• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
اعتراض سے پتا چل رہا ہے کہ یہ محض بغض ہے۔ کیونکہ حدیث بلکل درست اور واضح ہے۔کاش کہ اتنی توانائی اور محنت حق سمجھنے کے لیے صرف کریں۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
اوپر جس کتاب کا سکین دیاگیا ہے صاحب کتاب نے تھوڑی سی خیانت کی ہے ۔باب کلام المیت نہیں بلکہ قول المیت ہے۔
کلام ہمشہ دوطرفہ ہوتاہے جبکہ قول یکطرفہ ہوتاہے۔
امام بخاری اس میں لوگوں کے لئے ترغیب بھی اورترہیب بھی لیکن ان کےلئے جو احادیث سے ترغیب و ترہیب چاہتےہیں۔نہ کہ ڈرامے بازی۔
اب یہ دیکھیں۔
باب قول الميت وهو على الجنازة: قدموني
- حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمع الإنسان لصعق "حدیث 1316
امام بخاری نے قول کہا ہے کلام نہیں اس لئے بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔اور اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ میت اس طرح سے بولتی ہے۔ تو وہ بولتی ہے ہمارا حدیث پر ایمان ہے اور ان شاء اللہ ایمان رہے گا۔
نمبر 2: یہ حدیث کس طرح سے اس آیت مبارکہ کے خلاف ہے۔۔؟
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ
جنا ب یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا جارہا ہے بطور انسان کہ کوئی انسان مردےکی بات نہیں سن سکتا ہےنہ سنا سکتاہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے امت کو خطاب دیا ہے کہ جب ایک چیز اللہ نے رسول اللہﷺ جیسے ہستی سے دور رکھی ہے تو دوسرے مست ملنگ کون ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔؟؟
دوسری مخلوقات کو اس سے بری رکھاہے۔
کیوں کہ قرآن انسانوں کےلئے نازل ہوا ہےنہ کے بھیڑ بکریوں کےلئے پر "مقلد کیا جانے قرآن و حدیث کا سواد"
مثال کے طور پر: جانور جنوں و دیگر مخلوقات کو دیکھ سکتے ہیں جیسے اسید بن حضیر کا واقعہ صحیح البخاری میں موجود ہے۔وہ قرآن پڑھتے تھے فرشتے اترتے تھے گھوڑا ان فرشتوں کو دیکھ کر بدکتا تھا وہ تلاوت بند کرتے تھے تو وہ رک جاتا تھا۔۔۔۔۔الخ
اسی طرح کی بہت سی احادیث موجودہیں ۔ لیکن یہ لوگ ایک سال میں صحاح ستہ کو دورا ڈال دیتے ہیں کیا سمجھ سکیں گے۔۔۔!!!
تو جناب بڑی ہی ہاتھ جوڑ کے درخواست ہے اگر آپکو علم نہیں تو اعتراض نہ کیا کریں بلکہ پھلے اس کا جواب تلاش کرلیں کیوں حدیث کے دشمن بنے پڑے ہیں یار کیوں۔۔۔۔۔؟؟؟ تکلیف کیا ہے حدیث سے؟​
 
Last edited by a moderator:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
نصر اللہ خالد بھائی بہت عمدہ۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔آمین
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
اوپر جس کتاب کا سکین دیاگیا ہے صاحب کتاب نے تھوڑی سی خیانت کی ہے ۔باب کلام المیت نہیں بلکہ قول المیت ہے۔
کلام ہمشہ دوطرفہ ہوتاہے جبکہ قول یکطرفہ ہوتاہے۔
امام بخاری اس میں لوگوں کے لئے ترغیب بھی اورترہیب بھی لیکن ان کےلئے جو احادیث سے ترغیب و ترہیب چاہتےہیں۔نہ کہ ڈرامے بازی۔
اب یہ دیکھیں۔
باب قول الميت وهو على الجنازة: قدموني
- حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمع الإنسان لصعق "حدیث 1316
امام بخاری نے قول کہا ہے کلام نہیں اس لئے بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔


نصراللہ بھائ میں آپ کی بات کے مفہوم سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کلام کے بارے میں آپ کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ کلام کے بارے میں آپ کا یہ کہںا کہ یہ دو طرفہ اور قول یک طرفہ ہوتا ہے میری ناقص رائے کے مطابق غلطی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں قول کے لیے بھی دوطرفہ ہونا ثابت ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (النور)
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں (ترجمہ: مولانا جوناگڑی)

لغوی اعتبار سے ابن منظور لسان العرب میں یہ فرق کرتے ہیں: کہ کلام کو قول ہی کہا ہے بعض نے اور بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ کلام وہ ہوتا ہے جو کہ اپنی ذات میں مکتفی (کسی کا محتاج نہ) ہو اور وہ جملہ ہوتا ہے جبکہ قول اپنی ذات میں مکتفی نہیں ہوتا بلکہ وہ جملہ کا ایک حصہ ہوتا ہے۔

قيل : الكلام القول و قيل : الكلام ما كان مكتفيا بنفسه و هو الجملة ، و القول ما لم يكن مكتفيا بنفسه ، و هو الجزء من الجملة


بلاغت کے اعتبار سے بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ کلام خاص ہے جبکہ قول عام ہے۔ کلام کا لفظ ایسی عبارت کی طرف بولا جاتا ہے جسکی نسبت اپنے متکلم کے ساتھ دائمی ہو۔ اسکی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرۃ)

جب کہ قول کسی کا اقتباس بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
إنه لقول رسول كريم
اسی طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیلہ وسلم کو جب بھی اقتباس لینے کا کہا تو یوں فرمايا:
يأيها النبي قل۔۔۔ قل هو الله أحد۔۔۔۔ قل أعوذ برب الفلق۔۔۔۔ وغيره

رہی بات محمد باقر صاحب کے سکین شدہ صفحات کی تو یہ واقعی غیر متعلق ہے اس چیز سے جو کہ وہ ثابت کررہے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!​
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
میرا بھی قول اور کلام میں فرق کرنے کا مقصد وہی تھا جو آپ نے بعد میں ذکرکیا ہے۔یعنی دو طرفہ ایک طرف سے بات ہو دوسری طرف سے جواب دیا جائے اور یہ تعلق دائمی سا ہو۔۔۔
یہ بات کرنے کا مقصد تھا تاکہ کوئی یہ بات سمجھ لے کہ اگر میت کلام کرتی ہے تو دوسرے بھی سنتےہیں۔اسلئے قول و کلام کو الگ کیا ہے کہ وہ میت بس بولتی ہے لو گ اسکو سنتے نہیں ہیں بہرحال۔۔اس حدیث میں حکمت تو صاف نظر آ رہی جس کو ہمیں محسوس کرنا چاہئے نہ کہ دوسری طر ف جانا چاہئے۔
ایک مرتبہ پھر شکریہ اصلاح کرنے پر اللہ جزائے خیر دیں آپ کو۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
کوئی یہ بات نہ سمجھ لے کہ اگر میت بولتی ہے تو دوسرے اس کو سنتے ہیں.
 
  • پسند
Reactions: Dua
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
مثبت جواب دینے کا شکریہ!
اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور ہم سب کی غلطیوں کی اصلاح فرمائے۔

حیاکم اللہ!
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
درست بات کو کھلے دن سے تسلیم کرنا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جیسے کہ کھجورروں کی پیوندکاری کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔
اور کلی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے بندوں میں کم اور زیادہ علم رکھنے والے موجود ہیں۔
وفوق کل ذی علم علیم۔بلکہ میں یہ درخواست کروں گا کہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی غیردرست دیکھیں،تو میری اصلاح ضرور کریں۔میں ایک طالب علم ہوں۔
بارک اللہ فیک،
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
محترم نصر اللہ خالد صاحب :
اللہ آپ کو جزائے خیر دے باب کے ایک لفظ کے متعلق متنبہ کرنے کا شکریہ
واقعی میں "باب اسی طرح ہے "القول المیت" پھر شکریہ ادا کرتا ہوں
لیکن میری اس بات کا جواب تو دیں کہ " کیا امام بخاری میت کے بولنے کا عقیدہ رکھتے تھے یا نہیں؟
جیسا کہ جناب کو تسلیم ہے کہ میت بولتی ہے؟
اور اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ میت اس طرح سے بولتی ہے۔ تو وہ بولتی ہے ہمارا حدیث پر ایمان ہے اور ان شاء اللہ ایمان رہے گا۔
 
Top