك قد شكا إليه الخبر وقال له: إنه عمل على صنيعته وأتى برجل لَيْسَ من أهل العلم والرواية، فأجلس معي وكذبني، وأوقفني موقفًا عجيبًا. فقال لَهُ ابن رستم: اكتب بطاقة تجلي الأمر وارفعها إلى الأمير. فكتبَ يصف القصة، ويَشنّع. فأمر الأمير أن يبعث في القاضي. فبعث فيه، فخرجت إليه وصية الأمير يقول له: من أمرك أن تشاور عَبْد الأعلى. وكان عَبْد الملك قد بنى بطاقته عَلَى أن يحيى بْن يحيى أمره بذلك. فقال القاضي: ما أمرني أحد بمشاورته، ولكنه كَانَ يختلفُ إليّ، وكنت أعرفه من أهل العلم والخير، مَعَ الحركة والفَهْم والحج والرحلة، فلمْ أرَ نفسي فِي سَعَة من تَرْك مشاورة مثله. وسأل الأمير وزراءه عَنْ عَبْد الأعلى، فأثنوا عَلَيْهِ ووصفوا عِلْمَه وولاءه. وكان لَهُ ولاء. قال عبد الأعلى: فصحبت يوما عيسى ابن الشهيد، فقال لي: قد رفعت عليك رقعة رديئة لكن الله دفع شرها.

احمد بن محمد بن عبد البر:
أحمد بن محمد بن عبد البرّ بن يحيى، أبو عبد الملك القرطبيُّ الأُمويُّ. [المتوفى: 338 هـ]
صاحب " تاريخ الفقهاء والقُضاة ". وكان ممّن طلب العلم كثيرًا، وبحث عنه. وأخذ عن شيوخ الأندلس، وعّول على محمد بن لبابة، وعبيد الله بن يحيى، وقاسم بن أصبغ، وأسلم بن عبد العزيز. وكان واسع الراوية والدراية، ومات كهْلًا.

یہ قصہ ابن حبیب کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔
ایک ایسے شخص کی روایت ابن القاسم اور سحنون کے برابر کیسے کی جا سکتی ہے؟
جی! بالکل ابن حبیب کے بارے میں یہ پڑھنا چاہیئے! اور یہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ پڑھنا چاہیئے!
ویسے ایک پتے کی بات بتلاتا ہوں!
کہ کسی شخص کے متعلق، اس کی علمی وتاریخی حیثیت اور علم الحدیث میں اس کا مقام سمجھنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ امام ذہبی اور امام ابن حجر العسقلانی کے مؤقف کو دیکھا جائے! اور جس بات پر یہ دونوں متفق ہوں ، اسے رد کرنے کے لئے بہت پکی دلیل کی ضرورت ہے!

اور آپ نے امام ذہبی کی کتاب سے نقل کیا ہے، اگر امام ذہبی کا اپنا مؤقف بھی اس بارے میں دیکھ لیتے، تو بہتر ہوتا، دیکھئے، امام ذہبی کیا فرماتے ہیں:
عبد الملك بن حبيب القرطبي، أحد الائمة ومصنف الواضحة، كثير الوهم صحفي.
وكان ابن حزم يقول: ليس بثقة.
وقال الحافظ أبو بكر ابن سيد الناس: في تاريخ أحمد بن سعيد الصدفى توهية عبد الملك بن حبيب، وأنه صحفي لا يدرى الحديث.
قال أبو بكر: وضعفه غير واحد، ثم قال: وبعضهم اتهمه بالكذب.
وقال ابن حزم: روايته ساقطة مطرحة، فمن ذلك روى عن مطرف بن عبد الله،
عن محمد بن الكديمى، عن محمد بن حيان الأنصاري - أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن أبي شيخ كبير.
قال: فلتحجى عنه، وليس ذلك لاحد بعده.
وروى عبد الملك، عن هارون بن صالح الطلحي، عن عبد الله بن زيد بن أسلم، عن ربيعة الرأى، عن محمد بن إبراهيم التيمي - أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحج أحد عن أحد إلا ولد عن والده.
صالح مجهول.

قلت: الرجل أجل من ذلك، لكنه يغلط.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 395 - 396 جلد 04 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 652 – 653 جلد 02 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت

ابن حجر العسقلانی نے بھی امام ذہبی کے اس بیان کو نقل کر کے اس سے علق کیا ہے:
عبد الملك بن حبيب القرطبي [أَبُو مروان]
أحد الأئمة ومصنف الواضحة كثير الوهم صحفي.
وكان ابن حزم يقول: ليس بثقة.
وقال الحافظ أبو بكر بن سيد الناس: في تاريخ أحمد بن سعيد الصدفي توهية
عبد الملك بن حبيب وأنه صحفي لا يدري الحديث.
قال أبو بكر: وضعفه غير واحد. ثم قال: وبعضهم اتهمه بالكذب.
قال ابن حزم: روايته ساقطة مطرحة.
فمن ذلك روى عن مطرف بن عبد الله عن محمد بن الكربي، عَن مُحَمد بن حَبان الأنصاري: أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن أبي شيخ كبير قال: فلتحجي عنه وليس ذلك لأحد بعده.
وروى عبد الملك عن هارون بن صالح الطلحي، عَن عَبد الله بن زيد بن أسلم عن ربيعة الرأي، عَن مُحَمد بن إبراهيم التيمي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحج أحد عن أحد إلا ولد عن والده.
هارون بن صالح، مجهول.

قلت: الرجل أَجَلُّ من ذلك لكنه يغلط، انتهى.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 255 - 256 جلد 05 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت

امام ذہبی مزید صراحت سے فرمایا:
عبد الملك بن حبيب الأندلسي الفقيه: وهاه ابن حزم وغيره. قلت: ابن حزم مشدد لا يقبل قدحه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 44 جلد 01 ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
ابن حجر العسقلانی نے بھی صراحت کے ساتھ کذب کی جرح کو رد کیا ہے اور انہوں نے بھی اس امر میں امام ذہبی سے موافقت کی ہے؛ ملاحظہ فرمائیں:
وقال أحمد بن سعيد الصدفي: كان يطعن عليه أنه يستجيز الأخذ بالمناولة بغير مقابلة.
ويقال: إن ابن أبي مريم دخل عليه فوجد عنده كتب أسد وهي كثيرة قال: فقلت له: متى سمعتها؟ قال: قد أجازها لي صاحبها.
قال: فجئت أسدا فسألته فقال: أنا لا أرى القراءة فكيف أجيز، إنما أخذ منى كتبي ليكتبها.
قال أحمد بن خالد: إقرار أسد له بذلك هي الإجازة بعينها كذا قال.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 258 - 259 جلد 05 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت

ابن حجر العسقلانی نے تهذیب التهذيب میں مزید صراحت سے بیان کیا ہے:

"تمييز عبد الملك" بن حبيب بن سليمان بن مروان بن جاهمة بن عباس بن مرداس الأندلسي الفقيه أبو مروان السلمي
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وقال أبو بكر بن شيبة ضعفه غير واحد
وبعضهم أتهمه بالكذب وفي تاريخ أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي توههنه فإنه كان صحفيا لا يدري ما الحديث قلت هذا القول أعدل ما قيل فيه فلعله كان يحدث من كتب غيره فيغلط وذكر ابن الفرضي أنه كان يتسهل في السماع ويحمل على سبيل الإجازة أكثر رواياته ولما سئل أسد بن موسى عن رواية عبد الملك بن حبيب عنه قال إنما أخذ من كتبي فقال الأئمة إقرار أسد بهذا هي الإجازة بعينها إذا كان قد دفع له كتبه كفى أن يرويها عنه على مذهب جماعة من السلف وسئل وهب بن ميسرة عن كلام بن وضاح في عبد الملك بن حبيب فقال ما قال فيه خيرا ولا سرا إنما قال لم يسمع من أسد بن موسى وكان ابن لبابة يقول عبد الملك عالم الأندلس روى عنه ابن وضاح وبقي بن مخلد ولا يرويان إلا عن ثقة عندهما وقد افحش بن حزم القول فيه ونسبه إلى الكذب وتعقبه جماعة بأنه لم يسبقه أحد إلى رميه بالكذب.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 237 - 238 جلد 04 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 610 - 611 جلد 02 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 - 391 جلد 06 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند

بلکہ ابن حجر العسقلانی نے تو
ابن لبابة کے قول سے ابن وضاح اور بقية بن مخلد سے ابن حبیب کی توثیق بھی نقل کی ہے۔
بہر حال روایت حدیث میں ابن حبیب کثیر الخطاء اور ضعیف ہیں، جیسا کہ امام ذہبی نے بیان کیا ہے:

قلت: الرجل أجل من ذلك، لكنه يغلط.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 395 - 396 جلد 04 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 652 – 653 جلد 02 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت

عبد الملك بن حبيب الفقيه الكبير عالم الأندلس أبو مروان السلمي ثم المرداسى الأندلسي القرطبي:
ولد بعد السبعين ومائة وأخذ عن صعصعة بن سلام والغازى بن قيس وزياد شبطون وحج فأخذ عن عبد الملك بن الماجشون واسد السنة واصبغ بن الفرج وطبقتهم ورجع إلى الأندلس بعلم جم روى عنه بقى بن مخلد ومحمد بن وضاح ويوسف المغامى ومطرف بن قيس وآخرون وكان رأسا في مذهب مالك وله تصانيف عدة مشهورة
ولم يكن بالمتقن للحديث ويقنع بالمناولة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 537 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) – مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن

ابْنُ حَبِيْبٍ عَبْدُ المَلِكِ بنُ حَبِيْبِ بنِ سُلَيْمَانَ السُّلَمِيُّ *
الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ الأَنْدَلُسِ، أَبُو مَرْوَانَ عَبْدُ المَلِكِ بنُ حَبِيْبِ بنِ سُلَيْمَانَ بنِ هَارُوْنَ بنِ جَاهمَةَ ابْنِ الصَّحَابِيِّ عَبَّاسِ بنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيُّ، العَبَّاسِيُّ، الأَنْدَلُسِيُّ، القُرْطُبِيُّ، المَالِكِيُّ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ.
وُلِدَ: فِي حَيَاةِ الإِمَامِ مَالِكٍ، بَعْدَ السَّبْعِيْنَ وَمائَةٍ.

۔۔۔۔
۔۔۔۔

وَكَانَ مَوْصُوَفاً بِالحِذْقِ فِي الفِقْهِ، كَبِيْرَ الشَّأْنِ، بَعِيْدَ الصِّيْتِ، كَثِيْرَ التَّصَانِيْفِ،
إِلاَّ أَنَّهُ فِي بَابِ الرِّوَايَةِ لَيْسَ بِمُتْقِنٍ، بَلْ يَحْمِلُ الحَدِيْثَ تَهَوُّراً كَيْفَ اتَّفَقَ، وَيَنْقُلُهُ وَجَادَةً وَإِجَازَةً، وَلاَ يَتَعَانَى تَحْرِيْرَ أَصْحَابِ الحَدِيْثِ.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وَكَانَ حَافِظاً لِلْفِقْهِ، نَبِيْلاً،
إِلاَّ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لَهُ عِلْمٌ بِالحَدِيْثِ، وَلاَ يَعْرِفُ صَحِيْحَهُ مِنْ سَقِيْمِهِ، ذُكِرَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَتَسَهَّلُ فِي سَمَاعِهِ، وَيَحْمِلُ عَلَى سَبِيْلِ الإِجَازَةِ أَكْثَرَ رِوَايَتِهِ.
۔۔۔
۔۔۔

وَمِمَّنْ ضَعَّفَ ابْنَ حَبِيْبٍ: أَبُو مُحَمَّدٍ بنُ حَزْمٍ،
وَلاَ رَيْبَ أَنَّهُ كَانَ صُحُفِيّاً، وَأَمَّا التَّعَمُّدُ، فَكَلاَّ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 102 - 107 جلد 12 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - بيت الافكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2564 – 2566 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة

عَبْد الملك بْن حبيب بْن سُلَيْمَان بْن هارون بْن جاهمة بْن العبّاس بْن مرداس السُّلَميّ. الفقيه، أَبُو مروان العباسيّ الأندلسيّ القُرطبيّ المالكيّ. [الوفاة: 231 - 240 ه]
أحد الأعلام.
وُلِدَ سنة نَيِّفٍ وسبعين ومائة فِي حياة مالك.

۔۔۔۔
۔۔۔۔

وقد ضعف ابن حزم عبد الملك بن حبيب،
ولا ريب أن ابن حبيب كان صحفيا.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 874 - 878 جلد 05 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 257 – 261 جلد 17 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ فقہ مالکیہ اور مذہب مالک میں ابن حبیب کے متعلق کیا کہا گیا ہے:

عبد الملك بن حبيب الفقيه الكبير عالم الأندلس أبو مروان السلمي ثم المرداسى الأندلسي القرطبي:
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وكان رأسا في مذهب مالك وله تصانيف عدة مشهورة
۔۔۔۔
قال ابن الفرضي كان فقيها نحويا شاعرا إخباريا نسابة طويل اللسان متصرفا في فنون العلم قال ابن بشكوال قيل لسحنون فقيه المغرب مات بن حبيب قال مات عالم الأندلس بل والله عالم الدنيا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 537 - 538 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 – 108 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) – مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن

ابْنُ حَبِيْبٍ عَبْدُ المَلِكِ بنُ حَبِيْبِ بنِ سُلَيْمَانَ السُّلَمِيُّ *

الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ الأَنْدَلُسِ،
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وَكَانَ مَوْصُوَفاً بِالحِذْقِ فِي الفِقْهِ، كَبِيْرَ الشَّأْنِ، بَعِيْدَ الصِّيْتِ، كَثِيْرَ التَّصَانِيْفِ،
۔۔۔۔
۔۔۔۔

قَالَ أَبُو الوَلِيْدِ بنُ الفَرضِيِّ: كَانَ فَقِيْهاً، نَحْوِيّاً، شَاعِراً، عَرُوْضِيّاً أَخْبَارِيّاً، نَسَّابَةً، طَوِيْلَ اللِّسَانِ، مُتَصَرِّفاً فِي فُنُوْنِ العِلْمِ.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

سَكَنَ إِلْبِيْرَةَ مِنَ الأَنْدَلُسِ مُدَّةً، ثُمَّ اسْتَقْدَمَهُ الأَمِيْرُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ الحَكَمِ، فَرَتَّبَهُ فِي الفَتْوَى بِقُرْطُبَةَ، وَقَرَّرَ مَعَهُ يَحْيَى بنُ يَحْيَى فِي النَّظَرِ وَالمُشَاوَرَةِ،
فَتُوُفِّيَ يَحْيَى بنُ يَحْيَى، وَانْفَرَدَ ابْنُ حَبِيْبٍ بِرِئَاسَةِ العِلْمِ.
وَكَانَ حَافِظاً لِلْفِقْهِ، نَبِيْلاً،

۔۔۔۔
۔۔۔۔

قَالَ أَبُو القَاسِمِ بنُ بَشْكُوَالَ:
قِيْلَ لِسَحْنُوْنَ: مَاتَ ابْنُ حَبِيْبٍ.
فَقَالَ: مَاتَ عَالِمُ الأَنْدَلُسِ! بَلْ -وَاللهِ- عَالِمُ الدُّنْيَا.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 102 - 107 جلد 12 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - بيت الافكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2564 – 2566 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة

عَبْد الملك بْن حبيب بْن سُلَيْمَان بْن هارون بْن جاهمة بْن العبّاس بْن مرداس السُّلَميّ. الفقيه، أَبُو مروان العباسيّ الأندلسيّ القُرطبيّ المالكيّ.

أحد الأعلام.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وكان موصوفا بالحذق في مذهب مالك.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

قَالَ ابن بَشْكَوال: قِيلَ لِسَحنون: مات ابن حبيب. فقال: مات علم الأندلس، بل والله علم الدُّنْيَا.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

قال ابن الفرضي: كان فقيها، نحويا، شاعرا، عروضيًا، أخباريا نسَّابة، طويل اللسان متصرفا في فُنُون العلم،
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وقد سكن بلد البيرة من الأندلس مدَّة، ثم استقدمه الأمير عبد الرحمن بن الحكم، فرتبه في الفتوى بقرطبة، وقُرِّرَ مع يحيى بن يحيى في المشاورة والنظر،
فلما تُوفِّي يحيى، تفرد عبد الملك برئاسة العلم بالأندلس.
قال ابن الفرضي: وكان حافظا للفقه،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 874 - 878 جلد 05 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 257 – 261 جلد 17 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

عبد الملك بن حبيب الفقيه الكبير عالم الأندلس أبو مروان السلمي ثم المرداسى الأندلسي القرطبي:
۔۔۔
۔۔۔

وكان رأسا في مذهب مالك
۔۔۔
۔۔۔

قال ابن بشكوال قيل لسحنون فقيه المغرب مات بن حبيب قال مات عالم الأندلس بل والله عالم الدنيا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 537 - 538 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 – 108 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) – مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن


عبد الملك بن حبيب
القرطبي [أَبُو مروان]
أحد الأئمة ومصنف الواضحة كثير الوهم صحفي.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وقال ابن الفرضي بعد أن نسبه كابن يونس وزاد بعد مروان: ابن جاهمة بن عباس بن مرداس السلمي يكنى أبا مروان
كان حافظا للفقه نبيلا
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وقال ابن القطان:
كان متحققا بحفظ مذهب مالك ونصرته والذب عنه لقي الكبار من أصحابه ولم يهد في الحديث لرشد، وَلا حصل منه على شيخ مفلح.
۔۔۔۔
۔۔۔۔

ويقال: إن سُحنون لما بلغته وفاته قال: مات عالم الأندلس.

وكان العُتْبِي يقول: ما أعلم أحدا ألف على مذهب أهل المدينة تآليفه وله من التواليف: الواضحة والجوامع وفضائل الصحابة والرغائب وغير ذلك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 255 - 259 جلد 05 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت

"تمييز عبد الملك" بن حبيب بن سليمان بن مروان بن جاهمة بن عباس بن مرداس الأندلسي الفقيه أبو مروان السلمي
۔۔۔
۔۔۔

ثم استقدمه الأمير عبد الرحمن بن الحكم ورتبه في الفتوى مع يحيى بن يحيى وغيره في المشاورة والنظر فلما مات بن يحيى تفرد بن حبيب برياسة العلم بالأندلس وقال ابن الفرضي وكان حافظا للفقيه نبيلا
۔۔۔۔
۔۔۔۔

كان ذابا عن مذهب مالك صنف في الفقه والتاريخ والأدب وله الواضحة في الفقه ولم يصنف مثله

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 237 - 238 جلد 04 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 610 - 611 جلد 02 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 - 391 جلد 06 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند

عبد المَلِك بن حَبيب بن سُلَيْمان بن هارون بن جاهمة بن عَبّاس
بن مرْداس السُّلَمِي: يُكَنّى: أبا مَرْوان. كانَ: بإلْبِيرة، وسكَن قُرطُبة وقد قِيل أنّهُ من مَوالِي سُلَيم. رَوى عنْ صَعْصَعة بن سلام، والغازي بن قَيْس، وزِياد بن عبد الرّحمن.
ورَحل فسمعَ منْ عبد المَلِك بن المَاجَشُون، ومُطَرّف بن عبد الله، وإبْراهيم بن المُنْذر الجُذاميّ، وأصْبَغ بن الفَرَج، وأسد بن مُوسى وجَماعة سواهم كَثير. وانصَرف إلى الأنْدَلُس وقد جَمَع عِلْماً عظيماً. وكانَ: مُشاوَراً مع يَحيى بن يَحيى، وسَعيد بن حسّان. وكان: حافِظاً لِلْفِقْه على مَذْهب المدنيّين، نبيلا فيه، ولهُ مؤلّفات في الفِقْه والتواريخ، والأداب كثيرة حسان.
منها: الوَاضحة. لم يؤلَّف مِثْلُها؛
والجوامع؛ كتاب: فَضْل الصحابة رضي الله عنهم؛ وكِتاب: غريب الحدِيث؛ وكتاب: تَفْسير الموطأ؛ وكتاب: حُرُوب الإسلام؛ وكتاب: المسْجديْن؛ وكتاب سيرة الإمام في المُلْحِدين؛ وكتاب طَبقَات الفقهاء والتابعين؛ وكتاب: مصابيح الهُدَى. وغير ذلِك من كُتُبه المَشهُورة،
۔۔۔۔
۔۔۔۔

أخبَرنا أحمد بن محمد بن الخرّاز الرّجُل الصّالح قال: نا سَعيد بن فَحلون قال: سمِعت إبراهِيم بن قاسِم بن هِلال يقول: رَحِم الله
عبد الملك بن حبيب فقد كانَ ذابَّاً عن قوْل مالِك.
۔۔۔۔
قالَ أحمد:
وذُكِر أنّه سُئِل ابن الماجَشُون مِنْ أعْلم الرّجُليْن عِندَك القُرَويّ التُّنُوخيّ؛ أمْ الأنْدَلُسيّ السَلَميّ؟ فقال: السّلميّ مقْدمَهُ عليْنا أعلم من التّنُوخيّ مُنْصَرَفه عنّا. ثُمّ قال لِلسائل: أفَهَمْت؟ قال: نعم. يُعْنى: سَحْنوناً، وعبد الملِك.
وأخْبَرَنا عُبَيْد الله بن محمد، قال: نا عُثْمان بن عبد الرّحمن، قال: نا ابن وضّاح قالَ: سَمِعْتُ أبا زَيْد بن أبي الغَمْرِ بالفِسْطاط يَقول: لمْ يَقْدِم إليْنا هاهُنا أحَدٌ أفْقَه من سَحْنون؛ إلاّ أنّهُ قَدِمَ عَليْنا منْ هوَ أطْوَل لِساناً منهُ. يُعنى: ابن حبيب.
۔۔۔
۔۔۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 359 – 362 جلد 01 تاريخ علماء الأندلس - عبد الله بن محمد بن يوسف بن نصر الأزدي، أبو الوليد، المعروف بابن الفرضي (المتوفى: 403هـ) - دار الغرب الإسلامي

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 459 – 463 تاريخ علماء الأندلس - عبد الله بن محمد بن يوسف بن نصر الأزدي، أبو الوليد، المعروف بابن الفرضي (المتوفى: 403هـ) – دار الكتاب المصري، القاهرة – دار الكتاب البناني، بيروت



عبد الملك بن حبيب بن سليمان بن هارون بن جلهمة بن عباس بن مرداس السّلميّ أبو مروان الأندلسي.
من الطبقة الأولى،
الذين انتهى إليهم فقه مالك ممن لم يره، من أهل الأندلس.
۔۔۔
۔۔۔

كان عبد الملك حافظا للفقه على مذهب مالك نبيلا فيه،
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وسئل ابن الماجشون عن أعلم الرجلين: القروي التنوخيّ؛ أم الأندلسي السلميّ؟ فقال: السلمي مقدمه علينا أعلم من التنوخي منصرفه عنا. ثم قال للسائل: أفهمت؟
۔۔۔۔
۔۔۔۔

وكان ذابّا عن مذهب مالك،
۔۔۔
۔۔۔

ولما نعي إلى سحنون استرجع، وقال: مات عالم الأندلس، بل والله عالم الدنيا.
۔۔۔
۔۔۔

وقال العتبي: وذكر «الواضحة» رحم الله عبد الملك، ما أعلم أحدا ألف على مذهب أهل المدينة تأليفه ولا لطالب أنفع من كتبه ولا أحسن من اختياره.
وألف كتبا كثيرة حسانا في الفقه، والتواريخ، والآداب، منها الكتب المسماة «بالواضحة» في السنن والفقه لم ير مثلها،

۔۔۔۔
۔۔۔۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 353 – 357 جلد 01 طبقات المفسرين - محمد بن علي بن أحمد، شمس الدين الداوودي المالكي (المتوفى: 945هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

عبد الملك بن حبيب بن سليمان بن هارون بن جلهمة بن عباس بن مرداس *:

۔۔۔
۔۔۔


قال القاضي عياض: وسئل ابن الماجشون: من أعلم الرجلين: القروي التّنوخي - (يعني سحنون بن سعيد) - أم الأندلسي السلمي؟ فقال: السلمي مقدمه علينا أعلم من التّنوخي منصرفه عنا. ۔۔۔
۔۔۔

وقال ابن الفرضي: وقد جمع علما عظيما، وكان مشاورا مع يحيى بن يحيى وسعيد بن حسان، وكان حافظا للفقه على مذهب المدنيين، نبيلا فيه. . .

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 783 – 786 جمهرة تراجم الفقهاء المالكية - د. قاسم علي سعد - دار البحوث للدراسات الإسلامية وإحياء التراث، دبي


ابن حبیب کی کتاب ﴿الواضحة﴾ کو تو فقہ مالکیہ کی امہات الکتب میں شمار کیا گیا ہے:
الامهات أربع المدونة والموازية والعتبية والواضحة فالمدونة لسحنون والعتبية للعتبي والموازية لمحمد ابن المواز والوضحة لابن حبيب ويقال الدواوين سبعة الاربعة الاول والمختلطة والمبسوط والمجموعة فالمجموعة لابن عبدوس والمبسوط للقاضي اسمعيل والمختلطة لابن القاسم انتهی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 38 جلد 01 الخرشي على مختصر سيدي خليل وبهامشه حاشية العدوي - محمد الخرشي أبو عبد الله - أبو الحسن، علي بن أحمد بن مكرم الصعيدي العدوي (المتوفى: 1189هـ) - المطبعة الأميرية الكبرى
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 38 جلد 01 الخرشي على مختصر سيدي خليل وبهامشه حاشية العدوي - محمد الخرشي أبو عبد الله - أبو الحسن، علي بن أحمد بن مكرم الصعيدي العدوي (المتوفى: 1189هـ) - طبع بمطبعة محمد أفندي مصطفى بمصر


عبد الملك بن حبيب بن سلميان السلمي: أصله من طليطلة، وانتقل جده لقرطبة، سمع مطرفا وابن الماجشون، وكان ذا علم واسع رتبة الأمير عبد الرحمن بن الحكم في طبقة المفتين بقرطبة، وانفرد بالرئاسة بعد يحيى بن يحيى، وهو مؤلف كتاب "الواضحة" أحد الكتب الجامعة في المذهب غير أنه مضعف في الحديث، له مؤلفات شتى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 116 – 117 جلد 02 الفكر السامي في تاريخ الفقه الإسلامي - محمد بن الحسن بن العربيّ بن محمد الحجوي الثعالبي الجعفري الفاسي (المتوفى: 1376هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

غوائل الاختصار وتاريخ ابتدائه:
لما ألفت المتقدمون دواوين كبارا كـ"المدونة" و"الموازية" و"الواضحة" وأمثالها، عسر على المتأخرين حفظها لبرودة وقعت في الهمم، فقام أهل القرن الرابع باختصارها،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 457 جلد 02 - الفكر السامي في تاريخ الفقه الإسلامي - محمد بن الحسن بن العربيّ بن محمد الحجوي الثعالبي الجعفري الفاسي (المتوفى: 1376هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلی بات: اس روایت میں یہ ہے:
وقالا: كان مالك يستحسنه.
یہ ان دونوں کا خیال ہے۔ جب کہ مدونہ والی روایت میں خود امام مالکؒ نے کہا ہے:
لا أعرف ذلك في الفريضة
قائل اپنی بات کو خود بخوبی جانتا ہے۔
اگرچہ اس سے پہلے یہ بھی ہے:

وروياه عن مالك
لیکن اس روایت کے الفاظ کیا ہیں؟ یہ معلوم نہیں۔ اس کتاب میں ابن عبد البر نے مدونہ کے الفاظ بھی یہ نقل کیے ہیں:
إنما ذلك في النوافل من طول القيام ولا أحبه في المكتوبة.
حالانکہ مدونہ کے یہ الفاظ نہیں ہیں۔ لہذا جو امام مالکؒ کے قطعی الفاظ ہیں ان کو ترجیح ہوگی۔
''المدونة''کی روایت میں امام مالک کے اپنے الفاظ ہیں، اور ''الواضحة'' کی روایت میں امام مالک کے اپنے الفاظ نہ ہونے کے سبب امام مالک کے الفاظ والی روایت کو ترجیح حاصل ہونا ضروری نہیں! کہ ایک کو ترجیح دی جائے اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا جائے! ذہن میں رہے کہ جسے مرجوح قرار دیا جاتا ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا!
ویسے بھی '
'المدونة'' کی مذکور روایت جو آپ نے پیش کی ہے، اس میں بھی ایک حصہ ہی امام مالک کے اپنے الفاظ ہیں! جبکہ اس کا دوسرا حصہ بھی روایت بالمعنی ہے، اور تیسرے حصہ پر سوال ہو سکتا ہے کہ وہ امام مالک کا مؤقف ہے یا ابن القاسم کا!
آپ کے مراسلہ سے اقتباس پیش ہے:
قال: وقال مالك: في وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة؟ قال: لا أعرف ذلك في الفريضة وكان يكرهه ولكن في النوافل إذا طال القيام فلا بأس بذلك يعين به نفسه
یہاں پہلے قائل ابن القاسم ہیں۔ چنانچہ ترجمہ ہوگا: "(ابن القاسم نے) کہا: مالک نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کے بارے میں کہا: میں اسے فرض (نماز) میں نہیں پہچانتا اور وہ اسے ناپسند کرتے تھے لیکن نوافل میں جب قیام طویل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے اپنی مدد کرے۔"
اور جب مدونہ کی روایت کی تاویل امام مالک کی دوسری روایت کے موافقت میں تاویل ممکن ہے، اور وہ بھی قران و حدیث کے اور جمہور علماء کے موافق ہو، تو اس تاویل کو قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہے!
دوم کہ مدونہ میں مذکور امام مالک کا قول اگر اس معنی میں لیا جائے کہ امام مالک فرض نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق کوئی دلیل جانتے پہچانتے ہی نہیں! تو یہ بات امام مالک کی مؤطا کے برخلاف ہے کہ امام مالک نے مؤطا میں خود دو رواتیں نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق نقل کی ہیں!
لہٰذا اس معنی میں تو یہ درست نہیں! اور اس معنی میں تو روایت معلول ٹھہرے گی! الا یہ کہ اس کی کوئی ایسی تاویل ہو کہ جس سے یہ معنی نہ ہو کہ امام مالک نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق کسی دلیل کو جانتے پہچانتے ہی نہیں!

''المدونة'' کی روایت کے پیش نظر دوسری صورت یہ ممکن ہو سکتی ہے کہ پہلے امام مالک کو نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق کسی دلیل کا علم نہیں تھا، مگر بعد میں ہوا! (لیکن یہ بعید ہے، اس کی تفصیل آگے آئے گی، ان شاء اللہ!)
اس صورت میں بھی امام مالک کی
''المدونة'' کی روایت سے امام مالک کا رجوع ثابت ہوگا، اور امام مالک کا مؤقف حدیث کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنا قرار پائے گا!
اب جب امام مالک کی '
'المدونة'' کی روایت، امام مالک کی ''الواضحة'' کی روایت سے قطع نظرامام مالک کی ''موطا'' کے پیش نظر ہی تاویل طلب ہے، تو امام مالک کے قول کی مؤطا امام مالک کے موافق تاویل قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ جبکہ امام مالک کی ''الواضحة'' کی روایت بھی اس امر کو تقویت دیتی ہے!
لہٰذا فقہائے مالکیہ ے بھی اس صورت کو اختیار کیا ہے، گو کہ اس امر میں اختلاف بھی موجود ہے! لیکن فقہائے مالکیہ نے
''المدونة'' کی روایت کی تاویل بھی ہے!
رہی بات کہ
''الواضحة'' کی روایت روایت بالمعنی ہے، تو یہ روایت بالمعنی کسی اور کے روایت کردہ نہیں، بلکہ فقہائے مالکیہ کے ہی ہیں! اور فقہ مالکیہ میں امام مالک کے قول کے فقہائے مالکیہ کے اخذ کردہ معنی معتبر قرار پائیں گے!
ایک بات مزید سمجھنے کی یہ ہے کہ
''المدونة'' اور ''الواضحة'' کی روایات ''موطا امام مالك'' کے پیش نظر ''المدونة'' کی روایت کی تاویل کی صورت میں ایک دوسرے کے مخالف نہیں رہتی! لہٰذا ایسی صورت میں راجح اور مرجوح کا معاملہ ہی پیش نہیں آتا!
لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ ''امام مالک کے قطعی الفاظ کی روایت کو ترجیح ہوگی'' درست نہیں!
یہی وجہ ہے کہ مالکیہ نے امام مالک کی
''الواضحة'' کی روایت کو قبول کیا ہے، اور ''المدونة'' کی روایت کی تاویل بیان کی ہے! جس کی تفصیل پہلے بیان کی گئی ہے ! ایک حوالہ مزید پیش خدمت ہے:
[مسألة: وضع الرجل إحدى يديه على الأخرى في الصلاة]
مسألة وسألته عن وضع الرجل إحدى يديه على الأخرى في الصلاة المكتوبة يضع اليمنى على كوع اليسرى وهو قائم في الصلاة المكتوبة أو النافلة، قال: لا أرى بذلك بأسا في النافلة والمكتوبة.
قال محمد بن رشد: قول: لا أرى بذلك بأسا، يدل على جواز فعل ذلك في الفريضة والنافلة من غير تفصيل، وذهب في رواية ابن القاسم عنه في " المدونة " إلى أن ترك ذلك أفضل من فعله؛ لأنه قال فيها: لا أعرف ذلك في الفريضة وكان يكرهه، ولكن في النوافل قال: إذا طال القيام فلا بأس
بذلك يعين به نفسه، وسقط، وكان يكرهه في بعض الروايات، فالظاهر من مذهبه فيها مع سقوطه أن تركه أفضل؛ لأن معنى قوله: لا أعرف ذلك في الفريضة، أي: لا أعرفه فيها من سننها ولا من مستحباتها، وفي قوله: إنه لا بأس بذلك في النافلة إذا طال القيام ليعين به نفسه، دليل على أن فيه عنده بأسا إذا لم يطل القيام، وفي الفريضة وإن طال القيام، وأما مع ثبوته، وكان يكرهه فالأمر في ذلك أبين؛ لأن حد المكروه ما في تركه أجر وليس في فعله وزر، وذهب في رواية مطرف وابن الماجشون عنه في " الواضحة " إلى أن فعل ذلك أفضل من تركه، وهو الأظهر لما جاء في ذلك من أن الناس كانوا يؤمرون به في الزمان الأول، وأن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كان يفعله، فيتحصل في المسألة ثلاثة أقوال: أحدها: أن ذلك جائز في المكتوبة والنافلة لا يكره فعله ولا يستحب تركه، وهو قوله في هذه الرواية، وقول أشهب في رسم "شك في طوافه" من سماع ابن القاسم من كتاب الجامع. والثاني: أن ذلك مكروه يستحب تركه في الفريضة والنافلة إلا إذا طال القيام في النافلة فيكون فعل ذلك فيها جائزا غير مكروه ولا مستحب، وهو قول مالك في " المدونة " وفي رسم "شك في طوافه" من كتاب الجامع. والثالث: أن ذلك مستحب فعله في الفريضة والنافلة مكروه تركه فيها، وهو قوله في رواية مطرف وابن الماجشون عنه في " الواضحة ". وقد قيل في قَوْله تَعَالَى: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2]: إن المراد بذلك وضع اليد اليمنى على الذراع اليسرى في الصلاة تحت النحر، وقد تأول أن قول مالك لم يختلف في أن ذلك من هيئة الصلاة التي تستحسن فيها، وأنه إنما كرهه ولم يأمر به استحسانا مخافة أن يعد ذلك من واجبات الصلاة. والأظهر أنه اختلاف من القول، والله أعلم.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 -395 جلد 01 البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة - أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت

یہاں ابن رشد المالکی نے امام مالک کی تین روایات ذکر کی ہیں، جس میں '
'الواضحة'' کی روایت بھی شامل ہے، اور ''المدونة'' کی روایت کی تاویل بھی نقل کی ہے!

جی اور ابھی بھی سند کا محتاج نہیں ہوں۔ لیکن جب آپ مالکی علماء کی اس بات ماننے میں پس و پیش کر رہے تھے کہ امام مالکؒ کی سب سے مشہور اور مضبوط روایت مدونہ والی ہے اور یہ کہ مالکیہ نے اسی روایت کو متون میں ذکر کیا ہے تو میں نے سوچا کہ سند کے اعتبار سے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔
یہ تو حد ہی ہو گئی! اس تھریڈ کے کسی مراسلہ سے پیش کردیں کہ آپ نے ''المدونة'' کی روایت کے علاوہ اس مسئلہ پر مالکی علماء کا کلام نقل کیا ہو!
مالکی علماء کی بات ہم نے متعدد کتب سے پیش کی! اور آپ اسے ماننے سے انکاری ہو! اور الزام ہم پر کہ ہم مالکی علماء کی بات ماننے میں پیش پیش کر رہے ہیں!
جبکہ آپ نے
''المدونة '' روایت پیش کی ہے، اور مالکی علماء کی ہی اس روایت کی تاویل کو ماننے سے انکاری آپ ہیں!
اور آپ کا یہ کہنا بھی بلکل باطل ہے کہ'' مالکیہ نے اسی روایت کو متون میں ذکر کیا ہے'' اس کا بطلان پچھلے مراسلوں میں میں گذرا، اور اس مراسلہ میں بھی ابن رشد کے حوالہ سے مذکور ہے!
ایک ضمنی بات عرض کروں کہ جب مقارن فقہ میں کسی موضوع پر گفتگو ہو تو محض اپنے مقلدین اساتذہ کے بیان پر کفایت کرنا درست نہیں! ذرا مخالف کی کتب کی چھان بین کر لینی چاہئے!
یہی وجہ ہے کہ پہلے تو آپ امام مالک سے ہاتھ باندھنے کی کسی بھی روایت کے انکاری تھے، اب مؤقف یہ اختیار کیا ہے کہ
''المودنة'' کی ہاتھ نہ باندھنے کی روایت کو ترجیح حاصل ہے! جبکہ مالکیہ نے ''المدونة'' کی روایت کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ یہاں ہاتھ باندھنے کی نفی نہیں بلکہ اس کے وجوب کی نفی ہے!

رہی بات
''المدونة'' کی روایت کے سب سے مشہور و مضبوظ ہونے کی! تومشہور ہونے کے حوالہ سے تو آگے ذکر کرتا ہوں!
مضبوط کے حوالہ سے عرض ہے مالکیہ کا ہی تاویل کے ذریعہ اس کے معنی کا تعین کرنا اس کی مضبوطی کو واضح کردیتا ہے! اور معنوی اعتبار امام مالک کی مؤطا کی روایت کے پیش نظر اس کے معنی کا تاویل طلب ہونا، اس روایت کے متعلق بتلا دیتا ہے کہ یہ کتنی مضبوط روایت ہے، کہ جو اس روایت سے نماز میں ہاتھ نہ باندھنے کا معنی اخذ کرتے ہیں، وہ بھی اس کے روایت کی تاویل کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہاں مراد یہ نہیں کہ امام مالک کے پش نظر نماز میں ہاتھ باندھنے کی کوئی دلیل تھی ہی نہیں، کیونکہ اس کی دلیل تو امام مالک نے خود اپنی موطا میں بیان کی ہے!

رہی بات سند کی ! تو میرے بھائی! آپ بھی یہاں سحنون عن ابن القاسم عن مالک کی سند کی بناء پر ہی
''المدونة'' کی روایت کو راجح قرار دے رہے ہیں!
دیکھیئے آپ نے کیا فرمایا ہے:
ایک ایسے شخص کی روایت ابن القاسم اور سحنون کے برابر کیسے کی جا سکتی ہے؟
اب آتے ہیں
''المدونة'' کی روایت کے مشہور ہونے کی طرف!
''المدونة'' کی روایت اس قدر مشہور ہے کہ اسے امام مالک سے روایت کرنے والے ابن القاسم ہی ہیں، اور ابن القاسم کے علاوہ کوئی نہیں! اور اس سے آگے بھی اتنی مشہور ہے کہ ابن القاسم سے روایت کرنے والے سحنون ہیں اور سحنون کے علاوہ اور کوئی نہیں!
اس کےبعد
''المدونة'' سے مالکیہ نے اس کو مختلف تاویلات کے ساتھ قبول کیا! جس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے!

اب دیکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نماز میں ہاتھ باندھتے تھے یا نہیں!
امام مالک موطا میں فرماتے ہیں:

بَابُ وَضْعِ الْيَدَيْنِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فِي الصَّلَاةِ
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ الْبَصْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ، وَوَضْعُ الْيَدَيْنِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فِي الصَّلَاةِ، يَضَعُ
الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى وَتَعْجِيلُ الْفِطْرِ وَالِاسْتِينَاءُ بِالسَّحُورِ»
عبد الکریم بن ابی المخارق البصری سے روایت ہے کہ انہوں کہا نبوت کی باتوں میں سے یہ بات ہے کہ جب تجھے حیاء نہ ہو تو جو چاہے کر، اور نماز میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھنا، داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا، اور روزہ جلدی افطار کرنا، اور سحری کھانے میں دیر کرنا (یعنی صبح کے قریب کھانا)
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ» قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ يَنْمِي ذَلِكَ
سھل بن سعد سے روایت ہے کہ نماز میں لوگوں کو داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کی ذراع پر رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ا ابوحازم نے کہا میں سمجھتا ہوں سہل اس حدیث کو مرفوع روایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 158 – 159 جلد 01 موطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 – 221 جلد 02 الموطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان للأعمال الخيرية والإنسانية، أبو ظبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 53 موطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - جمعية المكنز الإسلامي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 225 - 226 جلد 01 موطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - دار الغرب الإسلامي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 396 - 398 جلد 01 موطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) – مکتبة البشری، کراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 149 – 150 موطأ الإمام مالك (رواية يحي بن يحي الليثي) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صف 147 – 148 موطأ الإمام مالك (مترجم اردو) - مترجم عبد الحکیم اختر شاہجہانپوری – فرید بک اسٹال، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صف 234 - 235 موطأ الإمام مالك (مترجم اردو) - مترجم وحید الزمان – فرید بک اسٹال، لاہور

في وضع اليدين إحداهما على الأخرى في الصلاة
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ الْبَصْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ: إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ، وَوَضْعُ الْيَدَيْنِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فِي الصَّلاَةِ.

عبد الکریم بن ابی المخارق البصری سے روایت ہے کہ انہوں کہا نبوت کی باتوں میں سے یہ بات ہے کہ جب تجھے حیاء نہ ہو تو جو چاہے کر، اور نماز میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھنا،
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، يَضَعُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، وَتَعْجِيلُ الْفِطْرِ، وَالاِسْتِينَاءُ في السُّحُورِ.
امام مالک نےبیان کیا: داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا، اور روزہ جلدی افطار کرنا، اور سحری کھانے میں دیر کرنا (یعنی صبح کے قریب کھانا)
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَه الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاَةِ.
قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لاَ أَعْلَمُه إِلاَّ أَنَّهُ يَنْمِي ذَلِكَ.

سھل بن سعد سے روایت ہے کہ نماز میں لوگوں کو داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کی ذراع پر رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ا ابوحازم نے کہا میں سمجھتا ہوں سہل اس حدیث کو مرفوع روایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 164 – 165 جلد 01 موطأ الإمام مالك (رواية أبي مصعب الزهري المدني) - مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) - مؤسسة الرسالة

بَابُ: وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الْيَسَارِ فِي الصَّلاةِ
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ، أَنْ يَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاةِ» ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: وَلا أَعْلَمُ إِلا أَنَّهُ يَنْمِي ذَلِكَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: يَنْبَغِي لِلْمُصَلِّي إِذَا قَامَ فِي صَلاتِهِ، أَنْ يَضَعَ بَاطِنَ كَفِّهِ الْيُمْنَى عَلَى رُسْغِهِ الْيُسْرَى تَحْتَ السُّرَّةِ، وَيَرْمِيَ بِبَصَرِهِ إِلَى مَوْضِعِ سُجُودِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، رَحِمَهُ اللَّه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 65 – 67 جلد 02 موطأ امام محمد بن الحسن الشيباني مع التعليق الممجد على موطأ محمد - أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189هـ) – دار القلم، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 160 موطأ امام محمد بن الحسن الشيباني مع التعليق الممجد على موطأ محمد - أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189هـ) – الميزان، لاهور

مالک۔ ابو حازم۔ سہل بن سعد ساعدی نے کہا لوگوں کو نماز میں اس بات کا حکم کیا جاتا تھا کہ وہ دائیں ہاتھ کو بائیں کہنی پر رکھیں۔ ابو حازم نے کہا میرے خیال میں سہل بن سعد کی حدیث مرفوع ہے۔
امام محمد نے کہا نمازی کے لئے مناسب ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہو تو اپنی دائیں ہتھیلی کوبائیں پہنچے پر رکھے اور سجدہ کی طرف نظر رکھے۔ یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 122 موطأ امام محمد (مترجم اردو) – خواجہ عبد الوحید- محمد سعید اینڈ سنز، تاجران کتب، کراچی

حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھے۔ حضرت ابو حازم (راوی حدیث) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اس حدیث کو مرفوعاً بیان کرتے
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: نمازی کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ نماز میں کھڑا ہو اپنے دائیں ہاتھ کے باطن کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اپنی ناف کے نیچے رکھے اور اپنی نظر اپنی سجدہ گاہ پر رکھے اور یہی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 193 موطأ امام محمد (مترجم اردو) – محمد یٰسین قصوری – پروگرسیو بکس، لاہور
امام مالک رحمہ اللہ سے بے شمار لوگوں نے موطا پڑھی ہے، جن میں امام شافعی اور امام محمد بن الحسن الشیبانی بھی ہیں! کسی نے بھی امام مالک سے اس مسئلہ میں اختلاف بیان نہیں کیا!
امام محمد نے تو باقاعدہ امام مالک کے رد میں کتاب لکھی، جسے
''الحجة على أهل المدينة'' کا نام دیا، مگر اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی! جبکہ امام محمد بن الحسن الشیبانی اپنی موطا میں امام مالک سے ہی نماز میں سینے سے ہاتھ باندھنے کی روایت نقل کرتے ہیں، اور اپنے اسلوب کے موافق فقہی تقابل بھی پیش کرتے ہوئے، امام ابو حنیفہ کا موقف بھی ذکر کرتے ہیں، لیکن امام مالک سے نماز میں ہاتھ باندھنے کی نفی بیان نہیں کرتے! یہ ایک بہت مضبوط قرینہ ہے کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی امام مالک کے شاگرد ہیں، کئی سال وہ امام مالک کی صحبت میں رہے، ان سے موطا بھی پڑھی، یہی امام محمد بن الحسن الشیبانی، جو باقاعدہ امام مالک کے رد پر کتاب بھی لکھتے ہیں، اپنی موطا میں فقہ امام مالک و فقہ امام ابو حنفیہ کا تقابل بھی کرتے ہیں، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنے کے مسئلہ میں ''امام مالک کا نماز میں ہاتھ نہ باندھنا '' بیان نہیں کرتے، جبکہ امام مالکک سے ہی نماز میں ہاتھ باندھنے کی روایت بھی بیان کرتے ہیں، یعنی اس روایت سے وہ امام مالک کا مؤقف بھی بیان کرتے ہیں، اور پھر وہ امام ابو حنیفہ کا مؤقف بھی ذکر کردیتے ہیں، ایک وضاحت کے ساتھ کہ امام ابو حنیفہ کا مؤقف نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے!

لہٰذا امام مالک کی '
'المدونة'' کی روایت سے یہ اخذ کرنا کہ امام مالک نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے، یا نماز میں ہاتھ باندھنے کو مستحب ومسنون نہیں سمجھتے تھے، درست نہیں!

امام محمد بن الحسن الشیبانی کی
''الحجة على أهل المدينة'' میں ایک اور بات ہے:
بَاب افْتِتَاح الصَّلَاة وَترك الْجَهْر بِبسْم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم
-
قَالَ ابو حنيفَة رَضِي الله عَنهُ اذا افْتتح الرجل الصَّلَاة كبر وَرفع يَدَيْهِ حَذْو اذنيه فِي افْتِتَاح الصَّلَاة وَلم يرفعهما فِي شَيْء من تَكْبِير الصَّلَاة غير تَكْبِيرَة الِافْتِتَاح
وَقَالَ اهل الْمَدِينَة يرفع يَدَيْهِ حَذْو مَنْكِبَيْه اذا افْتتح الصَّلَاة واذا كبر للرُّكُوع واذا رفع راسه من الرُّكُوع رفعهما كَذَلِك ايضا وَقَالَ سمع الله لمن حمد رَبنَا وَلَك الْحَمد فيرفع يَدَيْهِ فِي هَذَا كُله حَذْو مَنْكِبَيْه
وَقَالُوا لَا يفعل ذَلِك فِي السُّجُود وَرَوَوْهُ ذَلِك عَن ابْن عمر

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 94 جلد 01 الحجة على أهل المدينة - أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189هـ) - عالم الكتب، بيروت
یہاں امام محمد نے امام مالک کا مؤقف رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے رفع یدین کرنے کا بتلایا ہے!
اور پھر آگے اس مؤقف پر رد کیا ہے!
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاںں تو امام محمد نے اہل المدینة کا کہا ہے، اور اس سے امام مالک کا یہ مؤقف ہونا لازم نہیں آتا، تو اس کے لئے امام محمد کا اپنا قول پیش خدمت ہے، کہ امام محمد یہاں امام مالک کا ہی رد فرما رہے ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، صَاحِبُ الرَّأْيِ، فَقَالَ: قَالَ: وَضَعْتُ كِتَابًا عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ تَنْظُرُ فِيهِ؟ فَنَظَرْتُ فِي أَوَّلِهِ ثُمَّ وَضَعْتُهُ، أَوْ رَمَيْتُ بِهِ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ ، قُلْتُ: أَوَّلُهُ خَطَأٌ، عَلَى مَنْ وَضَعْتَ هَذَا الْكِتَابَ؟ ، قَالَ: عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
قُلْتُ: مَنْ أَهْلُ الْمَدِينَةِ؟ ، قَالَ: مَالِكٌ.
قُلْتُ: فَمَالِكٌ رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَقَدْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ فُقَهَاءُ غَيْرُ مَالِكٍ: ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَالْمَاجِشُونُ، وَفُلانٌ وَفُلانٌ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الدَّجَّالُ، وَالْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَالْمَدِينَةُ عَلَى كُلِّ بَيْتٍ مِنْهَا مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ»

امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل الرائے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ میں نے اہل مدینہ کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے، کیا آپ یعنی امام الشافعیؒ اسے دیکھیں گے؟ امام الشافعیؒ نے کہا کہ میں نے اس کے اول صفحہ ہی کو دیکھ کر اسے زمین پر پھینک دیا، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ آپ نے اسے پھینک کیون دیا؟ امام الشافعیؒ نے فرمایاکہ اس کا سرورق ہی غلط ہے، آپ نے یہ کتاب کس کے خلاف لکھی ہے؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کے خلاف، امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کون لوگ ہیں؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے جواب دیا کہ امام مالک بن انسؒ۔ امام الشافعیؒ نے کہا کہ امام مالکؒ تو صرف فرد واحد اور تن تنہا ایک شخص ہیں، ان پر تمام اہل مدینہ کا اطلاق کیونکر ہو سکتا ہے؟( آپ کی اس کتاب کا نام ہی غلط اور خلاف واقع ہے) مدینہ منورہ میں تو امام مالک کے علاوہ بہت سارے فقہاء امام ابن ابی ذئبؒ و ماجشونؒ وغیرہ ہیں(پھر تو آپ کی اس کتاب کا نام ہی باطل ہے کیونکہ یہ کتاب اہل مدینہ کا رد نہیں بلکہ صرف مدینہ کے فرد واحد کا رد ہے،) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی فضیلت میں فرمایا ہے کہ وہاں دجال وطاعون داخل نہیں ہو سکتے اور مدینہ منورہ کے ہر گھر پر دجال و طاعون سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیخ برہنہ لئے ایک ایک فرشتہ متعین ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 81 - 82 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت

لیکن اسی مسئلہ میں
''المدونة'' کی روایت یہ ہے کہ امام مالک پہلی تکبیر کے علاوہ نماز میں رفع یدین کے بارے میں جانتے ہی نہیں!
[رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الرُّكُوعِ وَالْإِحْرَامِ]
فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الرُّكُوعِ وَالْإِحْرَامِ قَالَ: وَقَالَ مَالِكٌ: لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي شَيْءٍ مِنْ تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ إلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ شَيْئًا خَفِيفًا وَالْمَرْأَةُ فِي ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ، قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: وَكَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 165 جلد 01 المدونة الكبرى - الإمام مالك بن أنس الأصبحي رواية الإمام سحنون - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 جلد 01 المدونة الكبرى - الإمام مالك بن أنس الأصبحي رواية الإمام سحنون - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 جلد 01 المدونة الكبرى - الإمام مالك بن أنس الأصبحي رواية الإمام سحنون - دار صادر

جبکہ
''المدونة'' کی یہ روایت مؤطا امام مالک کے کے بھی خلاف ہے، اور امام محمد نے بھی اپنی موطا میں امام مالک کا مؤقف امام مالک سے منقول روایت کے ذریعہ ہی بیان کیا، اور پھر اس پر فقہی تقابل پیش کرتے ہوئے، امام ابو حنیفہ کا مؤقف پیش کیا!
بَابُ: افْتِتَاحِ الصَّلاةِ
نماز کے شروع کرنے کا بیان
نماز شروع کرنے بیان

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "
مالک بن انس، زہری، سالم بن عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمر نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ شانوں تک اٹھاتے جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے اس طرح رکوع سے سر اٹھاتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر سَمِعَ الله لِمَنْ حَمِدَ اور رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھاتے جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور پھر رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہتے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ كَانَ «إِذَا ابْتَدَأَ الصَّلاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكبَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا دُونَ ذَلِكَ»
مالک بن انس، نافع، عبد اللہ بن عمر جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ شانوں تک اٹھاتے اسی طرح رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے۔
نافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، «أَنَّهُ يُعَلِّمُهُمُ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاةِ، أَمَرَنَا أَنْ نُكَبِّرَ كُلَّمَا خَفَضْنَا، وَرَفَعْنَا»
مالک بن انس، وہب بن کیسان، جابر بن عبد اللہ انصاری لوگوں کو نماز میں تکبیر کی تعلیم دیتے تھے ہم کو فرماتے تھے کہ جب جھکیں یا اٹھیں تو تکبیر کہیں۔
وہب بن کیسان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ہمیں نماز میں تکبیر کہنے کی تعلیم دیا کرتے تھے وہ ہم کو حکم دیتے تھے جب ہم جھکیں یا بلند ہوں تکبیر کہیں۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ كُلَّمَا خَفَضَ، وَكُلَّمَا رَفَعَ، فَلَمْ تَزَلْ تِلْكَ صَلاتُهُ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»
مالک بن انس، ابن شہاب زہری، علی بن حسین بن علی یعنی امام زین العابدین نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں اٹھتے یا جھکتے تو تکبیر کہتے اور ہمیشہ اس طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ خداوند تعالیٰ سے جا ملے۔
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہمیشہ ایسی رہی کہ جب اٹھتے یا جھکتے تو تکبیر کہا کرتے حتیٰ کہ آپ بارگاہ الہٰی میں پہنچ گئے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ «كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَكَبَّرَ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، ثُمَّ انْصَرَفَ»، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لأَشْبَهُكُمْ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مالک، ابن شہاب زہری، ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے خبر دی کہ ابو ہریرہ جب نماز پڑھاتے تو نماز سے اٹھتے اور جھکتے وقت اللہ اکبر کہتے پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا خدا کی قسم میں تم سب میں رسول اللہ کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، جب وہ جھکتے یا اٹھتے تکبیر کہا کرتے پھر جب نماز سے فراغت حاصل کرتے کہا کرتے: قسم بخدا! میری نماز تمہاری نماز کی بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہ ہے۔
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنِي نُعَيْمٌ الْمُجْمِرُ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الْقَارِئُ «أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَكَبَّرَ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ»، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: «وَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ، وَيَفْتَحُ الصَّلاةَ».
مالک، نعیم ہجر وابو جعفر قاری، حضرت ابوہریرہ جب نماز پڑھاتے تو اٹھتے اور جھکتے وقت تکبیر کہتے، ابو جعفر نے کہا جب آپ تکبیر کہتے اور نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔
ابو جعفر قاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے وہ جب جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہا کرتے۔ ابو جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے وقت اور نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
قَالَ مُحَمَّدٌ: السُّنَّةُ أَنْ يُكَبِّرَ الرَّجُلُ فِي صَلاتِهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَإِذَا انْحَطَّ لِلسُّجُودِ كَبَّرَ، وَإِذَا انْحَطَّ لِلسُّجُودِ الثَّانِي كَبَّرَ.
فَأَمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاةِ فَإِنَّهُ يَرْفَعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الأُذُنَيْنِ فِي ابْتِدَاءِ الصَّلاةِ مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ لا يَرْفَعُ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلاةِ بَعْدَ ذَلِكَ، وَهَذَا كُلُّهُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَفِي ذَلِكَ آثَارٌ كَثِيرَةٌ

امام محمد نے کہا نماز میں ہر جھکتے وکھڑے ہوتے وقت اور دوسرے سجدہ کے وقت تکبیر کہے مگر رفع یدین ایک ہی دفعہ نماز شروع کرتے وقت کرے اس کے بعد نماز میں پھر رفع یدین نہیں کرے یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے اور اس بارے میں بہت سے آثار وارد ہیں۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ جب کوئی اپنی نماز میں جھکے اور جب بلند ہو تکبیر کہے اور جب سجدہ لے لیے جھکے تکیر کہے لیکن رفع یدین (ہاتھ اٹھانا) نماز میں ایک بار ہے وہ یوں ہے کہ صرف نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھائے۔ یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے اس (ایک مرتبہ رفع یدین کرنیکے) مسئلہ میں بہت سے آثار موجود ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 374 – 385 جلد 01 موطأ امام محمد بن الحسن الشيباني مع التعليق الممجد على موطأ محمد - أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189هـ) – دار القلم، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 89 - 91 موطأ امام محمد بن الحسن الشيباني مع التعليق الممجد على موطأ محمد - أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى: 189هـ) – الميزان، لاهور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 52 – 54 موطأ امام محمد (مترجم اردو) – خواجہ عبد الوحید- محمد سعید اینڈ سنز، تاجران کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 87 - 90 موطأ امام محمد (مترجم اردو) – محمد یٰسین قصوری – پروگرسیو بکس، لاہور

اسی طرح امام محمد نے امام مالک سے نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق روایات نقل کرکے امام مالک کے مؤقف کو ذکر کیا، اور پھر فقہی تقابل میں امام ابو حنیفہ کا مؤقف پیش کرکے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو بیان کیا!

نوٹ: اب کوئی منچلا یہ نہ کہہ دے کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی کو تو ضعیف کہتے ہو اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی کتب سے حوالہ بھی پیش کرتے ہو!
(جواب مکمل ہوا)
 
Last edited:
Top