• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جیش مَغْفُوْرٌ لَّهُمْ کے سپہ سالار سیدنا معاویہ تھے؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حدیث کا صحیح ترجمہ
’’عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ (جبیر بن نفیر) سے وہ ابو ثعلبہ خشنی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معاویہؓ کے دورِ خلافت میں اس (ابوثعلبہ خشنی) سے قسطنطنیہ میں سنا، اور معاویہؓ نے لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا تھاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا۔‘‘
جملہ معترضہ
"وکان مُعَاویة غزا الناس بالقسطنطینیة" (اور معاویہ نے لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا تھا۔‘‘
یہ جملہ معترضہ ہے۔ اس سے پہلے والے الفاظ اور بعد والے الفاظ کا ترجمہ ملا کر پڑھا جائے تو پوری بات واضح ہو جاتی ہے۔ اور مولانا دامانوی صاحب نے "وَکَانَ معاویةُ غزا الناس بالقسطنطینیة" کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے کہ ’’معاویہؓ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کر رہے تھے‘‘جبکہ صحیح ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر کیا ہے، کیونکہ "کَانَ غَزَا" ماضی بعید ہے اور اس کا ترجمہ مولانا نے زمانہ ماضی استمراری میں کیا ہے جو بالکل غلط ہے اور علما اس سے خوب واقف ہیں۔ دامانوی صاحب کی (مسند احمد سے) پیش کردہ صحیح حدیث کے ترجمہ سے ہمارے پیش کردہ ترجمہ کی تصدیق ہوتی ہے۔
’’سیدنا جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کے صحابی سیدنا ابو ثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہؓ کی خلافت کا زمانہ تھا۔‘‘ (ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء، ص 61)
دامانوی صاحب نے حسب سابق اس حدیث کے آخری حصہ ’’ کان معاویة أغزی الناس القسطنطینیة ‘‘ کا ترجمہ یوں کیا: ’’سیدنا معاویہ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لئے روانہ فرما رہے تھے‘‘حالانکہ درست ترجمہ ’’روانہ فرمایا تھا‘‘ہے۔ مولانا دامانوی صاحب کے پیش کردہ ترجمہ سے سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ میں موجود ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے، لیکن صحیح ترجمہ سے یہ مغالطہ نہیں پڑتا۔
مزید تعجب یہ ہے کہ مولانا دامانوی صاحب نے عبداللہ بن صالح کی ضعیف حدیث کی متابعت میں ایک صحیح حدیث (جس کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا) مسند احمد سے پیش کی، جس کا متن (لفظًا یا معنیً) کسی طرح بھی باہم مطابقت نہیں رکھتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دونوں حدیثوں کے متعلقہ الفاظ کا تقابل

ضعیف حدیث کے الفاظ: "سمعتُه، في خلافة معاویة بالقسطنطینیة" جبکہ صحیح حدیث کے الفاظ: "سمعتُ أبا ثعلبة الخشنیَّ یقول وهو بالفسطاط في خلافة معاویة" ہیں۔’ قسطنطنیہ‘اور ’ فسطاط‘میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ لہٰذا متابعت کا قاعدہ اس پر لاگو نہیں ہوتا۔بلکہ یہاں ’المنکر‘اور’المعروف‘کاقاعدہ جاری ہوگا کیوں کہ ضعیف راوی نے ثقہ کی مخالفت کی ہے۔
ضعیف حدیث کا متفرد راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح

ڈاکٹر دامانوی صاحب نے حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کے ایک راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح کے بارے میں خود دامانوی صاحب، حافظ ابن حجر عسقلانی﷫کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
’’وہ صَدوق ہیں، بہت غلطیاں کرنے والے ہیں...الخ‘‘ (ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۶۰)
ابو صالح عبداللہ بن صالح کا حال ملاحظہ فرمائیے: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عبداللّٰہ بن صالح بن محمد بن مسلم جہنی قبیلہ جہینہ کا آزاد کردہ غلام ابو صالح مصری ،لیث (بن سعد) کا کاتب رہا ہے۔ حافظ ابن حجر ﷫نے اس کی تعدیل سے متعلق اگرچہ یہ الفاظ نقل کئے:
سمعتُ عبد الملك بن شعیب بن اللیث یقول: أبو صالح ثقة مأمون قد سمع من جدّی حدیثه۔(حافظ ابن حجر عسقلانی،تہذیب التہذیب: دار احیاء التراث العربی، بیروت: ۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۱ء: ۳؍۱۶۸)
میں نے عبدالملک بن شعیب بن سعد سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ابو صالح ثقہ مامون ہے، اس نے میرے دادا سے حدیث سنی ہے۔
لیکن زیادہ تر محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
عبدالله بن صالح کاتب اللیثِ کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره ولیس بشيء۔(ایضًا: ص ۳؍۱۶۸؛ امام احمد بن حنبل: کتاب العلل و معرفۃ الرجال: المکتب الاسلامی، بیروت،۱۴۰۸ھ؍ ۱۹۸۸ء،ص ۳؍۲۱۲)
لیث بن سعد کا کاتب عبداللہ بن صالح شروع شروع میں حدیث سے تمسّک رکھنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ ) میں خرابی پیدا ہو گئی اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫لکھتے ہیں:
قال عبد الله بن أحمد: سالتُ أبي عنه فقال کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره، و لیس هو بشيء. قال وسمعت أبي ذکره یومًا فذمّه، وکرهه، و قال: إنه روي عن اللیث عن ابن أبي ذئب وأنکر أن یکون اللیث سمع من ابن أبي ذئب، وقال أحمد بن صالح المصري: أخرج أبو صالح درجًا قد ذهب أعلاه وَلَمْ یُدْرَ حدیث من هو؟ فقیل له: هذا حدیث ابن أبي ذئب، فرواه عن اللیث عن ابن أبي ذئب، قال أحمد ولا أعلم أحدًا روٰى عن اللیث عن ابن أبي ذئب إلا أبا صالح ۔(تہذیب التہذیب: دار احیاء التراث العربی، بیروت: ۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۱ء:ص ۳؍۱۶9)
امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے کہا: میں نے اپنے ابّا جی سے اس (عبداللہ بن صالح) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: کہ شروع شروع میں وہ (حدیث سے) تمسّک کرنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ) میں خرابی پیدا ہو گئی، اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ ایک دن میں نے اپنے والد کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا۔ آپ نے اس کی مذمّت کی اور اس سے کراہت کی، اور فرمایا کہ اس نے لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا، اور احمد بن حنبل نے اس کا انکار کیا کہ لیث نے ابن ابی ذئب سے کچھ سنا ہے۔احمد بن صالح مصری نے کہا کہ ابو صالح (عبداللہ بن صالح) نے ایک رجسٹر نکالا جس کا اوپر کا حصہ ضائع ہو چکا تھا اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حدیث کس کی ہے؟ عبداللہ بن صالح سے کہا گیا کہ یہ ابن ابی ذئب کی حدیث ہے، تو اس نے اس کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کر دیا۔ احمد نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبداللہ بن صالح کے سوا کسی نے اس حدیث کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا ہو۔
حافظ ابن حجر ﷫مزید لکھتے ہیں:
قال صالح بن محمد: کان ابن معین یوثقه، و عندي انه کان یکذب في الحدیث، و قال ابن المدیني: ضربت على حدیثه، وما اَرْوِی عنه شیئًا، وقال أحمد بن صالح: متهم لیس بشيء، و قال النسائي: لیس بثقةٍ، و قال سعید البرذعي: قلتُ لأبي زرعة أبو صالح کاتب اللیث فضحك، وقال ذاك رجل حسن الحدیث۔ (حافظ ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب: ۳؍۱70،169)
صالح بن محمد نے کہا کہ یحییٰ بن معین عبداللہ بن صالح کو ثقہ قرار دیتے تھے۔ میرے ہاں یہ ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ کہا کرتے تھے۔ ابن مدینی نے کہا کہ میں اس کی روایت کو دفع کرتا ہوں اور میں اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ہوں؛ اور احمد بن صالح نے کہا کہ وہ متہم ہے اور وہ کوئی چیز نہیں؛ امام نسائی نے فرمایا کہ وہ ثقہ نہیں ہے؛ سعید برذعی نے کہا کہ میں نے ابوزرعہ سے کہا کہ لیث کا کاتب ابوصالح کیسا ہے؟ تو آپ ہنس پڑے اور کہا کہ وہ شخص اچھی حدیث والا ہے۔
ابن حجر عسقلانی﷫ مزید لکھتے ہیں:
قال ابن عدي: هو عندي مستقیم الحدیث إلا انه یقع في حدیثه في أسانیده و متونه غلط ولا یتعمد الکذب۔(ایضًا:۳؍۱۶۹،170)
ابن عدی نے کہا کہ وہ میرے ہاں مستقیم الحدیث ہے مگر اس کی حدیث میں، اس کی اسانید و متون میں اغلاط ہیں۔ وہ عمدًا جھوٹ نہیں بولتا۔
سابقہ حدیث کی متابعت میں پیش کردہ روایت مع مکمل سند پیش خدمت ہے:
امام احمد بن حنبل﷫ فرماتے ہیں:
حدثنا هاشم قال حدثنا لیث عن معاویة بن صالح عن عبدالرحمٰن بن جبیر عن أبیه قال سمعتُ أبا ثعلبة الخشني صاحب رسول الله ﷺ أنه سمعه یقول وهو بالفسطاط في خلافة معاویة، و کان معاویة أغزی الناس القسطنطینیة، فقال: والله لا تَعْجِزُ هذه الأمة من نصف یوم إذا رأیتَ الشامَ مائدةَ رجل واحدٍ و أهل بیته فعند ذلك فتح القسطنطینیة۔(امام احمد بن حنبل: المسند: بیت الافکار الدولیۃ، الاردن: طبع چہارم: 4؍193)
محترم ڈاکٹر دامانوی صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
سیدنا جبیر بن نضیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا ابو ثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور سیدنا معاویہؓ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لئے روانہ فرما رہے تھے۔ پس اُنہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اس اُمت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا اور جب تو شام میں ایک شخص اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک دستر خوان دیکھے تو اس وقت قسطنطنیہ فتح ہوگا۔
درج بالا حدیث میں ’اُنہوں نے فرمایا‘سے مراد حضرت ابو ثعلبہ خشنی ہیں۔جیسا کہ آپﷺ سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے:
حدثنا موسٰى بن سهل: حدثنا حجاج بن إبراهیم: حدثنا ابن وهب: حدثني معاویة بن صالح عن أبي ثعلبة الخشني قال: قال رسول الله ﷺ: «لن یُّعْجِزَ اللهُ هٰذهِ الأمّة مِن نصف یوم»۔(سنن ابو داؤد: ابو داؤد، سلیمان سجستانی، کتاب الملاحم، حدیث: ۴۳۴۹: دارالسلام، الریاض: ۱۹۹۹ء، ص ۶۱۱)
محترم جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ، مسند احمد کی مندرجہ بالاحدیث سے حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ میں جانا سرے سے ثابت نہیں ہوتا، لہٰذا ان کی یہ دلیل بھی تارِ عنکبوت ثابت ہوئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
متابعت کا دعویٰ

محترم جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’عبداللہ بن صالح اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ مسند احمد میں لیث بن سعد نے اُن کی متابعت کر رکھی ہے، اور لیث ثقہ، ثبت فقیہ اور مشہور امام ہیں، اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں، لہذا یہ روایت صحیح ہے۔‘‘
تنقیدی جائزہ:
ہمیں لیث بن سعد کے بارے میں مکمل اعتماد ہے کہ وہ ثقہ، ثبت اور امام ہیں، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ لیکن متابعت کی شرائط یہاں موجود نہیں ہیں۔ آئیے نخبۃ الفکر کا مطالعہ کریں... حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں:
والمتابعة علىٰ مراتب: ان حصلت للراوی نفسه فهي التامة، و إن حصلت لشیخه فمن فوقه، فهو القاصرة ویستفاد منها التقویة. مثال المتابعة التامة ما رواه الشافعي في الأم، عن مالك عن عبد الله بن دینار عن ابن عمر أن رسول الله ﷺ قال: «الشهر تسع وّعشرون، فلا تصوموا حتی تروا الهلال، ولاتفطروا حتی تروه، فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلاثین». فهذا الحدیث بهذا اللفظ ظنّ قوم أن الشافعي تفرّد به عن مالك، فعدّوه في غرائبه لِأنَّ أصحاب مالك رَوَوْهُ عنه بهٰذا الأسناد بلفظ: فإن غمّ علیکم فاقدروْا لَه، لکن وجدنا للشافعي متابعًا وهو عبد الله بن مسلمة القعنبي، کذلك أخرجه البخاري عنه عن مالك وهٰذه متابعة تامة. ووجدنا له أیضًا متابعةً قاصِرة في صحیح ابن خزیمة من روایة عاصم بن محمد، عن أبیه محمد بن زید عن جده عبد الله بن عمر بلفظِ: «فکمِّلوا ثلاثین» و في صحیح مسلم مِن روایة عبید الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر بلفظ «فاقدروا ثلاثین». ولا اقتصار في هذه المتابعة سواءً کانت تامة أو قاصرة علىٰ اللفظ بل لو جاءت بالمعنى لکفى۔(حافظ ابن حجر عسقلانی: نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر: فاروقی کتب خانہ، ملتان، س.ن: ص ۵۲، ۵۳)
’’متابعت کے کئی مراتب ہیں: اگر خود راوی کو یہ متابعت حاصل ہو جائے تو یہ متابعتِ تامہ ہے، اور اگر اس کے شیخ کو حاصل ہو تو یہ متابعتِ قاصرہ ہے۔ اور اس سے تقویت مقصود ہوتی ہے۔ متابعتِ تامہ کی مثال جیسے کہ امام شافعی نے (اپنی کتاب)’الامّ‘ میں مالک سے روایت کیا، اُنہوں نے عبداللہ بن دینار سے، اُنہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مہینہ اُنتیس دن کا ہوتا ہے، اس لئے روزہ نہ رکھو جب تک تم ہلال نہ دیکھ لو، اور نہ تم افطار کرو جب تک کہ تم اس (ہلال) کو نہ دیکھ لو۔ پس اگر تم پر اَبر کی وجہ سے پوشیدہ ہو جائے تو تم تیس دن پورے کرو۔‘‘ ایک قوم کا خیال تھا کہ اس حدیث کو انہی لفظوں کے ساتھ امام شافعی، امام مالک سے روایت کرنے میں متفرد ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس (حدیث) کو غرائبِ شافعی میں شمار کیا، کیونکہ امام مالک کے باقی شاگردوں نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ان لفظوں «فَاِنْ غمّ علیکم فاقدروا له» ’’پس اگر ابر کی وجہ سے تم پر ہلال پوشیدہ ہو جائے تو تم اس کے لئے اندازہ لگا لو۔‘‘ کے ساتھ روایت کیا، لیکن ہم نے شافعی کا ایک مُتابِع پا لیا، اور وہ عبداللہ بن مسلمہ قعنبی ہیں۔ امام بخارینے اُن سے اور انہوں نے امام مالک سے ایسے ہی «فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلاثین» روایت کیا، اور یہ متابعتِ تامّہ ہے۔ نیز ہم نے ان کے لئے متابعتِ قاصرہ بھی پا لی جو کہ صحیح ابن خزیمہ میں عاصم بن محمد کی روایت ہے۔ اُنہوں نے اپنے والد محمد بن زید سے، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمر سے «فکمّلوا ثلٰثین» لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور صحیح مسلم میں عبیداللہ بن عمر سے، اُنہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر سے «فاقدروا ثلثین» لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور اس متابعت میں، خواہ یہ تامّہ ہو یا قاصرہ، الفاظ پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اگر معنوی متابعت بھی پائی جائے تو کافی ہے۔‘‘
ڈاکٹر دامانوی صاحب نے جو حدیث عبداللہ بن صالح کی روایت سے نقل کی ہے اس میں زیر بحث لفظ قسطنطینية ہے،اور اس کی متابعت میں آپ نے جو حدیث لیث کی روایت سے نقل کی ہے اس میں قسطنطینية کی بجائے الفسطاط(خیمہ) ہے۔ کیا کوئی عقلمند اِن دونوں لفظوں کو ہم معنیٰ قرار دے سکتا ہے؟
نخبۃ الفکر کی مندرجہ بالا عبارت میں امام مالک سے امام شافعی کے روایت کئے ہوئے الفاظ فاکملوا العدة ثلٰثین تھے، جبکہ امام مالک کے دیگر بہت سے شاگردوں نے امام مالک سے فاقدروا له روایت کیا، لہذا بعض لوگوں کا خیال تھا کہ امام شافعی﷫ ان لفظوں کے ساتھ امام مالک سے روایت کرنے میں متفرد ہیں۔ لیکن ہمیں امام شافعی کا مُتابِع عبداللہ بن مسلمہ قعنبی مل گیا جو کہ امام بخاری کا اُستاذ ہے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں اُن سے اور اُنہوں نے امام مالک سے فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلثین(صحیح بخاری:۱۹۰۷) روایت کی ہے۔ دیکھئے دونوں جگہ لفظوں میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا معنیٰ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ متابعتِ تامّہ ہے۔ جبکہ امام شافعی﷫ کو صحیح مسلم میں فاقدروا ثلٰثین اور صحیح ابن خزیمہ میں فکمّلوا ثلٰثین متابعتِ قاصرہ بھی حاصل ہوگئی ہے۔
اس ساری بحث کے بعد یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ دونوں حدیثوں میں معاویہ بن صالح کے دونوں شاگردوں: عبداللہ بن صالح اور لیث کا معاملہ متابعت کے زمرہ میں نہیں آتا بلکہ ’المنکر اور المعروف‘سے تعلق رکھتا ہے۔ ’المنکر‘حدیث، ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔ اس کے مقابلہ میں المعروف، صحیح حدیث ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
المنکَرکی تعریف

اس کی تعریف کرتے ہوئے، حافظ ابن الصلاح، حافظ ابوبکر احمد بن ہارون بردیجی برذعی (م۳۰۱ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
إنه الحدیث الذي ینفرد به الرجل ولا یعرف متنه مِن غیر روایته، لا من وجه الذي رواه منه، ولا مِن وجه آخرَ۔ (ابن الصلاح، عثمان بن عبدالرحمٰن ،ابو عمرو: مقدمۃ ابن الصلاح: فاروقی کتب خانہ، ملتان، س.ن: ص ۳۷،۳۸)
’المنکر‘ ایسی حدیث ہے جسے ایک ہی شخص روایت کر رہا ہو، اور اس حدیث کا متن اس (شخص) کی روایت سے نہ پہچانا جاتا ہو، نہ اس سند سے جس (سند) سے اس نے یہ حدیث روایت کی ہو، اور نہ ہی یہ(متن)کسی اور سند سے پہچانا جاتا ہو (اسے منکر کہا جاتا ہے)۔‘‘
امام مسلم (م ۳۶۱ھ) اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
علامة المنکر في حدیث المحدث، إذا ما عُرِضتْ روایته للحدیث علىٰ روایة غیره من أهل الحفظ والرضا، خالفتْ روایتُه، روایتَهُم أو لَمْ تکدْ توافقها، فإذا کانت الأغلب مِن حدیثه کذلك، کان مهجور الحدیث، غیرَ مقبوله ولا مستعمله۔ (مسلم بن حجاج، نیشاپوری: صحیح مسلم: دارالسلام ، الریاض: ۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۸ء:ص ۶)
’’محدث کی حدیث میں ’المنکر ‘ کی علامت یہ ہے کہ جب اس کا حدیث روایت کرنا، اس کے علاوہ اہل حفظ و رضا (عدل و ضبط والے محدثین) کے حدیث روایت کرنے پر پیش کیا جائے تو یہ ان کی روایت کے مخالف ٹھہرے یا ان سے موافقت نہ کر سکے۔ جب اس کی (روایت کی ہوئی) حدیث زیادہ تر ایسی ہو، تو ایسے شخص کی حدیث چھوڑ دی جائے گی۔ نہ اسے قبول کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر عمل ہوگا۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ لکھتے ہیں:
وَإِنْ وَقَعَتِ المخالفة مع الضعْف، فالراجح یقال له المعروف. ومقابله یقال له المنکر ۔ (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر: ص ۵۰،۵۱)
اور اگر (قوی) روایت، ضعیف (روایت) کے مخالف ہو، تو راجح کو’المعروف ‘ اور اس کے مقابل (یعنی مرجوح) کو’المنکر ‘ کہا جائے گا۔
مثال:
کتب اصولِ حدیث میں ’المنکر‘کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال ذکر کی جاتی ہے:
امام ابن ابی حاتم (م۳۲۷ھ) حُبَیْب بن حَبِیْب کے طریق سے عن أبي إسحاق عن عیزار بن حُریث عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال: «من أقام الصلوة وآتى الزکوة وحج وصام وقری الضیف دخل الجنة» (سیوطی، عبدالرحمٰن بن ابوبکر، جلال الدین: تدریب الراوی: دارالفکر، بیروت:۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۸ء: ۱؍۲۴۰ )
مرفوع روایت کیا، جبکہ اس (حُبَیْب بن حبیب) کے سوا بعض ثقات نے اس حدیث کو ابو اسحٰق سے موقوف روایت کیا، اور موقوف روایت کی ہوئی حدیث معروف ہے۔‘‘ لہٰذا ابو اسحٰق سے حبیب بن حبیب کی مرفوع روایت کی ہوئی حدیث منکر ٹھہری۔
یہی حال ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ عبداللّٰہ بن صالح عن معاویہ کی روایت کی ہوئی حدیث کا ہے۔ یہ حدیث ’المنکر‘ہے جبکہ اس کے خلاف ’لیث عن معاویہ‘کی روایت کی ہوئی حدیث ’المعروف‘ہے۔ اس لئے عبداللہ بن صالح کی قسطنطینية والی روایت ضعیف ٹھہری۔ والحمد لله علىٰ ذلك
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا؟

مولانا ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی، سیدنا معاویہ ؓ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ
’’سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ پر ایک اور حملہ کی نشاندہی سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے: عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إن أبا أیوب…الخ (ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء،ص ۶۲)
تنقیدی جائزہ:
مولانا کی پیش کردہ عبداللہ بن عباس کی یہ روایت جسے آپ نے مستدرک حاکم اور المعجم الکبیر کے حوالے سے بلا سند نقل کیا ہے، ہم اسے اس کی سند سمیت ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ اس روایت کا ضعیف ہونا واضح ہو سکے اور مولانا کا ہی کیا ہوا ترجمہ نقل کریں گے تاکہ مولانا کے ترجمہ کی اغلاط کی نشاندہی بھی ہو سکے۔
امام حاکم﷫ کہتے ہیں:
حدثنا أبو محمّد أحمد بن عبد الله المزني، ثنا محمد بن عبد الله المخرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فِردوس الأشعري، ثنا مسعود بن سلیم عن حبیب بن أبي ثابت عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبیه عن ابن عباس، إن أبا أیوب خالد بن زید الذي کان رسول الله ﷺ نزل في داره غزا أرض الروم فمرّ علىٰ معاویة فجفاه معاویة ثم رجع مِن غزوته فجفاه ولم یرفع به رأسًا، قال أبو أیوب: إنّ رسول الله ﷺ اَنْبَأَنَا: إنّا سنرٰی بعده اِثرةً، قال معاویةُ: فما أمرکم؟ فقال أمرنا أنْ نَّصْبِرَ، قال: فاصْبروا۔(حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری: المستدرک علیٰ الصحیحین: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، شام: سن ندارد: ۳؍۴۶۱)
اس حدیث کی دوسری سند اس طرح ہے... امام طبرانی ﷫فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فردوس بن الأشعري، ثنا مسعود بن سلیمان، حدثنا حبیب بن أبي ثابت، عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن ابن عباس رضی الله عنهما إن أبا أیوب…الخ۔(طبرانی، سلیمان بن احمد،المعجم الکبیر (تحقیق: حمدی عبدالمجید): احیاء التراث العربی، بیروت: ۲۰۰۹ء: ۴؍۱۰۹)
مستدرک حاکم اور معجم کبیرازطبرانی کی ان سندوں میں اختلاف کی کیفیت​
1۔ مستدرک حاکم میں فردوس اشعری، اور معجم طبرانی میں فردوس بن الاشعری
2۔ مستدرک حاکم میں مسعود بن سلیم، اور معجم طبرانی میں مسعود بن سلیمان
3۔ مستدرک حاکم میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابیہ عن ابن عباس، اور معجم طبرانی میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس ہے۔
جبکہ کتبِ جرح و تعدیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ
1۔ فردوس بن الاشعری کی بجائے فردوس الاشعری صحیح ہے۔
2۔مسعود بن سلیم کی بجائے مسعود بن سلیمان صحیح ہے۔
3۔مستدرک حاکم کے مطابق ’عن ابیہ عن ابن عباس‘ میں اتصال پایا جاتا ہے یعنی محمد بن علی، اپنے باپ علی سے، وہ اپنے باپ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں۔ اور معجم طبرانی کے مطابق ’محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس‘میں انقطاع پایا جاتا ہے۔ کیونکہ محمد بن علی کی اپنے دادا عبداللہ بن عباس سے ملاقات اورسماع ثابت نہیں ہے۔ امام مسلم﷫لکھتے ہیں:
لا یعلم له سماع من جده ولا انه لقیه ۔(حافظ ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب: ۵؍۲۲۸)
’’اس کا اپنے دادا (ابن عباس) سے سماع معلوم نہیں اور نہ ہی اس سے ملاقات ہوئی‘‘
عبداللہ بن عباس کی روایت کے رواۃ پر جرح
18. فردوس اشعری: یہ ایک مجہول راوی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی﷫لکھتے ہیں:
’’مسعود بن سلیمان عن حبیب بن ابی ثابت، و عنہ فردوس الاشعری مجہول‘‘ (حافظ ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان (تحقیق ابو غدّہ): مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ: ۱۴۲۳ھ؍۲۰۰۲ء: ۸؍۴۵)
’’مسعود بن سلیمان، حبیب بن ابی ثابت سے اور اس سے فردوس اشعری (روایت کرتا ہے) اور یہ مجہول ہے۔‘‘
19. مسعود بن سلیمان راوی کے بارے میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
مسعود بن سلیمان روي عن حبیب بن أبي ثابت، روى عنه أبو الحسن الأسدي، نا عبد الرحمٰن قال: سألتُ أبي عنه فقال مجهولٌ ۔(ابن ابی حاتم، عبدالرحمٰن: کتاب الجرح والتعدیل: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد دکن، ہند: ۱۳۷۲ھ؍ ۱۹۵۳ء: ص ۸؍۲۸۴)
مسعود بن سلیمان نے حبیب بن ابی ثابت سے روایت کیا ہے (یعنی مسعود حبیب بن ابی ثابت کا شاگرد ہے)، اس کے بارے میں ابوالحسن اسدی نے روایت کیا کہ ہمیں عبدالرحمٰن (ابن ابی حاتم) نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ (ابو حاتم) سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ مجہول ہے۔
20. اس روایت کا ایک اہم راوی حبیب بن ابی ثابت ہے۔ یہ اگرچہ ثقہ ہے، لیکن یہ مدلِّس راوی ہے۔ اس کی تدلیس کے ثبوت میں محدثین کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں:
نمبر1۔
قال ابن خزیمة: إنَّ حبِیْبَ بْنَ أبي ثابتٍ مدلِّسٌ
ابن خزیمہ نے کہا کہ حبیب بن ابی حبیب مدلّس ہے۔
نمبر2۔
قال ابن حبان: حبیب بن أبي ثابت کان یدلِّسُ
ابن حبان نے کہا کہ حبیب بن ابی ثابت تدلیس کیا کرتا تھا۔
نمبر3۔
قال البیهقي: حبیب بن أبي ثابت وان کان من الثقات فقد کان یدلِّسُ (محمد بن طلعت: معجم المدلِّسین: اضواء السلف، الریاض: ۱۴۲۶ھ؍۲۰۰۵ء: ص ۱۲۸)
بیہقی نے کہا:
حبیب بن ابی ثابت اگرچہ ثقات میں سے تھا،پر وہ تدلیس کیا کرتا تھا۔
حبیب بن ابی ثابت نے یہ روایت محمد بن علی بن عبداللہ سے ’عن‘ کے ساتھ روایت کی ہے اور سماع کی وضاحت موجود نہیں ہے لہٰذا تدلیس کی وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں ۔
امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک اور منقطع السند روایت تخریج کی ، آپ فرماتے ہیں:
حدثنا محمّد بن عبد الله الحضرمي حدثنا أبو کریب، حدثنا إسحٰق بن سلیمان عن أبي سلیمان عن حبیب بن أبي ثابت قال قدم أبوأیوب علىٰ معاویة رحمهما الله فشکا إلیه أن علیه دینًا فذکر الحدیث ۔(طبرانی: المعجم الکبیر : ۴؍۱۰۳)
اس حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے امام ہیثمی لکھتے ہیں :
فذکر الحدیث بإسنادین ورجال أحدهما رجال الصحیح إلاّ أنّ حبیب بن أبي ثابت لم یسمع من أبي أیوب۔(ہیثمی ، علی بن ابوبکر ، نور الدین : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : مکتبۃ القدسی ،القاہرۃ: ۱۳۵۳ھ: ۹؍۳۲۳)
امام طبرانی﷫ نے یہ حدیث دو سندوں کے ساتھ ذکر کی ہے، جن میں سے ایک کے رجال ، صحیح ( صحیح بخاری) کے رجال ہیں ، لیکن حبیب بن ابی ثابت کا ابو ایوب سے سماع ثابت نہیں ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں​

لہٰذا واضح ہوگیا کہ مولانا دامانوی صاحب کی پیش کردہ روایت تین راویوں ( دومجہول اور ایک مدلس) کی وجہ سے ضعیف ہے اور طبرانی کی اس دوسری روایت کے راویوں کو امام ہیثمی نے صحیح کے رجال بتایا اور ساتھ ہی بتادیا کہ حبیب بن ابی ثابت کا ابو ایوب انصاری سے سماع ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ بھی قابل حجت نہیں ہے۔

مولانا دامانوی صاحب کی پیش کردہ عبداللہ بن عباسؓ کی ضعیف روایت کے راویوں پر محدثین کرام کی جرح پڑھ لینے کے بعد قارئین کرام خود ہی فیصلہ فرما لیں (اور مولانا بھی یہ اقرار کر لیں) کہ ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہوتی، لہٰذا مولانا دامانوی صاحب کی ’’سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ پر تیسرے حملہ‘‘ کی پیش کردہ دلیل بھی پاش پاش ہو گئی۔

اُلجھا ہے پاؤں یار کا زُلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حدیث کا ترجمہ

اب دیکھئے اس حدیث کا ترجمہ جو مولانا دامانوی صاحب نے کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
بے شک ابو ایوب انصاری خالد بن زیدؓ وہ ہیں کہ جن کے ہاں ان کے گھر پر رسول اللہﷺ اُترے تھے (اور انہوں نے نبی ﷺ کی کئی دن تک میزبانی فرمائی تھی)۔ اُنہوں نے ارضِ روم میں جنگ کی۔ پس معاویہ ؓاِن پر گزرے اور معاویہ نے ان سے بے رُخی برتی۔ پھر وہ اس غزوہ سے واپس آ گئے تو پھر بھی معاویہؓ نے اُن سے بے رُخی برتی اور اُن کی طرف سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ سیدنا ابو ایوبؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ ہم آپ کے بعد حق تلفی دیکھیں گے یعنی ہم (انصار) کو نظر انداز کیا جائے گا۔ معاویؓہ نے کہا کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا حکم دیا گیا ہے؟ کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم صبر کریں۔ تو اُنہوں نے کہا کہ بس پھر صبر کرو۔(ماہنامہ’محدث‘، جنوری ۲۰۱۰: ص ۶۲)
دامانوی صاحب نے "فَمَرَّ عَلىٰ معاویةَ" کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’پس معاویہ اُن پر گزرے‘‘حالانکہ درست ترجمہ یوں ہے: ’’پس وہ (ابو ایوب) معاویہ پر گزرے۔‘‘ دامانوی صاحب کے غلط ترجمہ کرنے سے یہ مغالطہ پڑتا ہے کہ معاویہ جنگ میں ابو ایوب کے ساتھ تھے جبکہ حدیث کے الفاظ "ثُمَّ رَجَعَ مِنْ غَزْوَتِه فَجَفَاهُ" (پھر وہ اس غزوہ سے واپس آ گئے تو پھر بھی معاویؓہ نے اُن سے بے رُخی برتی) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابو ایوب جنگ سے واپس آ کر، پھر حضرت معاویہ کے پاس آئے۔ ابو ایوب جنگ کو جاتے ہوئے اور جنگ سے واپس آتے ہوئے، حضرت معاویہ سے کس مقام پر ملے؟ اس کا اس ضعیف حدیث میں تذکرہ تک نہیں ہے۔ ہم نے مولانا کے اس ترجمہ میں غلطی کی اس لئے نشاندہی کی ہے تاکہ قارئین کو دامانوی صاحب کے اس غلطی سے باخبر کیا جائے، جس کی بنا پر اُنہوں نے’معاویہ ؓکا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے۔ بالفرض یہ صحیح بھی ہوتی تب بھی اس سے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت معاویہ ؓکی جائے ملاقات کا نام تک نہیں ہے۔ لیکن مولانا دامانوی صاحب کس قدر بے باکانہ انداز میں لکھتے ہیں:
اس روایت سے واضح ہو رہا ہے کہ
’’سیدنا ابو ایوب انصاریؓ،سیدنا معاویہ ؓکے ساتھ بھی قسطنطنیہ کے جہاد میں شریک ہوئے تھے۔ پھر اس جہاد میں حصہ لے کر وہ معاویہؓ کے ساتھ واپس بھی آ گئے۔ سیدنا ابو ثعلبہ خشنی اور عبداللہ بن عباسؓ دونوں کی روایات کو الگ الگ واقعات مانا جائے تو خلیج قسطنطنیہ کو ملا کر یہ تین حملے بنتے ہیں جو معاویہؓ کے زیر امارت قسطنطنیہ پر کئے گئے تھے۔ (ماہنامہ’محدث‘، جنوری ۲۰۱۰: ص ۶۲)
مولانا دامانوی صاحب کا مذکورہ بالا بیان بلا ثبوت اور مضحکہ خیز ہے۔ اس کی کوئی دلیل نہیں، یہ دامانوی صاحب کی محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔مولانا دامانوی صاحب نے جو ضعیف حدیث مستدرک حاکم کے حوالے سے سے نقل کی ہے، اگر اس کے آخری الفاظ پر غور کرتے تو وہ اس شرمندگی سے بچ سکتے تھے جو اس وقت ان کو درپیش ہے۔
اس ضعیف حدیث کے آخر میں امام حاکم لکھتے ہیں:
"وَ قَدْ تَقَدَّمَ هٰذَا الحدیث بإسناد متصل صحیح واعَدْتُّهُ للزیادات فيه بهٰذا الأسناد۔(الحاکم ، ابوعبداللہ : المستدرک : ۳؍۴۶۱،۴۶۲)
یہ حدیث صحیح متصل سند کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے اور میں نے اس میں کچھ زیادات کی وجہ سے اسے اس سند کے ساتھ دوبارہ ذکر کیا ہے۔
مولانا نے خود اپنے بیان کردہ اُصول کی خلاف ورزی کی ، اور مطلب براری کے لیے ضعیف حدیث ذکر کرد ی اور صحیح حدیث جس کی طرف امام حاکم نے مندرجہ بالا الفاظ میں اشارہ کیا ، اُسے چھوڑ دیا کیوں کہ اس سے مولانا کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا ،کیا اسے دیانت داری کہا جاسکتا ہے؟ہم اس کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں۔امام حاکم﷫ کہتے ہیں:
أخبرني أبو عبد الله الحسین بن الحسن بن أیوب ثنا أبو حاتم الرازي ثنا إبراهیم بن موسى ثنا محمد بن أنس ثنا الأعمش عن الحکم عن مقسم ان أبا أیوب أتى معاویة فذکر له حاجة قال ألست صاحب عثمان؟ قال أما ان رسول الله ﷺ قد أخبرنا انه سیصیبنا بعده أثرة قال وما أمرکم؟ قال أمرنا ان نصبر حتى نرد علیه الحوض قال فاصبروا قال فغضب أبو أیوب و حلف ان لا یکلمه أبدًا ثم ان أبا أیوب أتى عبد الله بن عباس فذکر له فخرج له عن بیته کما خرج أبو أیوب لرسول الله ﷺ عن بیته وقال ایش ترید قال اربعة غلمة یکونون في محلي قال لك عندي عشرون غلامًا. هذا حدیث صحیح الأسناد ولم یخرجاه۔
(الحاکم ، ابوعبداللہ : المستدرک : ۳؍۴۶۱،۴۶۲)
’’ بلاشبہ ابو ایوبؓ،معاویہؓ کے پاس آئے ، آپ سے (اپنی) حاجت ذکر کی تو معاویہؓ نے کہا: کیا آپ عثمان ؓکے ساتھی نہیں ہیں؟ ابو ایوب ؓنے کہا: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہمیں آپ ﷺ کے بعد (دوسروں کوہم پر) ترجیح دینے کی وجہ سے ہمیں مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔معاویہؓ نے کہا تو آپ ﷺ نے تمہیں کیا حکم دیا؟ ابو ایوب نے کہا کہ، لیکن آپﷺنے ہمیں حکم دیا کہ ہم صبر کریں یہاں تک کہ ہم حوض (حوضِ کوثر) پر آپﷺ سے ملاقات کریں تو معاویہؓ نے کہا: تو تم صبر سے کام لو۔ راوی نے کہا کہ ابو ایوب غضب ناک ہوگئے اور قسم اُٹھائی کہ معاویہ ؓسے کبھی بات نہیں کریں گے۔پھر ابو ایوبؓ،عبداللہؓ بن عباس ؓکے پاس آئے اور (تمام ماجرا) ان سے بیان کیاتو ابن عباسؓ اپنے گھر سے اسی طرح باہر نکل گئے جس طرح ابو ایوبؓ رسول اللہ ﷺ کے لیے (آپ ﷺ کی مدینہ آمد پر) اپنے گھرسے باہرنکلے تھے اور کہا: آپ اور کیا کچھ چاہتے ہیں ؟ ابو ایوبؓ نے کہا کہ چار غلام جو میرے محل میں رہیں۔ ابن عباس ؓنے کہاکہ میرے پاس آپ کے لیے بیس غلام ہیں ۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ، شیخین نے اس کی تخریج نہیں کی۔(اور امام ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے)
مولانا بتائیں صحیح و حسن حدیث قبول کرنے کا اُصول کہاں گیا؟ آپ نے اس صحیح حدیث کو چھوڑ کر جس میں ابو ایوب کے کسی جنگ پر جانے کا تذکرہ نہیں ہے، اس کے مقابلے عبداللہ بن عباس کی ضعیف حدیث مطلب برآری کے لیے کیوں پیش کی ؟ کیا اسی کا نام تحقیق ہے؟

المختصر
1. دامانوی صاحب کے پیش کردہ پہلے حملہ کے ثبوت میں کوئی ایک حوالہ بھی قسطنطنیہ شہر پر حملہ کے بارے میں ثابت نہیں ہو سکا۔
2. دوسرے حملہ کے ثبوت میں پیش کردہ روایت ’حدیث منکر‘ ہے جو ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔
3. تیسرے حملہ کے ثبوت میں پیش کردہ حدیث کے دو راوی مجہول اور ایک مدلِّس ہے۔ یہ بھی ضعیف ثابت ہوئی، لہذا مولانا اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائیں۔
ختم شد​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

سلام ۔ کیا خیال ہے آپ لوگوں کا اس تحقیق کے بارے میں ۔












 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76

سلام ۔ کیا خیال ہے آپ لوگوں کا اس تحقیق کے بارے میں ۔​
وعلیکم السلام
میرے خیال میں آپ نے پورا مضمون پڑھا ہی نہیں ہے، یہ مضمون حافظ زبیر صاحب کے ہی مضمون کا جواب ہے۔ جس کو آپ نے امیج صورت میں پیش کردیا ہے۔ جس کا تذکرہ مصنف نے شروع کی سطور میں کیا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
وعلیکم السلام
میرے خیال میں آپ نے پورا مضمون پڑھا ہی نہیں ہے، یہ مضمون حافظ زبیر صاحب کے ہی مضمون کا جواب ہے۔ جس کو آپ نے امیج صورت میں پیش کردیا ہے۔ جس کا تذکرہ مصنف نے شروع کی سطور میں کیا ہے۔

کیا آپ زبیر علی صاحب سے اتفاق کرتے ہیں

وہ تو یزید کو آخری لشکر میں شمار کرتے ہیں ۔ پہلے میں نہیں
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
کیا آپ زبیر علی صاحب سے اتفاق کرتے ہیں

وہ تو یزید کو آخری لشکر میں شمار کرتے ہیں ۔ پہلے میں نہیں
ہمیں تو یہ سکھایا گیا ہے کہ شخصیات کی پیروی نہیں دلائل کی پیروی کرنی چاہیے۔ میں اس آدمی سے اتفاق کرتا ہوں جن کا موقف دلائل کی رو سے قوی ہے۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں کہ یزید بھی مفغورلہم لشکر میں شامل تھا۔ باقی واللہ اعلم بالصواب
باقی اگر آپ قوی دلائل سے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ یزیدرحمہ اللہ اس لشکر میں شامل نہیں تھے۔ تو میں ماننے کےلیے تیار ہوں، اور دوسری بات جو بھی بات پیش کرنی ہو۔ ٹائپ کرکے پیش کریں تاکہ کاپی پیسٹ کرنے میں آسانی ہو۔ اگر آپ تصاویر کی تصاویر شیئر کرتے جائیں گے تو پھر ہم بھی تصاویر پہ تصاویر لگاتے جائیں گے۔ اس طرح کوئی بات نہیں بنے گی۔
 
Top