• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جمعہ کے دن جماع کرنے کی کوئی فضیلت ہے ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
کیا جمعہ کے دن جماع کرنے کی کوئی فضیلت ہے ؟


لوگوں میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جمعہ کے دن جماع کرنے کی خاص اہمیت ہے ۔ حالانکہ اس بات کے لئے کوئی صریح نہیں ہے۔ اس سے متعلق ایک روایت ذکر کی جاتی ہے وہ روایت یہ ہے ۔

أخرج البيهقي من طريق أبي عتبة ثنا بقية ثنا يزيد بن سنان عن بكير بن فيروز عن أبي هريرة قال قال رسول الله {: "أيعجز أحدكم أن يجامع أهله في كل جمعة فإن له أجرين اثنين أجر غسله وأجر غسل امرأته۔

أخرجه أبو نعيم في "الطب " (ق 79/2) ، والبيهقي في "الشعب،(3/98/2991) ، والديلمي في "مسند الفردوس " (1/180/1 - الغرائب الملتقطة)

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی عاجز آگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہرجمعہ جماع کرے ، اس کے لئے دو اجر ہے ۔ ایک اجر اس کے اپنے غسل کرنے کا اور دوسرا اجر اس کی بیوی کے غسل کرنے کا۔

٭یہ روایت ضعیف ہے ۔ بیہقی نے اسے روایت کرکے ذکر کیا کہ اس کی سند میں بقیہ ہے جن کی روایات محل نظر ہیں۔

٭علامہ البانی ؒ نے اسے منکر قرار دیا ہے( دیکھیں سلسلہ ضعیفہ /6194)

٭مذکورہ حدیث تین راویوں پر کلام ہے ، وہ راوی ،بکیر بن فیروز، یزید بن سنان اور بقیہ بن الولید ہیں۔


یہ بات کہنے والے ایک دوسری حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔

حديث: أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح في الساعة الرابعة، فكأنما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.(رواه البخاري و مسلم)

ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔

٭اس حدیث سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں غسل جنابت کا ذکر ہے اور غسل جنابت جماع کے بعد ہی ہوتا ہے لہذا یہ حدیث جمعہ کے دن بیوی سے ہمبستری کرنے کی دلیل ہے ۔


میرا خیال یہ ہے کہ یہاں غسل جنابت سے مراد کامل غسل ہے ، چونکہ جمعہ عظیم دن ہے اس لئے کفایت کرنے والا غسل نہ کیا جائے بلکہ کامل غسل کیا جائے ۔ اگر اس سے جنبی مراد لیا جائے تو غیر جنبی کے لئے غسل کی فضیلت نہیں رہ جاتی جبکہ دوسری روایات سے بھی پتہ چلتا ہے جمعہ کا غسل عام ہے ۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جماع کی فضیلت ہے ، اس پر ثواب دیا جاتا ہے مگر جماع کا کوئی دن مخصوص نہیں ہے ۔ جیسے جمعہ کے دن جماع کی فضیلت ثابت نہیں ویسے ہی جن لوگوں نے سوموار اور جمعرات بتلایا ان کی بھی بات ثابت نہیں ۔


واللہ اعلم
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے


أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ،‏‏‏‏ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا".


اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غسل کرائے ،غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا“۔

یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہو جائے۔

سنن نسائی،كتاب الجمعة،حدیث نمبر: 1382

سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۹ (الجمعة ۴) (۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے
سنن نسائی، کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل

باب : فضل غسل يوم الجمعة
باب: جمعہ کے دن کے غسل کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1382
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ،‏‏‏‏ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غسل کرائے ۱؎ غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۹ (الجمعة ۴) (۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۵)، مسند احمد ۴/۸، ۹، ۱۰، ۱۰۴، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۳۸۵، ۱۳۹۹ (صحیح)۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقد ذهب بعض أهل العلم إلى استحباب إتيان الزوجة صباح الجمعة مستدلين بالحديث الثابت عن أوس بن أوس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من غسل واغتسل وغدا وابتكر ودنا من الإمام ولم يلغ كان له بكل خطوة عمل سنة صيامها وقيامها.، قال الإمامالنووي في المجموع: هذا الحديث حسن رواه أحمد بن حنبل وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وغيرهم بأسانيد حسنة.

وقال رحمه الله تعالى: وروي غسل بتخفيف السين، وغسل بتشديدها، روايتان مشهورتان، والأرجح عند المحققين بالتخفيف، فعلى رواية التشديد في معناه ثلاثة أوجه (أحدها): غسل زوجته بأن جامعها فألجأها إلى الغسل، واغتسل هو قالوا: ويستحب له الجماع في هذا اليوم ليأمن أن يرى في طريقه ما يشغل قلبه.
جمعہ کے دن اپنی زوجہ سے ہمبستری کو کئی اہل علم نے مستحب کہا ہے ،اسی حدیث کی بنیاد پر جو اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ؛
’‘ المجموع شرح المھذب ’‘ میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے،اسکو احمد ،ابوداود ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ ،نے حسن اسانید سے روایت کیا ہے
اور اس دن جماع کو اہل علم نے اس لئے مستحب کہا ہے تاکہ اس دن قلب ، ذکر الہی کے سوا دوسرے امور میں مشغول نہ ہو ’‘
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
سنن نسائی، کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل

باب : فضل غسل يوم الجمعة
باب: جمعہ کے دن کے غسل کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1382
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ،‏‏‏‏ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غسل کرائے ۱؎ غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۹ (الجمعة ۴) (۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۵)، مسند احمد ۴/۸، ۹، ۱۰، ۱۰۴، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۳۸۵، ۱۳۹۹ (صحیح)۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقد ذهب بعض أهل العلم إلى استحباب إتيان الزوجة صباح الجمعة مستدلين بالحديث الثابت عن أوس بن أوس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من غسل واغتسل وغدا وابتكر ودنا من الإمام ولم يلغ كان له بكل خطوة عمل سنة صيامها وقيامها.، قال الإمامالنووي في المجموع: هذا الحديث حسن رواه أحمد بن حنبل وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وغيرهم بأسانيد حسنة.

وقال رحمه الله تعالى: وروي غسل بتخفيف السين، وغسل بتشديدها، روايتان مشهورتان، والأرجح عند المحققين بالتخفيف، فعلى رواية التشديد في معناه ثلاثة أوجه (أحدها): غسل زوجته بأن جامعها فألجأها إلى الغسل، واغتسل هو قالوا: ويستحب له الجماع في هذا اليوم ليأمن أن يرى في طريقه ما يشغل قلبه.
جمعہ کے دن اپنی زوجہ سے ہمبستری کو کئی اہل علم نے مستحب کہا ہے ،اسی حدیث کی بنیاد پر جو اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ؛
’‘ المجموع شرح المھذب ’‘ میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے،اسکو احمد ،ابوداود ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ ،نے حسن اسانید سے روایت کیا ہے
اور اس دن جماع کو اہل علم نے اس لئے مستحب کہا ہے تاکہ اس دن قلب ، ذکر الہی کے سوا دوسرے امور میں مشغول نہ ہو ’‘
اس روایت سے بھی جمعہ کے دن صرف غسل کا ثبوت ملتا ہے ، اس میں جماع کا کوئی ثبوت نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
اسکی تھوڑی وضاحت فرما دیجئے !
اوپر تھریڈمیں مذکور ہے کہ جمعہ کے دن جماع کی کسی صحیح حدیث سے دلیل نہیں ملتی۔ اور اس موقف کو مختصر طور پر واضح بھی کیا گیا ہے ۔ اس پہ آپ نے مذکورہ بالا حدیث پیش کرکےجمعہ کے دن جماع کرنے کی دلیل دی ہے جبکہ اس روایت میں جمعہ کے دن غسل کرنے کا ذکر ہے جو کہ جمعہ کے دن مسنون عملوں میں سے ایک عمل ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے


أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ،‏‏‏‏ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا".


اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غسل کرائے ،غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا“۔

یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہو جائے۔

سنن نسائی،كتاب الجمعة،حدیث نمبر: 1382

سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۹ (الجمعة ۴) (۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷
@مقبول احمد سلفی بھائی

ہائی لائٹ کی ہوئی عبارت سے اس کی وضاحت واضح ہو جاتی ہے

شیخ @اسحاق سلفی بھائی کیا یہ حدیث صحیح ہے
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
@مقبول احمد سلفی بھائی

ہائی لائٹ کی ہوئی عبارت سے اس کی وضاحت واضح ہو جاتی ہے

شیخ @اسحاق سلفی بھائی کیا یہ حدیث صحیح ہے
یہ روایت صحیح ہے مگر اس روایت میں جو غسل کا لفظ ہے ، اس کی دو قرات ہے ۔ ایک تخفیف کے ساتھ ، دوسری تشدید کے ساتھ ۔

محققین کے نزدیک تخفیف کے ساتھ پڑھنے والی قرات راحج ہے ۔ اس صورت میں" غسل واغتسل" کا معنی ہوگا"جوجمعہ کے دن اپنا سردھوئے اور غسل کرے "۔اس معنی کی تائید ابوداؤد کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں :

من غسل راسه يوم الجمعة و اغتسل (صحيح ابي داؤد للألباني:346)

ترجمہ : جو جمعہ کے دن اپنا سر دھوئے اور غسل کرے ۔

امام بیہقی نےسر کو الگ سے دھونےکے متعلق لکھا ہے چونکہ لوگ اپنے سر میں تیل اور خطمی(ایک قسم کا پودا) کا استعمال کرتے تھے اس لئے پہلے سر دھوتے پھر غسل کرتے تھے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
حديث: أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح في الساعة الرابعة، فكأنما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.(رواه البخاري و مسلم)

ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔

بخاری و مسلم کی اس روایت پہ بھی بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ جب اس میں غسل جنابت کا ذکر موجود ہے تو پھراس سے کامل غسل مراد لینے کی ضرورت کیا ہے یا ظاہری معنی پہ کیوں عمل نہیں کیا جائے گا ؟

جوابا عرض ہے کہ بخاری و مسلم کی اس متن میں " من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة" عبارت محذوف ہے ، پوری عبارت اس طرح ہے" من اغتسل يوم الجمعة غسلا کغسل الجنابة"۔ یعنی جس نے جمعہ کے دن جنابت کی طرح غسل کیا۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہی معنی اس کی تفسیر میں مشہور ہے ۔
مؤطا امام مالک کی شرح زرقانی میں بھی یہی مکتوب ہے کہ جمعہ کے دن جنابت کی طرح غسل کرےاور یہ اکثر کا قول ہے ۔ اس بات کی تائید میں مصنف عبدالرزاق کی یہ روایت پیش کرتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ ، فَاغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ كَمَا يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ (مصنف عبدالرزاق : 5411)
جب جمعہ کا دن ہو اور تم میں سے جو جنابت کی طرح غسل کرے ۔

گویا اکثرمحدثین کے نزدیک غسل سے مراد جنابت کی طرح غسل ہے ، اور اس بات کی تائید مذکورہ بالا روایت سے صاف صاف ہوتی ہے ، ان روایات سے بھی تائید ملتی ہے جن میں جمعہ کے دن غسل کرنے کا عام حکم دیا گیا ہے ۔ اگر اسے جماع کے ساتھ خاص کردیا جائے تو غسل کی فضیلت سے غیر شادی شدہ یا جماع نہ کرنے والا محروم ہوجائے گا جبکہ حکم نبوی ﷺ عام ہے ۔
بخاری و مسلم کی بالکل یہی روایت عمدۃ الاحکام میں ہے مگر اس میں جنابۃ کا لفظ نہیں ہے ، روایت اس طرح سے ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً ، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلائِكَةُ يَسْمَعُونَ الذِّكْرَ .(عمدۃ الاحکام ح :143)

تفصیل کے لئے بخاری و مسلم کی اس حدیث کی شروحات دیکھی جاسکتی ہیں۔
 
Top