م
(2)(برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے)
(3)(یہ دونوں کس کے فرمان ہیں؟ نبی اکرم ﷺ کے یا کسی امتی کے؟)
(4)(کیا امتی کی بلا دلیل بات جناب کے نذدیک حجت ہے؟)
(5)(عالم برزخ کسے کہتے ہیں اور عالم برزخ کہاں واقع ہے؟)
(6)(فرعونیوں کو یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے جب کہ انہیں قبریں نصیب نہیں ہوئی اور وہ سمندر میں غرق ہو گئے تھے؟)
اسلام میں زندگی اور موت کا تصور بڑا ہی سیدھا ہے اور وہ یہ کہ جب روح اللہ کے حکم سے انسانی جسم کے ساتھ جڑ جائے تو اسے زندگی کہا جاتا ہے اور جب روح جسم سے علیحدہ ہو جائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے قران میں صرف دو زندگیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی پہلی زندگی وہ جب روح کو انسانی جسم سے جوڑا جاتا ہے اوراسکی پیدائش ہوتی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد حشر کے دن عمل میں آئے گی جب تمام انسانی جسم دوبارہ تخلیق کئے جائیں گے اور انکی ارواح واپس ان اجسام میں ڈال دی جائیں گی اور تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لئے جمع ہو جائیں گے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم الله کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔ سورة البقرہ، آیت ۲۸
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ
وہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو بار موت دی اورتو نے ہمیں دوبارہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا پس کیا نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے۔ سورة غافر، آیت ۱۱
سو قران ہمیں بتاتا ہے کہ عالم دنیا میں زندگی کا معاملہ کیسا ہے اور اسی طرح موت کے بعد تمام ارواح کو ، چاہے وہ اچھے انسانوں کی ہوں یا بروں کی، انہیں ایک آڑ کے پیچھے لے جایا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں اور اس عالم سے روح کی اپنے جسم میں واپسی صرف اور صرف قیامت یا روز حشر ہی ممکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے۔
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ سورۃ المومنون ۱۰۰
لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ مردہ انسان کی روح کا قیامت سے پہلے اپنے مدفون جسم میں لوٹ آنے کا یہ عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ یہ اسلئے کہ تمام ارواح قیامت تک عالمِ برزخ میں رہیں گی چاہے یہ نیک انسانوں یعنی شہداء ، انبیا ء اور مومنین کی ارواح ہوں اور چاہے
بدکاروں کی ارواح ہوں۔ سب کو انکے دنیاوی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ عالم ِبرزخ میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور قیامت کے بعد اس ثواب یا عذاب میں مزید زیادتی کردی جائے گی۔ یہی ثواب یا عذاب راحتِ قبر یا عذابِِ قبر کہلاتا ہے۔ لہذا یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ یہاں قبر سے مراد وہ زمینی گڑھا نہیں جہاں مردے کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اس سے مراد موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کا وہ دور ہے جسے برزخی زندگی یا عالمِ برزخ کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔
برزخ کی یہ زندگی یا دورانیہ کسی بھی طرح سے اس دنیاوی زندگی جیسا نہیں ہے یعنی دنیاوی زندگی پر اس کا قیاس ممکن نہیں۔ یہ آخرت کے حوالے سے دیگرچند معاملات کی طرح ہے جنہیں ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے قران و حدیث میں بہت محدود معلومات دی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں احادیث میں بیان کی گئی معلومات پرہی انحصار کرنا پڑتا ہے اوراس معاملے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم نہ تو اپنی سوچ لڑائیں اور نہ ہی احادیث کو اوپر بیان کئے گئے قرانی احکام سے علیحدہ کرکے انکی تشریح کریں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر موجود تمام صحیح احادیث کو قرانی احکام اور پھر اس موضوع پر موجود دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں ہی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اسلئے کہ قران میں موت کے بعد کی زندگی یا اس کے معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن میں شہداء کے بارے میں یہی ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں۔ سورة البقرہ، آیت ۱۵٤
ثابت ہوا کہ ہمارے لئے اایک ایسے موضوع کا مکمل ادراک ہوناممکن ہی نہیں جب قران نے خود بتا دیا کہ ’’تمہیں اس کا شعور نہیں‘‘ سو ایک بار پھر ہمیں اتنی بات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جتنی ہمیں بتا دی گئی۔ اسی طرح قران میں شہداء کی زندگی کے حوالے سے ذیل کی آیت بھی ملتی ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔ سورة آل عمران ۱٦۹
اس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔
مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ صحیح مسلم جلد ۲
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔
اوپر پیش کی گئی دونوں آیات یعنی البقرہ ۱۵٤ اور آل عمران ۱٦۹ اکثر اوقات دنیاوی قبروں میں زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو فرما رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو اور پھر اسی بنیاد پر تمام انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان آیات کے اپنے الفاظ اور پھر صحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کو مردہ کہنا درست نہیں لیکن وہ قبروں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور انہیں واپس اپنے مدفون جسموں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ امام بخاری بھی اپنی صحیح میں شہداء کے حوالے سے ذیل کی حدیث لائے ہیں۔
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔ صحیح بخاری ، کتاب المغازی
اسی طرح بخاری ہی میں شہداء کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم جن کی نومولدگی میں ہی وفات ہو گئی کے حوالے سے بھی یہ حدیث ملتی ہے۔
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز