• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
’’ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “ (سورہ الحدید :4، الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324

اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :
وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع
’’ اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنااور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “ (تفسیرطبری ج 27 ص 125)
اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیں‌
ھوفوق العرش وعلمہ معھم اینما کانوا(تفسیرطبری ج 28 ص 10 و سندہ حسن )
“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیں‌بھی ہوں “

امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیں‌کہ
“اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ
ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السمٰوات بذاتہ ، مستوعلی عرشہ کیف شاء(شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص 144، 145)
’’ بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے “

اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ’’ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے

مسؤلہ آیت کریمہ میں‌’’ يَعْلَمُ “ لفظ بھی صاف طور پراسی پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں‌ معیت سے علم و قدرت مراد ہے۔(توحید خالص ، ''بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ '' ص 277 )

حارث بنا اسد المحاسی رحمہ اللہ (متوفی 243 ھجری )فرماتے ہیں کہ :
’’ وکذلک لا یجوز ۔۔۔ “ الخ اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں کہ ۔۔۔ اللہ زمین پر ہے ۔(فہم القرآن ع معانیہ ، القسم الرابع ، باب مالا یجوزفیہ النسخ )

حافظ ابن اجوزی فرماتے ہیں کہ :
’’ (جہمیہ کے فرقے ) ملتزمہ نے باری تعالٰی کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے “ (تلبیس ابلیس 30 ، راقم الحروف کی کتاب ، بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19 )

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‌کہ :
’’ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میں‌ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں‌عرش پر ہے “ (غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )

الشیخ محمد بن صالح عثمین رحمہ اللہ
ترجمہ شیخ حافط زبیر علی زئی​
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

اللہ تعالی کی ذات عرش پر قائم ہے ، ہر جگہ موجود نہیں ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو :

(( الرحمن علی العرش استوی)) طہ #٥
جو رحمن عرش پر قائم ہے۔ ( دیکھیے تفسیر احسن البیان مذکورہ آیت)

دوسری بات یہ ہے کہ، اللہ تعالی ،کسی جگہ میں نہیں ہے بلکہ جگہ ، اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو:

((وکان اللہ بکل شئ محیطا)) النسآء # ١٢٦
اور اللہ تعالی ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔(دیکھیے تفسیر احسن البیان مذکورہ آیت)

معلوم ہوا کہ جگہ ، اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ، اللہ تعالی جگہ میں نہیں ہے ، کیونکہ جگہ بھی شئ ہے ۔

اللہ تعالی کو ہر جگہ کہنا ، درست نہیں ہے ، بلکہ وہ جگہ کا محتاج نہیں ہے ، کیونکہ وہ الصمد ہے ، جسے کسی شے کی حاجت نہیں ہے ۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186

سلام


اب دکھیں یہاں یہ ظالم لوگ کیا کہتے ہیں


یہ اللہ کو ہر جگہ ذات کے ساتھ مانتے ہیں


ثبوت


اﷲ ہر جگہ موجود ہے
اللہ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں کو اس کفریہ عقائد سے اور ان گمراہ مبلغین سے محفوظ رکھے آمین ۔۔۔۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
’’ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “ (سورہ الحدید :4، الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324

اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :

اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیں‌



امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیں‌کہ
“اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ



اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ’’ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے

مسؤلہ آیت کریمہ میں‌’’ يَعْلَمُ “ لفظ بھی صاف طور پراسی پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں‌ معیت سے علم و قدرت مراد ہے۔(توحید خالص ، ''بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ '' ص 277 )

حارث بنا اسد المحاسی رحمہ اللہ (متوفی 243 ھجری )فرماتے ہیں کہ :
’’ وکذلک لا یجوز ۔۔۔ “ الخ اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں کہ ۔۔۔ اللہ زمین پر ہے ۔(فہم القرآن ع معانیہ ، القسم الرابع ، باب مالا یجوزفیہ النسخ )

حافظ ابن اجوزی فرماتے ہیں کہ :
’’ (جہمیہ کے فرقے ) ملتزمہ نے باری تعالٰی کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے “ (تلبیس ابلیس 30 ، راقم الحروف کی کتاب ، بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19 )

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‌کہ :
’’ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میں‌ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں‌عرش پر ہے “ (غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )

الشیخ محمد بن صالح عثمین رحمہ اللہ
ترجمہ شیخ حافط زبیر علی زئی​
جزاک اللہ خیرا
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119

سلام


اب دکھیں یہاں یہ ظالم لوگ کیا کہتے ہیں


یہ اللہ کو ہر جگہ ذات کے ساتھ مانتے ہیں


ثبوت


http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidiat/2092-allah-har-jagah-maujood-hain
آپ نے جو لنک دیا وہاں تو کوئی ظالموں والی بات سمجھ نہیں آئی ذرا آپ تفصیل سے سمجھا دے کہ اس لنک کون کون سی جگہ پر ظلم کیا گیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
’’ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “ (سورہ الحدید :4، الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324

اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :

اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیں‌



امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیں‌کہ
“اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ



اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ’’ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے

مسؤلہ آیت کریمہ میں‌’’ يَعْلَمُ “ لفظ بھی صاف طور پراسی پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں‌ معیت سے علم و قدرت مراد ہے۔(توحید خالص ، ''بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ '' ص 277 )

حارث بنا اسد المحاسی رحمہ اللہ (متوفی 243 ھجری )فرماتے ہیں کہ :
’’ وکذلک لا یجوز ۔۔۔ “ الخ اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں کہ ۔۔۔ اللہ زمین پر ہے ۔(فہم القرآن ع معانیہ ، القسم الرابع ، باب مالا یجوزفیہ النسخ )

حافظ ابن اجوزی فرماتے ہیں کہ :
’’ (جہمیہ کے فرقے ) ملتزمہ نے باری تعالٰی کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے “ (تلبیس ابلیس 30 ، راقم الحروف کی کتاب ، بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19 )

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‌کہ :
’’ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میں‌ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں‌عرش پر ہے “ (غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )

الشیخ محمد بن صالح عثمین رحمہ اللہ
ترجمہ شیخ حافط زبیر علی زئی​
جزاک اللہ خیرا
 
Top