کیا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا؟
مولانا ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی، سیدنا معاویہ ؓ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ
’’سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ پر ایک اور حملہ کی نشاندہی سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے: عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إن أبا أیوب…الخ (ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء،ص ۶۲)
تنقیدی جائزہ:
مولانا کی پیش کردہ عبداللہ بن عباس کی یہ روایت جسے آپ نے مستدرک حاکم اور المعجم الکبیر کے حوالے سے بلا سند نقل کیا ہے، ہم اسے اس کی سند سمیت ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ اس روایت کا ضعیف ہونا واضح ہو سکے اور مولانا کا ہی کیا ہوا ترجمہ نقل کریں گے تاکہ مولانا کے ترجمہ کی اغلاط کی نشاندہی بھی ہو سکے۔
امام حاکم کہتے ہیں:
حدثنا أبو محمّد أحمد بن عبد الله المزني، ثنا محمد بن عبد الله المخرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فِردوس الأشعري، ثنا مسعود بن سلیم عن حبیب بن أبي ثابت عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبیه عن ابن عباس، إن أبا أیوب خالد بن زید الذي کان رسول الله ﷺ نزل في داره غزا أرض الروم فمرّ علىٰ معاویة فجفاه معاویة ثم رجع مِن غزوته فجفاه ولم یرفع به رأسًا، قال أبو أیوب: إنّ رسول الله ﷺ اَنْبَأَنَا: إنّا سنرٰی بعده اِثرةً، قال معاویةُ: فما أمرکم؟ فقال أمرنا أنْ نَّصْبِرَ، قال: فاصْبروا۔(حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری: المستدرک علیٰ الصحیحین: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، شام: سن ندارد: ۳؍۴۶۱)
اس حدیث کی دوسری سند اس طرح ہے... امام طبرانی فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فردوس بن الأشعري، ثنا مسعود بن سلیمان، حدثنا حبیب بن أبي ثابت، عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن ابن عباس رضی الله عنهما إن أبا أیوب…الخ۔(طبرانی، سلیمان بن احمد،المعجم الکبیر (تحقیق: حمدی عبدالمجید): احیاء التراث العربی، بیروت: ۲۰۰۹ء: ۴؍۱۰۹)
مستدرک حاکم اور معجم کبیرازطبرانی کی ان سندوں میں اختلاف کی کیفیت
1۔ مستدرک حاکم میں فردوس اشعری، اور معجم طبرانی میں فردوس بن الاشعری
2۔ مستدرک حاکم میں مسعود بن سلیم، اور معجم طبرانی میں مسعود بن سلیمان
3۔ مستدرک حاکم میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابیہ عن ابن عباس، اور معجم طبرانی میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس ہے۔
جبکہ کتبِ جرح و تعدیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ
1۔ فردوس بن الاشعری کی بجائے فردوس الاشعری صحیح ہے۔
2۔مسعود بن سلیم کی بجائے مسعود بن سلیمان صحیح ہے۔
3۔مستدرک حاکم کے مطابق ’عن ابیہ عن ابن عباس‘ میں اتصال پایا جاتا ہے یعنی محمد بن علی، اپنے باپ علی سے، وہ اپنے باپ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں۔ اور معجم طبرانی کے مطابق ’محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس‘میں انقطاع پایا جاتا ہے۔ کیونکہ محمد بن علی کی اپنے دادا عبداللہ بن عباس سے ملاقات اورسماع ثابت نہیں ہے۔ امام مسلملکھتے ہیں:
لا یعلم له سماع من جده ولا انه لقیه ۔(حافظ ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب: ۵؍۲۲۸)
’’اس کا اپنے دادا (ابن عباس) سے سماع معلوم نہیں اور نہ ہی اس سے ملاقات ہوئی‘‘
عبداللہ بن عباس کی روایت کے رواۃ پر جرح
18. فردوس اشعری: یہ ایک مجہول راوی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:
’’مسعود بن سلیمان عن حبیب بن ابی ثابت، و عنہ فردوس الاشعری مجہول‘‘ (حافظ ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان (تحقیق ابو غدّہ): مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ: ۱۴۲۳ھ؍۲۰۰۲ء: ۸؍۴۵)
’’مسعود بن سلیمان، حبیب بن ابی ثابت سے اور اس سے فردوس اشعری (روایت کرتا ہے) اور یہ مجہول ہے۔‘‘
19. مسعود بن سلیمان راوی کے بارے میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
مسعود بن سلیمان روي عن حبیب بن أبي ثابت، روى عنه أبو الحسن الأسدي، نا عبد الرحمٰن قال: سألتُ أبي عنه فقال مجهولٌ ۔(ابن ابی حاتم، عبدالرحمٰن: کتاب الجرح والتعدیل: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد دکن، ہند: ۱۳۷۲ھ؍ ۱۹۵۳ء: ص ۸؍۲۸۴)
مسعود بن سلیمان نے حبیب بن ابی ثابت سے روایت کیا ہے (یعنی مسعود حبیب بن ابی ثابت کا شاگرد ہے)، اس کے بارے میں ابوالحسن اسدی نے روایت کیا کہ ہمیں عبدالرحمٰن (ابن ابی حاتم) نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ (ابو حاتم) سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ مجہول ہے۔
20. اس روایت کا ایک اہم راوی حبیب بن ابی ثابت ہے۔ یہ اگرچہ ثقہ ہے، لیکن یہ مدلِّس راوی ہے۔ اس کی تدلیس کے ثبوت میں محدثین کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں:
نمبر1۔
قال ابن خزیمة: إنَّ حبِیْبَ بْنَ أبي ثابتٍ مدلِّسٌ
ابن خزیمہ نے کہا کہ حبیب بن ابی حبیب مدلّس ہے۔
نمبر2۔
قال ابن حبان: حبیب بن أبي ثابت کان یدلِّسُ
ابن حبان نے کہا کہ حبیب بن ابی ثابت تدلیس کیا کرتا تھا۔
نمبر3۔
قال البیهقي: حبیب بن أبي ثابت وان کان من الثقات فقد کان یدلِّسُ (محمد بن طلعت: معجم المدلِّسین: اضواء السلف، الریاض: ۱۴۲۶ھ؍۲۰۰۵ء: ص ۱۲۸)
بیہقی نے کہا:
حبیب بن ابی ثابت اگرچہ ثقات میں سے تھا،پر وہ تدلیس کیا کرتا تھا۔
حبیب بن ابی ثابت نے یہ روایت محمد بن علی بن عبداللہ سے ’عن‘ کے ساتھ روایت کی ہے اور سماع کی وضاحت موجود نہیں ہے لہٰذا تدلیس کی وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں ۔
امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک اور منقطع السند روایت تخریج کی ، آپ فرماتے ہیں:
حدثنا محمّد بن عبد الله الحضرمي حدثنا أبو کریب، حدثنا إسحٰق بن سلیمان عن أبي سلیمان عن حبیب بن أبي ثابت قال قدم أبوأیوب علىٰ معاویة رحمهما الله فشکا إلیه أن علیه دینًا فذکر الحدیث ۔(طبرانی: المعجم الکبیر : ۴؍۱۰۳)
اس حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے امام ہیثمی لکھتے ہیں :
فذکر الحدیث بإسنادین ورجال أحدهما رجال الصحیح إلاّ أنّ حبیب بن أبي ثابت لم یسمع من أبي أیوب۔(ہیثمی ، علی بن ابوبکر ، نور الدین : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : مکتبۃ القدسی ،القاہرۃ: ۱۳۵۳ھ: ۹؍۳۲۳)
امام طبرانی نے یہ حدیث دو سندوں کے ساتھ ذکر کی ہے، جن میں سے ایک کے رجال ، صحیح ( صحیح بخاری) کے رجال ہیں ، لیکن حبیب بن ابی ثابت کا ابو ایوب سے سماع ثابت نہیں ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
لہٰذا واضح ہوگیا کہ مولانا دامانوی صاحب کی پیش کردہ روایت تین راویوں ( دومجہول اور ایک مدلس) کی وجہ سے ضعیف ہے اور طبرانی کی اس دوسری روایت کے راویوں کو امام ہیثمی نے صحیح کے رجال بتایا اور ساتھ ہی بتادیا کہ حبیب بن ابی ثابت کا ابو ایوب انصاری سے سماع ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ بھی قابل حجت نہیں ہے۔
مولانا دامانوی صاحب کی پیش کردہ عبداللہ بن عباسؓ کی ضعیف روایت کے راویوں پر محدثین کرام کی جرح پڑھ لینے کے بعد قارئین کرام خود ہی فیصلہ فرما لیں (اور مولانا بھی یہ اقرار کر لیں) کہ ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہوتی، لہٰذا مولانا دامانوی صاحب کی ’’سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ پر تیسرے حملہ‘‘ کی پیش کردہ دلیل بھی پاش پاش ہو گئی۔
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زُلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا