غازی نے کہا ہے: ↑
ایصال ثواب ایک جدید اصطلاح ہے کتاب وسنت میں اس اصطلاح کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
اور یہ اصطلاح جدید ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے خلاف بھی ہے کیونکہ ایصال ثواب کا مطلب ثواب پہنچانا ہوتا ہے اور ثواب پہنچانا یہ کسی انسان کا کام ہے ہی نہیں انسان زیادہ سے زیادہ کوئی عمل کرکے یہ امید کرسکتا کہ اس سے فلاں کو ثواب پہنچے گا ، لیکن وہ خود ثواب نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اول تو یہی نہیں معلوم کہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ مین قبول ہوا یا نہیں ، اور اس پرثواب ملا یا نہیں ، لہٰذا جب ثواب کا وجود ہی نامعلوم ہے تو اس کا ایصال کیسے ہوسکتاہے؟؟؟۔
دوسری بات یہ کہ انسان کا کام صرف عمل کرنا ہے نہ کہ ثواب دینا یا اسے دوسرے کے پاس پہنچانا ۔
ایک تیسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن اعمال کے بارے میں ثابت ہے کہ ان کا ثواب دوسرے کو مل سکتا ہے وہاں دوسرا بھی اس قابل ہونا چاہئے کہ اس تک ثواب پہنچنا ممکن ہو۔ مثلا اگر کوئی مشرک ہے تو اسے کسی بھی شخص کے عمل کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔
اسی طرح مشرک اگر کسی کے لئے کوئی عمل کرتا ہے تو خود اس کا عمل ہی صحیح نہیں تو دوسرے تک اس کے ثواب پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات ہے کہ مروجہ ایصال ثواب کی وبا انہوں لوگوں میں عام ہے جو دن رات شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یعنی موصل اور موصل الیہ دونوں شرک میں ڈوبے ہیں اس لئے صرف اعمال ہی اعمال ہیں ثواب کا کہیں وجود ہی نہیں ، ایصال تو بہت دور کی بات ہے۔
بسم اللہ
شریعت اسلامیہ نے اس میں بعض اعمال کو جائز قرار دیا ہے۔لہذا اس مسئلہ میں انہیں اعمال تک ہی محدود رکھنا چاہئیے اور کسی دوسری چیز کو اس پر قیاس کرتے ہوئے عمل پیرا نہیں ہونا چاہیئے ۔ بلکہ جو اعمال کرنے ثابت اور جائز ہیں وہی کرنے چاہئے ۔
شریعت اسلامیہ میں فوت شدگان کے لئے جن اعمال کا اجرو ثواب بخشنا جائز ہے ، یا زندہ لوگوں کےجن اعمال سے فوت شدگان کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
دعا
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے ۔
(اور جو لوگ ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں )الحشر 10
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حبشہ کے نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ فوت ہوا اور آپ فرمانے لگے اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔صحیح بخاری حدیث 1236
صحیح مسلم 951
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اور امت کا اجماع بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ دعا سے میت مستفید ہوتی ہے ۔ بہت ساری احادیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ بلکہ میت کی نماز جنازہ ادا کرنے کا مقصد ہی یہی ہے۔اور اسی طرح میت کو دفن کرنے کے بعد اور قبرستان کی زیارت کرتے وقت دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔
2۔میت کے ذمہ نذر یا کفارہ کے واجب روزوں کی قضاء کی ادائیگی کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"
(جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا)
صحیح بخاری 1851
صحیح مسلم 1147
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی میری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تو آپ فرمانے لگے:
(مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی وہ کہنے لگی "جی ہاں"
تو آپ فرمانے لگے تو پھر اللہ تعالی کے قرض کی ادائگی کا زیادہ حق ہے ۔
صحیح بخاری 1817
صحیح مسلم 1148
3۔اطاعت کی نظر پوری کرنا
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی اور حج کرنے سے قبل ہی فوت ہوگئی تو کیا میں اس کی جانب سے حج کروں؟
آپ نے فرمایا ہاں اس کی جانب سے حج کرو، مجھے یہ بتاؤ کیا اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی ؟اللہ کا قرض ادا کرو کیونکہ اللہ سے وفا کرنے کا زیادہ حق ہے)
صحیح بخاری 1753
4۔میت کی اولاد صالحہ کے اعمال صالحہ کرنے سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے:
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اولاد جو بھی عمل صالح کرتی ہے اس کے والدین کو بھی اتنا ہی اجر و ثواب ملتا ہے اور اولاد کے اجر میں قطعا کمی نہیں ہوتی
کیونکہ بچہ والدین کی کوشش و کمائی ہے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(مرد کا اپنی کمائی سے کھانا سب سے بہتر اور اچھا ہے اور اس کا بیٹا اس کی کمائی میں سے ہے )
امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے
اور رہا صدقہ اور قرآن قرآن مجید کی تلاوت یعنی قرآن خوانی کا مسئلہ تو صحیح بات یہی ہے کہ اس میں سے میت کو کچھ بھی نہیں پہنچتا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ ہبیان کرتے ہیں کہ والد کی موت کے بعد اولاد کی جانب سے کیا گیا صدقہ و خیرات والدین کو پہنچتا ہے ۔
اور رہا مسئلہ اولاد کے علاوہ دوسروں کا تو اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔
وللہ ولی التوفیق۔
اللہ ہم سب کو شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
یا رب ہمیں اس علم سے نفع دے جو تو نے ہمیں سکھایا اور ایسا علم سکھا جو ہمیں نفع دے اور ہمارے علم میں اضافہ فرما۔اور ہمیں صالحین میں شامل کرلے