• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اہل کتاب کو مشرکین نہیں کہا جا سکتا؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا اہل کتاب کو مشرکین نہیں کہا جا سکتا؟

بسم الله الرحمن الرحيم

اہل کتاب مشرکین ہی ہیں اور یہ خود قران و سنت سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے ان کا شرک یوں بیان فرمایا ہے کہ :

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُ ۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ( التوبة ۳۰)

اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے ، یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں مارے ،کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟

اس آیت کریمہ میں یہود ونصاری ( اہل کتاب ) کا شرک بیان کیا گیا اور یہ صرف اس ایک آیت میں نہیں بلکہ کئی آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔

دوسری بات! غور کریں کہ : اس آیت میں اہل کتاب ( یہود ونصاری ) کو مشرکین کہا گیا ۔

دیکھیے : یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ

اب پہلے کس نے ایسا کہا ہے ؟

یہود ونصاری جو نبی ﷺ کے بعثت کے وقت موجود تھے ان میں سے بھی بعض کا یہ ہی عقیدہ تھا اور جو یہود ونصاری اس سے پہلے تھے ان کا بھی یہ ہی عقیدہ تھا ۔

اب یہ تو معلوم بات ہے کہ نبی ﷺ کے نبوت کے وقت اہل کتاب ( یہود ونصاری ) کا یہ شرکیہ عقیدہ اپنے گزرے ہوئے اسلاف سے تو منسلک ہے لیکن پھر ان کے اسلاف کا یہ شرکیہ عقیدہ کس سے منسلک تھا جو آیت میں بیان کیا گیا کہ : یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؟

لہذا معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کے زمانہ کے یہود ونصاری کا یہ شرکیہ عقیدہ اپنے اسلاف سے آیا تھا جبکہ خود یہود ونصاری کے اسلاف کا یہ شرکیہ عقیدہ گزرے ہوئے مشرکین سے ہی آیا تھا اسی وجہ سے تو ایت میں من قںل بیان فرمایا گیا:

یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ

امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہے :

فقلدوهم في الباطل واتبعوهم على الكفر ، كما أخبر عنهم بقوله تعالى : إنا وجدنا آباءنا على أمة

لہذا معلوم ہوا کہ اہل کتاب میں سے اس وقت بعض لوگ مشرکین بھی تھے لیکن کتابی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو مشرکین بھی کہا گیا ہے ۔


اسی طرح اللہ عزوجل فرماتے ہیں : لَمْ يَكُنِ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّـٰى تَاْتِـيَهُـمُ الْبَيِّنَةُ (البینہ ١ )

اہل کتاب میں سے کافر اور مشرک لوگ باز آنے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے۔

اب یہاں دیکھیے : یہاں بھی کفر میں اہل کتاب کے کفر اور مشرکین کے کفر دونوں کو ایک ساتھ شامل کیا گیا۔ اسی طرح کئی آیات قرآنیہ میں یہ ہی مضمون ہے۔

اب یہ کہ ان کو صراحتا مشرکین کیوں نہیں کہا گیا ہے ؟

تو پہلی بات یہ ہے کہ : کافر، مشرک اور منافق باعتبار حکم کے ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں

اللہ عزوجل فرماتے ہے : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
اسی طرح فرماتے ہے : إِنَّ اللّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا {النساء:140}

معلوم ہوا کہ ان تینوں انواع کے لیے ایک ہی حکم ہے !! فرق صرف ان کے درجات میں ہے نہ کہ حکم من حیث الحکم میں اور وہ ہے الخلود فی النار

دوسری بات : امام نووی رح مسلم کی شرح میں لکھتے ہے :
الشرك والكفر قد يطلقان بمعنى واحد
یعنی کفر وشرک کا اطلاق کبھی کبھار ایک ہی معنی پر ہوتا ہے
وقد يفرق بينهما
اور کبھی کبھار ( اعتباری طورپر ) دونوں کے مابین فرق کیا جاتا ہے ۔


پس جب فرق کیا جائے گا تو شرک خاص ہوگا اس وقت (کیونکہ بتوں کی یا اس کے علاوہ کی عبادت شرک کہلاۓ گی) اور کفر، شرک سے عام ہوگا ( کیونکہ جو فقط نبی ﷺ کی رسالت نہ مانے وہ کافر تو ہے لیکن مشرک نہیں ہے لیکن حکم آخرت / جہنم کے اعتبار سے ایک ہی ہوں گے یعنی نبوت کا انکار کرنے والا اور بت پرستی کرنے والا دونوں خلود فی النار ہیں، صرف درجات میں فرق ہے۔ اس لیے یہ بالکل بےجا بات ہے کہ اہل کتاب کو مشرکین نہیں کہا گیا ہے ۔

اب کوئی اعتراض کرے کہ ہم لوگ کلمہ گو مشرکین کو کیوں مشرکین کہتے ہے ؟

جواب یہ ہے کہ : یہ اعتراض تو آپ سیدھا اللہ عزوجل پر کر رہے ہو معاذ اللہ کیونکہ پھر تو اللہ عزوجل نے بھی توحید ربوبیت کا اقرار کرنے والے مشرکین کو مشرکین ہی کہا ہے۔

دیکھیے : مشرکین مکہ اللہ کو خالق، رازق تسلیم کرتے تھے جس پر کئی ایک آیات دال ہے ۔ بطور مثال:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے ۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں۔
﴿ۙسورة الزخرف: ۸۷﴾

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ
اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟﴿سورة العنكبوت: ۶۱﴾

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ
اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ کہو ، الحمدللہ ، مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔
﴿سورة العنكبوت: ۶۳﴾

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ

آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ’’ اللہ ‘‘ تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ۔
﴿سورة يونس: ۳۱﴾

مزید فرمایا:

قُلۡ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ
ان سے کہو ، بتاؤ، اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟ ﴿سورة المؤمنون: ۸۴﴾

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ
یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے ؟
﴿سورة المؤمنون: ۸۵﴾

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ
ان سے پوچھو ، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟
﴿سورة المؤمنون: ۸۶﴾

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ
وہ ضرور کہیں گے اللہ۔ کہو ، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟
﴿سورة المؤمنون۸۷﴾

قُلۡ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ
ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے ؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟
﴿سورة المؤمنون: ۸۸﴾

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ فَاَنّٰی تُسۡحَرُوۡنَ
یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ۔ کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کر دیئے جاتے ہو؟ ﴿سورة المؤمنون: ۸۹﴾

یہ اور اس جیسے باقی کثیر آیات اس پر گواہ ہے ۔

اسی طرح مشرکین مکہ بتوں کی عبادت ایسا نہیں کرتے تھے کہ وہ مشرکین ان بتوں کو اللہ کا درجہ دیتے تھے بلکہ وہ تو یہ کہتے تھے کہ یہ بت اللہ کے برابر نہیں ہیں بلکہ ہم فقط اس وجہ سے عبادت کرتے ہیں کہ

وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ

یعنی کہ صرف ہم اللہ کے نزدیک ہونے کے لیے انہیں مانتے ہیں

لیکن اللہ نے اسی آیت کے شروع میں فرمایا

أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ

کلمہ گو مشرک یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پاک اور ناپاک ایک کرنا جبکہ انہیں ایک کرنا ناممکن ہے۔ پاک ناپاک نہیں ہوتا اور ناپاک پاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح توحید شرک نہیں اور شرک توحید نہیں!
یا تو فقط ناپاک ہوگا یا فقط پاک !!
یا فقط توحید ہوگی یا فقط شرک!!

تیسری اور درمیانی کوئی چیز اس میں نہیں ۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Last edited:
Top