• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جہنم آسمان میں ہے؟کفار کی ارواح کے لئے تو دروازے نہیں کھولے جاتے مگر کونسے!جنت کے یا جہنم کے؟

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
اس لئے کہ :
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ہے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی انکی تصحیح میں موافقت فرمائی ۔
جی بھائی یہ حدیث محترم طاہر صاحب نے بھی بتائی تھی اور میں نے ان سے اسکا مکمل حوالہ اور تحقیق مانگی تھی تاکہ مکمل اطمینان ہو جائے مگر انہوں نے شاید مصروفیت کے باعث اب تک جواب نہیں دیا۔۔مگر میں نے تو بیہقی والی روایت کے متعلق سوال کیا ہے کہ اس حدیث سے کیوں استدلال کیا جاتا ہے جبکہ وہ تو ضعیف ہے اور شاید وہ ایک ہی حدیث ہے جس سے سجین کا استدلال کیا جاتا ہے
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم زمین میں ہے, کیونکہ یہ آواز زمین پہ سنی گئی , جسے رسول اللہ ﷺ نے بھی سماعت فرمایا اور آپ کے اصحاب نے بھی۔
سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ
بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔
مستدرک حاکم : 8698
اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔
یہ حدیث اوپر بھی موجود ہے
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
اس لئے کہ :
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ہے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی انکی تصحیح میں موافقت فرمائی ۔
میرے محترم بھائی آپ سمجھ نہیں پائے بیہقی والی روایت سے سجین کا ساتویں زمین میں ہونا ثابت کیا جاتا ہے جبکہ آپ دوزخ زمین پر ہے والی حدیث پیش کررہے ہیں تو کیا میں یہ سمجھوں کہ سجین اور دوزخ ایک ہی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ہے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی انکی تصحیح میں موافقت فرمائی ۔ ‘‘
جی بھائی یہ حدیث محترم طاہر صاحب نے بھی بتائی تھی اور میں نے ان سے اسکا مکمل حوالہ اور تحقیق مانگی تھی تاکہ مکمل اطمینان ہو جائے
محترم بھائی حوالہ ساتھ لکھا ہے کہ حاکم ؒ نے اسے (المستدرک 8698 ) میں روایت کیا ،اور امام ذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہنے میں انکی موافقت کی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
میرے محترم بھائی آپ سمجھ نہیں پائے بیہقی والی روایت سے سجین کا ساتویں زمین میں ہونا ثابت کیا جاتا ہے جبکہ آپ دوزخ زمین پر ہے والی حدیث پیش کررہے ہیں تو کیا میں یہ سمجھوں کہ سجین اور دوزخ ایک ہی ہے؟
آپ کو چونکہ مناظرہ انداز والے اعتراضات کے جوابات چاہئیں ،اس کیلئے وقت چاہیئے ۔جو فی الحال میرے پاس نہیں۔۔۔
یا پھر آپ چند دن کسی عالم کی خدمت میں گزاریں ۔
یا اعتراض کرنے والے اس عثمانی کو یہاں فورم پر لائیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیکھئے آپ نے سجین کے بارے خود ہی نقل فرمایا کہ :
رسول الله ﷺ کافر کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ
حتى کہ اسے آسمان دنیا تک لیجایا جاتا ہے , اسکے لیے دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو کھولا نہیں جاتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے حتى اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔[الأعراف: 40] اللہ تعالی فرماتے ہیں اسکا اندارج سجین میں کردو نچلی زمین میں, تو اسکی روح کو زور سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا , تو اسے پرندوں نے اُچک لیا یا اسے ہوا ہی کسی دور جگہ لے گری۔[الحج: 31] پھر اسکی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔
مسند احمد:18534

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ ابن کثیر ( سجین ) کے متعلق فرماتے ہیں :
والصحيح أن "سجينا" مأخوذ من السجن، وهو الضيق، فإن المخلوقات كل ما تسافل منها ضاق، وكل ما تعالى منها اتسع، فإن الأفلاك السبعة كل واحد منها أوسع وأعلى من الذي دونه، وكذلك الأرضون كل واحدة أوسع من التي دونها، حتى ينتهي السفول المطلق والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة. ولما كان مصير الفجار إلى جهنم وهي أسفل السافلين، كما قال تعالى: {ثم رددناه أسفل سافلين إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات} [التين] : 5، 6] . وقال هاهنا: {كلا إن كتاب الفجار لفي سجين وما أدراك ما سجين} وهو يجمع الضيق والسفول، كما قال:

{وإذا ألقوا منها مكانا ضيقا مقرنين دعوا هنالك ثبورا} [الفرقان: 13] .


کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے۔ اور جگہ ہے آیت ( ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ۝ ۙ) 95- التين :5) یعنی ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کردیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں غرض سجین ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا 13۝ۭ) 25- الفرقان :13) جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احناف کے مشہور مفسر علامہ ابو السعود لکھتے ہیں :
(( وسجينٌ علمٌ لكتابٍ جامعٍ هو ديوانُ الشرِّ دْوّنَ فيه أعمالُ الشياطينِ وأعمالُ الكفرةِ والفسقةِ من الثقلينِ منقولٌ من وصف كخاتم وأصلُه فِعِّيلٌ من السجنِ وهو الحبسُ والتضييقُ لأنَّه سببُ الحبسِ والتضييقِ في جهنَمَ أو لأنَّه مطروحٌ كما قيلَ تحتَ الأرضِ السابعةِ في مكانٍ مُظلمٍ وحش ))
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن عثیمین شرح زاد المستقنع میں فرماتے ہیں :

والدَّليل على أنَّ النَّارَ في الأرض:
قول الله تعالى: {كَلاَّ إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ *} [المطففين: 7] وسِجِّين الأرض السُّفلى كما جاء في حديث البَراءِ بن عَازبٍ فيمن احتُضِرَ وقُبِضَ مِن الكافرين، أنَّها لا تُفتَّحُ لهم أبوابُ السَّماءِ، ويقول الله تعالى: «اكتبوا كتابَ عبدي في سِجِّين في الأرض السُّفلى، وأعيدوه إلى الأرض» ( أخرجه الإمام أحمد (4/287، 295) ؛ وأبو داود، كتاب السُّنة، باب المسألة في القبر وعذاب القبر (4753) ؛ والحاكم (1/37) وقال: «صحيح على شرط مسلم» ووافقه الذهبي؛ وصححه ابن القيم في «تهذيب السنن» (4/337) )
ولو كانت النَّارُ
في السَّماء لكانت تُفتَّحُ لهم أبوابُ السَّماءِ ليدخلوها؛ لأنَّ النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم رأى أصحابَها يعذَّبون فيها، وإذا كانت في السَّماءِ لَزِمَ مِن دخولهم في النَّارِ التي في السماء أن تُفَتَّحَ لهم أبوابُ السَّماءِ


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلاصہ یہ کہ ’’سجین ‘‘ جہنم ہی کا ایک دفتر ہے
 
Last edited:
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
میں معذرت چاہتا ہوں بھائی کہ آپ کو ایسا لگا کہ میں مناظرانہ انداز میں جواب چاہتا ہوں ایسا نہیں ہے بھائی میرا مقصد وضاحت کے ساتھ بات کو سمجھنا ہے عثمانیوں کو جواب دینا میں جانتا ہوں مگر یہ سوالات میں نے اپنے لئے کئے ہیں تاکہ جو اشکالات مجھے ہیں وہ دور کر سکوں۔اوپر دی گئی یہ حدیث میں نے محترم طاہر رفیق صاحب کے حوالے سے نقل کی ہے

دیکھئے آپ نے سجین کے بارے خود ہی نقل فرمایا کہ :
رسول الله ﷺ کافر کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ
حتى کہ اسے آسمان دنیا تک لیجایا جاتا ہے , اسکے لیے دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو کھولا نہیں جاتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے حتى اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔[الأعراف: 40] اللہ تعالی فرماتے ہیں اسکا اندارج سجین میں کردو نچلی زمین میں, تو اسکی روح کو زور سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا , تو اسے پرندوں نے اُچک لیا یا اسے ہوا ہی کسی دور جگہ لے گری۔[الحج: 31] پھر اسکی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔
مسند احمد:18534
اور میں مانتا ہوں کہ یہ صحیح حدیث ہے میں نے صرف بیہقی والی روایت سے متعلق سوال کیا تھا۔
اور امام ابن کثیررحمہ اللہ والی بات میں انکی تفسیر میں پڑھ چکاہوں مگر حافظ زبیر علی زئی غفر لہ کہتے ہیں سجین کوئی مقام نہیں بلکہ دفتر ہے۔آپکی درج ذیل دلیل کا مجھے معلوم نہیں تھا اب معلوم ہوگیا ہے اور یہی میں چاہتا تھا کہ مجھے وہ صحیح دلیل معلوم ہو جائے جس میں سجین کا ذکر ہے۔اس کے لئے میں آپکا مشکور ہوں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
اور علامہ ابن عثیمین شرح زاد المستقنع میں فرماتے ہیں :

والدَّليل على أنَّ النَّارَ في الأرض:
قول الله تعالى: {كَلاَّ إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ *} [المطففين: 7] وسِجِّين الأرض السُّفلى كما جاء في حديث البَراءِ بن عَازبٍ فيمن احتُضِرَ وقُبِضَ مِن الكافرين، أنَّها لا تُفتَّحُ لهم أبوابُ السَّماءِ، ويقول الله تعالى: «اكتبوا كتابَ عبدي في سِجِّين في الأرض السُّفلى، وأعيدوه إلى الأرض» ( أخرجه الإمام أحمد (4/287، 295) ؛ وأبو داود، كتاب السُّنة، باب المسألة في القبر وعذاب القبر (4753) ؛ والحاكم (1/37) وقال: «صحيح على شرط مسلم» ووافقه الذهبي؛ وصححه ابن القيم في «تهذيب السنن» (4/337) )
ولو كانت النَّارُ
في السَّماء لكانت تُفتَّحُ لهم أبوابُ السَّماءِ ليدخلوها؛ لأنَّ النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم رأى أصحابَها يعذَّبون فيها، وإذا كانت في السَّماءِ لَزِمَ مِن دخولهم في النَّارِ التي في السماء أن تُفَتَّحَ لهم أبوابُ السَّماءِ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلاصہ یہ کہ ’’سجین ‘‘ جہنم ہی کا ایک دفتر ہے
ناراض مت ہوں میرا مقصد ہر گز بحث برائے بحث یا بے جا تنقید نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو اس قدر مودبانہ انداز اختیار نہ کرتا۔بہرحال اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے آمین۔
@اسحاق سلفی بھائی۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
محترم رفیق طاہر صاحب کے جواب میں ایک دلیل مشترک ہے اور وہ بیہقی والی’’ضعیف‘‘روایت سے سجین کا ثابت ہونا،
میں نے تو بیہقی کا کوئی حوالہ ہی نہیں دیا!!!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
ہماری آیتوں کو جھٹلانےوالوں اور ان سے اکڑنے والوں کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہو کیں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گذر جائے
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیررحمہ اللہ نے ہیڈنگ لگائی ہے ’’کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے‘‘اور ابن ماجہ کی ایک حدیث پیش کی ہے جس میں آسمان کے دروازے نہ کھلنے اور روح کو قبر کی طرف لوٹا دیے جانے کا ذکر ہے۔۔مگر!!!
ڈاکٹرعثمانی سے متاثر ایک بھائی نے مجھ سے کہا کہ یہاں
أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ سے مراد ابواب الجنتہ ہے اور اسکی دلیل میں بخآری کی یہ دو احادیث پیش کیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَائَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ
أَبْوَابُ الْجَنَّةِ

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 1824
قتیبہ اسماعیل بن جعفر، ابوسہیل اپنے والد سے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي أَنَسٍ مَوْلَی التَّيْمِيِّينَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ
أَبْوَابُ السَّمَائِ
وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ
وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ

یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابن ابی انس تیمیوں کے غلام، ابی انس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور شیطان زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 1825
وہ کہتے ہیں کہ ان احادیث میں سے پہلی حدیث میں ابواب الجنتہ کہا اور دوسری میں اسی کو ابواب السما کہ کر پکارا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کے ان الفاظ ابواب السما سے مراد ابواب الجنتہ ہے اس سے مراد جہنم کے دروازے نہیں ہے۔اور یہ کہ ابواب الجنتہ اور ابواب جہنم کو ساتھ ذکر کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جہنم آسمان ہی میں ہے۔
میری گذارش ہے @اسحاق سلفی بھائی یا@کفایت اللہ صاحب یا کسی بھی عالم سے کہ اس کی صحیح تفسیر و شرح بتا دیں۔
جزاک اللہ خیر
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
کیا آپ کا سوال یہ ہے :-
کیا جنت اور جہنم آسمان میں ساتھ ساتھ ہیں ؟
 
Top