بھائی سب سے پہلی بات تو یہ کہ اماں عایشہ رضی اللہ عنہا کا ایسا کوئی اصول نہیں تھا. اور اگر ہم مان بھی لیں تھوڑی دیر کے لئے کہ ان کا یہ اصول تھا(جو کہ نہیں تھا) تو یہ اصول خد قرآن پاک کے اصولوں کے خلاف ہے. جو کہ ہمارے لیے کابل حجت نہیں.
یہ اصول خد قرآن مجید کی نص سے ٹکراتا ہے..
اور آپکی غلط فہمی کا جواب اس ویڈیو میں موجود ہے کہ ایسا کوئی اصول اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا نیہں
السلام وعلیکم-
بخاری کی یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ قرآن کریم کو دلیل بناتی تھیں -
بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا، " اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے جواب دیا " تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ " (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ نے یہ فرمائی کہ ) " جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے " ۔ پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں:
لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا " لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "
ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا " اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰؑ کے درمیان تقسیم کر دیا تھا موسیؑ ٰ سے اس نے دو مرتبہ کلام کیا اور محمدﷺنے دو مرتبہ اس کو دیکھا " ۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا " کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے فرمایا " تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے " ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں ۔