محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
اپنی نسبت اپنے والد کی طرف چھوڑ کر کسی اور کی طرف کرنا یعنی کسی اور کو اپنا والد کہنا واقعی ایک کبیرہ گناہ ہے چاہے کوئی لے پالک ہو یا نہ ہو، یہاں تک تو میں آپ سے متفق ہوں لیکن آپ نے اس آیت سے جو استدلال کیا ہے کہ اسی آیت کی رو سے بیوی بھی اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام نہیں لگا سکتی، تو مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب
مطلب یہ ہے کہ یہ حکم واقعی ہی منہ بولی اولاد کے سیاق میں ہے، لیکن نص کے الفاظ عام ہیں تو ایسی صورت میں نص کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ اس مخصوص واقعے کا جس کے سیاق میں نص وارد ہوا ہے۔
گویا اسی آیت کریمہ کی رو سے جو لے پالک نہ بھی ہو اسے بھی اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ نص کے عموم کا یہی تقاضا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱمْرَأَتَ نُوحٍ وَٱمْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَـٰلِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا وَقِيلَ ٱدْخُلَا ٱلنَّارَ مَعَ ٱلدَّٰخِلِينَ ﴿١٠﴾۔۔۔سورۃ التحریم
غور کیجئے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دو عورتوں کی نسبت ان کے شوہروں کی طرف کی ہے یعنی نوح علیہ السلام کی بیوی اور لوط علیہ السلام کی بیوی، حالانکہ یہ دونوں عورتیں کافروں میں سے تھیں اور جن کی یہ بیویاں تھیں وہ اللہ کے صالحین بندوں میں سے تھے، پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ (10)
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱمْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ٱبْنِ لِى عِندَكَ بَيْتًا فِى ٱلْجَنَّةِ وَنَجِّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِۦ وَنَجِّنِى مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿١١﴾۔۔۔سورۃ التحریم
غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک مومن عورت کی نسبت اس کے کافر شوہر کی طرف کی ہے، حالانکہ فرعون ایک کافر اور طاغوت تھا۔ اور ان کی بیوی مومنہ عورت تھی۔ تو میرے خیال میں اگر عورت اپنے شوہر کی طرف نسبت کر لیتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا، جیسے شادی کے بعد اگر میری بیوی زوجہ ارسلان کہلاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ﻇالم لوگوں سے خلاصی دے (11)
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری چھوٹی بڑی لغزشوں کو معاف فرمائے آمین