اوپر جس کتاب کا سکین دیاگیا ہے صاحب کتاب نے تھوڑی سی خیانت کی ہے ۔باب کلام المیت نہیں بلکہ قول المیت ہے۔
کلام ہمشہ دوطرفہ ہوتاہے جبکہ قول یکطرفہ ہوتاہے۔
امام بخاری اس میں لوگوں کے لئے ترغیب بھی اورترہیب بھی لیکن ان کےلئے جو احادیث سے ترغیب و ترہیب چاہتےہیں۔نہ کہ ڈرامے بازی۔
اب یہ دیکھیں۔
باب قول الميت وهو على الجنازة: قدموني
- حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمع الإنسان لصعق "حدیث 1316
امام بخاری نے قول کہا ہے کلام نہیں اس لئے بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔
نصراللہ بھائ میں آپ کی بات کے مفہوم سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کلام کے بارے میں آپ کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ کلام کے بارے میں آپ کا یہ کہںا کہ یہ دو طرفہ اور قول یک طرفہ ہوتا ہے میری ناقص رائے کے مطابق غلطی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں قول کے لیے بھی دوطرفہ ہونا ثابت ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (النور)
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں (ترجمہ: مولانا جوناگڑی)
لغوی اعتبار سے ابن منظور لسان العرب میں یہ فرق کرتے ہیں: کہ کلام کو قول ہی کہا ہے بعض نے اور بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ کلام وہ ہوتا ہے جو کہ اپنی ذات میں مکتفی (کسی کا محتاج نہ) ہو اور وہ جملہ ہوتا ہے جبکہ قول اپنی ذات میں مکتفی نہیں ہوتا بلکہ وہ جملہ کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
قيل : الكلام القول و قيل : الكلام ما كان مكتفيا بنفسه و هو الجملة ، و القول ما لم يكن مكتفيا بنفسه ، و هو الجزء من الجملة
بلاغت کے اعتبار سے بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ کلام خاص ہے جبکہ قول عام ہے۔ کلام کا لفظ ایسی عبارت کی طرف بولا جاتا ہے جسکی نسبت اپنے متکلم کے ساتھ دائمی ہو۔ اسکی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرۃ)
جب کہ قول کسی کا اقتباس بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
إنه لقول رسول كريم
اسی طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیلہ وسلم کو جب بھی اقتباس لینے کا کہا تو یوں فرمايا:
يأيها النبي قل۔۔۔ قل هو الله أحد۔۔۔۔ قل أعوذ برب الفلق۔۔۔۔ وغيره
رہی بات محمد باقر صاحب کے سکین شدہ صفحات کی تو یہ واقعی غیر متعلق ہے اس چیز سے جو کہ وہ ثابت کررہے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!