کیا امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی مدلس تھے؟
بعض لوگ امام عبد الرزاق کی تدلیس کے ثبوت کے لئے درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں:
امام ابو جعفر العقیلی روایت کرتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: ذَكَرَ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعِ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ وَلَّوْا عَلِيًّا فَهَادِيًا مَهْدِيًّا» فَقِيلَ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ: سَمِعْتَ هَذَا مِنَ الثَّوْرِيِّ؟ قَالَ: لَا حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، وَغَيْرُهُ: ثُمَّ سَأَلُوهُ مَرَّةً ثَانِيَةً فَقَالَ: حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَيَحْيَى بْنَ الْعَلَاءِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 3/110)
اس روایت سے ایسا لگتا ہے کہ عبد الرزاق نے تدلیس کی ہے۔ لیکن اس کی اسناد بظاہر تو صحیح معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سند کے تمام رجال ثقات ہیں لیکن یہ بھی ایک معلوم شدہ بات ہے کہ امام عبد الرزاق آخری عمر میں ضعیف الحفظ ہو گئے تھے یعنی مختلط ہو گئے تھے۔ اور محمد بن سہل بن عسکر کا سماع ان سے اختلاط سے پہلے کا ہے یا بعد کا اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت اس وجہ سے ضعیف ہے۔ اور ممکن ہے کہ امام عبد الرزاق نے اپنے خراب حافظے کی وجہ سے اس حدیث میں غلطی کی ہو نہ یہ کہ وہ مدلس تھے! لہٰذا امام عبدالرزاق پر تدلیس کا الزام ہرگز ثابت نہیں ہے۔
بعض لوگوں کے اشکالات کے جواب:
پہلا اعتراض:
بعض لوگوں نے ابن عسکر کے سماع کو دھکے سے صحیح ثابت کرنے کے لئے ایک نیاء ہی اصول دنیا کو متعارف کرواتے ہوئے کہا:
" بعض لوگ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی تدلیس کا انکار کرتے ہیں، اور ان کی ایک دلیل یہ ہے جس اثر سے ان کا مدلس ہونا ثابت ہوتا ہے، وہ ضعیف ہے کیونکہ اس میں "محمد بن سھل" کا سماع ان سے قبل از اختلاط ہے یہ نہیں ؟
تو عرض ہے کہ محمد بن سھل کا سماع قبل از اختلاط ہے اس کے کئی دلائل ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے :
امام ابن خزیمہ نے ایک روایت اپنے تین استادوں سے بیان کی ہے جس میں سے محمد بن رافع، اور محمد بن یحیی کا سماع عبدالرزاق سے قبل از اختلاط ثابت ہے ، اور انہی دونوں کے ساتھ یہ روایت عبدالرزاق سے محمد بن سھل نے سماعت کی ہے جو اس کی دلیل ہے ان کا سماع بھی قبل از اختلاط ہے والحمداللہ۔
2759 - ثنا محمد بن رافع ، ومحمد بن يحيى ، ومحمد بن سهل بن عسكر قالوا : ثنا عبد الرزاق"
میں نام نہیں لوں لگا لیکن یہ وہی ہمارے محترم بھائی ہیں جو ہر وقت اصول کا نعرہ لگاتے ہیں اور پچھلے کئی دنوں سے اسی بنیاد پر انٹرنیٹ پر بہت شور مچا رکھا تھا۔ لیکن جب اپنے خلاف کوئی روایت آئی تو سب اصول وصول بھلا دئے گئے، سبحان اللہ!
یہ کہاں کا اصول ہے کہ اگر ایک ہی روایت کو دو صحیح السماع اور ایک مجھول السماع اپنے استاد سے روایت کریں تو اس کا مطلب ہے کہ اس مجھول السماع کا سماعت بھی قبل از اختلاط ہی ہے؟؟ کسی ایک محدث سے بھی یہ اصول ثابت کر دیں تو ہم مان لیں گے۔ اگر نہیں کر سکتے اور ہرگز نہیں کر سکتے تو جس طرح آپ لوگوں کو نعوذباللہ جاہل و کذاب و وضاع کہتے پھرتے ہیں اسی طرح اپنے آپ کے لئے بھی یہ القابات تسلیم کر لیں! اگر اصول سے ہٹ کر ہی بات کرنی تھی تو پھر ہمارے پاس بھی بے شمار بہانے تیار ہیں اس سماع کو بعد از اختلاط قرار دینے کے لئے، لیکن محدثین کے اصول کے مطابق یہ سماع قبل از اختلاط ہے یا بعد اس کا کوئی ثبوت ہے ہی نہیں!
امام ابن خزیمہ کا ایک روایت تین لوگوں سے روایت کرنے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ تینوں نے یہ روایت ایک ہی وقت میں اپنے استاد سے سنی ہو گی؟ اگر ایک لمبی چھلانگ بھی لگائی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابن خزیمہ نے یہ روایت اپنے تینوں استادوں سے ایک ہی وقت میں سنی ہو گی لیکن کیا ان استادوں نے بھی یہ روایت اپنے استاد سے ایک ہی وقت میں سنی ہے یہ دعوی کرنا ہی نری جہالت ہے!
اگر اس نئے اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو کتنے ہی راوی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے استاد سے ان کے اختلاط کے بعد سنا ہے لیکن اس اصول کی وجہ سے آپ کو ان کی روایت بھی قبل از اختلاط تسلیم کرنی پڑے گی۔ اس کی فی الحال پانچ مثالیں درج ذیل ہیں:
1) امام ابو بکر بن ابی دنیاء اپنی کتاب الاھوال میں روایت کرتے ہیں کہ: "
ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ" (1/215)
الجریری یعنی سعید بن ایاس ایک مختلط راوی ہیں۔ اس سند میں اسماعیل بن علیہ اور یزید بن ہارون ایک ساتھ ان سے روایت کر رہے ہیں۔ لیکن یزید بن ہارون کا جریری سے سماع بعد از اختلاط ہے اور اسماعیل بن علیہ کا قبل از اختلاط! چنانچہ، امام یحیی بن معین سے پوچھا گیا، "
فمن سمع عنه قبل الاختلاط قَالَ إسماعيل..." یعنی ان سے اختلاط سے پہلے کس نے سنا تو کہا اسماعیل نے (الکامل: 4/446)۔
اور یزید بن ہارون کے متعلق امام عجلی وغیرہ نے فرمایا: "
روي عنه في الإختلاط يزيد بن هارون..." (الثقات: ص 181)۔
لیکن چونکہ دونوں اس سند میں ایک ساتھ آئے ہیں تو معترض کے نزدیک تو دونوں کا سماع قبل از اختلاط ہونا چاہیے!!
2) امام ابو بکر بن ابی شیبہ المصنف میں روایت کرتے ہیں کہ: "
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَوَكِيعٌ، عَنْ سَعِيد" (ح 2884)۔
اس سند میں سعید بن ابی عروبہ مشہور مختلط راوی ہیں۔ لیکن عبدہ کا سماع سعید سے قبل از اختلاط ہے اور وکیع کا سماع بعد از اختلاط۔ لیکن چونکہ جناب اپنے نئے من گھڑت اصول کو اپنائے ہوئے ہیں اس لئے ان کے نزدیک دونوں کا سماع قبل از اختلاط ہونا چاہئے!
3) اسی طرح امام ابو عمر بن عبد البر کتاب الاستذکار میں صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ: "
حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، قَالا: حَدَّثَنِي قَاسِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ" (8/320)۔
اس سند میں وکیع کا سماع سعید سے بعد از اختلاط ہے جبکہ محمد بن بشر العبدی کا سماع قبل از اختلاط ہے، چنانچہ امام احمد، محمد بن بشر کے متعلق فرماتے ہیں: "
من سمع منه بالكوفة مثل محمد بن بشر وعبدة فهو جيد" (العلل روایۃ عبد اللہ: 1/163)۔
لیکن ہمارے معترض کو کیا فرق پڑتا ہے کہ امام احمد نے تصریح کر دی یا نہیں، ان کے مطابق تو دونوں کا سماع قبل از اختلاط ہی بنتا ہے نا!؟
4) امام عبد الرزاق بن ہمام روایت کرتے ہیں: "
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنا مَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ" (مصنف عبد الرزاق: 8654، والمعجم الکبیر للطبرانی: 13265)
اس سند میں امام عطاء بن السائب مشہور مختلط راوی ہیں۔ ان کے متعلق حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کہا ہے کہ: "
فيحصل لنا من مجموع كلامهم أن سفيان الثوري وشعبة وزهيرا وزائدة وحماد بن زيد وأيوب عنه صحيح ومن عداهم يتوقف فيه" یعنی ان کی روایت صرف ثوری، شعبہ، زہیر، زائدہ، حماد، اور ایوب سے ہی صحیح ہے باقی سب کی طرف سے توقف کیا جائے گا۔ اور اس سند میں معمر بن راشد بھی ثوری کے ساتھ یہ روایت کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اس نئے اصول کے مطابق ابن حجر کو غلطی لگی کہ انہوں نے معمر کا نام قبل از اختلاط والے رایوں کی لسٹ میں نہیں ڈالا، اور یہ صاحب کئی سو سال بعد آ کر ابن حجر کی تصحیح کر رہے ہیں۔واقعی، اگر یہ صاحب آ کر ہمیں یہ اصول نا بتاتے تو ہم تو برباد ہی ہو جاتے!
5) امام ابو داود الطیالسی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ: "
حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، وَزُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ" (1493)۔
اس سند میں شریک اور زہیر دونوں ابو اسحاق السبیعی سے روایت کر رہے ہیں جبکہ شریک کا ابو اسحاق سے سماع قبل از اختلاط ہے اور زہیر بن معاویہ کا بعد از اختلاط۔
الغرض یہ اصول جو معترض نے اپنی طرف سے ایجاد کیا ہے بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔ موصوف کو چاہیے کہ اگر ایک اصول ایجاد کیا ہے تو پھر باقی جگہوں پر بھی اسے اپناؤ اور اوپر بیان کیے گئے تمام راویوں اور بہت سے دوسرے جن کا ذکر یہاں نہیں ہے، کی بعد از اختلاط روایتوں کی بھی تصحیح کر دو۔ جہاں تک محدثین کے اصول کا سوال ہے تو الحمد للہ یہ صاحب ابن عسکر کا سماع قبل از اختلاط ثابت کرنے سے بالکل عاجز ہیں اسی لئے ایسے من گھڑت اصولوں کا سہارا لے رہے ہیں!
دوسرا اعتراض:
ابن عسکر کے سماع کو قبل از اختلاط ثابت کرنے کے لئے ایک اور اشکال جو غالبا انہی کی طرف سے آیا ہے جس کے مطابق: محمد بن یحیی الذہلی ایک راوی ہیں جنہوں نے عبد الرزاق سے قبل از اختلاط سنا ہے اور ان کی وفات 258 میں ہوئی، اور محمد بن سہل ان کے استاد ہیں (دیکھیں تہذیب الکمال) اور محمد بن سہل کی وفات 231 میں ہوئی ہے۔ تو گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ ابن عسکر، محمد بن یحیی الذہلی کے استاد ہیں اور ان کے پہلے فوت ہوئے ہیں تو مطلب ابن عسکر نے بھی لازما ذہلی سے پہلے ہی عبد الرزاق سے سنا ہو گا۔ سبحان اللہ!
ایک اور جہالت بھرا اصول جس کا نہ کوئی سر اور نہ پیر۔ سب سے پہلے تو محمد بن سہل بن عسکر کی تاریخ وفات غلط بتائی گئی ہے۔ ابن عسکر 231 میں نہیں بلکہ 251 میں فوت ہوئے، دیکھیں عام کتب رجال۔
دوسرا یہ کہ اگر ابن عسکر ذہلی کے استاد ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ابن عسکر نے ہر ہر راوی سے سماع ذہلی سے پہلے کیا ہو۔ اگر یہ اصول اپنایا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابن عسکر امام احمد کے شاگرد ہیں اور اس اصول کے مطابق ان کا سماع بھی عبد الرزاق سے امام احمد کے بعد ہونا چاہیے! اور امام احمد ہی کے بقول انہوں نے عبد الرزاق سے قبل 200 ھ میں سماع کیا ہے جس کے بعد وہ مختلط ہو گئے تھے۔ تو اگر ابن عسکر ان کے بعد سماع کریں تو وہ اختلاط کی حالت میں ہو گا!! لیکن یہ اصول ہی سرے سے غلط اور من گھڑت ہے!
مزید یہ کہ اگر ابن عسکر ذہلی سے پہلے فوت ہوئے تو بھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے عبد الرزاق سے بعد از اختلاط سنا اور ان کی وفات ابن عسکر سے بھی پہلے ہوئی۔ چنانچہ حافظ العراقی نے جن لوگوں کی عبد الرزاق سے روایت بعد از اختلاط بتائی ہے ان میں "أحمد بن محمد بن شبوية" بھی شامل ہیں اور ان کی وفات 230 ھ میں ہوئی، یعنی ابن عسکر سے بھی21 سال پہلے! لہٰذا ایسے بچکانہ اصولوں سے وہی شخص حجت پکڑ سکتا ہے جو یا تو علوم الحدیث سے بالکل جاہل ہو یا جان بوجھ کر اپنی نا پسندیدہ روایتوں کا انکار کرنے کے لئے ایسے الٹے سیدھے راستے اپنائے!
اہم فوائد:
- ابن عسکر کی جس روایت سے عبد الرزاق کی تدلیس پر استدلال کیا جاتا ہے اس کو کئی محدثین نے بیان کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اسے عبد الرزاق کی تدلیس کے ثبوت میں کبھی پیش نہیں کیا۔
- امام عبد الرزاق سے یہی روایت تین چار اور راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی عبد الرزاق نے ثوری سے براہ راست روایت نہیں کیا بلکہ واسطہ کے ساتھ روایت کیا ہے اور صرف ابن عسکر نے ہی بلا واسطہ عبد الرزاق سے اسے روایت کیا ہے جس سے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے ابن عسکر نے یہ روایت بعد از اختلاط روایت کی ہو یا انہیں غلطی لگی ہو۔ (دیکھیں، الکامل لابن عدی: 6/542)
- اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام خطیب بغدادی نے اس روایت کو امام طبرانی سے روایت کرنے کے بعد کہا: "قال الطبراني روى هذا الحديث جماعة عن عبد الرزاق عن الثوري نفسه ووهموا والصواب ما رواه بن أبى السرى ومحمد بن مسعود العجمي عن عبد الرزاق عن النعمان بن أبى شيبة" یعنی امام طبرانی نے کہا کہ اس روایت کو ایک جماعت نے عبد الرزاق سے ثوری سے روایت کیا لیکن اس میں ان کو غلطی لگی اور صحیح روایت وہی ہے جو ابن ابی السری اور محمد بن مسعود العجمی نے عبد الرزاق عن النعمان بن ابی شیبہ سے روایت کی ہے (تاریخ بغداد: 3/302)۔ الغرض اس روایت سے عبد الرزاق کی تدلیس کو ثابت کرنے کی بجائے الٹا امام طبرانی اسے ان سے روایت کرنے والے راویوں کا وہم قرار دے رہے ہیں!
- اوپر معترض نے خود بیان کیا ہے کہ محمد بن رافع کا سماع امام عبد الرزاق سے قبل از اختلاط کا ہے۔ تو عرض ہے کہ یہی روایت محمد بن رافع نے بھی عبد الرزاق سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے بھی اس میں عبد الرزاق اور ثوری کے درمیان واسطہ ذکر کیا ہے!! (دیکھیں، المستدرک الحاکم: 3/153 و الکامل لابن عدی: 6/542)۔ تو جس کا سماع قبل از اختلاط صراحتا ثابت ہے اس کی روایت پر اعتماد کیا جائے گا یا اس شخص کا جس کا سماع قبل از اختلاط ثابت ہی نہیں!؟ قبل از اختلاط والے راوی نے تو صراحتا اسے بالواسطہ روایت کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ جس شخص کا سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں اس نے ضرور بعد از اختلاط ہی روایت کیا ہو گا جس کی وجہ سے اس نے مخالفت کی ہے۔
خلاصۃ الکلام:
امام عبد الرزاق کی تدلیس ثابت کرنے والی روایت بالکل ضعیف ہے اور ابن عسکر کا سماع عبد الرزاق سے قبل از اختلاط ہرگز ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا امام عبد الرزاق تدلیس سے برئ ہیں، والحمدللہ
اللہ حق کو بغیر کسی تعصب کے تسلیم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔