اورمولوی طارق جمیل جو نامراد ذاکروں کی طرح داستان گوئی کر رہا ہے
وہ سرے سے جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے کیونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا حوالہ اس نے دیا پہلی بات تو یہ کہ وہ بالکل جھوٹی ،موضوع روایت ہے ،اور دوسری بات یہ کہ اس میں طارق جمیل تبلیغی نے کئی اضافے ٹھونس دئے ۔
پہلے آپ اس روایت کا سکین ملاحظہ کریں ،پھر ترجمہ پڑھ لیں
یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے :
ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،جب (آخری مرض )میں نبی کریم ﷺ کی تکلیف میں شدت ہوئی ، تو ہم
نے عرض کی ،آپ پر کون نماز (جنازہ) پڑھائے گا ؟
فرمایا : اے پیارے صحابہ ! اللہ تمہیں اپنی مغفرت کے سائے میں رکھے،اور اجر عظیم سے نوازے ،، جب تم مجھے غسل دے کرکفن وغیرہ پہنالو ،تو مجھے میری قبر رکھ کر ،کچھ دیر کےلئے تم سب باہر چلے جانا ۔کیونکہ سب سے پہلے مجھ پر میرا دوست اور ہم نشین جبریل علیہ السلام
اورمیکائیل جنازہ پڑیں گے ،ازاں بعد اسرافیل ،اور پھرملک الموت دیگر فرشتوں کے ساتھ پڑھیں گے ۔
اور ان کے کے مجھ پر پہلے اہل بیت کےمرد حضرات اور پھر انکی خواتین جنازہ پڑھیں ۔۔اورپھرتم اکٹھے اور فرداً فرداً آنا۔
اور یاد رکھو مجھے رونے کی آواز اور چلا کر تکلیف مت دینا۔۔اور میرا جو صحابی موجود نہ ہو اسے میرا سلام دینا ۔۔۔۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس سند میں عبد الملک بن عبد الرحمن مجہول ہے ۔۔
اور نیچے تخریج میں علامہ ذہبیؒ کا کہنا ہے ۔کہ کذاب راوی ہے ۔اور روایت موضوع ہے ۔اور حاکم کو یہ روایت درج کرتے ہوئے شرم آنی چاہئیے تھی ۔