• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تبرک اور وسیلہ ایک ہی چیز ہیں یا جدا گانہ؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
میں معذرت خواہ ہوں فائل اپلوڈ نہیں ہورہی۔
میری ورڈ کی فائل ہے لیکن جب فائل سلیکٹ کرنے کیلئے آپشن آتی ہے تو ورڈ کی کوئی فائل ہی شو نہیں ہوتی ۔
خیر میں آپ کو ایسے ہی بھیج دیتی ہوں ۔
عزیز بہنا آپ فائل میں موجود مواد کو فورم پر نئے تھریڈ کی صورت میں پوسٹ کرکے لنک یہاں پیش کردیں۔ جزاکم اللہ خیرا
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
﴿ اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَہ ﴾
"کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟"(الزمر:36)
یہ کہ نبی ﷺ کے جاہ و منصب یا اس کے حق یاذات کو وسیلہ بنانا جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ !میں تجھ سے تیرے نبی کے وسیلے یا تیرے نبی کے جاہ و منصب کے ذریعےیا تیرے نبی کے حق یا انبیاء کے جاہ و حق یا اولیاء کے جاہ و حق کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں تو یہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل ہے اور ایسا کرنا نبی ﷺ کے ساتھ جائز ہےاور نہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسے جائز قرار نہیں دیا
محمد ﷺکا وسیلہ
نبی ﷺ کا وسیلہ اختیار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟
اگر کوئی شخص رسول کی پیروی اس کی محبت،اس کے بتائے گئے راستے پر عمل اورا س کےمنع کئے گئے کاموں سے اجتناب اور عبادت میں اخلاص کے ذریعہ رسول کو وسیلہ بناتا ہے تو یہ عین اسلام ہے اور یہی اللہ کا دین ہے جس کے ساتھ انبیاء کرام مبعوث کئےگئے۔
لیکن رسول سے دعا کے زریعےاور مدد طلب کر کےوسیلہ پکڑنا اور اس سے دشمنوں پر فتح یابی اور بیماروں کی شفایابی کی دعا کرنا تو یہ شرک اکبر ہے اور یہ ابو جہل اور اس کے جیسے دوسرے اصنام پرستوں کا دین ہے ،اسی طرح نبیﷺ کے علاوہ کسی نبی ،ولی،جنو ںملائکہ،شجروحجر اور اصنام سے مدد مانگنا یا مرادیں مانگنا بھی شرک اکبر ہے۔
عبادت کی وہی قسم جائز ہے جس کی دلیل شریعت مطہرہ میں موجود ہو۔
محمد ﷺ کی سفارش کی دلیل میں ایک اندھےآدمی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس آدمی نے آپﷺ کو وسیلہ بنایا تو اس توسل کا معنی یہ ہے کہ نبیﷺ اس کے لئے دعا فرمادیں اور اس کی بصارت لوٹا دینے کی سفارش اللہ سے کر دیں یہ نبی کی جاہ یا حق یا ذات کا وسیلہ پکڑنا نہیں ہے ۔
فوت شدگان کےعلاوہ زندوں کا وسیلہ جائز ہے جیسے آپ کسی بھی نیک شخص سے کہیں کہ آپ اللہ سے دعاکریں کہ اللہ مجھے میری بیماری سے شفا دے یا میری بینائی لوٹا دے یا مجھے اللہ صالح اولاد عطا کر دے یا اسی طرح کی دوسری دعائیں کرائیں تو یہ صحیح ہے ۔اور بذات خود بھی اپنے لئے دعا کرے ۔
میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ بالذات نہیں۔
زندہ بزرگوں سے دعا کروانا
دعا دوسرے سے کروانی بھی اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب آپ خود بھی دعا کریں اور اللہ کا اذن ہوجائے۔ جو بزرگ فوت ہو جائیں ان کے لیے تو ہم زندوں کو دعا کرنی چاہیے۔
خود دعاکرنے اور'زندہ بزرگ'سےدعا کروانے کا عقیدہ درست ہے۔
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی تھا۔
دلیل
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قحط پڑتا، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور کہتے:
(( اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیَّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَیُسْقَوْنَ )) (صحیح البخاري، الأستسقاء، باب سوال الناس الأمام الأستسقاء اذا قحطوا، ح: 1010)
" اے ہمارے اللہ! ہم تیری طرف اپنے نبی ﷺکا وسیلہ اختیار کرتے تھے(یعنی اُن کی زند گی میں اُن سے دعا کرواتے تھے)۔ اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔ اب (آپ ﷺکی وفات کے بعد) تیری طرف اپنے نبیﷺ کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں(یعنی اُن سے دعا کرواتے ہیں) پس تو ہم کو پانی پلا۔"انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:" پس وہ سیراب کیے جاتے تھے ۔ "
I. نبی اکرم ﷺکی قبر وہاں موجود تھی۔ ان کی قبر پر ان کے وسیلہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اگر ہوتا تو قبر پر حاضر ہو جاتے۔ عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ تکلیف دے کر جنگل میں لے جانے کا کو ئی مقصد ہی نہ تھا۔
II. اگر کسی کی ذات اور جاہ کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ رسول اللہﷺ ( جو تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی ہیں) کی ذات سے وسیلے کو چھوڑ کر حضرت عباس( جو فضیلت میں نبیﷺ سے کہیں گنا کم ہیں) کی ذا ت سے وسیلہ تلاش نہ کرتے ، کیونکہ انکو معلوم تھا کہ نبی ﷺ کی" دعا "کا وسیلہ انکی زندگی میں تھا۔کیونکہ نبی ﷺ اللہ سے دعا مانگتے تو اللہ انکی جس دعا کوچاہتا قبول کرتا تھا۔
III. انسان طبعا جس وقت اسکو سخت حاجت پیش آتی ہے کسی بڑے وسیلے ( جو اس کو مقصود تک پہنچادے ) کو تلاش کرتا ہے۔
IV. اگر "ذات" کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کا وسیلہ انکی موت کے بعدچھوڑتے ؟؟؟
حالانکہ وہ خشک سالی اور قحط کی حالت میں تھے ، یہاں تک کہ اس سال کا نام قحط اور خشک سالی رکھا گیا۔
اب ہم غور کرتے ہیں کہ اس حدیث کو مخالفین کس طرح دلیل بناتے ہیں،
کیا یہاں پر مضاف جاہ (ذات) ہے یا دعا؟
I. حضرت عمر ؓ اور صحابہ اکرام اپنے اپنے گھروں میں نہیں بیٹھے اور گھروں میں بیٹھ کر یوں کہا ہو کہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کے ذریعے وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ اصحابہ اکرام عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور اپنے ساتھ حضرت عباسؓ کو لائے اور ان سے اپنے لئے دعا کروائی ۔ اس سے واضح اور روشن ہو گیا کہ یہاں مقام دعا کا مقام ہے اگر مقام ذات اور جاہ کے وسیلے کا ہوتا تو اصحابہ اکرام کے لئے یہ زیادہ لائق ہوتا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر نبیﷺ کی ذات اور جاہ سے وسیلہ پکڑتے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اپنے رفیق اعلی کی طرف منتقل ہونے سے تغیر نہیں ہوئی ۔
یہ سب ادلہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ اکرام نے نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ آپ کی وفات کے بعد تلاش نہیں کیا ، بلکہ وہ تو نیک، صالح ، "زندہ " اور دعا پر قادر شخص کو تلاش کرتے تھے اورا س سے اپنے لئے دعا کرواتے تھے ۔
سیدناحسین رضی اللہ عنہ ایک مقصد لے کر اٹھے تھے۔ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے۔ راستے ہی میں کربلا کے مقام پر المناک حادثہ پیش آگیا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ فوت شدہ صاحبِ قبر کے طفیل اور واسطہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ ہمارے رہبر و رہنما پیرِ کامل امامِ اعظم ﷺنے مسلمانوں کو دیا ہی نہیں۔ ورنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے گھرانے کی دنیا کو یوں داوٴ پر نہ لگاتے۔ بلکہ مدینہ میں اس قبر سے چمٹے رہتے جس میں ان کے نانا بزرگ، امام الانبیاء، فخرِ بنی آدم، سردارِ دو جہان ﷺ آرام فرما ہیں۔
قبر پرستی کی بیماری مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیل گئی ہے
اللہ کا اِذن کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟
وہی عملِ صالح اللہ کے ہاں قابلِ قبول ہے جو خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے خوف سے نبی اکرم ﷺکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (اٰل عمران:31)
"(اے میرے پیغمبر ) ان کو فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ "
گویا پیغمبر ﷺ کی پیروی ایک وسیلہ ہے۔ اسی سے اللہ کا اِذن حاصل ہو سکتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں
حضرت آدم،حضرت یونس ،حضرت زکریا،حضرت ابراھیم،حضرت ایوب،حضرت موسیٰ،حضرت لوط علیھم السلام اور سیدنا محمد ﷺ کی دعا ئیں قرآن ہمیں سنارہا ہے ،جوبنا کسی وسیلے کے خاص اللہ پر یقین اور اللہ سے امید کو ظاہر کرتی ہیں ۔
پھر اللہ کہتا ہے مفہوم
ہم نے ابراھیم،اسمعیل ،اسحق ویعقوب (علیھم السلام) کو پورے عالم میں بزرگی عطا فرمائی۔
تو پھر کیوں محمد ﷺ نے ان بزرگ ہستیوں کو بطور وسیلہ اپنی دعا میں شامل نہ کیا ؟ہے کوئی مسنون دعا آپ کے علم میں ؟
اور محمد ﷺ ۔۔۔انکی وفات کے بعد کیوں اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین نے ان کو بطور وسیلہ نہ لیا؟
کیوں کہ اللہ کے دین میں "اس" وسیلے کی کوئی موجودگی ہی نہیں۔
اور اتنی بڑی مثال ہے سورہ مجادلہ کی پہلی آیت۔۔۔سیدہ خولہ بنت ثعلبہ ؓ اللہ کے رسول کی زندگی میں اللہ کے رسول کے سامنے بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم نافذ کردینے کے بعد ۔۔۔اللہ سے اپنی بات منواتی ہیں ۔۔۔کہ جب تک وحی نہیں آتی وہ عورت وہیں بیٹھی ہے ۔۔۔ اور سورہ مجادلہ کی آیات نازل ہوتی ہیں ۔اور اللہ اپنے نبی کی بجائے اس عورت کی بات مان لیتا ہے۔۔۔
کون ہے پھر؟؟؟
اور کس کا وسیلہ ؟
وہ جس کی چاہے سنتا ہے۔
اللھم ارنا الحق َ حقا وّارزقنا اتّباعہ و ارنا الباطل َ باطلا وّارزقنا اجتنابہ۔
اللھّم اتمم لنا نورنا واغفرلنا ذنوبنا انک علی کل شئی قدیر۔
آمین یارب
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عابد الرحمن صاحب نے کہا کہ ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق سوچتا ہے ۔
بالکل ٹھیک۔۔۔ لیکن دین ہماری سوچ کا محتاج نہیں ہے ۔
قبروں پر جانا مردوں کے لئے ہرگز منع نہیں ہے۔ ہاں اآج جو سنت کی اآڑ میں بدعات پھیلائی جارہی ہیں اعتراض اس پر ہے ۔
مرد حضرات قبور کی زیارت کے لئے جائیں مگر اس طرح کے صحیح طریقہ نبی کریم سے صحیح روایات میں ثابت ہے۔
ایک فائل اپلوڈ کر رہی ہوں امید ہےآپ کو نفع دے گی۔
اور جب قرآن اور حدیث سے ایک بات ثابت ہوجائے تو لازم ہے کہ ہم باقی تمام حیلوں ،،، کیوں ، چنانچہ ،اگرچہ، پھر بھی ۔۔۔ وغیرھم کو ترک کردیں۔
وللہ ولی توفیق ۔۔
محترمہ اچھی بات ہے کہ آپ کو دین کی کافی معلومات ہیں اللہ تعالیٰ مزید ترقی عطافرمائے
آپ بیشک بالکل صحیح فرمارہی ہیں کہ آج سنت کی آڑ میں بہت کچھ بگاڑ آچکا ہے اور دنیا پرستوں نے اسلام کو مجروح کردیا ہے بیشک قبرستان جانا مسنون ہے لیکن کفر کے مقابلہ میں اگر اس سنت کو دوسرے طریقہ سے ادا کرلیا جائے تو زیادہ بہتر ہے یعنی قبرستان نہ جا کر گھر وغیرہ سے اپنے لواحقین کا ایصال ثواب کردینا اس طریقہ میں ہر طرح کی حفاظت ہے
اور محترمہ:
مرد حضرات قبور کی زیارت کے لئے جائیں مگر اس طرح کے صحیح طریقہ نبی کریم سے صحیح روایات میں ثابت ہے۔
میرے نزدیک زیارت کرنے اور جانے میں فرق ہے قبرستان جاکر ایصال ثواب کرنا تو ٹھیک ہے لیکن قبروں کی زیارت کرنا اس میں شرک کا شائبہ ہے زیارت کا مطلب دیدار کرنا اور دیدار کرنا ہی بت پرستی ہے فقط واللہ اعلم بالصواب
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ سے کچھ سیکھنے کو ملا
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
﴿ اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَہ ﴾
"کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟"(الزمر:36)
یہ کہ نبی ﷺ کے جاہ و منصب یا اس کے حق یاذات کو وسیلہ بنانا جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ !میں تجھ سے تیرے نبی کے وسیلے یا تیرے نبی کے جاہ و منصب کے ذریعےیا تیرے نبی کے حق یا انبیاء کے جاہ و حق یا اولیاء کے جاہ و حق کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں تو یہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل ہے اور ایسا کرنا نبی ﷺ کے ساتھ جائز ہےاور نہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسے جائز قرار نہیں دیا
محمد ﷺکا وسیلہ
نبی ﷺ کا وسیلہ اختیار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟
اگر کوئی شخص رسول کی پیروی اس کی محبت،اس کے بتائے گئے راستے پر عمل اورا س کےمنع کئے گئے کاموں سے اجتناب اور عبادت میں اخلاص کے ذریعہ رسول کو وسیلہ بناتا ہے تو یہ عین اسلام ہے اور یہی اللہ کا دین ہے جس کے ساتھ انبیاء کرام مبعوث کئےگئے۔
لیکن رسول سے دعا کے زریعےاور مدد طلب کر کےوسیلہ پکڑنا اور اس سے دشمنوں پر فتح یابی اور بیماروں کی شفایابی کی دعا کرنا تو یہ شرک اکبر ہے اور یہ ابو جہل اور اس کے جیسے دوسرے اصنام پرستوں کا دین ہے ،اسی طرح نبیﷺ کے علاوہ کسی نبی ،ولی،جنو ںملائکہ،شجروحجر اور اصنام سے مدد مانگنا یا مرادیں مانگنا بھی شرک اکبر ہے۔
عبادت کی وہی قسم جائز ہے جس کی دلیل شریعت مطہرہ میں موجود ہو۔
محمد ﷺ کی سفارش کی دلیل میں ایک اندھےآدمی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس آدمی نے آپﷺ کو وسیلہ بنایا تو اس توسل کا معنی یہ ہے کہ نبیﷺ اس کے لئے دعا فرمادیں اور اس کی بصارت لوٹا دینے کی سفارش اللہ سے کر دیں یہ نبی کی جاہ یا حق یا ذات کا وسیلہ پکڑنا نہیں ہے ۔
فوت شدگان کےعلاوہ زندوں کا وسیلہ جائز ہے جیسے آپ کسی بھی نیک شخص سے کہیں کہ آپ اللہ سے دعاکریں کہ اللہ مجھے میری بیماری سے شفا دے یا میری بینائی لوٹا دے یا مجھے اللہ صالح اولاد عطا کر دے یا اسی طرح کی دوسری دعائیں کرائیں تو یہ صحیح ہے ۔اور بذات خود بھی اپنے لئے دعا کرے ۔
میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ بالذات نہیں۔
زندہ بزرگوں سے دعا کروانا
دعا دوسرے سے کروانی بھی اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب آپ خود بھی دعا کریں اور اللہ کا اذن ہوجائے۔ جو بزرگ فوت ہو جائیں ان کے لیے تو ہم زندوں کو دعا کرنی چاہیے۔
خود دعاکرنے اور'زندہ بزرگ'سےدعا کروانے کا عقیدہ درست ہے۔
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی تھا۔
دلیل
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قحط پڑتا، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور کہتے:
(( اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیَّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَیُسْقَوْنَ )) (صحیح البخاري، الأستسقاء، باب سوال الناس الأمام الأستسقاء اذا قحطوا، ح: 1010)
" اے ہمارے اللہ! ہم تیری طرف اپنے نبی ﷺکا وسیلہ اختیار کرتے تھے(یعنی اُن کی زند گی میں اُن سے دعا کرواتے تھے)۔ اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔ اب (آپ ﷺکی وفات کے بعد) تیری طرف اپنے نبیﷺ کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں(یعنی اُن سے دعا کرواتے ہیں) پس تو ہم کو پانی پلا۔"انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:" پس وہ سیراب کیے جاتے تھے ۔ "
I. نبی اکرم ﷺکی قبر وہاں موجود تھی۔ ان کی قبر پر ان کے وسیلہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اگر ہوتا تو قبر پر حاضر ہو جاتے۔ عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ تکلیف دے کر جنگل میں لے جانے کا کو ئی مقصد ہی نہ تھا۔
II. اگر کسی کی ذات اور جاہ کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ رسول اللہﷺ ( جو تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی ہیں) کی ذات سے وسیلے کو چھوڑ کر حضرت عباس( جو فضیلت میں نبیﷺ سے کہیں گنا کم ہیں) کی ذا ت سے وسیلہ تلاش نہ کرتے ، کیونکہ انکو معلوم تھا کہ نبی ﷺ کی" دعا "کا وسیلہ انکی زندگی میں تھا۔کیونکہ نبی ﷺ اللہ سے دعا مانگتے تو اللہ انکی جس دعا کوچاہتا قبول کرتا تھا۔
III. انسان طبعا جس وقت اسکو سخت حاجت پیش آتی ہے کسی بڑے وسیلے ( جو اس کو مقصود تک پہنچادے ) کو تلاش کرتا ہے۔
IV. اگر "ذات" کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کا وسیلہ انکی موت کے بعدچھوڑتے ؟؟؟
حالانکہ وہ خشک سالی اور قحط کی حالت میں تھے ، یہاں تک کہ اس سال کا نام قحط اور خشک سالی رکھا گیا۔
اب ہم غور کرتے ہیں کہ اس حدیث کو مخالفین کس طرح دلیل بناتے ہیں،
کیا یہاں پر مضاف جاہ (ذات) ہے یا دعا؟
I. حضرت عمر ؓ اور صحابہ اکرام اپنے اپنے گھروں میں نہیں بیٹھے اور گھروں میں بیٹھ کر یوں کہا ہو کہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کے ذریعے وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ اصحابہ اکرام عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور اپنے ساتھ حضرت عباسؓ کو لائے اور ان سے اپنے لئے دعا کروائی ۔ اس سے واضح اور روشن ہو گیا کہ یہاں مقام دعا کا مقام ہے اگر مقام ذات اور جاہ کے وسیلے کا ہوتا تو اصحابہ اکرام کے لئے یہ زیادہ لائق ہوتا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر نبیﷺ کی ذات اور جاہ سے وسیلہ پکڑتے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اپنے رفیق اعلی کی طرف منتقل ہونے سے تغیر نہیں ہوئی ۔
یہ سب ادلہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ اکرام نے نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ آپ کی وفات کے بعد تلاش نہیں کیا ، بلکہ وہ تو نیک، صالح ، "زندہ " اور دعا پر قادر شخص کو تلاش کرتے تھے اورا س سے اپنے لئے دعا کرواتے تھے ۔
سیدناحسین رضی اللہ عنہ ایک مقصد لے کر اٹھے تھے۔ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے۔ راستے ہی میں کربلا کے مقام پر المناک حادثہ پیش آگیا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ فوت شدہ صاحبِ قبر کے طفیل اور واسطہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ ہمارے رہبر و رہنما پیرِ کامل امامِ اعظم ﷺنے مسلمانوں کو دیا ہی نہیں۔ ورنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے گھرانے کی دنیا کو یوں داوٴ پر نہ لگاتے۔ بلکہ مدینہ میں اس قبر سے چمٹے رہتے جس میں ان کے نانا بزرگ، امام الانبیاء، فخرِ بنی آدم، سردارِ دو جہان ﷺ آرام فرما ہیں۔
قبر پرستی کی بیماری مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیل گئی ہے
اللہ کا اِذن کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟
وہی عملِ صالح اللہ کے ہاں قابلِ قبول ہے جو خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے خوف سے نبی اکرم ﷺکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (اٰل عمران:31)
"(اے میرے پیغمبر ) ان کو فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ "
گویا پیغمبر ﷺ کی پیروی ایک وسیلہ ہے۔ اسی سے اللہ کا اِذن حاصل ہو سکتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں
حضرت آدم،حضرت یونس ،حضرت زکریا،حضرت ابراھیم،حضرت ایوب،حضرت موسیٰ،حضرت لوط علیھم السلام اور سیدنا محمد ﷺ کی دعا ئیں قرآن ہمیں سنارہا ہے ،جوبنا کسی وسیلے کے خاص اللہ پر یقین اور اللہ سے امید کو ظاہر کرتی ہیں ۔
پھر اللہ کہتا ہے مفہوم
ہم نے ابراھیم،اسمعیل ،اسحق ویعقوب (علیھم السلام) کو پورے عالم میں بزرگی عطا فرمائی۔
تو پھر کیوں محمد ﷺ نے ان بزرگ ہستیوں کو بطور وسیلہ اپنی دعا میں شامل نہ کیا ؟ہے کوئی مسنون دعا آپ کے علم میں ؟
اور محمد ﷺ ۔۔۔انکی وفات کے بعد کیوں اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین نے ان کو بطور وسیلہ نہ لیا؟
کیوں کہ اللہ کے دین میں "اس" وسیلے کی کوئی موجودگی ہی نہیں۔
اور اتنی بڑی مثال ہے سورہ مجادلہ کی پہلی آیت۔۔۔سیدہ خولہ بنت ثعلبہ ؓ اللہ کے رسول کی زندگی میں اللہ کے رسول کے سامنے بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم نافذ کردینے کے بعد ۔۔۔اللہ سے اپنی بات منواتی ہیں ۔۔۔کہ جب تک وحی نہیں آتی وہ عورت وہیں بیٹھی ہے ۔۔۔ اور سورہ مجادلہ کی آیات نازل ہوتی ہیں ۔اور اللہ اپنے نبی کی بجائے اس عورت کی بات مان لیتا ہے۔۔۔
کون ہے پھر؟؟؟
اور کس کا وسیلہ ؟
وہ جس کی چاہے سنتا ہے۔
اللھم ارنا الحق َ حقا وّارزقنا اتّباعہ و ارنا الباطل َ باطلا وّارزقنا اجتنابہ۔
اللھّم اتمم لنا نورنا واغفرلنا ذنوبنا انک علی کل شئی قدیر۔
آمین یارب
ماشاء اللہ اچھی معلومات ہیں جزاک اللہ خیراً
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
شرعی وسیلہ انسان کے نیک اعمال ہیں- قرآن میں الله کا فرمان ہے-


فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا سوره الکھف ١١١
پس جو کوئی اپنے رب سے قریب ہونے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں ہرگز کسی کو شریک نہ بنائے
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
ایصال ثواب ایک جدید اصطلاح ہے کتاب وسنت میں اس اصطلاح کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
اور یہ اصطلاح جدید ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے خلاف بھی ہے کیونکہ ایصال ثواب کا مطلب ثواب پہنچانا ہوتا ہے اور ثواب پہنچانا یہ کسی انسان کا کام ہے ہی نہیں انسان زیادہ سے زیادہ کوئی عمل کرکے یہ امید کرسکتا کہ اس سے فلاں کو ثواب پہنچے گا ، لیکن وہ خود ثواب نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اول تو یہی نہیں معلوم کہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ مین قبول ہوا یا نہیں ، اور اس پرثواب ملا یا نہیں ، لہٰذا جب ثواب کا وجود ہی نامعلوم ہے تو اس کا ایصال کیسے ہوسکتاہے؟؟؟۔
دوسری بات یہ کہ انسان کا کام صرف عمل کرنا ہے نہ کہ ثواب دینا یا اسے دوسرے کے پاس پہنچانا ۔
ایک تیسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن اعمال کے بارے میں ثابت ہے کہ ان کا ثواب دوسرے کو مل سکتا ہے وہاں دوسرا بھی اس قابل ہونا چاہئے کہ اس تک ثواب پہنچنا ممکن ہو۔ مثلا اگر کوئی مشرک ہے تو اسے کسی بھی شخص کے عمل کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔
اسی طرح مشرک اگر کسی کے لئے کوئی عمل کرتا ہے تو خود اس کا عمل ہی صحیح نہیں تو دوسرے تک اس کے ثواب پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات ہے کہ مروجہ ایصال ثواب کی وبا انہوں لوگوں میں عام ہے جو دن رات شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یعنی موصل اور موصل الیہ دونوں شرک میں ڈوبے ہیں اس لئے صرف اعمال ہی اعمال ہیں ثواب کا کہیں وجود ہی نہیں ، ایصال تو بہت دور کی بات ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ایصال ثواب ایک جدید اصطلاح ہے کتاب وسنت میں اس اصطلاح کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
اور یہ اصطلاح جدید ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے خلاف بھی ہے کیونکہ ایصال ثواب کا مطلب ثواب پہنچانا ہوتا ہے اور ثواب پہنچانا یہ کسی انسان کا کام ہے ہی نہیں انسان زیادہ سے زیادہ کوئی عمل کرکے یہ امید کرسکتا کہ اس سے فلاں کو ثواب پہنچے گا ، لیکن وہ خود ثواب نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اول تو یہی نہیں معلوم کہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ مین قبول ہوا یا نہیں ، اور اس پرثواب ملا یا نہیں ، لہٰذا جب ثواب کا وجود ہی نامعلوم ہے تو اس کا ایصال کیسے ہوسکتاہے؟؟؟۔
دوسری بات یہ کہ انسان کا کام صرف عمل کرنا ہے نہ کہ ثواب دینا یا اسے دوسرے کے پاس پہنچانا ۔
ایک تیسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن اعمال کے بارے میں ثابت ہے کہ ان کا ثواب دوسرے کو مل سکتا ہے وہاں دوسرا بھی اس قابل ہونا چاہئے کہ اس تک ثواب پہنچنا ممکن ہو۔ مثلا اگر کوئی مشرک ہے تو اسے کسی بھی شخص کے عمل کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔
اسی طرح مشرک اگر کسی کے لئے کوئی عمل کرتا ہے تو خود اس کا عمل ہی صحیح نہیں تو دوسرے تک اس کے ثواب پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات ہے کہ مروجہ ایصال ثواب کی وبا انہوں لوگوں میں عام ہے جو دن رات شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یعنی موصل اور موصل الیہ دونوں شرک میں ڈوبے ہیں اس لئے صرف اعمال ہی اعمال ہیں ثواب کا کہیں وجود ہی نہیں ، ایصال تو بہت دور کی بات ہے۔
جزا ک الله - بڑا مدلل جواب دیا ہے آپ نے ایصال ثواب کے حوالے سے -
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
غازی نے کہا ہے: ↑
ایصال ثواب ایک جدید اصطلاح ہے کتاب وسنت میں اس اصطلاح کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
اور یہ اصطلاح جدید ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے خلاف بھی ہے کیونکہ ایصال ثواب کا مطلب ثواب پہنچانا ہوتا ہے اور ثواب پہنچانا یہ کسی انسان کا کام ہے ہی نہیں انسان زیادہ سے زیادہ کوئی عمل کرکے یہ امید کرسکتا کہ اس سے فلاں کو ثواب پہنچے گا ، لیکن وہ خود ثواب نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اول تو یہی نہیں معلوم کہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ مین قبول ہوا یا نہیں ، اور اس پرثواب ملا یا نہیں ، لہٰذا جب ثواب کا وجود ہی نامعلوم ہے تو اس کا ایصال کیسے ہوسکتاہے؟؟؟۔
دوسری بات یہ کہ انسان کا کام صرف عمل کرنا ہے نہ کہ ثواب دینا یا اسے دوسرے کے پاس پہنچانا ۔
ایک تیسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن اعمال کے بارے میں ثابت ہے کہ ان کا ثواب دوسرے کو مل سکتا ہے وہاں دوسرا بھی اس قابل ہونا چاہئے کہ اس تک ثواب پہنچنا ممکن ہو۔ مثلا اگر کوئی مشرک ہے تو اسے کسی بھی شخص کے عمل کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔
اسی طرح مشرک اگر کسی کے لئے کوئی عمل کرتا ہے تو خود اس کا عمل ہی صحیح نہیں تو دوسرے تک اس کے ثواب پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات ہے کہ مروجہ ایصال ثواب کی وبا انہوں لوگوں میں عام ہے جو دن رات شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یعنی موصل اور موصل الیہ دونوں شرک میں ڈوبے ہیں اس لئے صرف اعمال ہی اعمال ہیں ثواب کا کہیں وجود ہی نہیں ، ایصال تو بہت دور کی بات ہے۔

بسم اللہ​
شریعت اسلامیہ نے اس میں بعض اعمال کو جائز قرار دیا ہے۔لہذا اس مسئلہ میں انہیں اعمال تک ہی محدود رکھنا چاہئیے اور کسی دوسری چیز کو اس پر قیاس کرتے ہوئے عمل پیرا نہیں ہونا چاہیئے ۔ بلکہ جو اعمال کرنے ثابت اور جائز ہیں وہی کرنے چاہئے ۔
شریعت اسلامیہ میں فوت شدگان کے لئے جن اعمال کا اجرو ثواب بخشنا جائز ہے ، یا زندہ لوگوں کےجن اعمال سے فوت شدگان کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
دعا
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے ۔
(اور جو لوگ ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں )الحشر 10
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حبشہ کے نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ فوت ہوا اور آپ فرمانے لگے اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔صحیح بخاری حدیث 1236
صحیح مسلم 951
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اور امت کا اجماع بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ دعا سے میت مستفید ہوتی ہے ۔ بہت ساری احادیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ بلکہ میت کی نماز جنازہ ادا کرنے کا مقصد ہی یہی ہے۔اور اسی طرح میت کو دفن کرنے کے بعد اور قبرستان کی زیارت کرتے وقت دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔
میت کے ذمہ نذر یا کفارہ کے واجب روزوں کی قضاء کی ادائیگی کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"
(جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا)
صحیح بخاری 1851
صحیح مسلم 1147
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی میری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تو آپ فرمانے لگے:
(مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی وہ کہنے لگی "جی ہاں"
تو آپ فرمانے لگے تو پھر اللہ تعالی کے قرض کی ادائگی کا زیادہ حق ہے ۔
صحیح بخاری 1817
صحیح مسلم 1148
3۔اطاعت کی نظر پوری کرنا
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی اور حج کرنے سے قبل ہی فوت ہوگئی تو کیا میں اس کی جانب سے حج کروں؟
آپ نے فرمایا ہاں اس کی جانب سے حج کرو، مجھے یہ بتاؤ کیا اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی ؟اللہ کا قرض ادا کرو کیونکہ اللہ سے وفا کرنے کا زیادہ حق ہے)
صحیح بخاری 1753
میت کی اولاد صالحہ کے اعمال صالحہ کرنے سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے:
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اولاد جو بھی عمل صالح کرتی ہے اس کے والدین کو بھی اتنا ہی اجر و ثواب ملتا ہے اور اولاد کے اجر میں قطعا کمی نہیں ہوتی
کیونکہ بچہ والدین کی کوشش و کمائی ہے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(مرد کا اپنی کمائی سے کھانا سب سے بہتر اور اچھا ہے اور اس کا بیٹا اس کی کمائی میں سے ہے )
امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے
اور رہا صدقہ اور قرآن قرآن مجید کی تلاوت یعنی قرآن خوانی کا مسئلہ تو صحیح بات یہی ہے کہ اس میں سے میت کو کچھ بھی نہیں پہنچتا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ ہبیان کرتے ہیں کہ والد کی موت کے بعد اولاد کی جانب سے کیا گیا صدقہ و خیرات والدین کو پہنچتا ہے ۔
اور رہا مسئلہ اولاد کے علاوہ دوسروں کا تو اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔
وللہ ولی التوفیق۔​
اللہ ہم سب کو شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔​
یا رب ہمیں اس علم سے نفع دے جو تو نے ہمیں سکھایا اور ایسا علم سکھا جو ہمیں نفع دے اور ہمارے علم میں اضافہ فرما۔اور ہمیں صالحین میں شامل کرلے
 
Top