وعلیکم السلام
ابوبکر محمد بن عباس خوارزمی ( م 382ھ) امام طبری کے رشتے میں بھانجے تھے ۔ یہ اپنے وقت کے بلند پایہ ادیب ، رافضی اور ہجوگو شاعر تھے۔ یاقوت بن عبداللہ حموی (م626ھ) نے طبرستان کے شہر "آمل" کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہےکہ "خرج منھا کثیر من العلماء یقال فی نسبتھم :الطبری اس شہر سے کثیر تعداد میں علماء پیدا ہوئے ان کی نسبت میں "الطبری " کہا جاتا ہے۔(معجم البلدان جلد1۔ ص57)
خوارزمی نے اپنے ماموں طبری کا مسلک درج ذیل شعروں میں بیان کیا ہے۔
بآمل مولدی وبنو جریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاخو الی ویحکی المرء خالہ
فھا انا رافضی عن تراث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیری رافضی عن کلالہ
(الکنی والالقاب جلد اول ص 22 مطبوعہ تہران ۔ بحوالہ میزان الکتب ص 305 مؤلفہ شیخ الحدیث مولانا محمد علی صاحب لاہور)
آمل شہر میرا مولد(جائے پیدائش )ہے اور جریر کے بیٹے میرے ماموں ہیں اور آدمی اپنے ماموں کے نقش قدم پر ہوتا ہے ، تو سن رکھ میں جدی پشتی رافضی ہوں ۔ اور میرے علاوہ شیعہ کہلانے والے کلالہ یعنی دور کے تعلق سے رافضی ہیں۔
ان اشعار میں گھر کے فردنے مسلک طبری بیان کیا ہے؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ دو ابن جریر کی بحث طبری سنی و شیعی کاسب سے پہلا ذکر علامہ ذہبی و عسقلانی رحمہمااللہ نے امام طبری کے تقریبا 400 سال بعد کتابوں میں کیا ہے۔
السلام و علیکم و رحمت الله !!
جن حضرات نے بغور
"تاریخ طبری" کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ علامہ ابن جریر طبری رحم الله ایک متعدل نظریات رکھنے والے موررخ تھے - اور غالب گمان یہی ہے کہ وہ سنی مسلک سے ہی تعلق رکھتے تھے -اگر ان کی کتاب
"تاریخ طبری" میں ایسی روایات موجود ہیں کہ جن میں صحابہ کرام کے مشجرات ذکر کیے گئے ہیں اور ان پر تنقید و تنقیص کی گئی ہے تو دوسری طرف اسی کتاب میں بکثرت ایسی روایات بھی قاری کو ملیں گی جن میں صحابہ کرام بشمول شیخین (ابو بکر و عمر) کے فضائل کا ذکر بھی بنفس نفیس موجود ہے- صرف یہی نہیں بلکہ واقعہ کربلا سے متعلق بھی بہت سی ایسی روایت ان کی تاریخ طبری میں موجود ملیں گی جو امیر یزید بن معاویہ رحم الله کے فضائل اور ان کی بے گناہی پر مبنی ہیں -آخر ایک رافضی مسلک و ذہن کا انسان کیسے اور کیوں اپنی اس تاریخ ساز کتاب میں ایسی روایات درج کرے گا - جو شیخین اور یزید بن معاویہ کے فضائل سے متعلق ہوں ؟؟ پھر طبری کی امانت داری دیکھیں کہ وہ صاف کہتے ہیں کہ "
اس (قاری) کو یہ بات جان لینی چاہے کہ ہماری طرف سے اس میں یہ بات نہیں لائی گئی ، بلکہ اس خبر کو نقل کرنے والوں میں سے بعض لوگوں سے اس کو نقل کیا گیا ہے ، ہم نے اس کو اسی طرح ادا کیا ہے جس طرح یہ بات ہم تک پہنچی ہے" - کیا رافضی ذہن رکھنے والے سے ایسی توقع کی جا سکتی ہے- کہ وہ سب کچھ صاف صاف بیان کردے جو اس تک پہنچا ہو؟؟
جہاں تک طبری کے بھانجے ابوبکر محمد بن عباس خوارزمی کی بات ہے کہ "
جریر کے بیٹے میرے ماموں ہیں اور آدمی اپنے ماموں کے نقش قدم پر ہوتا ہے ، تو سن رکھ میں جدی پشتی رافضی ہوں ۔ اور میرے علاوہ شیعہ کہلانے والے کلالہ یعنی دور کے تعلق سے رافضی ہیں" تو یہ کوئی مسلمہ اصول نہیں کہ ہر محقق یا موررخ اپنے ماموں کے مسلک پر ہوتا ہے - کیا جتنے بھی جلیل القدر محقق یا موررخ ماضی میں گزرے ہیں، کیا وہ اپنے ماموں کے مسلک پر تھے ؟؟ اس دور میں تو ویسے بھی زیادہ تر لوگ دین کے معاملے میں اپنا ذاتی روجھان رکھتے تھے - آجکل کی طرح نہیں تھے کہ جو شیعہ کے ہاں پیدا ہوا وہ شیعہ رافضی بن گیا اور اگر سنی گھرانے میں پیدا ہوا تو سنی نظریات کا حامل بن گیا- نیز ماضی کے اکثر محقق ایسے بھی تھے کہ جن کے سامنے جب حق واضح ہوا تو انہوں نے اپنے پہلے باطل نظریات کو خیر آباد کہہ دیا-(امام غزالی رحم الله اس کی ایک مثال ہیں جنہوں نے اپنی آخری عمر میں صوفیت کو خیر آباد کہا (وللہ اعلم)- ویسے یہ بھی عجیب ہے کہ بھانجا کٹر شیعہ ہے اور نام "
ابوبکر محمد بن عباس" ہے ؟؟
باقی رہی یہ بات کہ "
ابن جریر کی بحث طبری سنی و شیعی کا سب سے پہلا ذکر علامہ ذہبی و عسقلانی رحمہما اللہ نے امام طبری کے تقریبا 400 سال بعد کتابوں میں کیا ہے"۔ تو آپ بھول رہے ہیں کہ راویوں کی جرح و تعدیل میں ذہبی کو
"امام" کی حیثیت حاصل ہے اور انہوں نے طبری سے بھی کئی صدیاں پہلے کے راویوں پر اپنی شہرہ آفاق کتاب "میزان الاعتدال" میں تفصیلی تحقیق کی ہے- انسان ہونے کے ناتے غلطی کا احتمال بعض مقامات پر ان سے بھی ہوا -لیکن یہ کہنا کہ طبری کو امام ذہبی نے ٤٠٠ سال بعد سنی قرار دیا گیا، بظاھر غیر منطقی لگتا ہے- (واللہ اعلم)-