lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
کیا امام بخاری رحمہ اللہ اسماء و صفات میں تاویل کے قائل تھے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا ، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، قَالَ : ثُمَّ يَقْرَأُ هَؤُلاءِ الثَّلاثَ الآيَاتِ : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ سورة آل عمران آية 102 الآيَةَ ، يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ سورة النساء آية 1 الآيَةَ ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا سورة الأحزاب آية 70
اما بعد
ماتریدی حضرات کی تلبیس اور فریب کاریوں میں سے ایک فریب کاری یہ ہے کہ وہ اللہ کے اسماء و صفات کا انکار کرنے کے لئے ان کے اصل اور ظاہری معنی سے تاویل کرتے ہیں جو کہ حقیقت میں تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے۔ اور اس تحریف کے ذریعے وہ اللہ کے اسماء و صفات کا انکار کرتے ہیں۔
اہل سنت و الجماعت کا منھج یہ ہے کہ ہم اللہ کے اسماء و صفات پر ایسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے بیان ہوئی ہیں۔ نہ ہم اس میں اس میں تعطیل کرتے ہیں اور نہ تحریف کرتے ہیں۔ نہ ہم اس کی تشبیہ کے قائل ہیں اور نہ تمثیل و تکیف کے۔ اللہ کی یہ صفات و اسماء برحق ہیں جیسے اس شان کے لائق ہیں۔
اللہ کے اسماء و صفات میں تحریف کی راہ نکالنے کےلئے مقلدین جھمیہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں تلبیس کاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اسماء و صفات میں تاویل کے قائل تھے۔ حالانکہ یہ بات کالا جھوٹ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اسماء و صفات کے اثبات کے قائل تھے اور ان پر ایمان رکھتے تھے بلا تحریف و بلاتعطیل، بلاتمثیل و بلاتکیف۔
مقلدین جھمیہ کی سب سے مشہور دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کی سورۃ القصص کی آیت کی تاویل کی ہے اور دھوکہ دیتے ہوئے یہ باب نقل کرتے ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں قائم کیا۔
صحیح بخاری کتاب التفسیر باب: سورۃ القص کی تفسیر
{ كل شىء هالك إلا وجهه} إلا ملكه، ويقال إلا ما أريد به وجه الله. وقال مجاهد { الأنباء} الحجج.
یعنی "ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ سوائے اس کے چہرےکے۔۔بجز اس کی سلطنت کے۔۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) مجاہد نے کہا کہ "الانباء " سے دلیلیں مراد ہیں۔
یہاں پر یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ دھوکہ امام بخاری نے قرآن کی آیت میں اللہ کی صفت چہرہ کی تاویل اس کی ملکیت سے کی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ماتریدی حضرات کا کیونکہ
اول: إلا ملكه کے الفاظ امام بخاری کے اپنے نہیں بلکہ معمر بن المثنی کے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں اس باب کے نیچے نقل کرتے ہیں۔
قَوْلُهُ إِلَّا وَجْهَهُ إِلَّا مُلْكَهُ فِي رِوَايَةِ النَّسَفِيِّ وَقَالَ مَعْمَرٌ فَذَكَرَهُ وَمَعْمَرٌ هَذَا هُوَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْمُثَنَّى وَهَذَا كَلَامُهُ فِي كِتَابِهِ مَجَازُ الْقُرْآنِ لَكِنْ بِلَفْظِ إِلَّا هُوَ
(فتح الباری۔ ج 8۔ ص 505)۔۔
اس کا قول: سوائے اس کے چہرےکے ۔۔ بجز اس کی سلطنت کے ۔۔ نسفی (صحیح بخاری کا ایک راوی) کی روایت میں ہے۔۔۔ اور معمر نے کہا اور اس کا ذکر کیا (یعنی إِلَّا وَجْهَهُ إِلَّا مُلْكَهُ) اور معمر سے مراد ابو عبیدہ بن المثنی ہے اور یہ کلام اس کی کتاب مجاز القرآن میں ہے لیکن اس لفظ کے ساتھ ۔۔ إِلَّا هُوَ۔۔
تنبیہ:
صحیح بخاری بہت سے راویوں سے مروی ہے جن میں ایک راوی إبراهيم بن معقل ابن الحجاج أبو إسحاق النسفي رحمہ اللہ بھی ہیں۔ لہذا اوپر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی مرادیہ ہے کہ امام نسفی سے جو صحیح بخاری نقل کی گئی ہے اس میں اس باب میں یہ اضافہ ہے ۔۔
اس پوری بات سے ثابت ہوا کہ نسفی کی روایت کردہ امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں یہ باب اس طرح تھا
{ كل شىء هالك إلا وجهه} وَقَالَ مَعْمَرٌ إلا ملكه
یعنی یہ الفاظ إلا ملكه امام بخاری رحمہ اللہ کے نہیں بلکہ معمر بن المثنی رحمہ اللہ کے ہیں اور یہ الفاظ امام بخاری کے اس باب میں عام نسخوں سے چھوٹ گئے۔
اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تاویل نہیں کی بلکہ معمر کے الفاظ نقل کیے جو اصل میں تاویل نہیں ہے اس کی وضاحت ابھی بعد میں آئے گی۔
اس سے آگے جو الفاظ لکھے ہیں یعنی ويقال إلا ما أريد به یعنی بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کئے گئے ہوں۔ تو یہ بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ نہیں بلکہ امام ثوری اور امام مجاہد رحمہم اللہ کے الفاظ ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَالثَّوْرِيُّ فِي قَوْلِهِ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ أَيْ إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُهُ، وَحَكَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ كَالْمُقَرِّرِ لَهُ
(تفسیر ابن کثیر۔ ج 6۔ ص 235)۔
مجاہد اور ثوری نے اس آیت کے متعلق کہا۔۔۔
ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ سوائے اس کے چہرےکے ۔۔ اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) ۔۔ امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں اسے نقل کیا جیسے یہ ان کی اپنی رائے ہےاس آیت کی تفسیر کے بارے میں۔۔
اس سے ثابت ہوا کہ إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُهُ کے الفاظ بھی امام بخاری کے نہیں بلکہ امام ثوری اور مجاہد رحمہم اللہ کے ہیں۔ یہ بھی تاویل نہیں ہے تفصیل آگے آئے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اللہ کی صفت کی تاویل نہیں کی۔
دوم
یہ ثابت ہو جانے کے بعد امام بخاری نے اس کی تاویل نہیں کی۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اس آیت کے بارے میں موقف کیا ہے۔۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کا کتاب التفسیر میں باب تو باندھا لیکن اس کی تفسیر میں کوئی حدیث نقل نہیں کی۔۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں جھمیہ کا رد کرتے ہوئے دوبارہ باب قائم کیا اور اللہ کا چہرہ جیسے اس کی شان کے لائق ہے ثابت کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں۔۔
کتاب التوحید والرد علی الجہیمۃ
باب: سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد "اللہ کے منہ کے سوا تمام چیزیں مٹ جانے والی ہیں"۔
حدیث نمبر: 7406
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد، عن عمرو، عن جابر بن عبد الله، قال لما نزلت هذه الآية { قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم} قال النبي صلى الله عليه وسلم " أعوذ بوجهك ". فقال { أو من تحت أرجلكم} فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أعوذ بوجهك ". قال { أو يلبسكم شيعا} فقال النبي صلى الله عليه وسلم " هذا أيسر ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ' کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ' ان سے عمرو نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ "آپ کہہ دیجئیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب نازل کرے" تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "میں تیرے چہرے کی پناہ مانگتا ہوں۔" پھر آیت کے یہ الفاظ نازل ہوئے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ "وہ تمہارے اوپر سے تم پر عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب آ جائے۔" تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ دعا کی کہ میں تیرے منہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی جن کا ترجمہ یہ ہے "یا تمہیں فرقہ بندی میں مبتلا کر دے (کہ یہ بھی عذاب کی قسم ہے)" تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آسان ہے بہ نسبت اگلے عذابوں کے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اللہ کا چہرہ ثابت کیا جو اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اسماء و صفات میں تاویل کے قائل نہ تھے بلکہ اسماء و صفات کو ثابت کرتے تھے جیسے بیان ہوئی ہیں۔ امام بخاری کا اس حدیث کو ذکر کرکے جھمیہ کا رد کرنا اور اللہ کا چہرہ ثابت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسماء و صفات پر جیسے بیان ہوئی ہیں ویسے ہی ایمان رکھنا چاہیے بلاتاویل و تعطیل، بلا تمثیل و تکیف۔۔امام بخاری کا سلفی العقیدہ ہونا ان کی کتاب خلق افعاد العباد سے بھی ثابت ہوتا جس میں انہوں نے اسماء و صفات کو ثابت کر کے جھمیہ کا زبردست رد کیا ہواہے اس کتاب میں۔
سوئم۔۔
اوپر کی بحث سے ثابت ہو چکا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اسماء و صفات میں تاویل کے قائل نہ تھے ۔ اب ہم آتے ہیں معمر ، ثوری، اور مجاہدرحمہم اللہ کے اقوال اور تفاسیر کی طرف۔ معمر رحمہ اللہ ،ثوری رحمہ اللہ، اور مجاہد رحمہ اللہ کے اقوال کو تاویل بمعنی اصل معنی کے پھیرنا مراد نہیں لیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے قرآن کی آیت کی تشریح کرتے ہوئےاضافت کی ہے نہ کہ لفظ "وجه" کی تاویل کی ہے۔
اگر ہم اس آیت پر غور کریں تو آیت ہے كل شىء هالك إلا وجهه یعنی ہر چیز اللہ کے چہرے کے سواء ہلاک ہو جائے گی۔ معمر، ثوری، اور مجاہد رحمہم اللہ نے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی سلطنت اور انسانوں کے نیک اعمال بھی برباد نہیں ہو گے جیسے اللہ کا چہرہ اور ذات قائم رہے گی۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ لفظ "کل" سے یہ شبہ پیدا نہ ہو جائے کہ ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے اللہ کی ذات کے۔
اس میں انہوں نے لفظ وجهه کا انکار نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی معنی بیان کیا ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔
اللہ کی چہرہ اور ذات کے علاوہ انسانوں کے نیک اعمال اور اللہ کی سلطنت بھی برقرار رہے گی۔ لہذا کوئی بچہ بھی اس تفسیر سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ کلام اللہ کی مزید تشریح ہے نہ کہ لفظ وجهه کی تاویل۔
ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے اسی طرح کی آیات پر مفصل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جب لفظ "کل" آ جائے تو اس سے مراد ہمیشہ ہر چیز نہیں ہوتی۔
ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ جھمیہ کے شبھات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔
وَعُمُومُ كُلٍّ فِي كُلِّ مَوْضِعٍ بِحَسَبِهِ، وَيُعَرَفُ ذَلِكَ بِالْقَرَائِنِ. أَلَا تَرَى إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى: {تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ} [سورة الْأَحْقَافِ: 25]، وَمَسَاكِنُهُمْ شَيْءٌ، وَلَمْ تَدْخُلْ فِي عُمُومِ كُلِّ شَيْءٍ دَمَّرَتْهُ الرِّيحُ؟ وَذَلِكَ لِأَنَّ الْمُرَادَ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ يَقْبَلُ التَّدْمِيرَ بِالرِّيحِ عَادَةً وَمَا يَسْتَحِقُّ التَّدْمِيرَ. وَكَذَا قَوْلُهُ تَعَالَى حِكَايَةً عن بلقيس: {وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ} [سورة النَّمْلِ: 23]، الْمُرَادُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْمُلُوكُ، وَهَذَا الْقَيْدُ يُفْهَمُ مِنْ قَرَائِنِ الْكَلَامِ, إِذْ مُرَادُ الْهُدْهُدِ أَنَّهَا مَلِكَةٌ كَامِلَةٌ فِي أَمْرِ الْمُلْكِ، غَيْرُ مُحْتَاجَةٍ إِلَى مَا يَكْمُلُ بِهِ أَمْرُ مُلْكِهَا، وَلِهَذَا نَظَائِرُ كَثِيرَةٌ. وَالْمُرَادُ من قوله تعالى: {خَالِقُ كُلِّ شَيْء} [سورة الرَّعْدِ: 16]، أَيْ كُلِّ شَيْءٍ مَخْلُوقٍ، وَكُلُّ مَوْجُودٍ سِوَى اللَّهِ فَهُوَ مَخْلُوقٌ، فَدَخَلَ فِي هَذَا الْعُمُومِ أَفْعَالُ الْعِبَادِ حَتْمًا، وَلَمْ يَدْخُلْ فِي الْعُمُومِ الْخَالِقُ تَعَالَى، وَصِفَاتُهُ لَيْسَتْ غَيْرَهُ؛ لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى هُوَ الْمَوْصُوفُ بِصِفَاتِ الْكَمَالِ، وَصِفَاتُهُ مُلَازِمَةٌ لِذَاتِهِ الْمُقَدَّسَةِ، لَا يُتَصَوَّرُ انْفِصَالُ صِفَاتِهِ عَنْهُ، كَمَا تَقَدَّمَ الْإِشَارَةُ إِلَى هَذَا الْمَعْنَى عِنْدَ قَوْلِهِ: مَا زَالَ قَدِيمًا بِصِفَاتِهِ قَبْلَ خَلْقِهِ, بَلْ نَفْسُ مَا اسْتَدَلُّوا بِهِ يَدُلُّ عَلَيْهِمْ, فَإِذَا كَانَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ}، لَا يَصِحُّ أَنْ يَكُونَ دَلِيلًا.
کل استعمال کے لحاظ سے مختلف ہے قرآئن کے ساتھ اس کا تعین کیا جا سکتا ہے، ارشاد ربانی ہے۔۔
ہر چیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے تباہ کئے دیتی ہے تو وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ (سورۃ الاحقاف 25)۔
مساکن کا استثنا ہے حالانکہ مساکن بھی تو شئی میں داخل ہونے چاہیئں لیکن داخل نہیں اس لئے کہ آندھی نے ان چیزوں کو تباہ و برباد کیا جو عادۃ آندھی کے ساتھ تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔
نیز ارشاد ربانی ہے(بلقیس کی حکایت بیان کرتے ہوئے)۔۔
اور ہر چیز اسے میسر ہے۔ (النمل 23)۔
اس کل سے مراد ہر وہ چیز جس کے بادشاہ محتاج ہوتے ہیں قرائن سے یہی معنی سمجھ میں آتا ہے اس لئے ہد ہد کا مقصد یہ تھا کہ وہ کامل بادشاہ زادی ہے اس مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں۔۔
وہ ہر چیز کا خالق ہے (الرعد 16)۔
سے مراد اللہ کے سواء ہر چیز ہے تو اس عموم میں لازما بندوں کے افعال بھی داخل ہیں لیکن اس میں خالق داخل نہیں ہے چونکہ اس کے صفات اس کی ذات کا غیر نہیں ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے اور اس کے صفات اس کی ذات مقدس کے ساتھ لازم ہیں۔ صفات کا انفصال ذات سے متصور نہیں ہو سکتا جیسا کہ اس معنی کا ذکر اشارۃ پہلے آ چکا ہے ان کے خیال میں جب اللہ کا قول ہر چیز مخلوق ہے تو اس کا دلیل بننا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔۔۔
(شرح عقیدہ طحاویہ ص 173-174)۔