• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
أعوذ بالله من هذه الهفوات
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

ذیل میں موجود دار العلوم دیوبند انڈیا کا ایک فتویٰ موجود ہے، اس فتوے کو ﴿ Answer: Darul Ifta Deoband India ﴾ اس لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے
1- ہر جگہ ہونے
2- ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ موجود ہے
3- اللہ تعالیٰ ہرچیز میں موجود ہے۔ یہ تمام امور قرآنی آیات سے ثابت ہیں۔
کا اقرار ہے۔(نعوذباللہ من ذلک)
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

بے شک اللہ رب العزت کی ذات ، انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، اور اللہ تعالی کو قریب ہونے کے لیے جگہ کی حاجت نہیں ہے ،

لہذا اللہ رب العزت کی ذات ، کسی جگہ میں ہونے کے بغیر ہی ،انسان کی شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہے ، کیو نکہ اللہ تعالی الصمد ہے ، یعنی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

جگہ ،اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اور تمام مخلوق ، اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ۔ دیکھیے سورہ النسآء#١٢٦

لہذا جگہ ،اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ، اللہ تعالی ،جگہ کے گھیرے میں نہیں ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اسلام علیکم !

بے شک اللہ رب العزت کی ذات ، انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، اور اللہ تعالی کو قریب ہونے کے لیے جگہ کی حاجت نہیں ہے ،

لہذا اللہ رب العزت کی ذات ، کسی جگہ میں ہونے کے بغیر ہی ،انسان کی شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہے ، کیو نکہ اللہ تعالی الصمد ہے ، یعنی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

جگہ ،اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اور تمام مخلوق ، اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ۔ دیکھیے سورہ النسآء#١٢٦

لہذا جگہ ،اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ، اللہ تعالی ،جگہ کے گھیرے میں نہیں ہے ۔
سلام

صرف یہ بتا دیں کہ

اللہ اپنی ذات سے ہر جگہ موجود ہے یا اپنے علم سے ہر جگہ موجود ہے



اللہ کہاں ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے

( 1 )

پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ

میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ائْتِنِی بہا
اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
فَأَتَیْتُہُ بہا
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
أَیْنَ اللہ
اللہ کہاں ہے ؟
قالت فی السَّمَاء ِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''
پھر دریافت فرمایا
مَن أنا
میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس باندی نے کیا جواب دِیا؟؟؟
غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس باندی کا اِیمان جانچنے کے لیے ، اُس کے اِیمان کی درستگی جانچنے کے لیے صِرف دو باتیں دریافت فرمائیں،
اللہ کی ایک ذات مبارک کے بارے میں سوال کیا کہ اللہ کہاں ہے ؟
اِیمانیات کے بارے میں کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اپنی ذات مبارک کے بارے میں ایک سوال فرمایا کہ اُن کی حیثیت و رُتبہ کیا ہے ؟،
اور اُس باندی کے مختصر سے جواب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس کےاِیمان والی ہونے کی گواہی دِی ، جِس جواب میں اللہ کی ذات مبارک کے بارے میں اُس باندی نے یہ کہا کہ""" اللہ آسمان پر ہے """،
اب ذرا کچھ مزید توجہ سے غور فرمایے ،کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کہنا کُفر ہے کہ وہ اُوپر ہے ، آسمانوں سے اوپر ہے ، اپنی تمام تر مخلوق سے اُوپر ہے،تو پھر اس بات پر ، یا ایسا کہنے والوں پر کُفر کا فتویٰ لگانے والے لوگ سچے ہیں ؟یا اُس باندی کو اِیمان والی قرار دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن پر میرے باپ قُربان ہوں سچے ہیں ؟؟؟؟؟
اس حدیث شریف کو عموماً " حدیث الجاریہ " کہا جاتا ہے


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

( 2 )
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِى فَأَغْفِرَ لَهُ



جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو(اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو (اِس وقت)مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُسکا سوال پورا کروں ، کون ہے جو (اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اُسکی مغفرت کروں)

صحیح البُخاری/ابواب التہجد
/باب14، صحیح مُسلم/حدیث 758 ،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا / باب24 (



قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کو بھی غور سے پڑہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟؟؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آئیے دیکھتے ہیں کہ عرش کہاں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عرش یہیں کہیں ہو اور اللہ بھی ؟؟؟

( 1 )

أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَصَامَ رَمَضَانَ ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ جَاهَدَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوْ جَلَسَ فِى أَرْضِهِ الَّتِى وُلِدَ فِيهَا


جو اللہ اور اُسکے رسول پر اِیمان لایا اور نماز ادا کرتا رہا اور رمضان کے روزے رکھتا رہا ، تو اللہ پر (اُس کا )یہ حق ہے کہ اللہ اُسے جنّت میں داخل کرے خواہ اُس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی بستی میں ہی زندگی گُذاری ہو

صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ فِى الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ ، أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ


اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنّت میں ایک سو درجات بنا رکھے ہیں ، ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے ، لہذا جب تُم اللہ سے سوال کرو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے بُلند مُقام ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے اُ وپر رحمان کا عرش ہے جِس میں سے جنّت کے دریا پھوٹتے ہیں

(صحیح البُخاری /حدیث 2790/کتاب الجھاد و السیر/باب 4، حدیث1 )

امام بخاری نے اس حدیث کی روایت کے بعد تعلیقاً لکھا کہ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ﴿وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ :::اور اُس سے اُوپر رحمٰن کا عرش ہے﴾ یعنی اوپر ذکر کردہ روایت میں راوی کی طرف سے اس جملے کے بارے میں جو لفظ """ أُرَاهُ """ کے ذریعے شک کا اظہار ہوا ہے وہ اس دوسری سند کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ و للہ الحمد و المنۃ،
اس حدیث مبارک کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا عرش جس سے اوپر اللہ تعالیٰ خود مستوی ہے ، وہ عرش فردوس الاعلی سے بھی اُوپر ہے ، یہیں کہیں نہیں ،لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ہر جگہ موجود یا قائم نہیں ۔

( 2 )

جریر رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

مَن لا یَرحَمُ مَن فِی الأَرضِ لا یَرحَمُہُ مَن فِی السَّمَاء
ِ


جو اُن پر رحم نہیں کرتا جو زمین پر ہیں اُس پر وہ رحم نہیں کرتا جو آسمان پرہے

لمعجم الکبیر للطبرانی/حدیث2497،الترغیب والترھیب/حدیث 3411، اِمام المنذری رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ(اِمام) طبرانی(رحمہ ُ اللہ) نے یہ حدیث بہت اچھی اور مضبوط سند سے روایت کی ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور اس حدیث شریف کو "صحیح لغیرہ" قرار دیا ، صحیح الترغیب و الترھیب ، حدیث2255 )






(3 )

سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا


تمہارا رب تبارک و تعالیٰ بہت حیاء کرنے والا اور بزرگی والا ہے ، جب اُس کا کوئی بندہ اُس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو اللہ اِس بات سے حیاء کرتا ہے کہ وہ اُس بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے

) سُنن أبو داؤد /حدیث 1485 ، سُنن الترمذی /حدیث3556 /کتاب الدعوات ، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)



اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے تو آگے پیچھے دائیں بائیں کسی بھی طرف ہاتھ پھیلا کر دُعا کرلی جانی چاہیے، آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف ہاتھ کیوں اٹھائے جاتے ہیں ؟
کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے والے لوگ بھی جب دُعا مانگتے ہیں تو ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور دورانء دُعا نظریں اُٹھا اُٹھا کر بھی آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف دیکھتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ ہم جس اللہ سے دُعا مانگ رہے ہیں وہ اُوپر ہی ہے ۔

( 4 )

عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

أِتَقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا تَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ کأنَّہا شِّرار


مظلوم کی بد دُعا سے ڈرو کیونکہ وہ چنگاری کی طرح آسمان کی طرف چڑہتی ہے

) المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم ، معروف ب المستدرک الحاکم/حدیث 81 ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث اِمام مُسلم کی شرئط کے مُطابق صحیح ہے ، اور امام الالبانی نے بھی صحیح قرار دیا ،السلسلہ الصحیحہ /حدیث(871


مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑہتی ہے، کیوں اُس طرف چڑھتی ہے ؟؟؟ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود و قائم ہے تو پھر دُعا کو کسی بھی طرف چل پڑنا چاہیے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عطاء کردہ اس خبر کے مطابق تو مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، کیونکہ وہاں تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا اُن کا اکیلا خالق اللہ ہوتا ہے ، جس نے دُعائیں قبول و رد کرنا ہوتی ہیں ،
اس حدیث پاک میں ہمیں مظلوم کی طرف سے کی جانے والی بد دُعا سے بچنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ، یعنی ظلم کرنے سے باز رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ جب ہم کسی پر ظلم نہیں کریں گے تو کوئی بحیثیت مظلوم ہمارے لیے بد دُعا نہیں کرے گا مظلوم کی بد دُعا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ

اتَّقِ دَعوَۃَ المَظلُومِ فَإِنَّہَا لَیس بَینَہَا وَ بَینَ اللَّہِ حِجَابٌ


مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا

)صحیح البُخاری /حدیث 2316/ کتاب المظالم/باب10 ،صحیح مُسلم /حدیث 19/کتاب الایمان/ باب 7 )

ظلم ، مظلوم یا اس کی بد دُعا میری اس کتاب کا موضوع نہیں ، پس اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ اس حدیث مبارک سے بھی یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ مظلوم کی بد دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں لہذا وہ بددُعا آسمانوں کی طرف اسی لیے چڑھتی ہے کہ وہاں آسمانوں سے بُلند ، اپنے عرش سے اُوپر استویٰ فرمائے ہوئے، عرش سمیت اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا، اللہ کے پاس پہنچے ۔

( 5 )

النواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے اور یاجوج ماجوج کے نکلنے اور قتل و غارتگری کرنے کی خبروں پر مشتمل ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِى الأَرْضِ هَلُمَّفَلْنَقْتُلْ مَنْ فِى السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا

پھر یأجوج مأجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑکے پاس جا پہنچیں گے ، اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے(جب وہاں پہنچیں گے) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا

صحیح مُسلم / حدیث 2937 /کتاب الفتن و أشراط الساعۃ /باب 20، سُنن النسائی /حدیث 2240/ کتاب الفتن /باب 59 )

( 6 )

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا خطبہء حج بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّى فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ

اور تُم لوگوں کو میرے بارے میں پوچھا جائے گاتوتُم لوگ کیا کہو گے
سب نے جواب دِیا

نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ

ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے(اللہ کے پیغامات کی)تبلیغ فرما دی ، اور (رسالت و نبوت کا)حق ادا کر دیا اور نصیحت فرما دی

فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
اپنی شہادت والی اُنگلی سے لوگوں کی طرف اِشارہ فرماتے پھر اُسے آسمان کی طرف اُٹھاتے اور اِرشادفرمایا ،اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ :::اے اللہ گواہ رہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ کیا اور فرمایا

)
صحیح مُسلم /حدیث1218 /کتاب الحج / باب 19 ،حجۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن فرامین میں صاف صاف واضح طور پر یہ تعلیم دے گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش سے اُوپر ہے اور اپنی تمام مخلوق کے تمام أحوال جانتا ہے ،
اُمید تو نہیں کہ کوئی صاحبِ اِیمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ فرامین پڑھنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھتا رہے ، اور اللہ کو اُوپر کہنے کو کفر کہے ۔








 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اسلام علیکم !

بے شک اللہ رب العزت کی ذات ، انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، اور اللہ تعالی کو قریب ہونے کے لیے جگہ کی حاجت نہیں ہے ،

لہذا اللہ رب العزت کی ذات ، کسی جگہ میں ہونے کے بغیر ہی ،انسان کی شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہے ، کیو نکہ اللہ تعالی الصمد ہے ، یعنی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

جگہ ،اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اور تمام مخلوق ، اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ۔ دیکھیے سورہ النسآء#١٢٦

لہذا جگہ ،اللہ تعالی کے گھیرے میں ہے ، اللہ تعالی ،جگہ کے گھیرے میں نہیں ہے ۔






اِمام نعمان بن ثابت أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ ، تاریخ وفات 150 ہجری

أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
تو
اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے




حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔





اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری

اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
(یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا


اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)






لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،




قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔

 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

ذیل میں موجود دار العلوم دیوبند انڈیا کا ایک فتویٰ موجود ہے، اس فتوے کو ﴿ Answer: Darul Ifta Deoband India ﴾ اس لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے
1- ہر جگہ ہونے
2- ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ موجود ہے
3- اللہ تعالیٰ ہرچیز میں موجود ہے۔ یہ تمام امور قرآنی آیات سے ثابت ہیں۔
کا اقرار ہے۔(نعوذباللہ من ذلک)
بھائی! میرا تبصرہ (أعوذ بالله من هذه الهفوات) آپ پر نہیں بلکہ اس لنک پر تھا جس میں اللہ کے ہر جگہ موجود ہونے کے عجیب وغریب دلائل پیش کیے تھے اور نصوص کی قطع وبرید کی گئی تھی۔
 
Top