عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہ اَحَداً (الکہف :٢٦)دین اسلام ﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ اپنی شرعی حاکمیت کو قائم کرنا چاہتا ہے لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں وہ دراصل ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کررہے ہیں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
ﷲ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
محترم! اس آیت کا اور آپ کی تحریر ’’ لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں‘‘ سے کیا تعلق؟ کیا اسلام میں اجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں؟ اور کیا مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے؟
محترم! مجتہد ہوتا ہی وہ ہے جس کو قرآن اور حدیث سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت ہو نہ کہ غیر مقلد ین کے نام نہد مجتہدین کی طرح کہ ان کا ہر سفیہ اور جاہل اپنے آپ کو مجتہد اور فقیہ خیال کرتا ہے۔ فوا اسفا
محترم! یہاں آپ نے خود ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو کون چیلنج کر رہا ہے۔ ایک امتی کی بات کو بلا دلیل دوسروں پر بطور حجت پیش کر کے آپ نے اپنے آپ کو کیا کچھ ثابت کر دیا تنہائی میں بیٹھ کر سوچئے گا۔من یری ن قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول المام الذی خالفہ۔ من فعل ھٰذا کان جاھلاً ضالا، بل قد یکون کافراً۔فنہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھؤلاء الأ ئمة دون المام الآخر فنہ یجب ن یستتاب فن تاب ولا قتل۔ (مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢)
(جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)
محترم! کسی کی بات کا غلط مفہوم پیش کرنا یا تو جہالت ہو یا پھر دھوکہ دہی۔اذا صح الحدیث فھو مذھبی
(رد المختار ١/٥٠، فتاویٰ دیوبند ١/٦٥)
(جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے)
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا صحیح ترجمہ یہ؛
جب حدیث صحیح ہو تو وہ میرا مذہب ہے(یعنی صحیح حدیث میرا مذہب ہے ضعیف حدیث میرا مذہب نہیں)
محترم! جب تعصب اور عناد سر پر سوار ہو تو انسان کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔لاینبغی لمن لم یعرف دلیلی ان یفتی بکلامی
(حجة اﷲ البالغہ ١/١٥٧، عقدالجید ١٢٢،١٢٣)
(جو شخص میری دلیل سے واقف نہیں اُس کیلئے یہ لائق نہیں کہ میرے کلام کے مطابق فتویٰ دے) یعنی میری تقلید نہیں کرنی بلکہ دلیل کی پیروی کرنی ہے۔
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ک فرمان اور اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ؛
جو شخص میری دلیل سے واقف نہیں اُس کیلئے یہ لائق نہیں کہ میرے کلام کے مطابق فتویٰ دے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ جس پر فتویٰ دے رہا ہے اس کی مماثلت اصل فتویٰ کے ساتھ صحیح نہ ہو اور غلط فتویٰ دے بیٹھے۔ لہٰذا فتویٰ دینے والے پر لازم ہے کہ اس کو اس کی دلیل معلوم ہو تاکہ ملتے جلتے حالات سے دھوکہ نہ ہو اسی کی وضاحت ان کے درج ذیل قول میں ہے۔
محترم یہاں بھی ترجمہ میں خیانت کی ہے یا جہالت کا ثبوت دیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے؛ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ
( در المختار ١/٥٠)
(اگر دلیل تمہارے سامنے آجائے تو اُسی کو اختیار کرو)
اگر دلیل تمہارے سامنے آجائے تو اُس کے مطابق فتویٰ دے دو۔
محترم! آپ لوگ یا تو قدرتاً بے عقل ہو یا پھر اللہ تعالیٰ کی مار پڑی ہے کہ آپ لوگوں کی مت ماری گئی ہے۔ اس فقرہ کا جو نتیجہ نکالا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں؛ہٰذا رأی النعمان بن ثابت یعنی نفسہ وہواحسن ماقدرنا علیہ فمن جآء بأحسن فھواولیٰ بالصواب
(حجة اﷲ البالغة ١ /١٥٧ طبع :میر محمد)
(یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے اور یہ بہترین بات ہے جسکی ہم قدرت رکھتے ہیں البتہ جو اس سے بھی بہتر بات لے آئے تو اسکی بات صواب( یعنی درست) کہلائے جانے کی زیادہ حقدار ہے)
محترم! آپ نے پہلے سے یہ بات ٹھان لی کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہی کہتے تھے حالانکہ یہاں بات اس اجتہادی مسئلہ کی ہورہی ہے جس کے سمجھنے میں غلطی کا امکان ہو تو اس معاملہ میں اگر دوسرے کی بات نصوص سے یا قیاس سے زیادہ مطابقت رکھے اس کو اختیار کر لو اور ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو چھوڑ دو۔ہر متقی پرہیزگار فقیہ کو ایسا ہی کہنا چاہئے۔اور یہ بات یقینی ہے کہ قرآن وحدیث زیادہ بہتر ہیں لہٰذا اگر قرآن وحدیث امام صاحب کی بات سے ٹکرا جائیں تو انہیں ہی لیا جائے گا یہی امام صاحب کا منہج ہے