• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا انبیاء علیہ السلام اور اولیاء اللہ کا وسیلہ جائز ہے ؟؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا انبیاء علیہ السلام اور اولیاء اللہ کا وسیلہ جائز ہے ؟؟؟؟

1622805_1449311461966513_1616247994_n.jpg
 

afroz.saddam

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2019
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
7
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا یہ حدیث صحیح ہے کیا اس طرح وسیلہ لینا جائز ہے برائے مہربانی اس کا جواب دے آپ کابھائی افروز صدام


Sent from my SM-J250F using Tapatalk
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
دعائے غیر اللہ کے بارے میں حنفی علما کے اقوال
۱۔جس شخص نے مشائخ و اولیا کی روحوں کے حاضر ہونے کا دعوی کیا وہ کافر ہے۔(فتح القدیر۴۰۹:۴)
۲۔جو شخص میت کے بارے میں کائنات کے تصرف و تدبر کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔(رد المختار۴۳۹:۲)
۳۔یا شیخ عبدالقادر شیا اللہ(شیخ عبدلقادر:اللہ کے لیے کچھ کیجیے)یہ جملہ کفر ہے۔(الفتاوی الخیریہ۱۸۲:۱)
۴۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحہ شرک کی مختلف اقسام زکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:یہ بھی شرک ہے کہ غیر اللہ سے حاجت براری،مشکل کشائی اور مرض سے شفا کا سوال کیا جائے یا اپنے مقاسد کی تکمیل کے لیے غیر اللہ کے لیے نزذ نیاذ دی جائے یا ان کے ناموں کا وظیفہ کیا جائے۔جبکہ اللہ نے ہمیں نماز میں یہی حکم دیا ہے۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ نیز اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو۔(حجۃ اللہ البالغہ۶۲:۱)
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197

afroz.saddam

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2019
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
7
Musnad Ahmed Hadees # 5678

۔ (۵۶۷۸۔) عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِیرًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُعَافِیَنِی، فَقَالَ: ((إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذٰلِکَ فَہُوَ أَفْضَلُ لِآخِرَتِکَ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ لَکَ۔)) قَالَ: لَا، بَلِ ادْعُ اللّٰہَ لِی فَأَمَرَہُ أَنْ یَتَوَضَّأَ وَأَنْ یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ، وَأَنْ یَدْعُوَ بِہٰذَا الدُّعَائِ، ((اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہٰذِہِ فَتَقْضِی وَتُشَفِّعُنِی فِیہِ وَتُشَفِّعُہُ فِیَّ)) (مسند أحمد: ۱۷۳۷۳)

۔ سیدنا عثمان بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہتا ہے تو میں اس دعا کو مؤخر کر دیتا ہوں، یہ تیری آخرت کے لیے افضل ہو گا، اور اگر تو چاہتا ہے تو میں تیرے لیے دعا کر دیتا ہوں۔ اس نے کہا: نہیں، بس آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا ہی کر دیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے اور یہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہٰذِہِ فَتَقْضِی وَتُشَفِّعُنِی فِیہِ وَتُشَفِّعُہُ فِیَّ۔ (اے اللہ! بیشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوتاہے،جو کہ رحمت والے نبی ہیں، اے محمد! میں اپنی ضرورت پورا کروانے کے لیے آپ کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، پس (اے اللہ!) تو میری حاجت پوری کر دے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سفارش میرے حق میں قبول فرما)۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے حق میں میرے سفارش قبول فرما۔
Sahih Hadees



Sent from my SM-J250F using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
Musnad Ahmed Hadees # 5678

۔ (۵۶۷۸۔) عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِیرًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُعَافِیَنِی، فَقَالَ: ((إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذٰلِکَ فَہُوَ أَفْضَلُ لِآخِرَتِکَ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ لَکَ۔)) قَالَ: لَا، بَلِ ادْعُ اللّٰہَ لِی فَأَمَرَہُ أَنْ یَتَوَضَّأَ وَأَنْ یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ، وَأَنْ یَدْعُوَ بِہٰذَا الدُّعَائِ، ((اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہٰذِہِ فَتَقْضِی وَتُشَفِّعُنِی فِیہِ وَتُشَفِّعُہُ فِیَّ)) (مسند أحمد: ۱۷۳۷۳)

۔ سیدنا عثمان بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہتا ہے تو میں اس دعا کو مؤخر کر دیتا ہوں، یہ تیری آخرت کے لیے افضل ہو گا، اور اگر تو چاہتا ہے تو میں تیرے لیے دعا کر دیتا ہوں۔ اس نے کہا: نہیں، بس آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا ہی کر دیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے اور یہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہٰذِہِ فَتَقْضِی وَتُشَفِّعُنِی فِیہِ وَتُشَفِّعُہُ فِیَّ۔ (اے اللہ! بیشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوتاہے،جو کہ رحمت والے نبی ہیں، اے محمد! میں اپنی ضرورت پورا کروانے کے لیے آپ کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، پس (اے اللہ!) تو میری حاجت پوری کر دے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سفارش میرے حق میں قبول فرما)۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے حق میں میرے سفارش قبول فرما۔
Sahih Hadees



Sent from my SM-J250F using Tapatalk
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اس حدیث کا ہر ٹکڑا دعُا کو ثابت کر رہا ہے!

نابینا شخص کا دعُا کا درخواست کرنا۔
آپ ﷺ کی طرف سے دعُا اور صبر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی تلقین فرمانا۔
لیکن نابینا شخص کا دعُا پر اصرار کرنا۔
آپﷺ کا نابینا شخص کو دعُا سکھانا اور خود بھی دعُا فرمانا۔
نابینا شخص کی دعُا کی قبولیت کے لیے دعُا کرنا۔

یہ سب باتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس حدیث میں حضورﷺ کی ذاتِ مبارک کا وسیلہ لینا کا کوئی تصور ہی نہیں، بلکہ صرف دعُا کے وسیلہ کی تکرار ہے اور دعُا کا وسیلہ مشروع ہے، آپﷺ نے بھی دعُا فرمائی اور اس نابینا شخص نے بھی، اللہ نے دعُا قبول فرمائی اور نابینا شخص بینا ہوگیا، اور اگر آپﷺ کے جاہ، حق اور ذات کا وسیلہ مقصود ہوتا تو اس نابینا شخص کو تکلیف اُٹھا کر حضورﷺ کی مجلس میں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے یہ دعُا کرلیتا کہ اے اللہ، اپنے نبی کے جاہ و مرتبہ کے وسیلے سےمیری روشنی لوٹا دے، لیکن ایسا نہ وہ سمجھتا تھا، نہ صحابہ کرامؓ ہی اس قسم کے وسیلے سے واقف تھے، نہ آنحضورﷺ اُس کو اِس کی اجازت دیتے، نیز صحابہ کرامؓ، محدثین و آئمہ کرام میں سے کسی نے اس واقعہ سے شخصیت اور ذاتِ نبویﷺ کے وسیلے کو نہیں سمجھا، سب نے دعُا کا وسیلہ سمجھا۔

اب جو لوگ اس حدیث کو اپنے مطلب کے مطابق استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کسی کے چاہنے سے حدیث کا مفہوم کیسے بدل سکتا ہے؟

اللہ تعالی ہمیں فہمِ صحیح عطا فرمائے اور احادیث کو اسی طرح سمجھنے کی توفیق بخشے جس طرح صحابہ کرامؓ اور ہمارے سلف صالحین سمجھتے تھے۔
 
Top