آپ نے کہامیں نے ایک عالم کے قول کو پورے مسلک پر نہیں لگایا !
لہذا آپ کا پہلا اعتراض ختم ہوا۔
یاد رہے کہ عملی میدان میں برصغیر پاک وہند کے احناف "تقلید" کرتے ہیں جو کہ کتاب وسنت کی مخالفت کا نام ہے ۔
اور اسکے ثبوت ہمارے ذمہ ہیں !
اور جب ثبوت مانگے گئے تو جو لنک دیا گیا اس میں پہلا ثبوت مولوی محمود حسن صاحب کا قول پیش کیا گیا
الزام لگارھے ہیں احناف پر اور بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں ایک عالم کا قول
اس کا صاف مطلب ھے کہ آپ ایک عالم کے قول کو احناف پر فٹ کر رہے ہیں
اولاجی ہم بھی بلا عذر جمع بین الصلاتین کے جواز کا فتوى دیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ جمع بین الصلاتین زندگی میں صرف ایک بار نبی مکرم صلى اللہ علیہ نے کی اور ساری زندگی کا معمول ہر نماز کو اسکے اول وقت میں پڑھنے کا تھا سو ہم بھی کہتے ہیں کہ جمع بین الصلاتین بلا عذر بھی جائز ہے ۔ لیکن اسے معمول بنا لینا سنت کی مخالفت ہے ۔
لہذا آپ کا دوسرا اعتراض بھی ختم ہوا ۔
میری معلومات کے مطابق تو مسلک اہل حدیث بھی بلا عذر جمع بین الصلاتین کے قائل نہیں
آپ ھی کی ویب سائٹ پر موجود کتاب کا اقتباس پیش ہے۔
ان راویات سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت اور شرعی عذر کی بنا پر حضر میں بھی کبھی کبھار جمع بین الصلاتین جائز ہے لیکن یاد رہے کہ بغیر عذر کے ایسا کرنا یا س کو معمول بنا لینا غلط ہے۔ یعنی نا گزیر قسم کے حالات (شرعی عذر) میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔ تاہم شیدد ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں، جیسے کاروباری لوگوں ک اعام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دو نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ ہر نماز اس کے مختار وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے، سوائے ناگزیر حالات کے۔
صفحہ 309
نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں
مؤلف : ڈاکٹر شفیق الرحمٰن
تحقیق و تخریج: ابو طاہر حافظ زبیر علی زئی
ثانیا
جو علماء بلا عذر جمع بین الصلاتین کے قائل نہیں کیا آپ ان کو بھی کتاب و سنت کا مخالف کہیں گے یا یہ اصطلاح آپ کی لغت میں صرف احناف کے لئیے ہے۔
ثالثا
آپ نے بلا عذر جمع بین الصلاتین کو جائز قرار دیا لیکن فتاوی یا کتب کے حوالہ جات نہیں پیش کیے تاکہ واضح ھو کہ یہ آپ کا موقف ہے یا مسلک اہل حدیث کا