• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟

شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
m000.jpg
بخاری شریف کا سکین دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ امام بخاری میت کے بولنے کا عقیدہ رکھتے تھے یا نہیں؟؟؟
کیا واقعی مردہ بولتا ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی پہلے آپ اس پوسٹ کو پورا پڑھے اور پھر بات کریں

20153 - صحیح بخاری میں شک کرنے والے کارد

میرے ایک شیعۃ دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ :
ہم صحیح بخاری پرکس طرح اعتماد اور اس کے صحیح ہونے کا دعوی کریں حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی چار صدی بعدوجود میں آۓ ؟


الحمد للہ :

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے ۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔

اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔

تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔

اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔

اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔

پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگا‎ؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔

ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .
الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/20153
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها‏.‏ يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔

تشریح : جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔

اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ اِنَّکَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ ( النمل: 80 ) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها‏.‏ يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔

تشریح : جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔

اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ اِنَّکَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ ( النمل: 80 ) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔

حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها‏.‏ يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔


خطِ کشید الفاظ مد نظر رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ انہی الفاظ کی بِنا پر امام بخاری نے یہ باب باندھا ہےکہ "میت کا چار پائی پر کلام کرنا" پھر یہ حدیث مبارکہ انہوں نے اپنے باب پر پیش فرمائی،اور جناب امام بخاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ لکھ رہے ہیں کہ"جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے" یہ بات کس نے فرمائی ہے رسول اللہ نے یا کسی اُمتی نے ؟ اگر کسی اُمتی کی ہے تو اس حدیث کےواضع الفاظ کے جناب منکر ہو رہے ہیں ؟ بخای پر اعتماد خود نہیں کر رہے ؟حدیث میں تاویل کر رہے ہیں کیوں؟ یہ حق جناب کو کس نے دیا؟
سورہ نمل کی آیت 80 لکھ کر جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام بخاری نے یہ حدیث قرآن کے خلاف نقل کی ہے؟کیا امام بخاری قرآن کے خلاف احادیث لکھتے رہے؟
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
جناب اگر اس حدیث کو صحیح مانتے ہوتے تو صاف اقرار کرتے کہ مردہ چارپائی پر کلام کرتا ہے اور امام بخاری کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
ابتسامہ۔۔
حدیث بھی صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں شک کرنے والا ایمان کی فکر کرے۔اس حدیث سے آپ کیا بتانا چاہ رہے ہیں وہ بتائیں تاکہ اندر والا حصہ باہر نکلے ۔بات کرنے میں اآسانی ہو جائے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ابتسامہ۔۔
حدیث بھی صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں شک کرنے والا ایمان کی فکر کرے۔اس حدیث سے آپ کیا بتانا چاہ رہے ہیں وہ بتائیں تاکہ اندر والا حصہ باہر نکلے ۔بات کرنے میں اآسانی ہو جائے گی۔
بھائی یہ آج کے دور کے جدید منکر حدیث دیوبندی ہے
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
بھائی یہ آج کے دور کے جدید منکر حدیث دیوبندی ہے
یہ تو اس دن ہی پتہ چل گیا تھا جس دن ایک بہادر نے بڑے سکون سے کہہ دیا کہ حدیث پر عمل کرنے کےلئے اس کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔
اچھا اب مزے کی بات یہ دیکھیں یہ لوگ تقلید میں اس قدر نابینا ہوگئےہیں کہ حدیث رسول اللہ کی لے کراعتراض امام بخاری پر ہے۔جبکہ انہوں نے تو بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی ہے اب اگر تمہاری عقل میں نہیں آتی تو اس میں اس کا کیا قصور۔۔یہ لوگ کسی مستشرق کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ اگر کوئی اعتراض کرے گا کہ یہ حدیث عقل کے خلاف آ رہی ہے تو یہ جواب میں کہیں گے ہم تو خود یہ کہتے ہیں بلکہ اس طرح کی اور بھی روایات تلاش کر کے ان کو دے دیں گے۔۔یہ کہاں سے حدیث کی حفاظت کر سکتے ہیں۔۔۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر اسی کوئی حدیث جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی اس پر تحقیق کریں اس کی خلاف عقل باتوں پر سرچ کرنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ آسانیاں کر دیں۔لیکن جن کا کام ہی جھوٹ موٹ کھسوٹ بول کر اگلے بندے کو چپ کروانا ہو وہ کہاں سے یہ کام کر سکتا ہے۔۔۔
بہت افسوس ہوتاہے ان پڑھے لکھوں کو یہ سب کرتا دیکھ کر۔آدمی دو طرح سے پڑھتا ہے یا تو سیکھنے کےلئے یا پھر اس میں سے باتیں تلاش کر کےپریشانی پیدا کرنےکےلئے جو کہ مسشترکین کا مسئلہ ہے۔
اب میں یہاں سوال کرتا ہوں کہ آپ نے یہ حدیث نقل کر کے امام بخاری پر اعتراض کیاہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی ہے پھر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
اور کیا آپ کا یہ اعتراض حدیث پر ہے یہ نقل کرنے والے پر۔۔۔۔؟
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
نصر اللہ خالد صاحب بہادر سے آپ کا اشارہ کس خوش نصیب کی طرف ہے
 
Top