• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد تھے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
512
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد تھے؟

حدیث سفینہ رضی اللہ عنہ کی صحت اور انجینیئر محمد علی مرزا صاحب کو جواب

تحریر : ڈاکٹر حافظ محمد زبیر


انجینیئر محمد علی مرزا صاحب اپنے ریسرچ پیپر المعروف ہائیڈروجن بم ’’واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر‘‘ میں پہلے باب کے ذیل میں، ص 2 پر، سنن ابی داؤد کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں یہ ہے کہ حضرت سفینہ، مولی ام سلمہ رضی اللہ عنہما، یہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی طرز پر خلافت تیس سال رہے گی، پھر اللہ جسے چاہے گا، حکومت دے گا۔ یہ روایت مرزا صاحب کے اس کتابچے کی بنیادی ترین روایت ہے۔ مرزا صاحب کا کل مقدمہ صرف اس ایک روایت کے سہارے کھڑا ہے اور اگر اس ایک روایت کو نکال دیا جائے تو مرزا صاحب کے مقدمے کی کل عمارت ریت کے ڈھیر کی طرح زمین بوس ہو جاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس اس روایت کے علاوہ اپنے موقف کے حق میں کوئی ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔

مرزا صاحب کا مقدمہ یہ ہے کہ اس امت میں ’’خلافت علی منہاج النبوۃ‘‘ یعنی نبوی طرز کی خلافت تیس سال تک رہی ہے، اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور سے ملوکیت شروع ہو گئی۔ یہی مقدمہ مولانا مودودی کا تھا۔ اس موقف پر سب سے بڑا اعتراض تو یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعت کے ذریعے اسلام کا جو نظام اور عمارت کھڑی کی تھی، وہ تمہارے بقول تیس سال ہی بمشکل قائم رہ سکی۔ اور اب تمہارا زعم اور گمان یہ ہے کہ تمہاری تحریک خلافت اور انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں تمہاری جماعت کے کارکنان کے ہاتھوں جو اسلامی نظام قائم ہو گا، وہ تیس سال سے زائد کا عرصہ گزار جائے گا۔ تو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن میں اتنے کامیاب نہیں رہے جتنی کامیابی تم حاصل کر لو گے۔

مطلب، اس دعوے کے بعد غیر مسلموں کو تم کس منہ سے اسلامی نظام کے اختیار کرنے کی دعوت دے سکتے ہو کہ جو تیس سال بھی نہ کھڑا رہ سکا، اسے تم کہہ رہے ہو کہ پوری دنیا پر نافذ کر دو۔ اس سے بڑھ کر اس نظام کی ناکامی کی کیا دلیل ہو گی کہ ستر سال تو کمیونزم جیسا نظام بھی گزار گیا۔ تو یہ اس دین پر بھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اور صحابہ کرام کی جماعت پر بھی بہت بڑا طعن ہے کہ جو اسلامی نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قائم کر کے گئے تھے، وہ تیس سال میں زمین بوس ہو چکا تھا، اسلام کا جو قلعہ اور عمارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعت کے ساتھ مل کر تعمیر کیا تھا، وہ تیس سال میں مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اب اس سے بڑھ کر اس نظام اور دین کی ناکامی کی کیا دلیل ہے جو تم اپنے دشمنوں کو دے سکتے ہو؟ ساتھ میں یہ بڑھک مار کر کہ اب دوسری دفعہ جب ہم اسے قائم کریں گے تو یہ تیس سال سے زیادہ چل جائے گا!

جہاں تک روایت سفینہ کی بات ہے تو یہ روایت ثابت نہیں ہے۔ اس روایت کو حشرج نے سعید بن جمہان سے، اور سعید بن جمہان نے سفینہ سے بیان کیا ہے۔ اس روایت کا مرکزی راوی سعید بن جمہان ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حشرج نے سعید بن جمہان سے سوال کیا کہ تم سفینہ سے کہاں ملے ہو؟ رضی اللہ عنہ۔ تو سعید بن جمہان نے جواب دیا: ’’لَقِيتُهُ بِبَطْنِ نَخْلَةَ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ، فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ ثَمَانِ لَيَالٍ أَسْأَلُهُ عَنْ أَحَادِيثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِكَ، سَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفِينَةَ.‘‘ ترجمہ: میں سفینہ سے وادی ںخلہ میں، حجاج کے زمانے میں ملا ہوں۔ اور میں اس کے پاس آٹھ راتیں رہا ہوں اور اس سے احادیث رسول کے بارے سوال کرتا رہا ہوں۔ میں [سعید بن جمہان] نے اس [سفینہ] سے یہ بھی سوال کیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنا نام نہیں بتلاؤں گا، میرا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفینہ یعنی کشتی رکھا ہے۔

مسند احمد کی اس روایت کو شعیب ارنووط نے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ اب یہاں اس روایت میں دو باتیں اہم ہیں کہ سعید بن جمہان نے سفینہ سے ملاقات کا وقت اور جگہ دونوں بتلائی ہیں۔ جگہ تو وادی نخلہ ہے جو مکہ اور طائف کے مابین ہے اور زمانہ، حجاج کا ہے۔ تو حجاج کو عبد الملک بن مراون نے یکم ذی الحجہ 72ھ کو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے لیے مکہ المکرمہ کی طرف امیر لشکر بنا کر بھیجا تھا۔ یہ محاصرہ 17 جمادی الاولی 73ھ تک جاری پانچ ماہ اور سترہ دن تک جاری رہا۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خاتمے کے بعد حجاج کو عبد الملک بن مروان کی طرف سے یہاں یعنی حجاز کا گورنر بنایا گیا اور حجاج بن یوسف دو سال یعنی 73-75ھ میں حجاز کا گورنر رہا۔ اس کے بعد کثرت شکایات کی وجہ سے اسے حجاز کی گورنری سے معزول کر کے عراق کا گورنر لگا دیا گیا تھا۔

تو وادی نخلہ یعنی حجاز میں حجاج کی گورنری کا زمانہ 73-75ھ ہے۔ اور سفینہ کی وفات 71ھ میں ہو چکی تھی تو سعید بن جمہان کی ملاقات، وادی نخلہ میں اور حجاج کے زمانے میں، سفینہ سے کیسے ممکن ہے جبکہ وہ اس سے دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے! امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تاریخ ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ میں 71ھ میں فوت ہونے والوں میں سفینہ مولی ام سلمہ رضی اللہ عنہما کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ علامہ مجیر الدین العلیمی اپنی کتاب ’’التاريخ المعتبر في أنباء من غبر‘‘ میں سفینہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات 71ھ ذکر کرتے ہیں۔ البتہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’تاریخ الاسلام‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ ستر کے بعد فوت ہو گئے تھے تو وہ یہی 71ھ ہی بنتا ہے۔ علامہ یحی بن ابی بکر الیمنی نے لکھا کہ 70ھ کے فورا بعد ہی ان کی وفات ہو گئی تھی اور ایک قول البتہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے حجاج کا زمانہ بھی پا لیا تھا اور اسے انہوں نے قیل کے ذریعے بیان کیا ہے، جو کہ ضعف کی طرف اشارہ ہے۔

تو یہ ملاقات ممکن نہیں ہے لہذا سعید بن جمہان اور سفینہ کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ تو جب ملاقات ثابت نہیں ہے اور سعید بن جمہان کے بقول زندگی میں ملاقات بھی ایک ہی ہوئی ہے اور وہ بھی ثابت نہ ہو سکی تو پھر یہ روایت کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟ البتہ یہ امکان ہے کہ سعید بن جمہان کی کسی سے ملاقات ہوئی ہو، وادی نخلہ میں، حجاج کے زمانے میں، 73-75ھ میں، لیکن وہ سفینہ نہیں تھے بلکہ کوئی اور صاحب تھے، جنہوں نے اپنے آپ کو سفینہ بنا کر پیش کیا ہو کہ وہ کوئی معروف صحابہ میں سے تو تھے نہیں۔ اور یہ زمانہ بھی یعنی ملاقات کا زمانہ، فتنوں کا تھا تو بہت غالب امکان ہے کہ کسی شخص نے سعید بن جمہان کو دھوکا دیا ہو کہ وہ سفینہ ہے۔ اس احتمال کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ وہ شخص اپنا نام بتلانے سے کترا رہا ہے اور سعید بن جمہان کے سوال کے جواب میں یہی کہہ رہا ہے کہ میں اپنا اصلی نام نہیں بتلاؤں گا اور میرا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفینہ رکھا ہے۔

بہر حال معاملہ جو بھی ہو، سعید بن جمہان پر شک کیا جائے کہ اس کا بیان درست نہیں ہے اور اس کی بھی گنجائش موجود ہے کہ بعض ائمہ جرح وتعدیل نے سعید بن جمہان پر نقد کی ہے جیسا کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے کہا ہے کہ ’’لایکتب حدیثہ ولایحتج بہ‘‘ کہ اس کی حدیث لکھی نہیں جائے گی اور نہ ہی اس سے حجت پکڑی جائے گی۔ اور ایسے راوی کی وہ روایات کہ جن میں وہ منفرد ہو، قابل حجت نہیں ہوتیں اور یہ راوی اس روایت کے سفینہ سے بیان کرنے میں منفرد ہے، رضی اللہ عنہ۔

تیسری بات یہ کہ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں اور ابن العربی رحمہما اللہ نے ’العواصم من القواصم‘‘ میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے لیکن یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ بعضوں نے صحیح بھی کہا ہے البتہ یہ ایک اضافی نکتہ ہے جو ہم نے بیان کر دیا۔ چوتھی بات یہ کہ حدیث سفینہ، مسلم کی صحیح روایت سے متعارض ہے جیسا کہ استاذ الخطیب نے ذکر کیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں بارہ خلفاء کا ذکر ہے کہ حدیث سفینہ میں چار کا ہے۔ علامہ البانی نے اس کا جواب دیا کہ دونوں میں جمع ممکن ہے لہذا تعارض رفع ہو گیا۔ اور جمع یہ ہے کہ حدیث سفینہ میں ’’خلافت نبوت‘‘ کا ذکر ہے اور صحیح مسلم کی روایت میں محض ’’خلافت‘‘ کا تذکرہ ہے۔ لیکن علامہ البانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ میں یہ جواب نقل کرتے وقت صحیح مسلم کے اس طریق کو نقل نہیں کیا کہ جس میں یہ موجود ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں بھی ’’خلافت نبوت‘‘ ہی کی بات ہو رہی ہے لہذا تعارض باقی ہے تو مسلم کی روایت کو ترجیح حاصل ہو گی کیونکہ دوسری روایت ضعیف ہے یا کم از کم اس کے ضعف میں اختلاف ہے۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ’’لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا‘‘ ترجمہ: دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ بارہ خلفاء نہ گزر جائیں۔ تو دین قائم رہے گا، یہ الفاظ اس معنی میں صریح ہیں کہ بارہ خلفاء کی خلافت، نبوی خلافت ہو گی کہ جس میں دین اسلام قائم رہے گا۔ صحیح مسلم ہی کے ایک دوسرے طریق میں ’’لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ عَزِيزًا مَنِيعًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی یہ دین، یہ دین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ دین ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قائم ہے۔ اس دین کے بارے آپ نے خبر دی ہے کہ وہ دین بارہ خلفا تک ’’عزیزا‘‘ یعنی اپنی پوری شان وشوکت اور ’’منیعا‘‘ یعنی مکمل حفاظت کے ساتھ موجود رہے گا۔

اب یہ کہنا کہ فلاں فلاں محدث نے حدیث سفینہ کو صحیح کہا ہے تو یہ اس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ورنہ تو علامہ ابن خلدون اور ابن العربی رحمہما اللہ نے حدیث سفینہ کو ضعیف کہا ہے۔ اور ویسے بھی ہم ایک ایسے شخص سے مخاطب ہیں جو ’’بابی‘‘ نہیں ہے، جس کا نعرہ ہی یہ ہے کہ ’’نہ میں بابی، نہ میں وہابی، میں ہو مسلم، علمی کتابی‘‘۔ تو اب مسلم علمی کتابی کو دلیل کے مقابلے میں دلیل سے بحث کرنی چاہیے۔ اور ہماری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث سفینہ کے مرکزی راوی سعید بن جمہان کی سفینہ مولی ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا یہ روایت ثابت نہیں ہے۔
 
Top