• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تبرک اور وسیلہ ایک ہی چیز ہیں یا جدا گانہ؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیوں بھائی
یہ ابتسامہ کیسا
ہماری کمزوری پر ہے کیا
یہ بات نہیں ہے۔۔۔ دراصل اس بات پر ہنسی آئی تھی۔۔۔
لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ یہ سارے واقعات ہی من گھڑت ہوں ان کی کچھ نہ کچھ تو اصل ہے اور میرا بھی مشاہدہ ہے
عابد بھائی!۔۔۔ مگر ان روایات کا ویسا ہی اثر عرب معاشرے پر کوئی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ جو اثرات ان روایات نے ہمارے معاشرے پر مرتب کردیئے ہیں۔۔۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کے فہم وفراست میں ہم عربوں پر بازی مارگئے۔۔۔ دراصل میں نہیں چاہ رہا تھا کے جواب دوں۔۔۔ لیکن جب آپ نے یہ بات کی تو پھر میں نے اپنا موقف پیش کردیا ۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں‌ روشن دان کھولنے کی من گھڑت روایت۔
حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں‌ روشن دان کھولنے کی من گھڑت روایت۔
امام دارمی فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: " انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ. قَالَ: فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ
اس روایت کو امام دارمی نے اپنی سنن [سنن الدارمي 1/ 227 رقم 93] میں اورابواسحاق الحربی نے غریب الحدیث [غريب الحديث:3/ 946]میں‌ روایت کیا ہے۔
یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے جس کی تفصیل یہ ہے :

سند میں ایک راوی '' سعيد بن زيد بن درهم الأزدى الجهضمى'' ہیں۔
یہ بھی جہہور کے نزدیک ضعیف ہیں :
امام بیھقی فرماتے ہیں:
وسعيد بن زيد ، غير قوي في الحديث[معرفة السنن والآثار للبيهقي 10/ 136، بترقيم الشاملة آليا]۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
وَكَانَ صَدُوقًا حَافِظًا مِمَّن كَانَ يخطىء فِي الْأَخْبَار ويهم فِي الْآثَار حَتَّى لَا يحْتَج بِهِ إِذَا انْفَرد[المجروحين لابن حبان 1/ 320]۔
امام نسائی فرماتے ہیں:
سعيد بن زيد أخو حماد بن زيد ليس بالقوي بصري [الضعفاء والمتروكين ص: 53]۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
ضعيف تكلم فيه يحيى بن القطان [سؤالات الحاكم ص: 213]۔
ثالثا:
مذکورہ روایت میں حجرہ عائشہ جس میں‌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودفن کیا گیا تھا اس میں روشندان کھولنے کی ضروت محسوس کی گئی ہے حالانکہ آپ کا یہ گھرتو پہلے ہی سے کھلا ہواتھا جیساکہ بخاری ومسلم کی درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے
عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»[صحيح البخاري 1/ 114]۔
عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»[صحيح مسلم 1/ 426]۔
معلوم ہوا کہ آپ کا گھر تو پہلے ہی سے کھلا ہوا تھا پھر اس میں‌ روشن دان بنانے کی کیا ضروت تھی یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے کہاہے ، آپ فرماتے ہیں:
وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت إسناده و إنما نقل ذلك من هو معروف بالكذب و مما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة بل كان بعضه باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بعضه مسقوف وبعضه مكشوف وكانت الشمس تنزل فيه كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها لم يظهر الفيء بعد ولم تزل الحجرة كذلك حتى زاد الوليد بن عبد الملك في المسجد في إمارته لما زاد الحجر في مسجد الرسول صلى الله عليه و سلم وكان نائبه على المدينة ابن عمه عمر بن عبد العزيز وكانت حجر أزواج النبي صلى الله عليه و سلم شرقي المسجد و قبليه فأمره أن يشتريها من ملاكها ورثة أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فاشتراها وأدخلها في المسجد فزاد في قبلي المسجد و شرقيه ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد و إلا فهي قبل ذلك كانت خارجة عن المسجد في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد موته ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين [الرد على البكري 1/ 164]۔
wallahualam
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
محمدیوسف صاحب کی دی گئی دلیل سے روشن دان والے واقعات جیسے تمام واقعات کی تردید ہوجاتی ہے
الحمدللہ
اللہ رب العرش العظیم آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔ آمین
ایک گزارش تھی کہ آپ ان روایات کا ترجمہ بھی لکھ دیتے تو کیا ہی اعلی بات ہوتی ۔
عابد الرحمن صاحب نے لکھا:
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے اﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
تو محترم قارئین و علماء عظام ان تمام واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات ہیں ان کی تردید کی جائے اور کیسے تاویل کی جائے ۔ یہاں تنا عرض کردوں مروجہ ایصال ثواب کا میں بھی قائل نہیں ہوں برائے مہربانی وسعت قلبی کے ساتھ اپنی آراء اور دلائل سے نوازیں ۔فقط والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میرے علم کے مطابق یہ حدیث بالکل ٹھیک ہےلیکن اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا اور ان سے دعا کروائی ۔
یہ بہترین جواب ہے ان تاویلوں کا جو کہ قبور پہ حاجت روائی کے لئے یا برکات کے حصول کی لئے پیش کی جاتی ہیں۔
اگر قبور پہ جاکے قبر والے سے مانگنے یا اس کی برکت سے دعا قبول ہونا کہیں سے ثابت ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دعا کے لئے سیدھا نبی کریم ﷺ کی قبر پر جاتے ۔ان کے چچا کو وسیلہ کی درخواست نہیں کرتے۔
کیونکہ بے شک نبی اکرم ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بہت احترام کرتے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہرکیف نبی ﷺ کا درجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہیں بڑھ کے ہے ۔اور سفارش ہمیشہ کسی اعلی کی ہی ڈالی جاتی ہے ۔ تو گویا اس سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ فوت شدہ شخص ایمان میں چاہے کتنے ہی اعلی درجہ پر ہے اس نیت سے کہ اس کی برکت سے یا اس کے مزار کی برکت سے دعا کی قبولیت ہوجاتی ہے یا قبول ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں تو یہ ہرگز ثابت نہیں۔
ثابت ہے تو قبر پر جانا مزار پر نہیں ۔
ثابت ہے تو قبر والے کے لئے دعا کرنا ۔
یہاں ایک اور وضاحت (اپنے علم کے مطابق)
سنت اور آج کی نیکی
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ۔تو سن لو۔اب تم اس کی زیارت کیا کرو ،کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔(ترمذی)
گویا" قبر" کی زیارت جائز ہے ۔(مزار کی نہیں)
اللہ تعالی قبر کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کرتا ہے (ترمذی،ابن ماجہ ،مسند احمد)
اور آج کل باقاعدہ عورتیں قبروں، بلکہ مزاروں پر دھمال ڈالتی ہیں ۔
قبر پر جائیں تو یہ دعا پڑھیں
تم پر سلامتی ہو اے اس گھر والو مومنو اور مسلمانو اللہ تعالی ان پر رحم کرے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے اور بے شک ہم اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں (مسلم ، مسند احمد )
آج کا مسلم قبر ،بلکہ مزار پر جاتا ہے تو وہاں اہل قبر کی بجائے اپنی حاجات روائی کے لئے ان کو وسیلہ بناتا ہے۔
یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔(بخاری)
سن لو ۔تم سے پہلے والے لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ (مساجد)بنالیا،خبردار تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنالینا بالیقین میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں (مسلم)
علامہ ابن قیّمؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی قبروں کے متعلق نبی کریم ﷺ کی سنت اور لوگوں کی اکثریت کے عمل کے متعلق غور کرے گا تو دونوں کو مخالف اور جدا پائے گا،
اور ایسا ہی ہے ۔
"میں نے نبی کریم ﷺ سے قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم سنا"۔(مسلم عن ثمامہ بن شفعیؒ)
لیکن آج خوب اونچی قبر بنائی جاتی ہے بلکہ مزار
"نبی کریم ﷺ نے قبر پر چونا لگانے اور اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا اور اس پر کتبے لکھ کر لگانے سے بھی منع کیا "(مسلم عن حضرت جابر ؓ)
یہ لوگ قبروں پر کتبے لگاتے ہیں اور ان پر قرآن کی آیات و غیرھا لکھتے ہیں
"رسول اللہ ﷺ نے قبر پر چونا لگانے ، اس پر کتبے لکھ کر لگانے اور اس پر (ماسوائے مٹی کے) اور کسی قسم کی زیادتی سے منع کیا"۔(ابوداؤد عن حضرت جابر ؓ )
یہ لوگ خوب زیادتی کرتے ہیں ،اینٹیں ، چونا ،پتھر لگاتے ہیں اصحابی اسے مکروہ(تحریمی) قرار دیتے ۔
باقاعدہ قبروں پر جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں چادریں چڑھائی جاتی ہیں قوالیاں گائی جاتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا
اور یہ لوگ قبروں کے پاس ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں
محمد ﷺ نے قبروں کو مسجدیں بنانے سے منع کیا
اور یہ لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں وہاں میلے لگاتے ہیں قبروں کا طواف کرتے ہیں بیت اللہ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہاں دعا واستغاثہ کرتے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا
اور آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ اتوار یا جمعرات کو قبروں پر چراغاں کرتے ہیں
نبی اکرم ﷺ نے قبر پر میلہ لگانے سے منع کردیا
یہ بڑھ چڑھ کر میلے لگاتے ہیں وہاں اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح مسلمان عیدین پر عید گاہ جائے ۔
موجودہ زمانے کے قبر پرست ناجانے کیوں ان صحیح احادیث کو جانتے بوجھتے جھٹلاتے ہیں ؟ اور ان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ۔
قبر کو قبر رہنے ہی نہیں دیا مزار بنا دیا جس کا دین اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں ۔
اور دلیل دیتے ہیں محمد ﷺ بھی قبر پر جاتے تھے ۔
کیا قبر پر جاتے یا مزار پر ؟
کیا ایسی قبر پر جاتے ؟
کیا اس طرح جاتے ؟
کیا قبر والے سے مانگتے ؟
کیا قبر والے کو وسیلہ بناتے ؟
یا وسیلہ بنانے کا حکم دیتے ؟
"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ،یہ شراب اور جوا اور یہ "آستانے اور پانسے"، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیز کرو ، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی"(المائدہ ۔۹۰)
واللہ ولی التوفیق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ایصال ثواب کے ماننے والوں سے سوال ہے کہ :
ایصال کا مطلب ہے پہنچانا - اگر ایصال ثواب ہو سکتا ہے تو کیا ایصال گناہ بھی ہو سکتا ہے ؟؟؟

جو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو اپنی قبر میں زندہ مان کر حاجت روائی کے لئے پکارتے ہیں - ان سے سوال ہے کہ:

وہ حدیث کی چھان بین کے لئے اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہیں - براہ راست نبی کی قبر پر جا کر ان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی ضعیف ؟؟؟ کیا یہ حاجت روائی میں نہیں آتی ؟؟؟

پھر اگر نبی صل اللہ علیہ وسلم واقعی میں اپنی قبر میں زندہ ہیں (جو کہ حقیقت میں کفر کا عقیدہ ہے) تو پھر ایک فوت شدہ امام کی تقلید کا کیا جواز رہ جاتا ہے ؟؟؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
ہر انسان اپنی سمجھ کے مطابق بات کرتا ہے
امام بخاریؒ قبر مبارک پر کیا کرنے جاتے تھے
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عابد الرحمن صاحب نے کہا کہ ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق سوچتا ہے ۔
بالکل ٹھیک۔۔۔ لیکن دین ہماری سوچ کا محتاج نہیں ہے ۔
قبروں پر جانا مردوں کے لئے ہرگز منع نہیں ہے۔ ہاں اآج جو سنت کی اآڑ میں بدعات پھیلائی جارہی ہیں اعتراض اس پر ہے ۔
مرد حضرات قبور کی زیارت کے لئے جائیں مگر اس طرح کے صحیح طریقہ نبی کریم سے صحیح روایات میں ثابت ہے۔
ایک فائل اپلوڈ کر رہی ہوں امید ہےآپ کو نفع دے گی۔
اور جب قرآن اور حدیث سے ایک بات ثابت ہوجائے تو لازم ہے کہ ہم باقی تمام حیلوں ،،، کیوں ، چنانچہ ،اگرچہ، پھر بھی ۔۔۔ وغیرھم کو ترک کردیں۔
وللہ ولی توفیق ۔۔
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
میں معذرت خواہ ہوں فائل اپلوڈ نہیں ہورہی۔
میری ورڈ کی فائل ہے لیکن جب فائل سلیکٹ کرنے کیلئے آپشن آتی ہے تو ورڈ کی کوئی فائل ہی شو نہیں ہوتی ۔
خیر میں آپ کو ایسے ہی بھیج دیتی ہوں ۔
 
Top