معاملہ اتنا ہلکا نہیں ۔۔جس سے یوں جان چھڑالی جائے ۔۔
اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ معاملہ اتناسنگین بھی نہیں ہے جتنا بناکر آپ پیش کررہے ہیں،شیخ الہند کے پورے قول کا ترجمہ اگرآپ نے کیاہے تو غلط ترجمہ کیاہے،’’امام ابوحنیفہ نے جمہورکی مخالفت کی ‘‘اس کو آپ نے بنادیاہے کہ جمہور کے خلاف فتویٰ دیاہے ،کیاکسی مجتہد کا کسی فقہی مسئلہ کے تعلق سے اظہار خیال اورفتویٰ ایک ہی چیز ہے؟
اس کے بعد آپ نے متقدمین اورمتاخرین کا تعلق اس مسئلہ کی تردید کرنے والوں سے جوڑدیا ،جب کہ اس کا تعلق ’’خالف‘‘سے ہے ،یعنی امام ابوحنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہورعلماء جس میں متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
شیخ الہند علیہ الرحمہ کے پورے جملہ کو اگر بنظرانصاف دیکھیں تو اسے تین نقطوں میں سمیٹ سکتے ہیں،
1: شیخ الہند کی انصاف پسندی:انہوں نے بغیرکسی لاگ اورلپیٹ کے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اقرار کیاکہ اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے۔
2:پوری وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا(اورشاید طلبہ کو سمجھانے کیلئے کہاہوگا)ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں،ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تواگرچہ باوجوداس کے کہ ظاہرامر میں اس مسئلہ میں امام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہمارے لئے اجتہاد کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ہم اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے پر ہی عمل کریں۔
3: امام ابوحنیفہ کی رائے پر اس لئے عمل کریں کیونکہ یہ کوئی حق اورباطل کا معاملہ نہیں ،انصاف اورناانصافی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے، بعض حالات کے پیش نظر مرجوح مسئلہ پر بھی عمل کیاجاسکتاہے اس میں کوئی ممانعت یامذمت والی بات نہیں ہے۔
اور اس حق و انصاف کے مقابل دوسری طرف تقلید ہے
حق وانصاف کا تعلق مسئلہ کی راجح اورمرجوح ہونے سے ہے اس کا تعلق تقلید سے نہیں ہے۔شیخ الہندٌ کے ول کا مقصد یہ ہے کہ حق اورانصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح حضرت امام شافعی کی رائے کو حاصل ہے۔