• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
وعلیکم loveltalltime !

مسئلہ معیت ، یعنی اللہ تعالی کا مخلوق کے ساتھ ہونے کا مسئلہ ، اور مسئلہ علو ، یعنی اللہ تعالی کاتمام مخلوق سے بلند ہونے کا مسئلہ پر چند باتیں :

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو ، دونوں ہی حق ہیں ، یعنی اللہ تعالی، مخلوق کے ساتھ بھی ہے ، اور اللہ تعالی تمام مخلوق سے بلند بھی ہے ۔

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو کے دلائل تقریبا وہی ہیں ، جو اس موضوع کی پوسٹوں میں بیان کیے گے ہیں ، قارئین دیکھ سکتے ہیں۔

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو میں ، جگہ یا مکان (space) کا کوئ تعلق نہیں ہے ۔

کیونکہ ، جگہ یا مکان (space) ، اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اور اللہ تعالی اپنی کسی مخلوق کا محتاج نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالی الصمد ہے ۔

لہذا اللہ رب العزت کو بلند ہونے کے لیے ، قریب ہونے کے لیے ، ، جگہ یا مکان (space) کی کوئ حاجت نہیں ہے ،

اللہ رب العزت ،انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، مگر انسان کی جگہ میں یا زمین میں ہوے بغیر

کیونکہ اللہ تعالی ، علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے ۔

اسی طرح ، اللہ رب العزت ، آسمان سے اوپر بھی ہے ، مگر آسمان کی جگہ یا کسی اور جگہ یا مکان (space) کی حاجت کے بغیر

کیونکہ اللہ تعالی علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے، اور ہر چیز کو محیط (گھیرے) ہوے بھی ہے ۔

اللہ تعالی بلند ہے ، جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے ، وہ قریب بھی ہے جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے،

اللہ تعالی ،آسمان دنیا پر ، نزول بھی فرماتا ہے ، جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے ،

اللہ تعالی کو،آسمان دنیا پر ، نزول فرمانے کے لیے ، نہ توآسمان کی ضرورت ہے ، اور نہ زمین کی

کیونکہ اللہ تعالی، علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے ، قریب بھی ہے ، اور ہر چیز کو محیط (گھیرے) ہوے بھی ہے ۔

الحمد للہ رب العلمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
وعلیکم loveltalltime !

مسئلہ معیت ، یعنی اللہ تعالی کا مخلوق کے ساتھ ہونے کا مسئلہ ، اور مسئلہ علو ، یعنی اللہ تعالی کاتمام مخلوق سے بلند ہونے کا مسئلہ پر چند باتیں :

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو ، دونوں ہی حق ہیں ، یعنی اللہ تعالی، مخلوق کے ساتھ بھی ہے ، اور اللہ تعالی تمام مخلوق سے بلند بھی ہے ۔

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو کے دلائل تقریبا وہی ہیں ، جو اس موضوع کی پوسٹوں میں بیان کیے گے ہیں ، قارئین دیکھ سکتے ہیں۔

مسئلہ معیت ، اور مسئلہ علو میں ، جگہ یا مکان (space) کا کوئ تعلق نہیں ہے ۔

کیونکہ ، جگہ یا مکان (space) ، اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اور اللہ تعالی اپنی کسی مخلوق کا محتاج نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالی الصمد ہے ۔

لہذا اللہ رب العزت کو بلند ہونے کے لیے ، قریب ہونے کے لیے ، ، جگہ یا مکان (space) کی کوئ حاجت نہیں ہے ،

اللہ رب العزت ،انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، مگر انسان کی جگہ میں یا زمین میں ہوے بغیر

کیونکہ اللہ تعالی ، علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے ۔

اسی طرح ، اللہ رب العزت ، آسمان سے اوپر بھی ہے ، مگر آسمان کی جگہ یا کسی اور جگہ یا مکان (space) کی حاجت کے بغیر

کیونکہ اللہ تعالی علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے، اور ہر چیز کو محیط (گھیرے) ہوے بھی ہے ۔

اللہ تعالی بلند ہے ، جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے ، وہ قریب بھی ہے جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے،

اللہ تعالی ،آسمان دنیا پر ، نزول بھی فرماتا ہے ، جیسے اس ذوجلال کو لائق ہے ،

اللہ تعالی کو،آسمان دنیا پر ، نزول فرمانے کے لیے ، نہ توآسمان کی ضرورت ہے ، اور نہ زمین کی

کیونکہ اللہ تعالی، علی کل شئ قدیر بھی ہے ، اور الصمد( بے نیاز) بھی ہے اور علی ( بلند ) بھی ہے ، قریب بھی ہے ، اور ہر چیز کو محیط (گھیرے) ہوے بھی ہے ۔

الحمد للہ رب العلمین

میرے بھایئو دیکھو کیسے یہ لوگ بھولی بھالی عوام کو دھوکہ دیتے ہیں

ان لوگوں کے لیے قرآن اور صحیح احادیث کی کوئی ضرورت نہبیں ہے

یہ لوگ اللہ کو ہر چیز کے اندر ذات کے ساتھ مانتے ہیں ۔ جس کا ثبوت میں پیچھے دے چکا ہوں

اور ایک اور حیرت کی بات کہ قرآن اور صحیح احادیث کے منکر ہیں ہی ۔ اپنے فقہ شریف کے بھی منکر ہیں

ثبوت

امام ابو حنیفہؒ کی کتاب فقہ الاکبر کی شرح منح الروض الازھر فی فقہ الاکبر کے نام سے ملا علی القاریؒ نے لکھی ہے (جو اللہ کو عرش پر نہ مانے وہ کافر ، امام ابو حنیفہ کا فتویٰ( جب پیش کیا گیا تو کہا گیا کہ راوی جھوٹا ہے کہتے ہیں کہ اسکا جواب تو اگلے صفحہ 334پر ہی ہے جسے پیش نہیں کیا گیا وہ یہ ہے۔

ملا علی القاریؒ لکھتے ہیں:

ولا شک ان ابن عبدالسلام من اجل العلماء واو ثقھم ، فیجب الاعتماد علی نقلہ لا علی ما نقلہ الشارح ، مع ان ابا مطیع رجل وضاع عند اھل الحدیث کما صرح بہ غیر واحد

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابن عبدالسلام ایک جلیل القدر اور ثقہ عالم ہیں ان کی نقل پر اعتماد لازم ہے اور جو بات شارح نے نقل کی ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہے
کیونکہ انہوں نے ابو مطیع بلخی سے بات نقل کی ہے اور ابو مطیع بلخی کے بارے میں علماء محدثین نے صراحت کی ہے کہ وہ بہت بڑا جھوٹا انسان ہے ۔


اس لنک سے خود پڑھ لیں

جو اللہ کو عرش پر نہ مانے وہ کافر، امام ابو حنیفہ کا فتوی


لیکن عجب اتفاق ہے کہ جب احناف نے ابو مطیع البخلی کی بات ماننی ہوتی ہے تو اسے انبیاء کے قائم مقام قرار دیتے ہیں اور جب رد کرنی ہوتی تو کذاب کہہ دیتے ہیں ۔

الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیہ سے اسی ابو مطیع البلخی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :


788 - الحكم بن عبد الله بن مسلمة بن عبد الرحمن
أبو مطيع البلخي
الإمام العالم العامل، أحد أعلام هذه الأمة، ومن أقر له بالفضائل جهابذة الأئمة.
حدث عن هشام بن حسان، ومالك بن أنس، وسفيان الثوري، وأبي حنيفة، وكان من كبار أصحابه، وهو راوي " الفقه الأكبر ".
وروى عنه أحمد بن منيع، وجماعة من أهل خراسان.
وولي قضاء بلخ، وقدم بغداد غير مرة، وحدث بها، وتلقاه أبو يوسف، وتناظر معه، وكانت مدة ولايته على قضاء بلخ ستة عشر سنة، يقول بالحق ويعمل به.
روي أنه جاء من الخليفة كتاب، ومعه حرسيان يقرآنه على رءوس الناس، يتضمن العهد لبعض ولد الخليفة، وكان صغيراً، وفيه مكتوب (وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّا) ، فلما وصل الكتاب إل بلخ سمع به أبو مطيع، فقام فزعاً، ودخل والي بلخ، فقال له: بلغ من خطر الدنيا أنا نكفر بسببها. وكلمه مراراً، وعظه حتى أبكاه، فقال: إني معك فيما تراه، ولكنني رجل عامل، لا أجترئ بالكلام، فتكلم وكن آمناً، وقل ما شئت.
فلما كان يوم الجمعة ذهب أبو مطيع إلى الجامع، وقد قال له سلم بن سالم: إني معك. وقال له أيضاً أبو معاذ: إني معك. وجاء سلم إلى الجمعة متقلداً بالسيف، ثم لما اجتمع الناس وأذن المؤذن، ارتقى أبو مطيع إلى المنبر، فحمد الله وأثنى عليه، وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم، وأخذ بلحيته فبكى، وقال: يا معشر المسلمين، بلغ من خطر الدنيا أن تجر إلى الكفر، من قال: (وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّا) لغير يحيى بن زكريا فهو كافر. فرج أهل المسجد بالبكاء، وقام الحرسيان فهربا.
وقال ابن المبارك في حقه: أبو مطيع له المنة على جميع أهل الدنيا.
وقال محمد بن الفضل البلخي: مات أبو مطيع وأنا ببغداد، فجاءني المعلى بن منصور، فعزاني فيه ثم قال: لم يوجد هاهنا منذ عشرين سنة مثله.
وقال مالك بن أنس لرجل: من أين أنت؟ قال: من بلخ. قال: قاضيكم أبو مطيع قام مقام الأنبياء.
قال بعضهم: رأيت أبا مطيع في المنام، وكأني قلت له: ما فعل بك؟ فسكن حتى ألححت عليه، فقال: إن الله قد غفر لي وفوق المغفرة. قال: فقلت: ما حال أبي معاذ؟ قال: الملائكة تشتاق إلى رؤيته. قال: فقلت: غفر الله له؟ قال لي: من شتاق الملائكة لرؤيته لم يغفر الله له.
وكانت وفاته ببلخ، ليلة السبت، لاثنتي عشرة خلت من جمادى الأولى، سنة تسع وتسعين ومائة.
وقد نسبه بعض الناس إلى أنه كان جهميناً، والله تعالى أعلم بحاله.
*ومن تفرداته، أنه كان يقول بفرضية التسبيحات الثلاث في الركوع والسجود.
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !
میری سابقہ پوسٹ سے lovelyalltime کو ، شاید حلول کا عقیدہ ، یعنی اللہ تعالی کا ، مخلوق میں داخل ہونے عقیدہ ،سمجھ آیا ہے ۔

میں lovelyalltime کو بالکل واضح یہ بتانا چاہتا ہوں ، کہ عقیدہ حلول یعنی اللہ تعالی کا ، مخلوق میں داخل ہونے عقیدہ ، واضح کفر اور شرک ہے ۔

عقیدہ حلول ، عقیدہ توحید کے سراسر خلاف ہے ، کیونکہ اللہ ایک ہے ، اللہ احد ہے ، اور اسکا کوئ شریک نہیں ہے ۔

مگر اللہ رب العزت کی صفات ، یعنی شہ رگ سے قریب ہونا ، اور آسمانوں سے بلند ہونا ، سے عقیدہ حلول لازم نہیں آتا ۔

اللہ تعالی کا ، اپنی مخلوق سے قریب ہونے کا مطلب ، حلول ،ہرگز نہیں ہے ۔

جیسے آدم علیہ السلام کو ، اللہ تعالی کا اپنے ہاتھوں سے بنانا ، یا جیسے قیامت والے دن ، آسمان وزمین کا ، اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہونا ۔

اسی طرح اگر ، آسمان دنیا پر نزول سے ، حلول لازم نہیں آتا ، تو شہ رگ سے قریب ہونے پر بھی حلول لازم نہیں آتا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اسلام علیکم !
میری سابقہ پوسٹ سے lovelyalltime کو ، شاید حلول کا عقیدہ ، یعنی اللہ تعالی کا ، مخلوق میں داخل ہونے عقیدہ ،سمجھ آیا ہے ۔

میں lovelyalltime کو بالکل واضح یہ بتانا چاہتا ہوں ، کہ عقیدہ حلول یعنی اللہ تعالی کا ، مخلوق میں داخل ہونے عقیدہ ، واضح کفر اور شرک ہے ۔

عقیدہ حلول ، عقیدہ توحید کے سراسر خلاف ہے ، کیونکہ اللہ ایک ہے ، اللہ احد ہے ، اور اسکا کوئ شریک نہیں ہے ۔

مگر اللہ رب العزت کی صفات ، یعنی شہ رگ سے قریب ہونا ، اور آسمانوں سے بلند ہونا ، سے عقیدہ حلول لازم نہیں آتا ۔

اللہ تعالی کا ، اپنی مخلوق سے قریب ہونے کا مطلب ، حلول ،ہرگز نہیں ہے ۔

جیسے آدم علیہ السلام کو ، اللہ تعالی کا اپنے ہاتھوں سے بنانا ، یا جیسے قیامت والے دن ، آسمان وزمین کا ، اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہونا ۔

اسی طرح اگر ، آسمان دنیا پر نزول سے ، حلول لازم نہیں آتا ، تو شہ رگ سے قریب ہونے پر بھی حلول لازم نہیں آتا۔

میرے بھائی

مجھے صرف یہ بتا دیں کہ

اللہ ہر جگہ موجود ہے

اپنی ذات سے

یا

اپنی صفات سے
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
میرے بھائی

مجھے صرف یہ بتا دیں کہ

اللہ ہر جگہ موجود ہے

اپنی ذات سے

یا

اپنی صفات سے
بھائی یہ بھی بتا دے کہ کیا اللہ کی ذات اور صفات علیھدہ علیحدہ ہیں؟اور اس پر دلیل کیا ہے؟
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

اللہ تعالی ، اپنی ذات کے لحاظ سے ، ہر جگہ ہے یا اپنی صفات کے لحاظ سے ؟؟؟؟؟؟

اس سوال کا جواب ، مندرجہ ذیل ہے ۔

اللہ تعالی ، اپنی تمام مخلوق سے جدا ہے ، وہ اکیلا ہے ، اللہ کی تمام مخلوق ، اللہ تعالی سے جدا ہے ، اور تمام مخلوق ، اللہ کے احاطہ (گھیرے) میں ہے ، اور کوئ مخلوق ،اللہ رب العزت کا احاطہ ( گھیرا) نہیں کرسکتی۔

تمام مخلوق میں ، جگہ (space) بھی داخل ہے ، اور تمام مخلوق ، اللہ تعالی سے جدا ہے ، لہذا جگہ (space) بھی اللہ تعالی سے جدا ہے ۔

تمام مخلوق ، اللہ تعالی کی محتاج ہے ، لہذا جگہ (space) بھی اللہ تعالی کی محتاج ہے۔

اللہ تعالی کو ، کسی مخلوق کی کوئ حاجت نہیں ہے ، لہذا جگہ (space) کی بھی، اللہ تعالی کو کوئ حاجت نہیں ہے۔

تمام مخلوق ،اللہ کے احاطہ میں ہے ، مگر کوئ مخلوق ،اللہ تعالی کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ لہذا جگہ (space) بھی اللہ تعالی کا احاطہ نہیں کرسکتی۔

مذکورہ بالا باتوں کو ، سامنے رکھتے ہوے ، یہ سوال کریں کہ کیا اللہ تعالی ، ہر جگہ ہے ؟؟؟؟؟؟؟

یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ

جب خالق اور مخلوق دونوں علیحدہ ہیں ، تو اللہ تعالی اور جگہ (space) دونوں علیحدہ ہوے ،

لہذا اللہ تعالی کو ہر جگہ یا کسی جگہ کہنا ، بذات خود غلط ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کو موجود ہونے کے لیے ،جگہ (space) کی ، اللہ تعالی کو کوئ ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالی کا موجود ہونا ، اللہ تعالی کی صفت ہے ، اور اللہ تعالی کی ذات ، اور اسکی صفات ، تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے ۔ جیسے جگہ (space) یا وقت (time) وغیرہ۔

اب ، اللہ تعالی کو ہر جگہ یا کسی جگہ کہنا ، خالق اور مخلوق دونوں کو ملانا ہے ، جو غلط ہے ۔

اللہ تعالی کو ہر جگہ یا کسی جگہ کہنا ،خالق کو مخلوق کا محتاج ماننا ہے، جبکہ اللہ تعالی کو موجود ہونے کے لیے ،جگہ (space) کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالی کو ہر جگہ یا کسی جگہ کہنا ، کا مطلب ہے کہ مخلوق اللہ تعالی کا احاطہ (گھیر)کرسکتی ہےجبکہ تمام مخلوق ، اللہ کے احاطہ (گھیرے) میں ہے ، اور کوئ مخلوق ،اللہ رب العزت کا احاطہ ( گھیرا) نہیں کرسکتی۔ لہذا جگہ (space) بھی اللہ تعالی کا احاطہ(گھیر) نہیں کرسکتی۔

اب یہ سوال پھرکریں کہ کیا اللہ تعالی ، ہر جگہ ہے اور اپنی ذات کے لحاظ سے ہے یا صفات کے لحاظ سے؟؟؟؟؟؟؟

اس سوال میں جو غلط ہے ، بیان کیا جا چکا ۔ اللہ تعالی کو جگہ کے ساتھ نہ ملائیں۔

اللہ تعالی کے بارے میں ایسے کہیں ، اللہ تعالی اپنی تمام مخلوق کے ساتھ موجود ہے ، اور اللہ تعالی کی موجوگی ،جگہ (space) یا وقت (time) وغیرہ کی محتاج نہیں ہے ۔

سوال کا دوسرا حصہ ،کہ اللہ تعالی ، اپنی ذات کے لحاظ سے ، یا صفات کے لحاظ سے تمام اپنی مخلوق کے ساتھ موجود ہے؟؟؟؟؟؟

جب اللہ تعالی کا بیان ہوتا ہے ، تو اسمیں اللہ تعالی کی ذات اسکی صفات دونوں شامل ہوتی ہیں ۔

مثلا جب ہم کہتے ہیں : الرحمن ، الرحیم ، المتکبر تو اللہ تعالی کی ذات ذہن میں آتی ہے ،

اسی طرح جب ہم کہتے ہیں : اللہ تعالی ، تو اللہ تعالی کی صفات ذہن میں آتی ہیں ، مثلا اللہ وہ ہے، جو ہمارا خالق ہے ،مالک ہے ، رازق ہے ۔

لہذا ذات ، اور صفات دونوں ساتھ ہی ہوتی ہیں ، جب تک قرآن وحدیث ، کسی صفت کو خاص نہ کرے ۔

لہذا اللہ تعالی کے بارے میں ایسے کہیں ، کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوق کے ساتھ ذات ، اور صفات دونوں کےساتھ موجود ہے ۔ واللہ اعلم

عقیل صاحب کے سوال کا جواب ، دوسری پوسٹ میں دیا جاے گا ۔ ان شآء اللہ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس بحث کے ضمن میں چند باتیں آپ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی ہمارے ایما ن کی حفاظت فرمائے۔
بعض مسائل میں بحث و مباحثہ لازمی انسان کو گمراہ کرتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوپاتا سوائے گمراہی کے۔
بعض مسائل کا تعلق صرف اور صرف اہل علم اور اہل فن سے ہوتا ہے۔

زیر بحث مسلے میں بحث کو میں ذاتی طور پر پہلی کیٹگری میں سمجھتا ہوں، اگر اس میں بحث کو جائز بھی سمجھا جائے تو اسے دوسری کیٹگری میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ خاص اہل علم سے ہے۔ ہر کسی کو اس میں بحث کرنے یا رب العالمین کی ذات میں سوچنے یا تفکر کرنے کی قطعی اجازت ہے نہ ہونی چاہئے۔
ایک طبقہ کا عقیدہ ہے کہ رب العالمین کی ذات کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے۔ یعنی جیسا ایک انسان کے سامنے ایک فٹ کا دائرہ ہو تو انسان کی نگاہ، اس کا اختیار بیک وقت اس دائرہ پر ممکن ہے ، اسی طرح پوری کائنات ایک دائرہ کی صورت میں رب العالمین کے سامنے ہے۔
دوسرا طبقہ رب العالمین کی ذات کو محدود مانتا ہے اور صفات سے پوری کائنات پر محیط مانتا ہے۔
ایسی صورت میں ایک عام انسان سوچنا شروع کرتا ہے کہ اللہ تعالی کتنا بڑا ہوگا یعنی جس طرح انسان اپنی سائز کا ناپ تول کرتا ہے اسی طریقے سے اللہ کس سائز کا ہوگا، العیاذ باللہ
یقینا اہل علم کے درمیان یہ بحث قطعی نہیں ہوگی لیکن میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب ہم ایسی بحث کو اہل علم اور ماہر فن شریعت سے چوری کرکے عام فورمز پر لے آئیں گے اور اس میں پھر ہر کوئی بحث میں حصہ لے گا تو یقینا گمراہی کے راستے اوپن ہوتے چلے جائیں گے۔
اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔
میری درخواست ہے کہ ایسی بحث کے ذریعے ہم کوئی اسلام کی خدمت نہیں کررہے بلکہ خود بھی گمراہی کے راستے تلاش کررہے ہیں اور لوگوں کو بھی اسلام سے متنفر کررہے ہیں۔ آج اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ ملاوں نے اسلام کو مشکل بنادیا ہے تو یہی وجہ ہے۔ جو مسائل خاص اہل علم اور ماہر فن شریعت سے ہیں وہ انہی کی حدود میں اچھے لگتے ہیں، ایسے مسائل کو عام لوگوں میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔

شکریہ
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس بحث کے ضمن میں چند باتیں آپ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی ہمارے ایما ن کی حفاظت فرمائے۔
بعض مسائل میں بحث و مباحثہ لازمی انسان کو گمراہ کرتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوپاتا سوائے گمراہی کے۔
بعض مسائل کا تعلق صرف اور صرف اہل علم اور اہل فن سے ہوتا ہے۔

زیر بحث مسلے میں بحث کو میں ذاتی طور پر پہلی کیٹگری میں سمجھتا ہوں، اگر اس میں بحث کو جائز بھی سمجھا جائے تو اسے دوسری کیٹگری میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ خاص اہل علم سے ہے۔ ہر کسی کو اس میں بحث کرنے یا رب العالمین کی ذات میں سوچنے یا تفکر کرنے کی قطعی اجازت ہے نہ ہونی چاہئے۔
ایک طبقہ کا عقیدہ ہے کہ رب العالمین کی ذات کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے۔ یعنی جیسا ایک انسان کے سامنے ایک فٹ کا دائرہ ہو تو انسان کی نگاہ، اس کا اختیار بیک وقت اس دائرہ پر ممکن ہے ، اسی طرح پوری کائنات ایک دائرہ کی صورت میں رب العالمین کے سامنے ہے۔
دوسرا طبقہ رب العالمین کی ذات کو محدود مانتا ہے اور صفات سے پوری کائنات پر محیط مانتا ہے۔
ایسی صورت میں ایک عام انسان سوچنا شروع کرتا ہے کہ اللہ تعالی کتنا بڑا ہوگا یعنی جس طرح انسان اپنی سائز کا ناپ تول کرتا ہے اسی طریقے سے اللہ کس سائز کا ہوگا، العیاذ باللہ
یقینا اہل علم کے درمیان یہ بحث قطعی نہیں ہوگی لیکن میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب ہم ایسی بحث کو اہل علم اور ماہر فن شریعت سے چوری کرکے عام فورمز پر لے آئیں گے اور اس میں پھر ہر کوئی بحث میں حصہ لے گا تو یقینا گمراہی کے راستے اوپن ہوتے چلے جائیں گے۔
اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔
میری درخواست ہے کہ ایسی بحث کے ذریعے ہم کوئی اسلام کی خدمت نہیں کررہے بلکہ خود بھی گمراہی کے راستے تلاش کررہے ہیں اور لوگوں کو بھی اسلام سے متنفر کررہے ہیں۔ آج اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ ملاوں نے اسلام کو مشکل بنادیا ہے تو یہی وجہ ہے۔ جو مسائل خاص اہل علم اور ماہر فن شریعت سے ہیں وہ انہی کی حدود میں اچھے لگتے ہیں، ایسے مسائل کو عام لوگوں میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔

شکریہ
بھائی آپ کی بات بجا ہے مگر عقیدہ کیا ہونا چاہئے اسکی سمجھ تو ہونی چاہئے۔ابھی ہمارے یہ عام بولا جاتا ہے کہا اللہ ہر جگہ موجود ہے ،تو اس مراد کیا ہے یا کہاں جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ میں اللہ کو حاضر ناظر مانتا ہوں،تو بات کی جو اصل ہے اسکی سمجھ ہونا تو ضروری ہے بھائی عبد اللہ خوبصورت انداز میں سمجھا رہئے ہیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی


أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے)
صحیح مُسلم / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔
---[/COLOR]​




ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ
بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں
)صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (
قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟
اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی




سوره غافر


آیت نمبر ٣٦ اور ٣٧



.وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ
.اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا ؕ وَ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا کَیۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِیۡ تَبَابٍ


اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر راستوں پر پہنچ جاؤں. ‏
آسمانوں کے راستوں پر پھر موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کو اسکے اعمالِ بد اچھے معلوم ہوتے تھے اور وہ راستے سے روک دیا گیا تھا، اور فرعون کی تدبیر تو بےکار تھی. ‏



 
Top