• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جرح اور تعدیل صرف متقدمین کی قبول کی جاتی ہے؟

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم

ایک بھائی سے گفتگو چل رہی تھی تو انہوں نے یہ کہا کہ جرح اور تعدیل صرف متقدمین سے قبول کی جاتی ہے- بھائی نے جید علماء جیسے کہ ابن حجر وغیرہ کے بارے میں کہا کہ یہ متقدمین میں شمار نہیں ہوتے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، امام بخاری وغیرہ شمار ہوتے ہیں

میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر ایسا ہی ہے، تو پھر امام ابن حجر نے تقریب التہذیب کیوں لکھی؟

دوسرا یہ، کہ شیخ ناصر البانی صاحب جا بجا ان کے قول کو نقل بھی کرتے ہیں

اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

میرا سوال اہل علم سے یہ ہے کہ کیا یہ واقعی میں اصول ہے؟ اور اگر ہے، تو پھر تقریب الہتذیب کا کیا مقصد ہوا؟

شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم قاضی صاحب ! و علیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
حافظ ابن حجر و حافظ ذہبی او ر حافظ مزی رحمھم اللہ وامثالہم نے اپنی کتابوں میں متقدمین کی ۔جرح و تعدیل ۔ہی نقل کی ہے۔
یا اقوال جرح و تعدیل کی ’‘ تہذیب و تنقیح ’‘ کی ہے ۔یا ’‘ ترجیح ’‘ دی ہے ،

متاخرین مذکورین کی کتب متقدمین ہی کی کتب ماخوذ و مستفاد ہیں ،
مثلاً میزان الاعتدال کے بارے
أسماء الكتب التي أشار اليها الذهبي في كتابه ميزان الاعتدال، والتي أخذ عنها تسلسل الرواۃ
كتاب " كتاب الضعفاء الكبير " لأبي جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (توفي 322 هـ).
كتاب " المجروحين من المحدثين " للحافظ محمد بن حبان البستي (تو 354 هـ).
كتاب " الكامل في ضعفاء الرجال " للإمام الحافظ أبي أحمد عبد الله بن عدي الجرجاني (توفي 365 هـ).
كتاب " الضعفاء " لمحمد بن الحسين أبي الفتح الأزدي (توفي 367 هـ).
كتاب " كتاب الضعفاء والمتروكين " لعلي بن عمر الدارقطني (توفي 385 هـ).
كتاب " الضعفاء " لمحمد بن أحمد بن أبي أحمد الحاكم (توفي 378 هـ).
كتاب " الذيل على الكامل " لمحمد بن طاهر أبي الفضل المقدسي (توفي 507 هـ).
كتاب " الضعفاء والمتروكين " لعبد الرحمن بن علي أبي الفرج بن الجوزي (توفي 597 هـ).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أشهر الكتب المطبوعة في الجرح والتعديل
أولاً : الكتب المصنفة في الثقات:
- معرفة الثقات للعجلي.
- كتاب الثقات لابن حبان.
- مشاهير علماء الأمصار لابن حبان.
- تاريخ أسماء الثقات لابن شاهين.
- الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة لابن قطلوبغا، طبع حديثاً.
ثانياً: الكتب المصنفة في الضعفاء:
- الضعفاء الصغير للبخاري.
- كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي.
- الشجرة في أحوال الرجال للجوزجاني.
- الضعفاء لأبي زرعة الرازي.
- الضعفاء الكبير للعقيلي.
- كتاب المجروحين لابن حبان، وتعليقات الدارقطني عليه.
- الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي.
- تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين لابن شاهين.
- كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني.
- المدخل إلى الصحيح للحاكم النيسابوري.
- الضعفاء لأبي نعيم الأصبهاني.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثالثاً الكتب الجامعة بين الثقات والضعفاء:
- الطبقات الكبرى لابن سعد.
- التاريخ الكبير للبخاري.
- التاريخ الأوسط للبخاري.
- التاريخ لأبي زرعة الدمشقي.
- الجرح والتعديل لابن أبي حاتم الرازي.
- التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل لابن كثير، طبع حديثاً.
- كتب السؤالات:
- سؤالات تلاميذ يحيى بن معين له، ومنها: سؤالات ( عباس الدوري= التاريخ، ابن الجنيد، عثمان الدارمي، ابن طهمان الدقاق، ابن محرز).
- سؤالات ابن أبي شبية لعلي بن المديني.
- العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل (رواية ابنه عبدالله، ورواية المروذي).
- سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي.
- سؤالات الآجري لأبي داود السجستاني.
- سؤالات تلاميذ الدارقطني له، ومنها: سؤالات (أبي عبدالله الحاكم النيسابوري، البرقاني، السلمي، حمزة السهمي، أبي عبدالله ابن بكير).
- سؤالات مسعود السجزي للحاكم النيسابوري.
رابعاً: الكتب المصنفة في رجال كتب مخصوصة:
1. رجال الصحيحين أو أحدهما:
- رجال صحيح البخاري للكلاباذي.
- تسمية من أخرج لهم البخاري ومسلم للحاكم.
- البيان والتوضيح لمن أخرج له في الصحيح ومس بضرب من التجريح لأبي زرعة العراقي.
- رجال صحيح مسلم لأبي بكر ابن منجويه الأصبهاني.
- التعديل والتجريح لمن أخرج له البخاري في الجامع الصحيح لأبي الوليد الباجي.
- الجمع بين كتابي أبي نصر الكلاباذي وأبي بكر الأصبهاني في رجال البخاري ومسلم لأبي الفضل ابن طاهر المقدسي.
2. شيوخ الأئمة الستة:
- المعجم المشتمل في ذكر أسماء شيوخ الأئمة النبّل لابن عساكر.
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
اسحاق سلفی بھائی

خدا آپ کو جزائے خیر دے

آپ ہمیشہ ہی جواب عنایت کرتے ہو

اب تو آپ سے مجھے شرمندگی سی ہونے لگی ہے

کہ آپ کا وقت لے لیتا ہوں

خدا جزائے خیر دے

آمین

اچھا بھائی

آپ کے جواب سے یہ محسوس ہوا کہ متقدمین ہی کی رائے لی جاتی ہے

ایک تو یہ واضح کر دیں کہ آپ نے فرمایا کہ تہذیب و تنقیح؛ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں؟

دوئم ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تقریب کیوں لکھی۔ یعنی بنیادی مقصد کیا ہے اس کتاب کا؟

تیسرا یہ کہ متقدمین کی کیا تعریف ہے ؟

اور کیا کوئی ایسا عالم بھی گذرا ہے کہ جس نے اس اصول سے اختلاف کیا ہو؟

جب بھی فرصت ہو، آرام سے جواب عنایت کر دیجیے گا

باقی اہل علم بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں

شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حافظ ابن حجر ؒ ؒ نے تقریب التہذیب کیوں لکھی ؟
اس جواب جاننے سے پہلے اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ انہوں نے ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ کیوں لکھی ؟

اس سوال کا جواب اسماء الرجال طلباء علم کےلئے بڑا مفید اور دلچسپ ہے ،اور علماء کی محنت کے تسلسل اور مربوط ہونے کی دلیل ہے۔
حافظ عبد الغنی المقدسی (۵۴۴ ۔ ۶۰۰ ) اسماء الرجال اور تراجم پر ایک عظیم کتاب مرتب کی "الكمال في أسماء الرجال"
جس میں کتب ستہ کے رجال کے تراجم لکھے ۔اور حتی المقدور جمیع رواۃ کے تراجم جمع کرنے کوشش کی ۔

ان کے بعد حافظ جمال الدین المزی ؒ (654 - 742 هـ = 1256 - 1341 م) آئے ۔
درس الحافظ جمال الدين المزي كتاب "الكمال" للحافظ عبد الغني، فوجد فيه نقصا وإخلالا وإغفالا لكثير من الأَسماء التي هي من شرطه بلغت مئات عديدة، وقرر تأليف كتاب جديد يستند في أسسه على كتاب "الكمال" وسماه"تهذيب الكمال في أسماء الرجال". والظاهر أنه اشتغل بمادة الكتاب منذ فترة مبكرة،
انہوں نے ۔۔الکمال ۔۔پڑھی ،تو اس انہیں ،مزید کام کی ضرورت محسوس ہوئی ۔سینکڑوں اسماء کے تراجم سے اس کو تشنہ پایا ۔
تو انہوں نے اسی ۔الکمال ۔کی اساس (یعنی ترتیب و مقصد ) سے ایک عظیم اور عدیم المثال کتا ب مرتب کی،

اور اس کا نام رکھا "تهذيب الكمال في أسماء الرجال". جو اس وقت ۳۵ پینتیس جلدوں میں مطبوع ہے۔
پھر حافظ ابن حجر ؒ آئے ،انہوں نے حافظ مزی ؒ کی کتاب دیکھی ،جو قیمتی اور مفید اور لاجواب تو تھی لیکن اتنی بڑی کتاب پڑھنے کےلئے ہر کسی کے پاس وقت ممکن نہیں تھا ،،تو انہوں نے اس کی ’‘تہذیب ’‘ کی ،اور اس کانام ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ رکھا ۔اس کے مقدمہ کے درج ذیل الفاظ ملاحظہ ہوں :
فإن كتاب "الكمال في أسماء الرجال" الذي ألفه الحافظ الكبير أبو محمد عبد الغني بن عبد الواحد بن سرور المقدسي, وهذبه الحافظ الشهير أبو الحجاج يوسف بن الزكي المزي, من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا, وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا, ولا سيما التهذيب,
فهو الذي وفق بين اسم الكتاب ومسماه, وألف بين لفظه ومعناه, بيد أنه أطال وأطاب, ووجد مكان القول ذا سعة فقال وأصاب, ولكن قصرت الهمم عن تحصيله لطوله,
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب حافظ صاحب ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ مرتب کرچکے ،تو اب ان کے شاگردوں اور دوستوں کی فرمائش ہوئی کہ
اس کتاب کا خلاصہ بھی ہونا چاہیئے ۔میں خؒلاصہ کہا ہے اور حافظ صاحب نے یہاں ’‘تجرید ’‘ لکھا ہے ان کے الفاظ ہیں :
فالتمس مني بعض الأخوان أن أجرد له الأسماء خاصة ، فلم أوثر ذلك لقلة جدواه على طالبي هذا الفن ، ثم رأيت أن أجيبه إلى مسألته ، وأسعفه بطلبته على وجه يحصل مقصوده بالإفادة ويتضمن الحسنى التي أشار إليها وزيادة ، وهي : أنني أحكم على كل شخص منهم بحكم يشمل أصح ما قيل فيه ، وأعدل ما وصف به ، بألخص عبارة وأخلص إشارة بحيث لا تزيد كل ترجمة على سطر واحد غالباً يجمع اسم الرجل واسم أبيه وجده ، ومنتهى أشهر نسبته ونسبه الخ

سو انہوں نے ’‘تقریب التہذیب ’‘ لکھ دی ۔اور طلباء علم حدیث پر احسان عظیم کیا ۔اللہ العظیم انہیں اجر عظیم سے نوازے ،آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب باتوں کی تفصیل کےلئے ان تینوں کتب کے مقدمے پڑھ لیجیئے۔
آخر میں دعاوں کی درخواست ہے ،یہ سطور بڑی تکلیف کی حالت میں پوسٹ کی ہیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
متقدمین کے اقوال جرح وتعدیل اس لئے قبول کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ راوی کا فیصلہ عموما خود اس کی روایات کو جانچ کر کرتے ہیں۔ جبکہ متاخرین عموما متقدمین کے فیصلوں پر ہی اعتماد کرتے ہوئے انہیں بعینہ نقل کر دیتے ہیں اس لئے ان کے اقوال حجت نہیں ہوتے، لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کسی متاخر نے فلاں راوی پر حکم استقراء التام اور اس کی احادیث کو خود جانچ کر لگایا ہے تب ان کی بات بھی حجت ہو گی، یا اگر وہ اپنے معاصرین یا شیوخ پر حکم لگائیں تو بھی ان کا حکم حجت ہو گا۔
بلکہ حافظ ذہبی تو ان چند متاخرین میں سے ہیں جن کے راویوں پر تمام احکام حجت ہوتے ہیں کیونکہ آپ متقدمین کے فیصلے پر اعتماد کیے بغیر خود تحقیق کرتے ہیں۔ اسی لئے تاج الدین السبکی نے انہیں "شيخ الجرح والتعديل" کہا ہے۔ (الطبقات: ج 9 ص 101)۔
ابن ناصر الدین، امام ذہبی کے متعلق فرماتے ہیں: "ناقد المحدثين وإمام المعدلين والمجرحين..وكان آية في نقد الرجال، عمدة في الجرح والتعديل" (الرد الوافر ص 31)۔
اور علامہ سخاوی فرماتے ہیں: "وهو من أهل الاستقراء التام في نقد الرجال" (الاعلان: ص 722)۔
اسی لئے متاخرین میں امام ذہبی ایک ایسے ہیں جن کے راویوں پر احکام کو قبول کیا جاتا ہے اور انہیں حجت تسلیم کیا جاتا ہے۔

اور یہی بات ابن حجر کے متعلق بھی کہی جاتی ہے، لیکن زیادہ تر وہ نقل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں! واللہ اعلم۔ لیکن یقینا ان کا حکم بھی بہت قیمتی ہے چاہے وہ خود حکم لگائیں یا محدثین کے مختلف فیہ اقوال میں سے کسی کو ترجیح دیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
آپ کو ایک ذاتی مشاہدے کی بات بتاؤں، میں نے آج تک جتنے بھی راویوں کے تراجم اکھٹے کیے ہیں اپنے بلاگ میں، ان میں جتنے بھی مختلف فیہ راوی ہیں ان سب کے متعلق میں نے امام ذہبی کے حکم کو ہمیشہ حق پر پایا ہے۔ مجھے آج تک ایک مثال کی تلاش ہے جہاں امام ذہبی کا حکم راجح نہ ہو! جبکہ میں نے ایسی بے شمار مثالیں دیکھی ہیں جہاں حافظ ابن حجر کا قول مرجوح نظر آیا ہے۔ اور ابھی تک میں نے تقریبا 166 راویوں کے مکمل تراجم اکھٹے کیے ہیں۔
اسی لئے مجھے امام ذہبی سے خاص لگاؤ ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
بلکہ جب مجھے کسی راوی پر جلد از جلد حتمی حکم کی تلاش ہوتی ہے تو میں کئی بار امام ذہبی کے حکم پر ہی اکتفاء کر لیتا ہوں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بخاری کا منہج یہی ہے کہ راوی کی ایسی روایت جو بدعت کے حق میں نہ ھو وہ لی جائے گی ،القسطلاني ، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں

عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي، المشهور. وثقه أحمد، والنسائي، والعجلي، والدارقطني إلا أنه كان يغلو في التشيع، لكن احتج به الجماعة، ولم يخرج له في الصحيح شيئًا مما يقوي بدعته


عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي مشھور ہیں … بے شک یہ تشیع میں غلو کرتے ہیں لیکن ان سے ایک جماعت نے احتجاج کیا ہے اور بخاری نے صحیح میں ان سے کوئی روایت نہ لی جس سے انکی بدعت کو تقویت پہنچے


زبیر علی زئی رحم الله کتاب توضیح الاحکام میں مثال دیتے ہیں کہ صحیحین میں بھی بدعتی راوی موجود ہیں




راوی کی تحقیق کی جائے گی اوراس کی روایت صرف شیعہ ہونے پر رد نہیں ہوتی. لیکن اگروہ شیعہ ہے تو اس کی روایت کا متن دیکھا جائے گا کہ کہیں دعوت بدعت تو نہیں دے رہا


اہل حدیث علماء کے نزدیک راوی کی بدعت کی بحث بے کار ہے اگر وہ بدعتی بھی ہو تو بھی روایت صحیح ہے

زبیر علی زئی رحم الله کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں




اسمعیل سلفی کتاب مقالات حدیث میں لکھتے ہیں


جی ہاں روایات کی وضع سازی کا اسی دور میں آغاز ہوا جب صحابہ کے مناقشات پر سب سے پہلے روایات گھڑی گئیں مختار الثقفی اور سبائی فتنوں نے شیعیاں علی بن کر اہل بیت کے فضائل گھڑے اور ان کو ایک ما فوق الفطرت مخلوق بنا دیا گیا ، پھر وہ امام اور معصوم کہلائے
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
رضا میاں بھائی اور اسحاق بھائی بہت بہت شکریہ

اللہ جزائے خیر دے آپ کو

بھائی متقدمین کی تعریف بھی کر دیں کہ اس سے مراد کونسے لوگ ہیں؟ کوئی کٹ آف لمٹ بھی ہے؟

نیز، لفظ تقریب اور تہذیب کے لغوی معنی کیا ہیں؟

اور رضا بھائی! یہ بھی بتائے گا کہ جیسا ابن حجر کا قول دیکھنے کے لیے تقریب التہذیب دیکھی جاتی ہے
علامہ ذہبی رھمہ اللہ کی رائے کہاں پر ملے گی؟ صرف میزان الاعتدال یا تقریب التہذیب جیسی کوئی کتاب بھی ہے ان کی؟

اسحاق بھائی زبردست پوسٹ تھی آپ کی

میں پہلے شکریہ والا بٹن دبایا، پھر بدل کر زبردست کر دیا

جزاک اللہ
 
Top