• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تقلید قرآن سے ثابت ہے ؟ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ لفظ ترجیح پرغورکریں،یہاں مسئلہ حق وباطل کانہیں ہے ،غلط اورصحیح کانہیں ہے ،صرف ترجیح کاہے،اورمرجوح مسئلہ پر عمل کرناقابل مذمت نہیں ہے۔
معاملہ اتنا ہلکا نہیں ۔۔جس سے یوں جان چھڑالی جائے ۔۔
بلکہ ایک طرف حق و انصاف ہے :
الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسألة
اور اس حق و انصاف کے مقابل دوسری طرف تقلید ہے
ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة"
یعنی حق و انصاف کے مقابل وجوب تقلید کو کھڑا کیا گیا ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
معاملہ اتنا ہلکا نہیں ۔۔جس سے یوں جان چھڑالی جائے ۔۔
اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ معاملہ اتناسنگین بھی نہیں ہے جتنا بناکر آپ پیش کررہے ہیں،شیخ الہند کے پورے قول کا ترجمہ اگرآپ نے کیاہے تو غلط ترجمہ کیاہے،’’امام ابوحنیفہ نے جمہورکی مخالفت کی ‘‘اس کو آپ نے بنادیاہے کہ جمہور کے خلاف فتویٰ دیاہے ،کیاکسی مجتہد کا کسی فقہی مسئلہ کے تعلق سے اظہار خیال اورفتویٰ ایک ہی چیز ہے؟
اس کے بعد آپ نے متقدمین اورمتاخرین کا تعلق اس مسئلہ کی تردید کرنے والوں سے جوڑدیا ،جب کہ اس کا تعلق ’’خالف‘‘سے ہے ،یعنی امام ابوحنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہورعلماء جس میں متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
شیخ الہند علیہ الرحمہ کے پورے جملہ کو اگر بنظرانصاف دیکھیں تو اسے تین نقطوں میں سمیٹ سکتے ہیں،
1: شیخ الہند کی انصاف پسندی:انہوں نے بغیرکسی لاگ اورلپیٹ کے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اقرار کیاکہ اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے۔
2:پوری وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا(اورشاید طلبہ کو سمجھانے کیلئے کہاہوگا)ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں،ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تواگرچہ باوجوداس کے کہ ظاہرامر میں اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہمارے لئے اجتہاد کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ہم اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر ہی عمل کریں۔
3: امام ابوحنیفہ کی رائے پر اس لئے عمل کریں کیونکہ یہ کوئی حق اورباطل کا معاملہ نہیں ،انصاف اورناانصافی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے، بعض حالات کے پیش نظر مرجوح مسئلہ پر بھی عمل کیاجاسکتاہے اس میں کوئی ممانعت یامذمت والی بات نہیں ہے۔
اور اس حق و انصاف کے مقابل دوسری طرف تقلید ہے
حق وانصاف کا تعلق مسئلہ کی راجح اورمرجوح ہونے سے ہے اس کا تعلق تقلید سے نہیں ہے۔شیخ الہندٌ کے ول کا مقصد یہ ہے کہ حق اورانصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح حضرت امام شافعی کی رائے کو حاصل ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
معاملہ اتنا ہلکا نہیں ۔۔جس سے یوں جان چھڑالی جائے ۔۔
اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ معاملہ اتناسنگین بھی نہیں ہے جتنا بناکر آپ پیش کررہے ہیں،شیخ الہند کے پورے قول کا ترجمہ اگرآپ نے کیاہے تو غلط ترجمہ کیاہے،’’امام ابوحنیفہ نے جمہورکی مخالفت کی ‘‘اس کو آپ نے بنادیاہے کہ جمہور کے خلاف فتویٰ دیاہے ،کیاکسی مجتہد کا کسی فقہی مسئلہ کے تعلق سے اظہار خیال اورفتویٰ ایک ہی چیز ہے؟
اس کے بعد آپ نے متقدمین اورمتاخرین کا تعلق اس مسئلہ کی تردید کرنے والوں سے جوڑدیا ،جب کہ اس کا تعلق ’’خالف‘‘سے ہے ،یعنی امام ابوحنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہورعلماء جس میں متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
شیخ الہند علیہ الرحمہ کے پورے جملہ کو اگر بنظرانصاف دیکھیں تو اسے تین نقطوں میں سمیٹ سکتے ہیں،
1: شیخ الہند کی انصاف پسندی:انہوں نے بغیرکسی لاگ اورلپیٹ کے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اقرار کیاکہ اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے۔
2:پوری وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا(اورشاید طلبہ کو سمجھانے کیلئے کہاہوگا)ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں،ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تواگرچہ باوجوداس کے کہ ظاہرامر میں اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہمارے لئے اجتہاد کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ہم اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر ہی عمل کریں۔
3: امام ابوحنیفہ کی رائے پر اس لئے عمل کریں کیونکہ یہ کوئی حق اورباطل کا معاملہ نہیں ،انصاف اورناانصافی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے، بعض حالات کے پیش نظر مرجوح مسئلہ پر بھی عمل کیاجاسکتاہے اس میں کوئی ممانعت یامذمت والی بات نہیں ہے۔
اور اس حق و انصاف کے مقابل دوسری طرف تقلید ہے
حق وانصاف کا تعلق مسئلہ کی راجح اورمرجوح ہونے سے ہے اس کا تعلق تقلید سے نہیں ہے۔شیخ الہندٌ کے ول کا مقصد یہ ہے کہ حق اورانصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح حضرت امام شافعی کی رائے کو حاصل ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ معاملہ اتناسنگین بھی نہیں ہے جتنا بناکر آپ پیش کررہے ہیں،شیخ الہند کے پورے قول کا ترجمہ اگرآپ نے کیاہے تو غلط ترجمہ کیاہے،’’امام ابوحنیفہ نے جمہورکی مخالفت کی ‘‘اس کو آپ نے بنادیاہے کہ جمہور کے خلاف فتویٰ دیاہے ،کیاکسی مجتہد کا کسی فقہی مسئلہ کے تعلق سے اظہار خیال اورفتویٰ ایک ہی چیز ہے؟
اس کے بعد آپ نے متقدمین اورمتاخرین کا تعلق اس مسئلہ کی تردید کرنے والوں سے جوڑدیا ،جب کہ اس کا تعلق ’’خالف‘‘سے ہے ،یعنی امام ابوحنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہورعلماء جس میں متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
شیخ الہند علیہ الرحمہ کے پورے جملہ کو اگر بنظرانصاف دیکھیں تو اسے تین نقطوں میں سمیٹ سکتے ہیں،
1: شیخ الہند کی انصاف پسندی:انہوں نے بغیرکسی لاگ اورلپیٹ کے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اقرار کیاکہ اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے۔
2:پوری وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا(اورشاید طلبہ کو سمجھانے کیلئے کہاہوگا)ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں،ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تواگرچہ باوجوداس کے کہ ظاہرامر میں اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہمارے لئے اجتہاد کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ہم اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر ہی عمل کریں۔
3: امام ابوحنیفہ کی رائے پر اس لئے عمل کریں کیونکہ یہ کوئی حق اورباطل کا معاملہ نہیں ،انصاف اورناانصافی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے، بعض حالات کے پیش نظر مرجوح مسئلہ پر بھی عمل کیاجاسکتاہے اس میں کوئی ممانعت یامذمت والی بات نہیں ہے۔

حق وانصاف کا تعلق مسئلہ کی راجح اورمرجوح ہونے سے ہے اس کا تعلق تقلید سے نہیں ہے۔شیخ الہندٌ کے ول کا مقصد یہ ہے کہ حق اورانصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح حضرت امام شافعی کی رائے کو حاصل ہے۔
ایک واضح اور صاف بات کہ حق و انصاف اور دلائل کے اقرار کے باوجود ۔۔۔حق و انصاف اور دلائل کے خلاف قول کو اختیار کیا ۔۔
اس واضح اور دو ٹوک موقف کو توڑنے اور موڑنے کیلئے آپ نے اتنی طویل عبارت کا سہارا لیا۔۔
لیکن بات وہیں پر ہے کہ :
’’ الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسألة ‘‘ کہ حق اور انصاف تو یہی ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی ؒ کے موقف کو حاصل ہے؛
لیکن ::
ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة" لیکن ہم (اس حق اور انصاف کو اس لیئے نہیں مانتے کہ ) ہم مقلد ہیں
اور ہم پر اپنے امام ابو حنیفہ کی تقلید ضروری ہے، ( نہ کہ حق اور انصاف کی۔)
صورتحال واضح ہے کہ ۔۔حق اور انصاف۔۔کا خون کرکے ۔۔تقلید امام کو گلے کا ہار بنا لیا گیا
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اگرآپ کو یہی سمجھ کرخوشی ملتی ہے توخوش رہیں ،ویسے اس طرح کی جذباتی بحثوں سےہٹ کر ایک مرتبہ سوچناچاہئے کہ امت کےچاروں فقہی مسلک میں تقلید کی اجازت ہے،سب میں کبارعلماء موجود ہیں،کیاسب نے ایک ساتھ اس مسئلہ کے فہم مین غلطی کی ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی آپ اس بارے میں کیا کہے گے

قرآن کے بارے میں حنفیوں کا یہ اصول دیکھیں:

ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔

(اصول کرخی، صفحہ 12 )

حدیث کے بارے میں حنفیوں کا یہ اصول دیکھیں:

اصول کرخی میں ایسا ہی ایک اصول حدیث کے بارے میں بھی بنایا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حنفی فقہاء کے اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن حنفیوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے اس کے برعکس کیا۔ حنفیوں کا یہ اصول اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ ان کے ہاں امام کی تقلید ہر حال میں واجب ہے اگر چہ وہ قرآن کے خلاف ہو یا حدیث کے۔ امام کے قول کے آگے آنی والی ہر دیوار چاہے وہ قرآن ہو یا حدیث اسے گرانا ضروری ہے مذکورہ بالا اصول اسی ضرورت کے تحت وضع کیا گیا ہے۔ اپنے اماموں کو رب بنانے اور ان کی عبادت کرنے کی یہ بدترین مثال ہے۔

شیخ احمد سرہندی تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔

(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
تقلید ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔

دین اسلام ﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ اپنی شرعی حاکمیت کو قائم کرنا چاہتا ہے لہٰذا جو لوگ کسی اور کی بات کو دین کا درجہ دیتے اور بلا تحقیق اسکی بات کو مان لیتے ہیں وہ دراصل ﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو چیلنج کررہے ہیں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہ اَحَداً (الکہف :٢٦)

ﷲ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔


جبکہ دوسری جگہ عیسائیوں کے متعلق ارشاد فرمایا:

اِتَّخُذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲِ

( التوبہ :٣١)(انہوں نے اپنے علماء اور بزرگوں کو اﷲ کے علاوہ اپنا رب بنالیا)


عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو اس آیت کی قرأت کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے اس آیت کی قرأت کے بعد ارشاد فرمایا:

أما نہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا ذااحلّوا لہم شیئاً استحلوہ، وذا حرموا علیہم شیئاً ٔ حرّموہ ] أخرج الترمذی (٣٠٩٥) وحسنہ الالبانی فی صحیح الترمذی، وعبداﷲ بن عبدالقادر الاتلیدی فی تحقیق الترمذی، وعبدالرزاق الہدی فی تحقیق تفسیر ابن کثیر[

(آگاہ ہوجاؤ! بے شک وہ لوگ انکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ انکے لیے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو یہ (مقلدین) اُنکی بات کو (بلاتحقیق) مان لیا کرتے تھے)


ہماری اصل دلیل اس منہج کے حوالے سے صرف کتاب وسنت ہی ہے جسکا تذکرہ بطور مثال ہم کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں کسی اور کا قول ذکر کرنا لازم نہیں بلکہ قلم تذبذب کا شکار ہے کہ کیا ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کو ماننے کیلئے ہمیں اماموں سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟

لیکن کیونکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ علماء کے اقوال قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے معاون ہوتے ہیں لہٰذا قرآن و سنت سے ثابت شدہ اس منہج کے حوالے سے ہم ائمہ اربعہ۔ کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ مقلدین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ تقلید کے ذریعے ائمہ کی نہیں بلکہ دراصل شیطان کی پیروی کر رہے ہیں اور ہم ان ائمہ کا احترام اور ان سے محبت بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو ﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ بالفرض اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ میری اطاعت تم پر واجب ہے اگرچہ قرآن و سنت کے خلاف کیوں نہ ہو۔ تو اس کا احترام تو درکنار اسکی مذمت ہم پر واجب ہوجاتی اور اُسے امام اور عالم کہنا تو دور کی بات اسے مسلمان کہنا بھی جائز نہ ہوتا

جیسا کہ امام شوکانی اپنی کتاب ''القول المفید'' میں فرماتے ہیں:


ولو فرضنا والعیاذ باﷲ ان عالما من علماء السلام یجعل قولہ کقول ﷲا و قول رسولہ ۖ لکان کافراً مرتدا فضلا عن ن یجعل قولہ قدم من قول ﷲ ورسولہ۔ (القول المفید فی دلة الاجتہاد والتقلید ص ٢٥)

(اور نعوذ باﷲ اگر ہم فرض کرلیں کہ علمائے اسلام میں سے کوئی اپنے قول کو ﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے قول جیسا قرار دیتا ہے تو اپنے اس عقیدے کی وجہ سے وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا چہ جائیکہ اسکا قول ﷲ اور اسکے رسول کے قول پر مقدم مانا جائے)


اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

من یری ن قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول المام الذی خالفہ۔ من فعل ھٰذا کان جاھلاً ضالا، بل قد یکون کافراً۔فنہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھؤلاء الأ ئمة دون المام الآخر فنہ یجب ن یستتاب فن تاب ولا قتل۔ (مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢)

(جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہرحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید ﷲ کا دین ہے لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟

یا قرآن مجید کی ایک آیت کو ماننے سے انکار کردے؟

یقینا آپ ایسے شخص کو بے دین، ملحد اور مرتد جیسے القاب دیں گے لیکن کیوں؟ اس لیے کہ قرآن ﷲ کا دین ہے اور وہ دین میں اضافہ یا کمی کر رہا ہے اور ﷲ تعالیٰ کا قانون اس حوالے سے بہت سخت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر محمد رسول ﷲ ﷺ کے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ:

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ (الحآقہ :٤٤،٤٥،٤٦)

(اگر آپ ﷺ بھی بالفرض اپنی سے کچھ باتیں بناکر ہماری طرف منسوب کردیں تو ہم آپکو اہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے اور پھر آپکی شہ ر گ کاٹ ڈالیں گے)

اگرچہ آپ ﷺ نے ایسا کرنا نہیں تھا لیکن آپ کی امت کو سبق دیا گیا کہ محتاط رہیں اب بھی اگر کوئی اپنے امام کے قول کو دین سمجھتا ہے تو کیا وہ دین میں اضافہ نہیں کر رہا جبکہ دین پہلے ہی مکمل ہے۔؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا منہج

آپکا پورا نام نعمان بن ثابترحمہ اللہ ہے۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے، آپکی پیدائش ٨٠ ھ میں ہوئی آپکے زمانے تک حدیثیں ابھی جمع نہیں ہوئی تھیں اور نہ ہی آپ نے محدثین کے طرز پر سفر وغیرہ اختیار کیئے لہٰذا تقویٰ اور ذہانت وباریک بینی کے باوجود آپکے بیان کردہ مسائل میں سقم رہا، اگرچہ بہت سے مسائل جو تفریعات کے طور پر آپکے نام سے مشہور کیئے گئے، آپ اُن سے بری ہیں، البتہ آپکا منہج سلف والا ہی تھا اور آپ نے اپنے شاگردوں کی تربیت اسی منہج پر کی، حتی کہ ابو یوسف اور محمد بن الحسن نے اپنے استاذ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ (نافع الکبیر ص ٤ لعبدالحی الکھنوی)

دیگرائمہ کی طرح آپ سے بھی بہت اقوال ملتے ہیں جن میں عمل بالحدیث کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

(١) آپ رحمہ اللہ سے بھی یہ قول منقول ہے کہ:

اذا صح الحدیث فھو مذھبی

(رد المختار ١/٥٠، فتاویٰ دیوبند ١/٦٥)

(جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے)

ثابت ہوا کہ آپکا مذہب حدیث پر مبنی تھا۔

(٢) آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

لاینبغی لمن لم یعرف دلیلی ان یفتی بکلامی

(حجة اﷲ البالغہ ١/١٥٧، عقدالجید ١٢٢،١٢٣)

(جو شخص میری دلیل سے واقف نہیں اُس کیلئے یہ لائق نہیں کہ میرے کلام کے مطابق فتویٰ دے) یعنی میری تقلید نہیں کرنی بلکہ دلیل کی پیروی کرنی ہے۔

(٣) امام صاحب یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ

( در المختار ١/٥٠)

(اگر دلیل تمہارے سامنے آجائے تو اُسی کو اختیار کرو)

(٤) امام صاحب جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ بھی کہتے تھے:

ہٰذا رأی النعمان بن ثابت یعنی نفسہ وہواحسن ماقدرنا علیہ فمن جآء بأحسن فھواولیٰ بالصواب

(حجة اﷲ البالغة ١ /١٥٧ طبع :میر محمد)

(یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے اور یہ بہترین بات ہے جسکی ہم قدرت رکھتے ہیں البتہ جو اس سے بھی بہتر بات لے آئے تو اسکی بات صواب( یعنی درست) کہلائے جانے کی زیادہ حقدار ہے)

اور یہ بات یقینی ہے کہ قرآن وحدیث زیادہ بہتر ہیں لہٰذا اگر قرآن وحدیث امام صاحب کی بات سے ٹکرا جائیں تو انہیں ہی لیا جائے گا یہی امام صاحب کا منہج ہے باقی رہی یہ بات کہ امام صاحب نے قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ کیوں نہیں دیا؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ آپ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ آپ بھول بھی سکتے ہیں، غلطی بھی کرسکتے ہیں اور اس دلیل سے ناواقف بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا آپ رحمہ اللہ معذور ہیں لیکن بعد میں آنے والے معذور نہیں کیونکہ اُن تک حدیثیں پہنچ چکی ہیں۔ اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن ہم صرف اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور آخر میں مقلدین کا طرز عمل بھی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جو اپنے ائمہ کی ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر انکی اندھی تقلید کیئے جارہے ہیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عامریونس صاحب! آپ کو پہلے اپنی غلطی کااعتراف کرناچاہئے ،ہاں مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہے اوربس ،جتنے موضوعات آپ نے چھیڑے ہیں،ان کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
چلیں ’’ حوالہ در حوالہ ‘‘ کی بجائے ۔۔اصل حوالہ پیش خدمت کرنے کی سعادت لیتے ہیں
اور تقلید کے ’’ خطرناک نتائج ‘‘ سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں
محترم! ایک ہے ’’فقہ حنفی‘‘ اور ایک ہے فقہ حنفی کے کسی عالم کی اپنی بات۔حنفی عالم کی اپنی سوچ اور فکر کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ یا تو آپ جلد نمبر کے حوالہ کے ساتھ اس کا snap لگاتے یا اس کا مکمل حوالہ دیتے۔
 
Top