• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالی نے ہمارے پیارے نبی کی نماز جنازہ پڑھی؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس پوسٹ (۶) میں علامہ ابن قیم ؒ کی کتاب ’‘ اجتماع الجیوش الاسلامیہ ’‘ کا سکین لگایا گیا ہے ۔لیکن پوسٹ والے بھائی کو چونکہ عربی نہیں آتی تھی ۔اس نے کہیں سے کاپی کر کے یہاں سکین تو چپکا دیا ،لیکن ترجمہ نہ پیش کر سکے ۔
ہم محولہ کتاب یعنی ’‘ اجتماع الجیوش ’‘کا سکین از سر نو لگا کر ترجمہ بھی بتاتے ہیں ۔اور اس عبارت کا صحیح مفہوم بھی سامنے لاتے ہیں ۔

من يصلي جيوش.jpg


علامہ ابن قیم ؒ یہاں وفات النبی ﷺ کا قصہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے بتاتے ہیں ؛
کہ امام اعظم ﷺ نے جناب علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : جب مجھے موت آجائے ،تو اے علی تم اور عبد اللہ بن عباس مجھے غسل دینا ،تمہارے ساتھ تیسرے جناب جبریل ہونگے ۔۔اور مجھے تین سفید کپڑوں میں کفنانا ۔پھر مجھے مسجد لے جانا ۔۔اور سب سے پہلے میرا
رب عرش سےمجھ پر درود بھیجے گا ۔۔۔۔۔۔
اس کی تخریج اسی صفحہ کے حاشیہ پر موجود ہے کہ علامہ ذہبی ؒ نے ’‘ العلو ’‘ میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ یہ موضوع (یعنی جھوٹی )
روایت ہے۔۔

اور اس سکین کو چپکانے والے بھائی کا مطلب شاید یہ تھا کہ ابن قیم ؒ نے بھی اللہ کا پیارے نبی ﷺ کےلئے جنازہ پڑھنا لکھا ہے ۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا سمجھنا سرے سے غلط ہے ،کیونکہ یہاں لفظ ہے ۔۔یصلی علی الرب عزوجل من فوق عرشہ ۔۔

اور یہ وہی کلمہ اور جملہ ہے جو خود قرآن مجید بیان ہوا ۔۔( إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ )
اور اگرکوئی علامہ کہے کہ یہاں محل جنازہ میں یہ الفاظ ہیں اس صرف درود مراد نہیں ۔۔تو آیت کریمہ کو غور سے دیکھو ،آیت میں
اللہ تعالی ،ملائکہ ،اور انسانوں ،کےلئے ایک ہی لفظ ( یصلون ‘صلوا ) وارد ہے ،لیکن اہل ایمان جانتے ہیں ،اس ایک لفظ کا۔۔ تینوں ۔کی
نسبت مطلب و مفہوم مختلف ہے اور سب ہی مانتے ہیں ۔یعنی اللہ کا درود اللہم صلی علی ۔۔کی صورت نہیں ہے ۔بلکہ اللہ کا درود
رحمتوں کی بارش ۔یا۔ملاء اعلی میں آپ ﷺ کی ثناء ۔یا ۔ہر لحظہ ان کے درجات کی بلندی وغیرہا

’’ أما " الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم " فمعناها - عند جمهور العلماء - : من الله تعالى : الرحمة ، ومن الملائكة : الاستغفار ، ومن الآدميين : الدعاء ، وذهب آخرون – ومنهم أبو العالية من المتقدمين ، وابن القيم من المتأخرين ، وابن عثيمين من المعاصرين – إلى أن معنى " الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم " هو الثناء عليه في الملأ الأعلى ، ويكون دعاء الملائكة ودعاء المسلمين بالصلاة عليه صلى الله عليه ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اورمولوی طارق جمیل جو نامراد ذاکروں کی طرح داستان گوئی کر رہا ہے
وہ سرے سے جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے کیونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا حوالہ اس نے دیا پہلی بات تو یہ کہ وہ بالکل جھوٹی ،موضوع روایت ہے ،اور دوسری بات یہ کہ اس میں طارق جمیل تبلیغی نے کئی اضافے ٹھونس دئے ۔
پہلے آپ اس روایت کا سکین ملاحظہ کریں ،پھر ترجمہ پڑھ لیں
یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے :
من يصلي عليك مستدرك 44.jpg


ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،جب (آخری مرض )میں نبی کریم ﷺ کی تکلیف میں شدت ہوئی ، تو ہم
نے عرض کی ،آپ پر کون نماز (جنازہ) پڑھائے گا ؟
فرمایا : اے پیارے صحابہ ! اللہ تمہیں اپنی مغفرت کے سائے میں رکھے،اور اجر عظیم سے نوازے ،، جب تم مجھے غسل دے کرکفن وغیرہ پہنالو ،تو مجھے میری قبر رکھ کر ،کچھ دیر کےلئے تم سب باہر چلے جانا ۔کیونکہ سب سے پہلے مجھ پر میرا دوست اور ہم نشین جبریل علیہ السلام
اورمیکائیل جنازہ پڑیں گے ،ازاں بعد اسرافیل ،اور پھرملک الموت دیگر فرشتوں کے ساتھ پڑھیں گے ۔
اور ان کے کے مجھ پر پہلے اہل بیت کےمرد حضرات اور پھر انکی خواتین جنازہ پڑھیں ۔۔اورپھرتم اکٹھے اور فرداً فرداً آنا۔
اور یاد رکھو مجھے رونے کی آواز اور چلا کر تکلیف مت دینا۔۔اور میرا جو صحابی موجود نہ ہو اسے میرا سلام دینا ۔۔۔۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس سند میں عبد الملک بن عبد الرحمن مجہول ہے ۔۔
اور نیچے تخریج میں علامہ ذہبیؒ کا کہنا ہے ۔کہ کذاب راوی ہے ۔اور روایت موضوع ہے ۔اور حاکم کو یہ روایت درج کرتے ہوئے شرم آنی چاہئیے تھی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ٹھیک ہے! عزت و تعظیم میں ان کی ہر بات نہ مانیے، لیکن کیا آپ ان کی بھی ایسی ہی تردید کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جیسے طارق جمیل کی کی ہے؟؟؟ کیا ان کو بھی جھوٹا اور لعنتی کہنے کی ہمت ہے؟؟؟ کیا ان کے اوپر بھی ویڈیو بنا کر شائع کرنے کی ہمت ہے؟؟؟
السلام و علیکم و رحمت الله -

پہلی بات تو یہ ہے کہ صاحب مضمون نے مولانا طارق جمیل کی کذب بیانی بیان کی ہے ان پر بقائده لعنت ملامت نہیں کی -

دوسری بات یہ ہے کہ علامہ ابن قیم رح ، محمّد بن عبدالوہاب رح ، ابن تیمیہ رح ، اپنے اپنے دور کے متعبر مجتہدین میں سے تھے - ان لوگوں کی امّت محمدیہ تک عقائد و دینی معملات پہنچانے کے معاملے میں گراں قدر خدمات ہیں - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ایک انسان ہونے کے ناتے ان سے بھی غلطیاں سر زد ہونا محال نہیں تھا - ان کی وہ تعبیریں جو قرانی نصوص سے صحیح ثابت نہیں ہوتی ان کی میں نے یہاں خود تردید کی ہے - لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تنقید کرتے ہوے ہم مولانا طارق جمیل اوران عظیم مجتہدین کو ایک ہی پلڑے میں تولنا شروع کردیں- مولانا طارق جمیل ایک بدعتی جماعت کے عام سے ذاکر ہیں- ان کی حیثیت اہل تشیع کے ذاکروں کی طرح کی ہے - بلکہ شاید اہل تشیع کے ذاکر ان سے کچھ زیادہ ہی علم رکھتے ہوں- مولانا قرآن و احدیث کے علم سے بے بہرہ ہیں نہ ہی ان کی قرآن و احدیث کے معاملے میں کوئی دقیق تحقیق ثابت ہے- وہ صرف اپنے معتقدین سے 'واہ واہ' کے شائق لگتے ہیں- پھر یہ کہ آج کے لوگوں پر شخصیت پرستی بہت زیادہ غالب ہے- لوگ اندھے بہروں کی طرح اپنے پسندیدہ عالم کی پیروی کرتے ہیں - جب کے پھچلے ادوار میں ایسا نہیں ہوتا تھا - اگر کوئی معتبر مجتہد غلطی کرتا تھا تو صاحب علم اس کو وہیں روک دیتا تھا- اس بنا پر آج کل کے علماء اگر کوئی گمراہ کن عقیدہ بیان کرتے ہیں تو ان پر تنقید کا معیار قرون اولیٰ کے مجتہدین پر تنقید سے مختلف ہونا ضروری ہے - البتہ آج کل کے کسی عالم و ذاکر کے بارے میں بھی غلیظ زبان استمعال کرنا یا لعنت ملامت کرنا اہل سنّت کے نزدیک بھی کوئی اچھا طرز عمل نہیں- ہاں تنقید کی سختی میں فرق ضرور ہونا چاہیے -(واللہ اعلم)-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ پر گامزن کرے (آمین)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مولانا طارق جمیل صاحب کی یہ بات ایک بار پھر منظر عام پر آئی ہے ، غالبا جنید جمشید کے جنازے پر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے بیان ہے ۔
لنک
البتہ اب کی بار ، ذرا فرق ہے :
پہلے کہا تھا : اللہ تعالی نماز جنازہ پڑھائیں گے ۔
اب کی بار : اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائیں گے ۔
مولانا کا یہ تصرف بتارہا ہے کہ وہ اپنے پہلے بیان پر ہونے والی تنقید سے بچنا چاہتے ہیں ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پہلا بیان تو ایک ضعیف اور موضوع حدیث کی بنا پر تھا ، لیکن اب کی بار کا یہ بیان کس بنیاد پر ہے ؟ کیا مولانا صاحب نے یہ بات اپنی طرف سے ہی گھڑ لی ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ اللہ تعالی نے پڑھا ، اس موضوع و من گھڑت روایت کی حقیقت اوپر بھی گزر چکی ، از راہ فائدہ مزید کچھ حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں :
ابن ملقن البدر المنیر میں فرماتے ہیں :
لكنه ضَعِيف، ثمَّ عبد الْمُنعم مَتْرُوك، قَالَ أَحْمد: يكذب عَلَى وهب وَعَلَى غَيره، مَتْرُوك. ووالده ضعفه ابْن عدي قَالَ ابْن دحْيَة فِي «تنويره» : حَكَى الْبَزَّار والطبري أَنه عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ: «أول (من) يُصَلِّي (عَلّي) رب الْعِزَّة ... » فِي حَدِيث طَوِيل، كرهت أَن أذكرهُ؛ لِأَن الْبَزَّار قَالَ فِي «علله» : إِنَّه مَوْضُوع.(البدر المنير (5/ 276)
یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں عبد المنعم متروک راوی ہے ، امام احمد فرماتے ہیں : یہ وہب وغیرہ پر جھوٹ بولتا تھا ، متروک ہے ، اس کے والد کو ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے ، ابن دحیہ نے یہ روایت بزار اور طبری کے حوالے سے ذکر کی ہے ، لیکن میں اس طویل حدیث کو اس لیے نقل کرنا ناپسند کرتا ہوں ، کیونکہ بزار نے خود ہی اس کو ’ من گھڑت ‘ قرار دیا ہوا ہے ۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں :
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَهُوَ كَذَّابٌ وَضَّاعٌ.(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9/ 31)
اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ، اس میں عبد المنعم بن ادریس راوی ، جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا ہے ۔
غزالی کی احیاء علوم الدین کی تخریج میں اس حدیث کی تحقیق یوں درج ہے :
قال العراقي: رواه ابن سعد في الطبقات عن محمد بن عمر هو الواقدي بإسناد ضعيف إلى ابن عون عن ابن مسعود وهو مرسل ضعيف كما تقدم أهـ.رواه الطبراني في الدعاء والواحدي في التفسير بسند واه جدا (تخريج أحاديث إحياء علوم الدين (6/ 2540)
اس کو ابن سعدی نے طبقات میں واقدی سے بسند ضعیف ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح طبرانی نے کتاب الدعاء اور واحدی نے تفسیر میں اس کو بالکل فضول سند سے ذکر کیا ہے ۔
اسی روایت کو ابن قدامہ نے (إثبات صفة العلو،ص: 102) میں ذکر کیا ہے ۔ جس پر محقق نے درج ذیل حاشیہ لگایا ہے :
هذا جزء من حديث مطول رواه أبو نعيم في الحلية 4/77، 78، وأورده الذهبي في العلو من طريق المصنف، وقال: هذا الحديث موضوع. وأراه من افتراءات عبد المنعم، وإنما رويته لهتك حاله. العلو ص 43.
قلت: عبد المنعم بن إدريس بن سنان بن كليب، أورده العقيلي في الضعفاء 3/112. وقال: ذاهب الحديث. وذكره ابن حبان في المجروحين (2/157) ، وقال: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره. وأورد هذا الحديث أيضا -بطوله- ابن الجوزي في الموضوعات، باب ذكر وفاته صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. 1/295-301.
وقال: هذا حديث موضوع محال، كافأ الله من وضعه، وقبح من يشين الشريعة بمثل هذا التخليط البارد، والكلام الذي لا يليق برسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا بالصحابة، والمتهم به عبد المنعم بن إدريس، قال أحمد بن حنبل: كان يكذب على وهب، وقال يحيى: خبيث كذاب. وقال ابن المديني، وأبو داود: ليس بثقة، وقال ابن حبان: لا يحل الاحتجاج به، وقال الدارقطني: هو وأبوه متروكان. انظر: الموضوعات 1/301.
أقول: أما أبوه فهو إدريس بن سنان بن بنت وهب بن منبه، قال الدارقطني: متروك، وضعفه ابن عدي، وقال ابن معين: يكتب من حديثه الرقاق، وعده ابن حبان في الثقات، وقال: يتقى حديثه من رواية ابنه عبد المنعم عنه. انظر: الضعفاء والمتروكين /158، وميزان الاعتدال 1/169، وتهذيب التهذيب 1/194.

اس روایت کو ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان کیا ہے ، ذہبی نے بھی اس کو ذکر کرنے کے بعد کہا ، یہ من گھڑت ہے ، ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ اس کی حالت زار واضح ہوجائے ۔
ابن الجوزی اس روایت کو ذکر کرنے کےبعد تبصرہ کرتے ہیں :
یہ روایت من گھڑت و محال ہے ، جس نے اسے گھڑا ہے ، اللہ تعالی اس کو سزا دے ، اور ان تمام لوگوں کا ستیاناس کرے ، جو شریعت کے حسن کو بگاڑتے ہیں ، اور اس طرح کے چربے اور ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کے شایان شان نہیں ، اس کو گھڑنے والے عبد المنعم بن ادریس کے متعلق یحی بن معین کہتے ہیں : جھوٹا خبیث ، ابن المدینی و ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ثقہ نہیں ، ابن حبان کہتے ہیں : اس پر اعتماد کرنا جائز نہیں ، دارقطنی کہتے ہیں : یہ اور اس کا باپ دونوں ہی متروک ہیں ۔ ادریس کو ابن عدی وغیرہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے ، البتہ ابن حبان وغیرہ کے نزدیک ادریس ٹھیک ہے ، لیکن اس کے بیٹے کی اس سے بیان کردہ روایت سے پرہیز کیا جائے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً
آج ایک بھائی نے یہی سوال کیا ، جس کیلئے اس تھریڈ کا حوالہ دیا ہے ،
 
Top