حافظ ابن حجر ؒ ؒ نے تقریب التہذیب کیوں لکھی ؟
اس جواب جاننے سے پہلے اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ انہوں نے ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ کیوں لکھی ؟
اس سوال کا جواب اسماء الرجال طلباء علم کےلئے بڑا مفید اور دلچسپ ہے ،اور علماء کی محنت کے تسلسل اور مربوط ہونے کی دلیل ہے۔
حافظ عبد الغنی المقدسی (۵۴۴ ۔ ۶۰۰ ) اسماء الرجال اور تراجم پر ایک عظیم کتاب مرتب کی "الكمال في أسماء الرجال"
جس میں کتب ستہ کے رجال کے تراجم لکھے ۔اور حتی المقدور جمیع رواۃ کے تراجم جمع کرنے کوشش کی ۔
ان کے بعد حافظ جمال الدین المزی ؒ (654 - 742 هـ = 1256 - 1341 م) آئے ۔
درس الحافظ جمال الدين المزي كتاب "الكمال" للحافظ عبد الغني، فوجد فيه نقصا وإخلالا وإغفالا لكثير من الأَسماء التي هي من شرطه بلغت مئات عديدة، وقرر تأليف كتاب جديد يستند في أسسه على كتاب "الكمال" وسماه"تهذيب الكمال في أسماء الرجال". والظاهر أنه اشتغل بمادة الكتاب منذ فترة مبكرة،
انہوں نے ۔۔الکمال ۔۔پڑھی ،تو اس انہیں ،مزید کام کی ضرورت محسوس ہوئی ۔سینکڑوں اسماء کے تراجم سے اس کو تشنہ پایا ۔
تو انہوں نے اسی ۔الکمال ۔کی اساس (یعنی ترتیب و مقصد ) سے ایک عظیم اور عدیم المثال کتا ب مرتب کی،
اور اس کا نام رکھا "تهذيب الكمال في أسماء الرجال". جو اس وقت ۳۵ پینتیس جلدوں میں مطبوع ہے۔
پھر حافظ ابن حجر ؒ آئے ،انہوں نے حافظ مزی ؒ کی کتاب دیکھی ،جو قیمتی اور مفید اور لاجواب تو تھی لیکن اتنی بڑی کتاب پڑھنے کےلئے ہر کسی کے پاس وقت ممکن نہیں تھا ،،تو انہوں نے اس کی ’‘تہذیب ’‘ کی ،اور اس کانام ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ رکھا ۔اس کے مقدمہ کے درج ذیل الفاظ ملاحظہ ہوں :
فإن كتاب "الكمال في أسماء الرجال" الذي ألفه الحافظ الكبير أبو محمد عبد الغني بن عبد الواحد بن سرور المقدسي, وهذبه الحافظ الشهير أبو الحجاج يوسف بن الزكي المزي, من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا, وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا, ولا سيما التهذيب,
فهو الذي وفق بين اسم الكتاب ومسماه, وألف بين لفظه ومعناه, بيد أنه أطال وأطاب, ووجد مكان القول ذا سعة فقال وأصاب, ولكن قصرت الهمم عن تحصيله لطوله,
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب حافظ صاحب ’‘ تہذیب التہذیب ’‘ مرتب کرچکے ،تو اب ان کے شاگردوں اور دوستوں کی فرمائش ہوئی کہ
اس کتاب کا خلاصہ بھی ہونا چاہیئے ۔میں خؒلاصہ کہا ہے اور حافظ صاحب نے یہاں ’‘تجرید ’‘ لکھا ہے ان کے الفاظ ہیں :
فالتمس مني بعض الأخوان أن أجرد له الأسماء خاصة ، فلم أوثر ذلك لقلة جدواه على طالبي هذا الفن ، ثم رأيت أن أجيبه إلى مسألته ، وأسعفه بطلبته على وجه يحصل مقصوده بالإفادة ويتضمن الحسنى التي أشار إليها وزيادة ، وهي : أنني أحكم على كل شخص منهم بحكم يشمل أصح ما قيل فيه ، وأعدل ما وصف به ، بألخص عبارة وأخلص إشارة بحيث لا تزيد كل ترجمة على سطر واحد غالباً يجمع اسم الرجل واسم أبيه وجده ، ومنتهى أشهر نسبته ونسبه الخ
سو انہوں نے ’‘تقریب التہذیب ’‘ لکھ دی ۔اور طلباء علم حدیث پر احسان عظیم کیا ۔اللہ العظیم انہیں اجر عظیم سے نوازے ،آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب باتوں کی تفصیل کےلئے ان تینوں کتب کے مقدمے پڑھ لیجیئے۔
آخر میں دعاوں کی درخواست ہے ،یہ سطور بڑی تکلیف کی حالت میں پوسٹ کی ہیں۔