ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭ امام طبری فرما تے ہیں:
’’آپ نے اللہ کی اجازت کے ساتھ جو قراء ات بھی احرف سبعہ میں سے امت کو پڑھائیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں صحابہ کرام نے ان قراء ات کو(عقیدہ) قرآن کے ساتھ پڑھا ۔ جب کسی پڑھنے والے کی قرا ء ت رسم مصحف کے مطابق ہو تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ اسے غلط کہیں۔‘‘ (الإبانۃ:ص۶۰)
٭ اِمام ابن عطیہ فرماتے ہیں :
’’قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ(کے پڑھنے پڑھانے) پر اعصار(زمانوں کے زمانے) اور اَمصار(شہروں کے شہر) گزر چکے ہیں۔ ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی تھی کیونکہ یہ اِجماع سے ثابت شدہ ہیں۔‘‘ (أبحاث قرائات القرآن الکریم:ص۲۵)
٭ اِمام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’کسی بھی عالم نے قراء ا تِ عشرہ کا انکار نہیں کیاہاں جس کو قراء ات کا علم نہیں یا وہ قراء ت اس کے نزدیک ثابت نہیں جیسا کہ بلادِ مغرب کی قراء ات تو ایسے آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کی تلاوت کرے، کیونکہ قراء ات سنت (متبعہ) ہیں جسے پچھلے اگلوں سے نقل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جس قراء ت کا علم نہیں اس کا انکار کر دیا جائے۔‘‘ (منجد المقرئین: ص۱۲۹)
٭ امام ابن جزری فرماتے ہیں:
’’آج جو قراء ات ہم تک پہنچی ہیں وہ صحیح اور متواتر ہیں ان کے بارہ میں یہ بات قطعی طور پر ثابت شدہ ہے کہ وہ ائمہ عشرہ اور ان کے رواۃ کی قراء ات ہیں۔ یہ بات علماء کے اَقوال کا ماحاصل ہے اور یہی مذہب آج کل شام، عراق، مصر اور حجاز کے لوگوں کا ہے۔‘‘ (النشر:۱؍۹)
اگر غامدی صاحب کے بقول عرضۂ اَخیرہ کے بعد اُمت صرف ایک ہی حرف کے ابقاء پر متفق ہوگئی ہوتی تو ناممکن ہے کہ اس کے بعد علماء خوامخواہ ان اَحرف سبعہ کی تفسیر کے متعلق چالیس اَقوال کی حد تک باہم اختلاف کرتے اور یہ بھی ناممکن تھا کہ تمام علماء اس امر پر متفق الرائے ہو جاتے کہ یہ ساتوں اَحرف باقی وثابت ہیں جبکہ اجماعِ علماء حجت ہے لہٰذا ان ساتوں ہی اَحرف کو باقی وثابت تسلیم کرنا ہوگا۔
’’آپ نے اللہ کی اجازت کے ساتھ جو قراء ات بھی احرف سبعہ میں سے امت کو پڑھائیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں صحابہ کرام نے ان قراء ات کو(عقیدہ) قرآن کے ساتھ پڑھا ۔ جب کسی پڑھنے والے کی قرا ء ت رسم مصحف کے مطابق ہو تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ اسے غلط کہیں۔‘‘ (الإبانۃ:ص۶۰)
٭ اِمام ابن عطیہ فرماتے ہیں :
’’قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ(کے پڑھنے پڑھانے) پر اعصار(زمانوں کے زمانے) اور اَمصار(شہروں کے شہر) گزر چکے ہیں۔ ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی تھی کیونکہ یہ اِجماع سے ثابت شدہ ہیں۔‘‘ (أبحاث قرائات القرآن الکریم:ص۲۵)
٭ اِمام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’کسی بھی عالم نے قراء ا تِ عشرہ کا انکار نہیں کیاہاں جس کو قراء ات کا علم نہیں یا وہ قراء ت اس کے نزدیک ثابت نہیں جیسا کہ بلادِ مغرب کی قراء ات تو ایسے آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کی تلاوت کرے، کیونکہ قراء ات سنت (متبعہ) ہیں جسے پچھلے اگلوں سے نقل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جس قراء ت کا علم نہیں اس کا انکار کر دیا جائے۔‘‘ (منجد المقرئین: ص۱۲۹)
٭ امام ابن جزری فرماتے ہیں:
’’آج جو قراء ات ہم تک پہنچی ہیں وہ صحیح اور متواتر ہیں ان کے بارہ میں یہ بات قطعی طور پر ثابت شدہ ہے کہ وہ ائمہ عشرہ اور ان کے رواۃ کی قراء ات ہیں۔ یہ بات علماء کے اَقوال کا ماحاصل ہے اور یہی مذہب آج کل شام، عراق، مصر اور حجاز کے لوگوں کا ہے۔‘‘ (النشر:۱؍۹)
اگر غامدی صاحب کے بقول عرضۂ اَخیرہ کے بعد اُمت صرف ایک ہی حرف کے ابقاء پر متفق ہوگئی ہوتی تو ناممکن ہے کہ اس کے بعد علماء خوامخواہ ان اَحرف سبعہ کی تفسیر کے متعلق چالیس اَقوال کی حد تک باہم اختلاف کرتے اور یہ بھی ناممکن تھا کہ تمام علماء اس امر پر متفق الرائے ہو جاتے کہ یہ ساتوں اَحرف باقی وثابت ہیں جبکہ اجماعِ علماء حجت ہے لہٰذا ان ساتوں ہی اَحرف کو باقی وثابت تسلیم کرنا ہوگا۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭