• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اماں عائشہ رصی اللہ عنہا حدیث کو ٖقرآن پر پیش کرتی تھی؟؟؟

شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
اماں عائشہ قرآن کو اللہ کا کلام اور رسول اللہ صل اللہ علیھ و سلم کو اللہ کا رسول سمجھتی تھیں۔ اسلیے رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے حکم کو بھی اللہ کا حکم سمجھتی تھیں۔ کیونکہ انکو یہ معلوم تھا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں "وما ینطق عن الھوی ۔ ان ھو الا وحی یوحی۔ یعنی یہ رسول اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے جب ان پر وحی کی جاتی ہے تو کہتے ہیں۔"
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اماں عائشہ قرآن کو اللہ کا کلام اور رسول اللہ صل اللہ علیھ و سلم کو اللہ کا رسول سمجھتی تھیں۔ اسلیے رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے حکم کو بھی اللہ کا حکم سمجھتی تھیں۔ کیونکہ انکو یہ معلوم تھا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں "وما ینطق عن الھوی ۔ ان ھو الا وحی یوحی۔ یعنی یہ رسول اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے جب ان پر وحی کی جاتی ہے تو کہتے ہیں۔"
السلام و علیکم و رحمت الله -

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن و احادیث نبوی دونوں دین میں حجت کی حیثیت رکھتے ہیں -

لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ بعض مرتبہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بھی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی کسی بات یا حکم کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے تھے- اور اگر یہ حکم یا بات بظاھر قرآن کی صریح نص ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی تھی تو اماں عائشہ رضی الله عنہ اس وقت ایک فقیہہ کی حیثیت سے اس بات کو واضح کرنے کے لئے قرآن کی آیات کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرتیں تھیں تا کہ صحابہ کرام کے ذہنوں میں اس حکم یا واقعہ سے متعلق کوئی الجھن نہ رہے - جیسے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے معراج کے موقعے پر الله کی رویت کے بارے میں اور پھر بدر کے مقتولین سے خطاب سے متعلق صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی غلط فہمی کو اماں عائشہ رضی الله عنہ نے قرانی آیات کے ذریے ہی دفع کیا-
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
بھائی سب سے پہلی بات تو یہ کہ اماں عایشہ رضی اللہ عنہا کا ایسا کوئی اصول نہیں تھا. اور اگر ہم مان بھی لیں تھوڑی دیر کے لئے کہ ان کا یہ اصول تھا(جو کہ نہیں تھا) تو یہ اصول خد قرآن پاک کے اصولوں کے خلاف ہے. جو کہ ہمارے لیے کابل حجت نہیں.
یہ اصول خد قرآن مجید کی نص سے ٹکراتا ہے..

اور آپکی غلط فہمی کا جواب اس ویڈیو میں موجود ہے کہ ایسا کوئی اصول اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا نیہں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بھائی سب سے پہلی بات تو یہ کہ اماں عایشہ رضی اللہ عنہا کا ایسا کوئی اصول نہیں تھا. اور اگر ہم مان بھی لیں تھوڑی دیر کے لئے کہ ان کا یہ اصول تھا(جو کہ نہیں تھا) تو یہ اصول خد قرآن پاک کے اصولوں کے خلاف ہے. جو کہ ہمارے لیے کابل حجت نہیں.
یہ اصول خد قرآن مجید کی نص سے ٹکراتا ہے..

اور آپکی غلط فہمی کا جواب اس ویڈیو میں موجود ہے کہ ایسا کوئی اصول اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا نیہں
السلام وعلیکم-

بخاری کی یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ قرآن کریم کو دلیل بناتی تھیں -

بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا، " اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے جواب دیا " تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ " (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ نے یہ فرمائی کہ ) " جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے " ۔ پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں: لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا " لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا "

ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا " اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰؑ کے درمیان تقسیم کر دیا تھا موسیؑ ٰ سے اس نے دو مرتبہ کلام کیا اور محمدﷺنے دو مرتبہ اس کو دیکھا " ۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا " کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے فرمایا " تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے " ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں ۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
میرے دوست اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا خود قرآن کی آیت کے بعد حدیث کا ذکر کر رہی ہیں ۔جس سے یہ اصول ان لوگوں کا باطل صابت ہوتا ہے کہ جو اماں عائشہ پر یہ بہتان لگاتے ہیں۔
اور میں نے اس سے پہلے والے کمنٹ میں اس کی وضاحت کی ہے۔مہربانی کرکے وہ کمٹ پڑھیں اور اوپر دی ہوئی ویڈیو دیکھیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے دوست اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا خود قرآن کی آیت کے بعد حدیث کا ذکر کر رہی ہیں ۔جس سے یہ اصول ان لوگوں کا باطل صابت ہوتا ہے کہ جو اماں عائشہ پر یہ بہتان لگاتے ہیں۔
اور میں نے اس سے پہلے والے کمنٹ میں اس کی وضاحت کی ہے۔مہربانی کرکے وہ کمٹ پڑھیں اور اوپر دی ہوئی ویڈیو دیکھیں۔
بجا فرمایا ۔
در حقیقت یہ ’’ غلط فہمی ‘‘ ہے ۔ حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وارد اس طرح کی مثالوں میں قرآن سے حدیث کا رد نہیں ، بلکہ اس میں راوی کی روایت میں غلطی کا بیان ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرے دوست اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا خود قرآن کی آیت کے بعد حدیث کا ذکر کر رہی ہیں ۔جس سے یہ اصول ان لوگوں کا باطل صابت ہوتا ہے کہ جو اماں عائشہ پر یہ بہتان لگاتے ہیں۔
اور میں نے اس سے پہلے والے کمنٹ میں اس کی وضاحت کی ہے۔مہربانی کرکے وہ کمٹ پڑھیں اور اوپر دی ہوئی ویڈیو دیکھیں۔
شاید آپ غلط سمجھ رہے ہیں - میرا مطلب یہ نہیں کہ اماں عائشہ رضی الله عنہ ہر معاملے میں قرآن کو احادیث نبوی پر فوقیت دیتی تھیں - بلکہ وہ قرآن کی آیت کو حجت کے طور پر اس وقت پیش کرتی تھیں جب انھیں محسوس ہوتا تھا کہ فلاں صحابی کی بات قرآن کی واضح نصوص سے ٹکرا رہی ہے- کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ قرآن و حدیث دونوں کی حیثیت وحی الہی کی ہے اوردونوں میں حقیقی طور پر تعارض نہیں ہوسکتا -
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
جی بلکل صحیح فرمایا آپ کے
سمجھنے والے کی عقل قرآن و حدیث کے خلاف ہوتی ہے.
 
Top