• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
محترم نصر اللہ خالد صاحب :
اللہ آپ کو جزائے خیر دے باب کے ایک لفظ کے متعلق متنبہ کرنے کا شکریہ
واقعی میں "باب اسی طرح ہے "القول المیت" پھر شکریہ ادا کرتا ہوں
لیکن میری اس بات کا جواب تو دیں کہ " کیا امام بخاری میت کے بولنے کا عقیدہ رکھتے تھے یا نہیں؟
جیسا کہ جناب کو تسلیم ہے کہ میت بولتی ہے؟
اور اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ میت اس طرح سے بولتی ہے۔ تو وہ بولتی ہے ہمارا حدیث پر ایمان ہے اور ان شاء اللہ ایمان رہے گا۔
پوری بحث پڑھی ہے۔باقر بھائی ، آپ تو اپنے موضوع اور عنوان دونوں سے رخ بدل چکے ہیں۔برائے مہربانی اصل بات پر آ جائیں!۔۔۔۔حدیث پر آپ کا ایمان ہے ، گویا اعتراض باب کے عنوان پر ہے؟؟؟کیا امام بخاری رحمہ اللہ سے بغض کے لیے کوئی ڈھنگ کا جواز نہیں ملا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت بولتی ہے ، اگر آپ مانتے ہیں کہ بولتی ہے تو بتایئے کہ پھر آپ کا عقیدہ کیا ہو گا ؟؟؟
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
پوری بحث پڑھی ہے۔باقر بھائی ، آپ تو اپنے موضوع اور عنوان دونوں سے رخ بدل چکے ہیں۔برائے مہربانی اصل بات پر آ جائیں!۔۔۔۔حدیث پر آپ کا ایمان ہے ، گویا اعتراض باب کے عنوان پر ہے؟؟؟کیا امام بخاری رحمہ اللہ سے بغض کے لیے کوئی ڈھنگ کا جواز نہیں ملا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت بولتی ہے ، اگر آپ مانتے ہیں کہ بولتی ہے تو بتایئے کہ پھر آپ کا عقیدہ کیا ہو گا ؟؟؟
محترمہ دعا بہنا :خوش رہیں اور اپنے بھائی کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
بہن کی یہ بات(پوری بحث پڑھی ہے۔باقر بھائی ، آپ تو اپنے موضوع اور عنوان دونوں سے رخ بدل چکے ہیں۔) جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے،

بندہ کے اس سوال کہ(کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟) کا صراحۃ" جواب ابھی تک کسی نے دیا ہے؟ الٹا اس دھاگہ سے غیر متعلقہ باتیں میرے بھائی کرتے رہے عامر یونس کی پوسٹیں اس کی گواہ ہیں لیکن یہ سب آپ کو نظر نہ آیا اور مجھے "موضوع اور عنوان" کا رخ بدنے کا "طعنہ" آپ نے دے دیا !!!
بندہ نے اس دھاگہ میں اس حدیث کا انکار کہیں نہیں کیا ۔یہ حدیث مبارکہ بلکل صحیح ہے لیکن اس کا معنیٰ حقیقی نہیں مجازی ہے ، بعض شارحین نے لکھا ہے کہ میت نہیں بولتی روح بولتی ہے اس حدیث مبارکہ کی محدثین نے تاویل کی ہے اگر یہ اپنے معنیٰ پر حقیقی ہوتی تو محدثین اس میں تاویل نہ کرتے ۔

اس حدیث کے بارے جب بھی مجھ سے پوچھا گیا تو بندہ نے وہاں یہی لکھا تھا کہ"ہم اہل سنت کے اصول و قواعد الگ اور اہل حدیث کے الگ ہیں " لیکن میری اس بات کو کوئی سمجھا نہیں ،

یزید بھائی نے قرآن مجید کی جو دو آیات لکھی ہیں (میرے علم میں تھیں) مردوں کے نہ بولنے پر اور ان کا معنیٰ بھی حقیقی ہے ،(اب میں بھی بہن سے پوچھ سکتا ہوں کہ کیا قرآن کی ان آیات پر ایمان رکھتی ہیں ،اگر آپ قرآن کو مانتی ہیں تو بتائیے آپ کا عقیدہ کیا ہوگا مردے بولتے ہیں یا نہیں؟)

آپ نے ایک نوازش اور کی اپنے بھائی پر (حدیث پر آپ کا ایمان ہے ، گویا اعتراض باب کے عنوان پر ہے؟؟؟کیا امام بخاری رحمہ اللہ سے بغض کے لیے کوئی ڈھنگ کا جواز نہیں ملا تھا؟)

امام بخاری کے ابواب سے اکثر اہل حدیث استدلال کرتے ہیں اور" باب "کو ہی امام بخاری کا" نظریہ" جانتے ہیں کیا یہ سب امام بخاری کے بغض کا شکار ہیں؟

اس دھاگہ کا عنوان "بغور" پڑھیں :(کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟)یہ عنوان بطور سوال ذکر ہوا ہے یا بطور اعتراض؟

اپ سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ عامر بھائی سے میرے ان سوالوں کا جواب لے دیں ۔

(1)("جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے")
(2)(برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے)
(3)(یہ دونوں کس کے فرمان ہیں؟ نبی اکرم ﷺ کے یا کسی امتی کے؟)
(4)(کیا امتی کی بلا دلیل بات جناب کے نذدیک حجت ہے؟)
(5)(عالم برزخ کسے کہتے ہیں اور عالم برزخ کہاں واقع ہے؟)
(6)(فرعونیوں کو یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے جب کہ انہیں قبریں نصیب نہیں ہوئی اور وہ سمندر میں غرق ہو گئے تھے؟)
 

احمد نواز

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2014
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
11
تو پھر مذکورہ حدیث کا کیا کریں.؟
ہم کونسا کہہ رہے ہیں کہ مردے مطلقا بول سکتے ہیں کچھ حالتیں جن کو رسول اللہ نے مینشن فرما دیا ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کوئی رکھے یا نہ رکھے..آپ یہ فرمائیں کیا یہ اللہ کے نبی کا فرمان سچ ہے یا نہیں..؟
ماشاءاللہ آپ بھی فقیہ لگتے ہیں.
حدیث پر تو جناب کا بھی مکمل ایمان نہیں ہے اپنے الفاظ پڑھیں:(ہم کونسا کہہ رہے ہیں کہ مردے مطلقا بول سکتے ہیں) کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں مطلق یا غیر مطلق کی بات ہے ؟ یہ قید لگا کر جناب بھی حدیث میں شبہ پیدا کر رہے ہیں ؟اگر میری یہ بات غلط ہے تو حدیث میں یہ قید دیکھاؤ؟
 

احمد نواز

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2014
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
11
محمد عامر یونس :
آپ نے لکھا ہے
جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔
حدیث کی یہ تشریح جناب کی خود ساختہ ہے یا کسی امتی محدث کی بلا دلیل بات ہے؟حدیث رسول تو کہتی ہے کہ میت بولتی ہے اور آپ کہتے ہیں میت کو برزخی زبان ملتی ہے تب بولتا ہے ۔ آپ کی مانیں یا حدیث رسول کی؟
یہ بھی فرمائیں کہ کیا امتی محدث کا بلا دلیل قول ماننا تقلید کے زمرے میں نہیں آتا؟
 

احمد نواز

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2014
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
11
الحمد للہ :

برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے تو جو شخص اسلام پر مرتا ہے اسے نعمتوں سے نوازا جاتا اور جو کفر اور معصیت پر مرتا ہے اسے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو >

اور گناہوں کے اعتبار سے سزائیں بھی مختلف ہیں، صحیح بخاری کی حدیث میں بعض مرتکبین کبیرہ کو عالم برزخ میں جو عذاب ہوتا ہے اس کا بیان ہے ۔

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو راوی کہتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے چاہا اس نے وہ خواب بیان کر دیا اور ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میرے پاس رات دو آنے والے آۓ اور وہ دونوں مجھے لینے آۓ تھے انہوں نے مجھے کہا کہ چلو تو میں ان کے ساتھ چل پڑا تو ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو کہ لیٹا ہوا تھا اور دوسرا اس کے پاس ایک بڑا پتھر لۓ کھڑا تھا تو اس نے اچانک وہ پتھر اس کے سر پر دے مارا تو اس کا سر چپک گیا اور پتھر دوسری طرف لڑھک گیا تو وہ پتھر کو اٹھا لایا تو اس کا سر دوبارہ اصلی حالت میں آچکا تھا تو اس نے اس کے ساتھ پھر پہلے جیسا سلوک کیا تو میں نے ان دونوں کو کہا سبحان اللہ ان کا کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگے آگے چلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آگے گۓ تو ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو کہ گدی کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا ایک لوہے کا کنڈا لۓ کھڑا تھا جس سے وہ اس کے رخسار اور ناک اور آنکھ کو گدی تک کاٹ دیتا تو راوی کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابو رجاء نے یہ کہا ہو کہ پہاڑ دیتا تھا تو پھر دوسری جانب چلا جاتا اور اسی طرح کرتا جس طرح کہ اس نے پہلی جانب کیا تھا تو جب ایک جانب سے فارغ ہوتا تو دوسری جانب صحیح ہو چکی ہوتی تو دوبارہ وہی کام کرتا جو اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا تو میں نے کہا سبحان اللہ ان کا کیا معاملہ ہے تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک تندور کی طرح کی چیز کے پاس آۓ ۔

راوی کہتا ہے میرا خیال ہے کہ وہ کہتے تھے اس میں آوازیں اور شور تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں ان کے نیچے سے آگ کے شعلے آتے تو جب وہ شعلے آتے تو شور مچاتے تو میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک نہر پر آۓ راوی کہتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ خون کی طرح سرخ تھی تو اس نہر میں ایک آدمی تیر رہا تھا اور نہر کے کنارے ایک آدمی نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے وہ تیرتا ہوا جب اس کے پاس واپس آتا تو اپنا منہ کھولتا تو وہ اس کے منہ میں ایک پتھر دے دیتا اور وہ پھر تیرنا شروع کر دیتا اور پھر اس کے پاس واپس آتا تو جب بھی آتا منہ کھولتا اور وہ اس کے منہ میں ایک پتھر دے دیتا میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ دونوں کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک ایسے آدمی کے پاس آۓ جس کا منظر بہت ہی برا تھا اس کے پاس آگ تھی جسے وہ بھڑکا رہا اور اس کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ کیا ہے تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک ایسے باغ کے پاس آۓ سر سبز وشاداب تھا اس میں موسم بہار کے ہر رنگ تھے اور باغ کے درمیان میں بہت لمبا شخص تھا جس کا سر دکھائی نہیں دے رہا تھا اور اس کے ارد گرد ایسے بچے تھے جو میں نے کبھی نہیں دیکھے میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ دونوں کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک بہت بڑے باغ کے پاس آۓ جس سے بڑا اور نہ اس سے خوبصورت باغ میں نے کبھی دیکھا ان دونوں نے کہا کہ اس میں چڑھ جاؤ تو ہم اس میں چڑھ گۓ تو ہم ایک شہر تک آ گۓ جو کہ ایک سونے اور ایک چاندی کا اینٹ کا بنا ہوا تھا جب ہم شہر کے دروازے پر آۓ تو ہم نے اسے کھلوایا تو وہ ہمارے لۓ کھول دیا گیا اور ہم اس میں داخل ہو گۓ تو ہم نے اس میں بہت سے مرد پائے جن میں آدھے تو بہت ہی زیادہ خوبصورت اور آدھے بہت ہی بد صورت تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے انہیں کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں جا کر غوطہ لگاؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ نہر چوڑائی میں چل رہی تھی گویا کہ اس کا پانی دودھ ہے تو وہ گۓ اور اس میں غوطہ لگا کر ہمارے پاس واپس آۓ تو ان سے وہ بد صورتی ختم ہو چکی تھی اور وہ بھی خوبصورت ہو چکے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں مجھے کہنے لگے یہ جنت عدن ہے اور وہ آپ کا گھر ہے تو میں نے اوپر نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک محل جو کہ سفید بادل کی طرح تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کہنے لگے وہ آپ کا گھر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ آپ دونوں کو برکت سے نوازے ذرا مجھے اس میں داخل تو ہونے دو تو وہ کہنے لگے کہ اب تو نہیں لیکن آپ اس میں ضرور داخل ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے کہا آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھیں تو مجھے یہ بتائیں کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وہ کہنے لگے کہ ہم آپ کو اس کے متعلق بتائیں گے وہ سب سے پہلا شخص جس کے پاس آپ آۓ تھے جس کے سر کو پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص ہے جو کہ قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور فرضی نمازوں سے سویا رہتا تھا اور وہ آدمی جس کے پاس آۓ تو اس کا رخسار ناک اور آنکھ کو گدی تک کاٹا جارہا تھا یہ وہ شخص تھا جو صبح صبح اپنے گھر سے نکل کر ایک ایسا جھوٹ بولتا جو یہ دنیا کے دوسرے کونے تک جا پہنچتا تھا اور وہ عورتیں اور مرد جو کہ تندور جیسی عمارت میں تھے وہ زانی مرد وعورتیں تھے اور وہ شخص جس کے پاس آپ آۓ اور وہ نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر ڈالا جا رہا تھا وہ سود خور تھا اور بد صورت شخص جو آگ بھڑکا رہا تھا اور اس کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا وہ جہنم کا داروغہ مالک تھا اور وہ لمبا شخص جو کہ باغ میں تھا وہ ابراہیم (علیہ السلام ) تھے اور جو بچے ان کے ارد گرد تھے یہ وہ بچے ہیں جو سب فطرت پر فوت ہوئے تھے۔

راوی بیان کرتے ہیں بعض مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو مشرکوں کی اولاد ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور مشرکوں کی اولاد بھی اور وہ لوگ جو کہ آدھے خوبصورت اور آدھے بد صورت تھے تو یہ لوگ ہیں جن کے برے اعمال بھی تھے اور اچھے بھی انہیں اللہ تعالی نے معاف کر دیا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر (6525) .


الشیخ ولید الفریان
محمد عامر یونس صاحب
آپ نے لکھا ہے
برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے تو جو شخص اسلام پر مرتا ہے اسے نعمتوں سے نوازا جاتا اور جو کفر اور معصیت پر مرتا ہے اسے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اہل حدیث ہونے کے ناطے اس کی دلیل قرآن حدیث سے نقل کر دیں (کیونکہ اہل حدیث کے دو اصول ہیں اطیعو اللہ و اطیعو الرسول) دیکھتا ہوں اس دائرے میں رہ کر اپنی بات ثابت کرتے ہیں یا اہل السنۃ والجماعۃ کی طرح امتیوں کے اقوال کا سہارا لیتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
م

(2)(برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے)
(3)(یہ دونوں کس کے فرمان ہیں؟ نبی اکرم ﷺ کے یا کسی امتی کے؟)
(4)(کیا امتی کی بلا دلیل بات جناب کے نذدیک حجت ہے؟)
(5)(عالم برزخ کسے کہتے ہیں اور عالم برزخ کہاں واقع ہے؟)
(6)(فرعونیوں کو یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے جب کہ انہیں قبریں نصیب نہیں ہوئی اور وہ سمندر میں غرق ہو گئے تھے؟)

اسلام میں زندگی اور موت کا تصور بڑا ہی سیدھا ہے اور وہ یہ کہ جب روح اللہ کے حکم سے انسانی جسم کے ساتھ جڑ جائے تو اسے زندگی کہا جاتا ہے اور جب روح جسم سے علیحدہ ہو جائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے قران میں صرف دو زندگیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی پہلی زندگی وہ جب روح کو انسانی جسم سے جوڑا جاتا ہے اوراسکی پیدائش ہوتی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد حشر کے دن عمل میں آئے گی جب تمام انسانی جسم دوبارہ تخلیق کئے جائیں گے اور انکی ارواح واپس ان اجسام میں ڈال دی جائیں گی اور تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لئے جمع ہو جائیں گے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

تم الله کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔ سورة البقرہ، آیت ۲۸
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ


وہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو بار موت دی اورتو نے ہمیں دوبارہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا پس کیا نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے۔ سورة غافر، آیت ۱۱
سو قران ہمیں بتاتا ہے کہ عالم دنیا میں زندگی کا معاملہ کیسا ہے اور اسی طرح موت کے بعد تمام ارواح کو ، چاہے وہ اچھے انسانوں کی ہوں یا بروں کی، انہیں ایک آڑ کے پیچھے لے جایا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں اور اس عالم سے روح کی اپنے جسم میں واپسی صرف اور صرف قیامت یا روز حشر ہی ممکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے۔
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ سورۃ المومنون ۱۰۰
لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ مردہ انسان کی روح کا قیامت سے پہلے اپنے مدفون جسم میں لوٹ آنے کا یہ عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ یہ اسلئے کہ تمام ارواح قیامت تک عالمِ برزخ میں رہیں گی چاہے یہ نیک انسانوں یعنی شہداء ، انبیا ء اور مومنین کی ارواح ہوں اور چاہے
بدکاروں کی ارواح ہوں۔ سب کو انکے دنیاوی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ عالم ِبرزخ میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور قیامت کے بعد اس ثواب یا عذاب میں مزید زیادتی کردی جائے گی۔ یہی ثواب یا عذاب راحتِ قبر یا عذابِِ قبر کہلاتا ہے۔ لہذا یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ یہاں قبر سے مراد وہ زمینی گڑھا نہیں جہاں مردے کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اس سے مراد موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کا وہ دور ہے جسے برزخی زندگی یا عالمِ برزخ کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔
برزخ کی یہ زندگی یا دورانیہ کسی بھی طرح سے اس دنیاوی زندگی جیسا نہیں ہے یعنی دنیاوی زندگی پر اس کا قیاس ممکن نہیں۔ یہ آخرت کے حوالے سے دیگرچند معاملات کی طرح ہے جنہیں ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے قران و حدیث میں بہت محدود معلومات دی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں احادیث میں بیان کی گئی معلومات پرہی انحصار کرنا پڑتا ہے اوراس معاملے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم نہ تو اپنی سوچ لڑائیں اور نہ ہی احادیث کو اوپر بیان کئے گئے قرانی احکام سے علیحدہ کرکے انکی تشریح کریں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر موجود تمام صحیح احادیث کو قرانی احکام اور پھر اس موضوع پر موجود دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں ہی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اسلئے کہ قران میں موت کے بعد کی زندگی یا اس کے معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن میں شہداء کے بارے میں یہی ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں۔ سورة البقرہ، آیت ۱۵٤
ثابت ہوا کہ ہمارے لئے اایک ایسے موضوع کا مکمل ادراک ہوناممکن ہی نہیں جب قران نے خود بتا دیا کہ ’’تمہیں اس کا شعور نہیں‘‘ سو ایک بار پھر ہمیں اتنی بات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جتنی ہمیں بتا دی گئی۔ اسی طرح قران میں شہداء کی زندگی کے حوالے سے ذیل کی آیت بھی ملتی ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔ سورة آل عمران ۱٦۹
اس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔
مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ صحیح مسلم جلد ۲
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔
اوپر پیش کی گئی دونوں آیات یعنی البقرہ ۱۵٤ اور آل عمران ۱٦۹ اکثر اوقات دنیاوی قبروں میں زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو فرما رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو اور پھر اسی بنیاد پر تمام انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان آیات کے اپنے الفاظ اور پھر صحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کو مردہ کہنا درست نہیں لیکن وہ قبروں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور انہیں واپس اپنے مدفون جسموں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ امام بخاری بھی اپنی صحیح میں شہداء کے حوالے سے ذیل کی حدیث لائے ہیں۔
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔ صحیح بخاری ، کتاب المغازی
اسی طرح بخاری ہی میں شہداء کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم جن کی نومولدگی میں ہی وفات ہو گئی کے حوالے سے بھی یہ حدیث ملتی ہے۔
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان
 

احمد نواز

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2014
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
11
طائفة الديوبندية
الديوبندية طائفة من طوائف المسلمين ، تنسب إلى جامعة ديوبند – دار العلوم – في الهند . وهي مدرسة فكرية عميقة الجذور طبعت كل خريج منها بطابعها العلمي الخاص ، حتى أصبح ينسب إليها .
التأسيس وأبرز الشخصيات :
أسس جامعة ديوبند مجموعة من علماء الهند بعد أن قضى الإنجليز على الثورة الإسلامية في الهند عام 1857م ، فكان تأسيسها ردَّ فعلٍ قوي لوقف الزحف الغربي ومدنيته المادية على شبه القارة الهندية لإنقاذ المسلمين من مخاطر هذه الظروف ، خاصة وأن دلهي العاصمة قد خرِّبت بعد الثورة وسيطر عليها الإنجليز سيطرة كاملة ، وخاف العلماء أن يُبتلع دينهم ، فأخذ الشيخ إمداد الله المهاجر المكي وتلميذه الشيخ محمد قاسم الناناتووي وأصحابهما برسم الخطط للمحافظة على الإسلام وتعاليمه ، فرأوا أن الحل بإقامة المدارس الدينية ، والمراكز الإسلامية ، وهكذا أُسست المدرسة الإسلامية العربية بديوبند كمركز للدين والشريعة في الهند في عصر حكومة الإنجليز .
أبرز شخصيات هذه المدرسة الفكرية :
1- محمد قاسم .
2- رشيد أحمد الكنكوهي .
3- حسين أحمد المدني .
4- محمد أنور شاه الكشميري .
5- أبو الحسن الندوي .
6- المحدث حبيب الرحمن الأعظمي .
الأفكار والمعتقدات :
- هم في الأصول ( العقيدة ) على مذهب أبي منصور الماتريدي في الاعتقاد .
- وعلى مذهب الإمام أبي حنيفة في الفقه والفروع .
- وسلكوا الطرق الصوفية من النقشبندية والجشتية والقادرية والسهروردية في السلوك والاتباع .
ويمكن تلخيص أفكارهم ومبادئ الدراسة الديوبندية بما يلي :
- المحافظة على التعاليم الإسلامية ، والإبقاء على شوكة الإسلام وشعائره .
- نشر الإسلام ومقاومة المذاهب الهدَّامة والتبشرية .
- نشر الثقافة الإسلامية ومحاربة الثقافة الإنجليزية الغازية .
- الاهتمام بنشر اللغة العربية لأنها وسيلة الاستفادة من منابع الشريعة الإسلامية .
- الجمع بين العقل والقلب ، وبين العلم والروحانية .
أنظر الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب .(1/308) .
وحيث أن الديوبندية تتبنى مذهب الماتريدية في العقيدة فلا بد من التعريف بالماتريدية :
وهي فرقة كلامية ، تُنسب إلى أبي منصور الماتريدي ، قامت على استخدام البراهين والدلائل العقلية والكلامية في محاججة خصومها ، من المعتزلة والجهيمة وغيرهم لإثبات حقائق الدين والعقيدة الإسلامية .
ومن حيث مصدر التلقي فقد قسم الماتريدية أصول الدين حسب مصدر التلقي على قسمين :
الإلهيات ( العقليات ) : وهي ما يستقل العقل بإثباتها والنقل تابع له ، وتشمل أبواب التوحيد والصفات .
الشرعيات ( السمعيات ) : وهي الأمور التي يجزم العقل بإمكانها ثبوتاً ونفياً ، ولا طريق للعقل إليها مثل : النبوات ،وعذاب القبر ، وأمور الآخرة ، علماً بأن بعضهم جعل النبوات من قبيل العقليات .
و لا يخفى ما في هذا من مخالفةٍ لمنهج أهل السنة والجماعة حيث أن القرآن والسنة وإجماع الصحابة هم مصادر التلقي عندهم ، فضلاً عن مخالفتهم في بدعة تقسيم أصول الدين إلى عقليات وسمعيات ، والتي قامت على فكرة باطلة وضعها الفلاسفة تفترض أن نصوص الدين متعارضة مع العقل ، فعملوا على التوسط بين العقل والنقل ، مما اضطرهم إلى إقحام العقل في غير مجالات بحثه ، فخرجوا بأحكام باطلة تصطدم مع الشرع ألجأتهم إلى التفويض والتأويل ، بينما لا منافاة عند أهل السنة والجماعة بين العقل السليم الصريح والنقل الصحيح . انظر الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة (1/99) .
موقف أهل السنة من الماتريدية :
ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم أن هذه الأمة سوف تفترق على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة ، وبيَّن عليه الصلاة والسلام أن الفرقة الناجية هي الجماعة ،وهي التي تكون على مثل ما كان عليه رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم وصحابته الكرام .
ولا ريب أن أهل السنة والجماعة المتمسكين بالكتاب والسنة علماً وعملاً هم الفرقة الناجية وذلك لتحقق الوصف فيهم ،وهو الالتزام بما كان عليه رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم وصحابته الكرام رضي الله عنهم علماً وعملا .
فلا يكفي ليكون الفرد أو الجماعة من الفرقة الناجية مجرد الانتساب للسنة مع المخالفة لمنهج السلف من الصحابة والتابعين ، بل لا بد من الالتزام بمنهجهم في العلم والعمل والتصور والسلوك .
والماتريدية من الطوائف التي في أقوالها حق وباطل ومخالفة للسنة ، ومعلوم أن هذه الطوائف تتفاوت في مدى القرب والبعد من الحق ، فإن كل من كان أقرب إلى السنة كان أقرب إلى الحق والصواب ، فمنهم " من يكون قد خالف السنة في أصول عظيمة ، ومنهم من يكون إنما خالف السنة في أمور دقيقة ، ومن يكون قد رد على غيره من الطوائف الذين هم أبعد عن السنة منه ، فيكون محموداً فيما رده من الباطل وما قاله من الحق ، لكن يكون قد جاوز العدل في رده بحيث جحد بعض الحق ، وقال بعض الباطل فيكون قد رد بدعة كبيرة ببدعة أخف منها ، ورد بالباطل باطلاً بباطل أخف منه ، وهذه حال أكثر أهل الكلام المنتسبين إلى السنة والجماعة ... " انتهى من كلام شيخ الإسلام ابن تيمية الفتاوى (1/348) .
بقيت مسألة مهمة هنا وهي : ما هو واجبنا تجاه الماتريدية ، ومن نحى نحوهم في العقيدة كالديوبندية وغيرهم ؟
والجواب يختلف باختلاف الأشخاص :
فمن كان منهم معانداً داعياً إلى بدعته فيجب التحذير منه وبيان ضلاله وانحرافه ، وأما من لم يكن داعياً إلى بدعته واتضح من قوله وعمله طلب الحق والسعي إليه فإنه يُناصح ويبين له خطأ هذا المعتقد وإرشاده بالتي هي أحسن ، لعل الله أن يرده إلى الحق ، وهذه النصيحة داخلة في قول النبي صلى الله عليه وسلم : " الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ " رواه مسلم (55)

http://alwa3z.com/showplay.php?catslinkp=1566
محمد عامر یونس صاحب : جو بھی لکھیں ہوش میں رہ کر لکھیں ۔اس سوال کے جواب کو مدِ نظر رکھیں علماء کی فرست میں میں ایک شخصیت کا نام نامی حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ہے،ان کے بارے اہل حدیث کے نامور عالم مولانا اسمعیل سلفی صاحب کے اقوال پرحیں

حال ہی میں برادر محترم حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتویؒ کی "آب حیات" دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔ مولانا نانوتویؒ کے علم اور جلالت قدر کاپہلے بھی یقین تھا"آب حیات" دیکھنے سے ان کا احترام اور بھی زیادہ ہوا ان کی جلالت قدر کے باوجود بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہےکہ" آب حیات" کا انداز تحقیق سے زیادہ تاویل پر مبنی ہے مولانا مغفور نے یہ کتاب وراثت نبویﷺ کے متعلق شیعہ نقطہ نظر کے جواب میں لکھی ہے اور شیعی شبہات سے مخلصی کے لیے یہ مناظرانہ راہ اختیار فرمائی کہ آنحضرت ﷺ جسمانی طور پر زندہ ہیں اور ان کی یہ زندگی دنیوی زندگی ہے اس لیے تقسیم وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مناظرانہ راہ ہے اس سے وہ نصوص حل نہیں ہوتے جن میں آنحضرت ﷺ کی وفات دفن اور اس دنیا سے انتقال کا صریح تذکرہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔

مولانا قاسمؒ معصوم نہیں تھے:مولانا محمد قاسم ؒ سے عقیدت و محبت کا جہاں تک سوال ہے تو سچ ہے کہ ہم انہیں اپنے کا بہترین عالم، ذہین وفہیم مفکر اور صاحب زہد ورع دانش ور سمجھتے تھے

خیر مولانا قاسم رحمتہ اللہ علیہ کا انداز تحریر تو کچھ ادق اور غامض تھا کہ ہم کو تاہ فہموں کے لیے اس حسن ظن کی بھی گنجائش باقی رہ جاتی تھی کہ جو کچھ انہوں نے تحریر فرمایا ہے شائد اس کا مطلب وہ نہ ہو جو ہم نے سمجھا ہے اور وہ حیات النبی کے باب میں فی الحقیقت وہی مسلک رکھتے ہوں جسے ہم درست سمجھ رہے ہیں۔

پھر وہ زمانہ بھی اور تھا شرک و بدعت کے خلاف خود مولانا قاسمؒ اور دیگر ہم عصر علماء دیوبند آئے دن سرگرمیوں کا مظاہرہ فرماتے رہتے تھے

حضرت مولانا کی جلالت قدر ، دقت نظر ، وسعت معلومات تقویٰ للہیت معلوم اور مسلم ہے قلم لرزتا ہے کہ مجھ ایسا کم سواد علم وحکمت کے سمند ر کے خلاف تنقید کا اختیار کرے

حیات النبی مؤلف مولانا اسماعیل سلفی سے یہ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں انہیں بغور پڑھیں اور اپنا پیش کردہ فتویٰ پڑھیں اگر امام نانوتوی بدعتی و گمراہ ہیں تو ان کی تعریف کرنے والا انہیں رحمۃ اللہ علیہ لکھنے والا ،ان کے تقوی للٰہیت کا ذکر کرنے والا ،انہیں شرک و بدعات کے خلاف کام کرنے والا سمجھنے والا کہنے والے مولانا اسماعیل سلفی صاحب پر کیا فتوی عائد ہوتا ہے ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
حدیث پر تو جناب کا بھی مکمل ایمان نہیں ہے اپنے الفاظ پڑھیں:(ہم کونسا کہہ رہے ہیں کہ مردے مطلقا بول سکتے ہیں) کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں مطلق یا غیر مطلق کی بات ہے ؟ یہ قید لگا کر جناب بھی حدیث میں شبہ پیدا کر رہے ہیں ؟اگر میری یہ بات غلط ہے تو حدیث میں یہ قید دیکھاؤ؟
بھائی تو حدیث میں کونسا مطلقا بولنے کا کہا گیا ہے۔۔۔؟ دوبارہ غور سے حدیث پڑھیں ایک خاص حالت ہے ۔ اور حدیث میں کہا گیا ہےجب:إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم،"
حالت مخصوص ہو گئی کہ ابھی بھی نہیں ہوئی۔۔؟میں نے نہ کوئی شبہ ڈالا ہے نہ اسکی جسارت کرتاہوں جن کا یہ کام ہے وہ نظر آ رہا ہے۔آپ بتائیں آ پ اس حدیث پر ایمان رکھتے ہیں۔۔؟ ابھی پتہ چل جاتا ہے کون کیا ہے۔
لگتا ہے آپ کو لفظ مطلق کا پتہ نہیں ہے کہ یہ کس طرح اور کیونکر بولا جاتاہے نہیں تو یہ تکلیف ہی نہ کرتے آپ ۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
وَلَوْ أَنَّنَا نزلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى
مذکورہ آیت مبارکہ میں کلام کا کہا گیا ہے نہ کہ قول کا کلام اور قول میں فرق ہے آپ اسکےلئے میری گزشتہ پوسٹس پڑھ لیتے تو یہ پریشانی لاحق ہی نہ ہوتی۔
یہاں بھی کلام سے مراد لوگوں سے گفتگو ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کو ثابت کرنےکےلئے اللہ نے ایک مثال پیش کی ہے۔
جب کہ حدیث میں ایک خاص حالت میں میت کے کلام کرنے پر نہیں صرف بولنے پر آ رہی ہے اور بولنا یکطرفہ بھی ہوتا ہے اگر جیسے کہ یہاں مذکور ہے جبھی تو قول المیت کہا ہے کلام المیت نہیں کہا۔
دوسری آیت بھی اسی طرح سے ہے لہذا امید ہے کہ اس سے ہی بات سمجھ گئےہوں گے۔
جناب عالی ہمارے لئے شارع رسول اللہ ﷺ ہیں نہ تو کوئی مقلد شارع ہے نہ کوئی محقق اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص حالت میں میت کے بولنے کا کہا ہے تو کہا ہے میرا یہ عقیدہ ہے کہ میت اس حالت میں بولتی اور سنتی ہے جس حالت میں رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا ۔اگر کوئی با ہمت ہے تو اس حدیث کا انکار کر دے اور اگر اقرار کرتاہے تو اس کے دلائل دینا فضول ہیں۔ کیونکہ وہ خود اقراری ہیں۔اور اس آیت پر نظر دوڑا لیں ان شاء اللہ کچھ تشفی ہو جائے گی۔
وماینطق عن الھوی ان ھوا الا وحی یوحیٰ۔
ایک امید کہ:
شائد اب ہی کسی کا ایمان اس حدیث پر ہوجائے ۔
اور میں بڑی ہی ادنیٰ سی درخواست پیش کرتاہوں کہ جناب حدیث کے انکارکےلئے قرآن کو آڑ نہ بنائیں۔
نص قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت کہہ کر کیوں لوگو ں کو حدیث سے متنفر کرتےہیں یہ تشکیک کا کام تو ان کا ہے جو حدیث پر ایمان نہیں رکھتے ہم تو مسلمان ہیں اور حدیث کا دفاع کرنے والے ہیں۔اگر ہم ہی یہ کام شروع کر دیں گے تو اسلام لوگوں تک کیسے جائے گا ۔۔۔؟
وہ لوگ جو حدیث پر اعتراضات کرتے ہیں ان کو جواب کیسے دیں گے۔۔؟ کیا کسی کے اعتراض پر ہم حدیث کو چھوڑ دیں گے۔۔؟
یہ چھوٹی سی بات ہے جس کی سمجھ میں آجائے اللہ ہمیں سمجھ کی نعمت سے آراستہ کریں۔آمین۔
براہ مہربانی مثبت انداز سے سوچئے گا۔
 
Top