مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
کیا جمعہ کے دن جماع کرنے کی کوئی فضیلت ہے ؟
لوگوں میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جمعہ کے دن جماع کرنے کی خاص اہمیت ہے ۔ حالانکہ اس بات کے لئے کوئی صریح نہیں ہے۔ اس سے متعلق ایک روایت ذکر کی جاتی ہے وہ روایت یہ ہے ۔
أخرج البيهقي من طريق أبي عتبة ثنا بقية ثنا يزيد بن سنان عن بكير بن فيروز عن أبي هريرة قال قال رسول الله {: "أيعجز أحدكم أن يجامع أهله في كل جمعة فإن له أجرين اثنين أجر غسله وأجر غسل امرأته۔
أخرجه أبو نعيم في "الطب " (ق 79/2) ، والبيهقي في "الشعب،(3/98/2991) ، والديلمي في "مسند الفردوس " (1/180/1 - الغرائب الملتقطة)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی عاجز آگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہرجمعہ جماع کرے ، اس کے لئے دو اجر ہے ۔ ایک اجر اس کے اپنے غسل کرنے کا اور دوسرا اجر اس کی بیوی کے غسل کرنے کا۔
٭یہ روایت ضعیف ہے ۔ بیہقی نے اسے روایت کرکے ذکر کیا کہ اس کی سند میں بقیہ ہے جن کی روایات محل نظر ہیں۔
٭علامہ البانی ؒ نے اسے منکر قرار دیا ہے( دیکھیں سلسلہ ضعیفہ /6194)
٭مذکورہ حدیث تین راویوں پر کلام ہے ، وہ راوی ،بکیر بن فیروز، یزید بن سنان اور بقیہ بن الولید ہیں۔
یہ بات کہنے والے ایک دوسری حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔
حديث: أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح في الساعة الرابعة، فكأنما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.(رواه البخاري و مسلم)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔
٭اس حدیث سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں غسل جنابت کا ذکر ہے اور غسل جنابت جماع کے بعد ہی ہوتا ہے لہذا یہ حدیث جمعہ کے دن بیوی سے ہمبستری کرنے کی دلیل ہے ۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہاں غسل جنابت سے مراد کامل غسل ہے ، چونکہ جمعہ عظیم دن ہے اس لئے کفایت کرنے والا غسل نہ کیا جائے بلکہ کامل غسل کیا جائے ۔ اگر اس سے جنبی مراد لیا جائے تو غیر جنبی کے لئے غسل کی فضیلت نہیں رہ جاتی جبکہ دوسری روایات سے بھی پتہ چلتا ہے جمعہ کا غسل عام ہے ۔
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جماع کی فضیلت ہے ، اس پر ثواب دیا جاتا ہے مگر جماع کا کوئی دن مخصوص نہیں ہے ۔ جیسے جمعہ کے دن جماع کی فضیلت ثابت نہیں ویسے ہی جن لوگوں نے سوموار اور جمعرات بتلایا ان کی بھی بات ثابت نہیں ۔
واللہ اعلم
لوگوں میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جمعہ کے دن جماع کرنے کی خاص اہمیت ہے ۔ حالانکہ اس بات کے لئے کوئی صریح نہیں ہے۔ اس سے متعلق ایک روایت ذکر کی جاتی ہے وہ روایت یہ ہے ۔
أخرج البيهقي من طريق أبي عتبة ثنا بقية ثنا يزيد بن سنان عن بكير بن فيروز عن أبي هريرة قال قال رسول الله {: "أيعجز أحدكم أن يجامع أهله في كل جمعة فإن له أجرين اثنين أجر غسله وأجر غسل امرأته۔
أخرجه أبو نعيم في "الطب " (ق 79/2) ، والبيهقي في "الشعب،(3/98/2991) ، والديلمي في "مسند الفردوس " (1/180/1 - الغرائب الملتقطة)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی عاجز آگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہرجمعہ جماع کرے ، اس کے لئے دو اجر ہے ۔ ایک اجر اس کے اپنے غسل کرنے کا اور دوسرا اجر اس کی بیوی کے غسل کرنے کا۔
٭یہ روایت ضعیف ہے ۔ بیہقی نے اسے روایت کرکے ذکر کیا کہ اس کی سند میں بقیہ ہے جن کی روایات محل نظر ہیں۔
٭علامہ البانی ؒ نے اسے منکر قرار دیا ہے( دیکھیں سلسلہ ضعیفہ /6194)
٭مذکورہ حدیث تین راویوں پر کلام ہے ، وہ راوی ،بکیر بن فیروز، یزید بن سنان اور بقیہ بن الولید ہیں۔
یہ بات کہنے والے ایک دوسری حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔
حديث: أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح في الساعة الرابعة، فكأنما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.(رواه البخاري و مسلم)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔
٭اس حدیث سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں غسل جنابت کا ذکر ہے اور غسل جنابت جماع کے بعد ہی ہوتا ہے لہذا یہ حدیث جمعہ کے دن بیوی سے ہمبستری کرنے کی دلیل ہے ۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہاں غسل جنابت سے مراد کامل غسل ہے ، چونکہ جمعہ عظیم دن ہے اس لئے کفایت کرنے والا غسل نہ کیا جائے بلکہ کامل غسل کیا جائے ۔ اگر اس سے جنبی مراد لیا جائے تو غیر جنبی کے لئے غسل کی فضیلت نہیں رہ جاتی جبکہ دوسری روایات سے بھی پتہ چلتا ہے جمعہ کا غسل عام ہے ۔
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جماع کی فضیلت ہے ، اس پر ثواب دیا جاتا ہے مگر جماع کا کوئی دن مخصوص نہیں ہے ۔ جیسے جمعہ کے دن جماع کی فضیلت ثابت نہیں ویسے ہی جن لوگوں نے سوموار اور جمعرات بتلایا ان کی بھی بات ثابت نہیں ۔
واللہ اعلم