ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
امام زہری جھوٹے ہیں؟
تحریر: ابوالوفا محمد حماد اثری
احسان ایک سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہیں، فیس بک ان کا محبوب میڈیا ہے،تحریر پوسٹنا اورلائک،کمنٹ کھیلنا انہیں اچھا لگتا ہے۔ وہ دوسروں کی تحریریں بھی اپنی وال پہ شئر کرتے رہتے ہیں،دو ماہ قبل ایسا ہوا کہ ایک آوارہ تحریر راہ چلتے انہیں مل گئی، انہوں نے اسے کاپی کیا اور اپنی وال سے شئیر کر دیا، ساتھ لکھ دیا'' منقول'' ۔یعنی یہ تحریر میں نے کہیں سے نقل کی ہے۔
کرنا خدا کا کہ اس تحریر کے مندرجات میں جھوٹ کی آویزش تھی، ظاہر ہے کہ اس جھوٹ میں احسان کا حصہ سوائے نقل کرنے کے کچھ حصہ نہ تھا۔
لیکن احسان کے ایک فیس بک فرینڈ نعیم نے شور اٹھا دیا اور اس کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا ۔
اس نے پوسٹ کی کہ احسان جھوٹ بولتا ہے، احسان بکواسی ہے، احسان کذاب ہے، اس کا بائیکاٹ کرو، اسے انفرینڈ کرو ، اس کی تحریریں جھوٹ پر مبنی ہیں۔
اس پوسٹ میں احسان کے بہت سے دوستوں اور فالورز کو ٹیگ کیا ، فالورز نے چوں کہ اسے پڑھ رکھا تھا اور جانتے تھے کہ وہ نقل شدہ تحریر ہے، پس نعیم کی تحریر پر جو کمنٹ آئے ، وہ کچھ اس طرح کے تھے۔
ایک دوست نے کہا
نعیم میاں وہ تحریر جب احسان کی ہے ہی نہیں، تو اس پر جھوٹ کا الزام کیسا ؟
دوسرے دوست نے کمنٹا کہ
نعیم میاں لگتا سٹھیا گئے ہیں،اس تحریر میں صاف لکھا کہ یہ منقول ہے، تو احسان کو جھوٹا کہنا چہ معنی؟
تیسرے ذرا گرم مزاج کے تھے، چھوٹتے ہی بولے ۔
او پا بھنگ تے نہیں پیتی؟
بھائی میرے !آپ نےبوتل چڑھا رکھی ہے، جو اس طرح کی باتیں کئے جا تے ہو؟
چوتھے صاحب نے اس تحریر کو کھوج نکالا،یہ تحریر قاسم نے لکھی تھی، اس کی وال سے سکرین شارٹ لے کر، نعیم کی پوسٹ پہ کمنٹا کہ دیکھئے صاحب !جھوٹا قاسم ہے، احسان نہیں۔
آپ بھی یقینا اس سے متفق ہوں گے، کہ واقعی یہ جھوٹ قاسم کا ہے، احسان کا نہیں، اس نے ایمانداری سے نیچے لکھ دیا کہ یہ تحریر میری نہیں، بلکہ میں نے اسے نقل کیا ہے۔
لہذا یہ تحریر احسان کی امانت کا ثبوت ہے،نہ کہ جھوٹے ہونے کا ، جھوٹے ہوتے تو اپنی طرف منسوب کرتے ، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
یہ مثال ہے ، عربی کے لفظ بلغنا کی، عربی میں جب کوئی یہ کہتا ہے کہ بلغنا تو اس کا مطلب ہوتا ہے، منقول ۔
یا آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے، کہ اڑتی اڑتی خبر ملی ہے۔
اب ایک سوال حل کریں !
عبد الرحمان نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہ خود بھی جھوٹ سے متنفر ہے، اور علاقے کی جمیع آبادی اس پر متفق ہےکہ عبد الرحمان جھوٹ نہیں بولتا، بلکہ بعض قریبی لوگ تو کہتے ہیں عبد الرحمان مر سکتا ہے ، جھوٹ نہیں بول سکتا۔
وہ کوئی قصہ بیان کرے اور کہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے، خود نہیں دیکھا۔اس کا کیا مطلب ہوگا؟
یہی نا! کہ عبد الرحمان نے سچ میں کسی سے سنا ہے، لیکن وہ واقعہ کیسا ہے، اس کی تحقیق ابھی باقی ہے۔
یہ ایک معقول بات ہے، جسے سمجھانے کے لئے کسی فلسفے کی ضرورت نہیں۔
امام زہری رحمہ اللہ ایک جلیل القدر اما م ہیں، ان کی امانت،دیانت ،تقوی للہیت اور حافظے پر تمام اہل زمانہ متفق ہیں ۔
امام مالک اور احمد بن حنبل جیسے اعاظم ان کا پانی بھرتے ہیں۔
مکحول اور یحیی کو ان کے سوا کوئی اچھا ہی لگتا ، گویا :
تجھ کو دیکھا تو پھر اس کو نہ دیکھا
چاند کہتا ہی رہا ،میں چاند ہوں ، میں چاند ہوں۔
دس صحابہ کی مجلس میں بیٹھے، ابوالزناد جیسے ائمہ کو ان کی جلالت علمی پر رشک ہے۔
وہ حدیث بیان کرتے ہوئے بسا اوقات کہہ دیتے ہیں ، کہ فلاں واقعہ ہم نے کسی سے سنا ہے۔یعنی بلغنا
اب ائمہ حدیث کیا کرتے ہیں؟
وہ ڈھونڈتے ہیں کہ یہ واقعہ بیان کرنے والا بندہ کون ہے؟ جو مل جائے تو واقعہ کی تحقیق ہو جاتی ہے، اگر وہ سچا ہو تو یہ بات سچ تسلیم کر لی جاتی ہے اور اگر جھوٹا ہو تو بات ٹھکرا دی جاتی ہے۔
زہری کو جھوٹا کوئی نہیں کہتا اور نہ ہی کوئی تک بنتا ہے۔
امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ بھی ایسا کئی دفعہ کہہ دیتے ہیں، بلغنا یعنی منقول۔
تو اس روایت کو بیان کرنے والا بھی اکثر ڈھونڈ لیا جاتا ہے، بیسیوں ائمہ واقعات نقل کرتے ہیں اور ساتھ منقول لکھ دیتے ہیں۔
اس بنیاد پر ائمہ کو جھوٹا کسی نے نہیں کہا کہ وہ کوئی بات نقل کرتے کیوں ہیں؟اور نہ ہی کوئی عقل مند ایسا کہہ سکتا ہے۔
لیکن فیس بک کے ایک محقق قاری حنیف ڈار صاحب نے اسی بنیاد پر امام زہری رحمہ اللہ کو جھوٹا کہنا شروع کردیا ۔
ان کی یہ پوسٹ سامنے آئی تو میں حیران رہ گیا، خیال تھا کہ قاری صاحب شاید عربی نہیں جانتے، ابھی کوئی صاحب انہیں سمجھا دیں گے،لیکن افسوس کہ قاری صاحب کو نعیم کے دوستوں جیسے دوست بھی نہ ملے، جو انہیں بتا ہی دیتے کہ صاحب ناقل کب سے جھوٹا ہونے لگا؟
یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا ، کوئی اس پر واہ واہ کر رہا ہے، کوئی داد دے رہا ہے اور کوئی سبحان اللہ ، گڈ ورک جیسی خوب صورت کمنٹیں دے رہا ہے۔
اور معقولیت ان سب سے جان چھڑا کر دور بھاگی جارہی ہے، دور کسی صحرا میں ،جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووئے۔
Last edited by a moderator: