• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کے نبی نے کبھی اذان دی تھی

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
نبی صلہ اللہ وسلم سفر پہ تهے نماز کا وقت قریب ،بارش برسی تو زمین گیلی (گارہ) بن گی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر بیٹهے ہی اذان دی پهر اقامت کہی..(مسند احمد حدیث :17584 ،ترمذی :411)
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَمُطِرُوا، السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ، وَالبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، " فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَقَامَ، فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً: يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ "[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 266]۔

یہ حدیث ضعیف ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تین اسباب کی بناپر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں:
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة (13/ 966) رقم 6434 ۔


ایک طرف تو یہ حدیث ضعیف ہے دوسری طرف مسند احمد میں یہ حدیث اسی سند کے ساتھ ہے اور اس میں یہ بات نہیں ہے کہ اذان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی بلکہ اس میں یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ نے مؤذن سے اذان دلوائی تھی ، چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَيْمُونِ بْنِ الرَّمَّاحِ ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم انْتَهَى إِلَى مَضِيقٍ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَالسَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبَلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَذَّنَ وَأَقَامَ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ ، أَوْ يَجْعَلُ سُجُودَهُ اخْفَضَ مِنْ رُكُوعِهِ[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 173]

یہ حدیث سند ومتن کے ساتھ ترمذی والی ہی ہے اور ضعیف ہے لیکن اس میں یہ صراحت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے دوسرے سے اذان دلوائی تھی اس سے پتہ چلا کہ ترمذی میں اذان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اذان کو اس لئے منسوب کیا گیا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اذان کا حکم دیا تھا۔
اور ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے حکم سے کوئی کام ہو تو وہ کام حکم دینے والے کی طرف بھی منسوب کردیا جاتا ہے مثلا کسی خلیفہ نے کسی شخص کو انعام دلوائے تو کہا جاتاہے کہ خلیفہ نے اسے انعام دیا حالانکہ انعام دینے کا کام خلیفہ نہیں کرتا بلکہ کوئی اور کرتاہے لیکن چونکہ یہ کام خلیفہ کے حکم سے ہوتا ہے اس لئے اسے خلیفہ کی طرف بھی منسوب کردیا جاتا ہے۔
اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمِمَّا كَثُرَ السُّؤَالُ عَنْهُ هَلْ بَاشَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ بِنَفْسِهِ وَقَدْ وَقَعَ عِنْدَ السُّهَيْلِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ فِي سَفَرٍ وَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ وَهُمْ عَلَى رَوَاحِلِهِمُ السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلِهِمْ أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقٍ تَدُورُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الرَّمَّاحِ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ اه وَلَيْسَ هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ وَكَذَا جَزَمَ النَّوَوِيُّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ مَرَّةً فِي السَّفَرِ وَعَزَاهُ لِلتِّرْمِذِيِّ وَقَوَّاهُ وَلَكِنْ وَجَدْنَاهُ فِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ مِنَ الْوَجْهِ الَّذِي أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَلَفْظُهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ فَعَرَفَ أَنَّ فِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ اخْتِصَارًا وَأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ أَذَّنَ أَمَرَ بِلَالًا بِهِ كَمَا يُقَالُ أَعْطَى الْخَلِيفَةُ الْعَالِمَ الْفُلَانِيَّ أَلْفًا وَإِنَّمَا بَاشَرَ الْعَطَاءَ غَيْرُهُ وَنُسِبَ لِلْخَلِيفَةِ لِكَوْنِهِ آمِرًا بِهِ[فتح الباري لابن حجر: 2/ 79]


خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔
اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اس بات کا ثبوت بھی نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اذان دی تھی۔


حدیث نمبر 2
جب حسن بن علی کی ولادت ہوی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی...( ترمذی :1519)
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ»: [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 97]۔

یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَمُطِرُوا، السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ، وَالبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، " فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَقَامَ، فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً: يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ "[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 266]۔

یہ حدیث ضعیف ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تین اسباب کی بناپر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں:
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة (13/ 966) رقم 6434 ۔


ایک طرف تو یہ حدیث ضعیف ہے دوسری طرف مسند احمد میں یہ حدیث اسی سند کے ساتھ ہے اور اس میں یہ بات نہیں ہے کہ اذان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی بلکہ اس میں یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ نے مؤذن سے اذان دلوائی تھی ، چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَيْمُونِ بْنِ الرَّمَّاحِ ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم انْتَهَى إِلَى مَضِيقٍ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَالسَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبَلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَذَّنَ وَأَقَامَ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ ، أَوْ يَجْعَلُ سُجُودَهُ اخْفَضَ مِنْ رُكُوعِهِ[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 173]

یہ حدیث سند ومتن کے ساتھ ترمذی والی ہی ہے اور ضعیف ہے لیکن اس میں یہ صراحت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے دوسرے سے اذان دلوائی تھی اس سے پتہ چلا کہ ترمذی میں اذان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اذان کو اس لئے منسوب کیا گیا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اذان کا حکم دیا تھا۔
اور ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے حکم سے کوئی کام ہو تو وہ کام حکم دینے والے کی طرف بھی منسوب کردیا جاتا ہے مثلا کسی خلیفہ نے کسی شخص کو انعام دلوائے تو کہا جاتاہے کہ خلیفہ نے اسے انعام دیا حالانکہ انعام دینے کا کام خلیفہ نہیں کرتا بلکہ کوئی اور کرتاہے لیکن چونکہ یہ کام خلیفہ کے حکم سے ہوتا ہے اس لئے اسے خلیفہ کی طرف بھی منسوب کردیا جاتا ہے۔
اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمِمَّا كَثُرَ السُّؤَالُ عَنْهُ هَلْ بَاشَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ بِنَفْسِهِ وَقَدْ وَقَعَ عِنْدَ السُّهَيْلِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ فِي سَفَرٍ وَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ وَهُمْ عَلَى رَوَاحِلِهِمُ السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلِهِمْ أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقٍ تَدُورُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الرَّمَّاحِ يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ اه وَلَيْسَ هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ وَكَذَا جَزَمَ النَّوَوِيُّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ مَرَّةً فِي السَّفَرِ وَعَزَاهُ لِلتِّرْمِذِيِّ وَقَوَّاهُ وَلَكِنْ وَجَدْنَاهُ فِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ مِنَ الْوَجْهِ الَّذِي أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَلَفْظُهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ فَعَرَفَ أَنَّ فِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ اخْتِصَارًا وَأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ أَذَّنَ أَمَرَ بِلَالًا بِهِ كَمَا يُقَالُ أَعْطَى الْخَلِيفَةُ الْعَالِمَ الْفُلَانِيَّ أَلْفًا وَإِنَّمَا بَاشَرَ الْعَطَاءَ غَيْرُهُ وَنُسِبَ لِلْخَلِيفَةِ لِكَوْنِهِ آمِرًا بِهِ[فتح الباري لابن حجر: 2/ 79]


خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔
اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اس بات کا ثبوت بھی نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اذان دی تھی۔




امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ»: [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 97]۔

یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔
جزاک الله خیر
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار بھی اذان دینا ثابت نہیں ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ اس بابت بھی کچھ کہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اذان کیوں نہیں دی؟
 
Top